تھائی لینڈ سے ویغوروں کو چین کے حوالے نہ کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 22nd, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 22 جنوری 2025ء) انسانی حقوق پر اقوام متحدہ کے غیرجانبدار ماہرین نے تھائی لینڈ کی حکومت سے کہا ہے کہ وہ 48 ویغور باشندوں کی چین کو ممکنہ منتقلی فوری طور پر روکے جنہیں اپنے ملک میں واپسی پر تشدد یا دیگر ظالمانہ، غیرانسانی اور توہین آمیز سلوک یا سزاؤں کا سامنا ہو سکتا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ چین میں ویغور اقلیت سے روا رکھا جانے والا سلوک ڈھکا چھپا نہیں۔
خدشہ ہے کہ ان لوگوں کو چین کے حوالے کیا گیا تو انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔ ایسا کوئی اقدام پناہ گزینوں کو ان کی منشا کے خلاف واپس بھیجنے اور تشدد کے خطرات سے دوچار کرنے کی روک تھام اور ممانعت کے اصولوں سے روگردانی ہو گی۔ Tweet URL قیدیوں سے ناروا سلوکاطلاعات کے مطابق تھائی لینڈ کی حکومت جن 48 ویغور مردوخواتین کو واپس بھیجنا چاہتی ہے وہ 350 افراد کے اس گروہ کا حصہ ہیں جسے 10 سال قبل تھائی لینڈ کی سرحد کو غیرقانونی طور پر عبور کرنے کی کوشش میں گرفتار کیا گیا تھا۔
(جاری ہے)
مبینہ طور پر ان قیدیوں کے وکلا، اہلخانہ، اقوام متحدہ کے دفتر برائے انسانی حقوق (او ایچ سی ایچ آر) اور پناہ گزینوں کے لیے اقوام متحدہ کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے نمائندوں کو ان تک رسائی نہیں دی گئی۔ماہرین کا کہنا ہے کہ ان قیدیوں کو واپس نہیں بھیجا جانا چاہیے اور انہیں تھائی لینڈ میں پناہ کے طریقہ کار سمیت طبی و نفسیاتی۔سماجی اور دیگر مدد تک رسائی ہونی چاہیے کیونکہ اطلاع کے مطابق، ان میں سے 23 قیدیوں کو زیابیطس، گردوں کی خرابی، نچلا دھڑ مفلوج ہو جانے، جلدی امراض اور معدے، دل اور پھیپھڑوں کی بیماریاں لاحق ہیں۔
انہوں نے تھائی لینڈ پر زور دیا ہے کہ وہ ان قیدیوں کو بلاتاخیر اور مناسب طبی سہولیات بھی فراہم کرے۔انہوں نے حکام سے کہا ہے کہ تمام قیدیوں سے انسانی سلوک یقینی بنایا جائے اور ان میں سے جن افراد نے کوئی جرم نہیں کیا انہیں دیگر سے علیحدہ رکھا جائے۔ تمام زیرحراست افراد کو اپنی قید کے فیصلے پر فوری عدالتی نظرثانی اور اپنی مرضی کے وکلا کی خدمات حاصل کرنے کی سہولت دی جانی چاہیے اور ان کے حقوق کی پامالیوں کا ازالہ ہونا چاہیے۔
زندگی کے حق سے محرومیاطلاعات کے مطابق، گزشتہ 11 سال کے دوران تھائی لینڈ میں دو بچوں سمیت پانچ ویغور قیدی ہلاک ہو چکے ہیں۔ ماہرین نے واضح کیا ہے کہ دوران حراست ہلاکتیں ریاستی حکام کی جانب سے قیدیوں کو زندگی کے حق سے ناجائز طور پر محروم کیے جانے کے مترادف ہیں۔
انہوں نے قیدیوں کی گرفتاری اور انہیں طویل عرصہ تک زیرحراست رکھے جانے کی فوری و موثر تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر یہ ثابت ہو جائے کہ انہیں انسانی حقوق کے بین الاقومی ضابطوں کے خلاف ناجائز طور پر قید کیا گیا ہے تو ان کی فوری آزادی عمل میں آنی چاہیے۔
ماہرین نے تھائی لینڈ کے حکام پر زور دیا ہے کہ وہ قیدیوں کو اپنے قانونی نمائندوں اور اقوام متحدہ کے اداروں تک رسائی دیں۔ انہوں نے اس بارے میں حکومت کو تحریری طور پر بھی آگاہ کیا ہے اور صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔
غیر جانبدار ماہرین و اطلاع کارغیرجانبدار ماہرین یا خصوصی اطلاع کار اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے خصوصی طریقہ کار کے تحت مقرر کیے جاتے ہیں جو اقوام متحدہ کے عملے کا حصہ نہیں ہوتے اور اپنے کام کا معاوضہ بھی وصول نہیں کرتے۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے اقوام متحدہ کے تھائی لینڈ قیدیوں کو انہوں نے اور ان
