سردی ہائے سردی… دھوپ چھائوں
اشاعت کی تاریخ: 23rd, January 2025 GMT
جنوری کا آدھا مہینہ گزر گیا لیکن سردی ہے کہ جان چھوڑتی نظر نہیں آرہی، سردی بھی خشک پڑ رہی ہے، پورے موسم سرما میں اب کی دفعہ بارشیں نہیں ہوئیں، بارشوں کا نہ ہونا بھی عذاب الٰہی کی علامت ہے۔ مخلوق خدا اس عذاب سے دوچار ہے، بارانی علاقے خاص طور پر اس عذاب کو بھگت رہے ہیں۔ کسانوں نے اکتوبر نومبر میں گندم کی فصل کاشت تو کردی تھی لیکن پھر ان کی نگاہیں بارانِ رحمت کے لیے آسمان کی جانب اُٹھ گئی تھیں کہ کب بادل بارش کا سندیسہ لے کر آئیں اور ان کے کھیت سرسبز و شاداب ہوجائیں۔ کہیں کہیں بارش کے چھینٹے پڑے ضرور لیکن کہیں بھی کھل کر بارش نہیں ہوئی، اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ گندم کی فصل ٹھٹھر کر رہ گئی ہے، گندم کے پودوں نے سر نکالا تو ہے لیکن ڈیڑھ دو فٹ سے زیادہ بلند نہیں ہوسکے۔ زمین کے اندر جو پہلے سے نمی موجود تھی اس نے ان پودوں کو سر اُٹھانے میں تو مدد دی لیکن وہ بھی ہار گئی اور سب کی نگاہیں آسمان کو تکنے لگیں۔ محکمہ موسمیات نے بار بار اعلان کیا کہ بارشیں برسانے والی ہوائوں کا سلسلہ پاکستان میں داخل ہوگیا ہے اور مختلف علاقوں میں موسلا دھار بارشیں متوقع ہیں۔ یہ پیش گوئی صرف بلوچستان میں سچ ثابت ہوئی کہیں کہیں ہلکی پھلکی بارش بھی ہوئی لیکن پنجاب کے بارانی علاقے خاص طور پر اس رحمت سے محروم رہے۔ اب حالت یہ ہے کہ کھیتوں میں دھول اُڑ رہی ہے، سبزہ مرجھا گیا ہے، درختوں کے پتے پت جھڑ کی نذر ہوگئے تھے وہ بھی ٹنڈمنڈ کھڑے ہیں، ہم چونکہ خود پنجاب کے بارانی پہاڑی علاقے میں رہتے ہیں اس لیے ان حالات سے ذاتی طور پر دوچار ہیں۔ خشک سردی نام پوچھ رہی ہے، شام ہوتے ہی یہ آسمان سے اُترتی ہے اور جسم پہ کپکپاہٹ طاری کردیتی ہے، اس کا علاج آگ ہے لیکن آگ کہاں سے لائیں۔ بجلی یا گیس کا ہیٹر جلانا بہت بڑی عیاشی ہے جس کے ہم متحمل نہیں ہوسکتے، اس لیے مناسب یہی سمجھتے ہیں کہ کمبل لپیٹ کر بستر پہ بیٹھ جائیں اور مونگ پھلی ٹھونگتے رہیں کہ یہی ’’ڈرائی فروٹ‘‘ ہماری دسترس میں ہے۔ ابھی دوچار سال پہلے تک اچھی کوالٹی کی مونگ پھلی دو سو روپے فی کلو مل جاتی تھی لیکن دیکھتے ہی دیکھتے اس کا ریٹ ایک ہزار روپے تک پہنچ گیا۔ رہ گئے دوسرے ڈرائی فروٹس تو ان کی بات ہی نہ کیجیے، ہاں یاد آیا ہمارے بچپن میں چلغوزہ ٹھیلے والے بیچتے تھے، چار آنے کا چلغوزہ اتنا آتا تھا کہ قمیص کی سائیڈ والی جیب بھر جاتی تھی اور سارا دن کھاتے رہو ختم ہونے میں نہیں آتے تھے۔ اُس زمانے میں بجلی اور گیس کے ہیٹروں کا رواج نہ تھا لیکن آگ کا بھی کال نہ تھا۔ کمروں میں آتش دان ہوتے تھے جس میں چولہے سے ایک سلگتی ہوئی لکڑی لا کر رکھ دیتے اور کمرہ گرم ہوجاتا تھا۔ پھر یہ لکڑی کوئلہ بن جاتی اور کوئلے دیر تک لَو دیتے رہتے۔
خشک سردی فلو، نزلہ، زکام اور کھانسی بھی ساتھ لائی ہے جسے دیکھو کسی نہ کسی تکلیف میں مبتلا نظر آتا ہے۔ بچے اور بوڑھے خاص طور پر ان بیماریوں کا شکار ہیں۔ ہمارے دوست عارف الحق عارف اگرچہ امریکا میں رہتے ہیں جہاں ان بیماریوں سے بچائو کا بھرپور بندوبست موجود ہے لیکن انہوں نے فیس بک پر اطلاع دی ہے کہ وہ فلو، نزلہ اور زکام میں مبتلا ہوگئے ہیں، وہ 84 سالہ جوان ہیں بڑھاپا ان کے قریب سے نہیں گزرا، بیٹا ان کا ڈاکٹر ہے وہ گھر پر ان کا علاج کررہا ہے۔ اُمید ہے ایک دو دن میں بھلے چنگے ہوجائیں گے کیونکہ ان کے احباب نے ان کے سرہانے دعائوں کا ڈھیر لگادیا ہے، ہم نے بھی ان کے لیے صحت و سلامتی اور درازی عمر کی دعا کی ہے تا کہ سند رہے اور بوقت ضرورت کام آئے۔ آدمی بھی کتنا خود غرض ہے ہر معاملے میں اپنا فائدہ سوچتا ہے، ہم نے بھی اس دعا میں اپنا فائدہ سوچ لیا ہے۔