پڑھیں:
مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستانی مندوب
پاکستان نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں بھارتی سفارت کاروں کو لاجواب کر دیا، من گھڑت بھارتی دعوؤں کا جواب دیتے ہوئے پاکستان نے واضح کیا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے وہاں کے عوام کو خود کرنا ہے۔
جنرل اسمبلی میں انسانی حقوق کی رپورٹ پیش کیے جانے پر بھارتی نمائندے کے ریمارکس کے جواب میں پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری سرفراز احمد گوہر نےجواب دیتے ہوئے کہا کہ میں بھارت کے بلاجواز دعوؤں کا جواب دینے کے اپنے حقِ جواب (رائٹ آف رپلائی) کا استعمال کر رہا ہوں۔
Right of Reply by First Secretary Sarfaraz Ahmed Gohar
In Response to Remarks of the Indian Delegate
During the General Debate on Presentation of the Report of Human Rights Council
(31 October 2025)
*****
Mr. President,
I am using this right of reply to respond to the India’s… pic.twitter.com/XPO0ZJ6w6q
— Permanent Mission of Pakistan to the UN (@PakistanUN_NY) October 31, 2025
انہوں نے کہا کہ میں بھارتی نمائندے کی جانب سے ایک بار پھر دہرائے گئے بے بنیاد اور من گھڑت الزامات پر زیادہ بات نہیں کرنا چاہتا، بلکہ اس کونسل کے سامنے صرف چند حقائق پیش کرنا چاہوں گا۔
سرفراز احمد گوہر نے کہا کہ مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، نہ کبھی تھا اور نہ ہی کبھی ہوگا، یہ ایک متنازع علاقہ ہے، جس کا حتمی فیصلہ اقوامِ متحدہ کی نگرانی میں رائے شماری کے ذریعے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کو کرنا ہے، جیسا کہ سلامتی کونسل کی متعدد قراردادوں میں مطالبہ کیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کشمیر کی یہ متنازع حیثیت اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی برادری دونوں تسلیم کرتے ہیں، اقوامِ متحدہ کے تمام سرکاری نقشوں میں بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کو متنازع علاقہ دکھایا گیا ہے۔
سرفراز گوہر نے کہا کہ بھارت پر اقوامِ متحدہ کے چارٹر کے آرٹیکل 25 کے تحت قانونی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرے اور کشمیری عوام کو ان کا حقِ خودارادیت استعمال کرنے کی اجازت دے۔
انہوں نے کہا کہ بارہا، اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنرز، خصوصی نمائندے، سول سوسائٹی تنظیمیں، اور آزاد میڈیا نے بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
پاکستان کے فرسٹ سیکریٹری نے کہا کہ آج کے انتہا پسند اور ناقابلِ برداشت بھارت میں، سیکولرازم کو ہندوتوا نظریے کے بت کے سامنے قربان کر دیا گیا ہے، وہ ہندو بنیاد پرست عناصر جو حکومت میں عہدوں، سرپرستی اور تحفظ سے لطف اندوز ہو رہے ہیں، اس کے مرکزی کردار ہیں، انتہا پسند ہندو تنظیموں نے کھلے عام مسلمانوں کی نسل کشی کے مطالبات کیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جینو سائیڈ واچ نے خبردار کیا ہے کہ بھارت اور مقبوضہ جموں و کشمیر میں مسلمانوں کی نسل کشی کا حقیقی خطرہ موجود ہے۔
انہوں نے جنرل اسمبلی کے صدر کو مخاطب کرتےہوئے کہا کہ ہم ایک بار پھر زور دیتے ہیں کہ بھارتی حکومت کو چاہیے کہ وہ بھارت کے غیر قانونی طور پر مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام کے حوالے سے اپنی بین الاقوامی انسانی حقوق کی ذمہ داریاں پوری کرے، اور بھارتی نمائندے کو مشورہ دیں کہ وہ توجہ ہٹانے کے حربے ترک کرے۔