لیجیے صاحب سردی کی بات تو درمیان میں ہی رہ گئی، سردی میں چمکتی، روپہلی دھوپ سردی کے ماروں کے لیے قدرت کا عظیم تحفہ ہے۔ اس تحفے کا کوئی نعم البدل نہیں ہے، سورج نکلنا ہے اور اس کی سنہری کرنیں دھوپ کی سوغات لے کر زمین پر آتی ہیں تو دل خوشی سے اُچھلنے لگتا ہے، جسم میں دھوپ لگتے ہی حرارت آجاتی ہے۔ کہتے ہیں کہ دھوپ میں وٹامن ڈی ہوتا ہے جو ہڈیوں کو مضبوط کرتا اور جسم میں توانائی بھرتا ہے، قدرت اتنی مہربان ہے کہ توانائی کا یہ خزانہ مخلوق خدا پر مفت لٹاتی رہتی ہے۔ غریب اور امیر، بچے اور بوڑھے، انسان اور جانور سب اس سے مستفید ہوتے ہیں لیکن کچھ دنوں سے ہمارے ساتھ عجیب تماشا ہورہا ہے۔ ہم ابھی دھوپ میں بیٹھے ہی ہیں کہ بادل کا کوئی آوارہ ٹکڑا سورج کے سامنے آکر اس سے آنکھ مچولی کھیلنے لگتا ہے اس طرح ’’کبھی دھوپ کبھی چھائوں‘‘ کا کھیل شروع ہوجاتا ہے۔
ہماری جان گئی، آپ کی ادا ٹھیری
سورج اور بادل کی اس آنکھ مچولی میں جسم کانپنے لگتا ہے اور ہمیں چھت سے اُتر کر کمرے میں پناہ لینا پڑتی ہے، اس وقت بھی جب ہم یہ سطور لکھ رہے ہیں تو کمرے میں کمبل میں لپٹے ہوئے ہیں اور باہر ’’دھوپ چھائوں‘‘ کا کھیل جاری ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
پڑھیں:
میرا لاہور ایسا تو نہ تھا
میرا لاہور ایسا تو نہ تھا WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025  سب نیوز 
تحریر: محمد محسن اقبال
مجھے اس بات پر فخر ہے کہ میں لاہور سے ہوں، اس شہر سے جو دنیا بھر میں زندہ دلوں کے شہر کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔ پنجابی میں کہا جاتا ہے:”جنّے لاہور نئیں ویکھیا، اوہ جمیا نئیں”— جس نے لاہور نہیں دیکھا، گویا وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ لاہور صرف ایک شہر نہیں، ایک احساس ہے، ایک ترنگ ہے، ایک دھڑکن ہے جو کبھی نہیں رُکتی۔ یہاں کی زندگی دریا کی طرح رواں دواں ہے، جو دن رات بہتی رہتی ہے، رنگوں، گرمیِ جذبات اور توانائی سے لبریز۔ لاہوری لوگ حیرت انگیز طور پر ہر حالت میں خود کو ڈھالنے اور مطمن رہنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وہ چھوٹی چھوٹی خوشیوں میں مسرت پاتے ہیں، تہواروں، شادیوں یہاں تک کہ کرکٹ کی کامیابیوں کو بھی بے پناہ جوش و جذبے سے مناتے ہیں۔ وہ دکھ سکھ میں ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں۔ لاہور کے لوگ مہمان نواز، کشادہ دل اور مدد کے لیے ہمیشہ تیار رہتے ہیں۔ وہ باغوں، پارکوں اور خوشگوار محفلوں سے محبت کرتے ہیں۔ مالی حیثیت چاہے جیسی بھی ہو، لاہوری لوگ اچھے کھانوں، صاف ستھرے لباس اور کشادہ دلی پر فخر محسوس کرتے ہیں۔
مگر دل کی گہرائیوں سے ایک دکھ بھری بات تسلیم کرنی پڑتی ہے کہ وہ لاہور جس میں میں پلا بڑھا — پھولوں اور خوشبوؤں کا شہر —اب دنیا کے آلودہ ترین شہروں میں شامل ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی ماحولیاتی اداروں کی رپورٹیں تشویش ناک ہیں۔ ایئر کوالٹی انڈیکس کے مطابق لاہور اکثر 300 سے تجاوز کر جاتا ہے، جو انسانی صحت کے لیے ”انتہائی خطرناک” درجے میں آتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب لاہور میں سانس لینا خود ایک خطرہ بن چکا ہے۔ وہ ”سموگ” جو کبھی لاہوریوں کے لیے اجنبی لفظ تھا، اب ہر سال اکتوبر سے فروری تک شہر کو سیاہ چادر کی طرح ڈھانپ لیتی ہے۔ اسکول بند کرنا پڑتے ہیں، پروازیں ملتوی ہو جاتی ہیں، اور اسپتالوں میں سانس اور آنکھوں کی بیماریوں کے مریضوں کا ہجوم بڑھ جاتا ہے۔
مگر لاہور ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔ مجھے وہ زمانہ یاد ہے جب لاہور کی صبحیں دھند سے روشن ہوتی تھیں، سموگ سے نہیں۔ جب شالامار باغ، جہانگیر کا مقبرہ، مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد سورج کی کرنوں میں چمک اٹھتے تھے، نہ کہ گرد آلود دھوئیں کے پردے کے پیچھے چھپ جاتے تھے۔ کبھی لاہور اور اس کے نواحی علاقے سرسبز و شاداب ہوا کرتے تھے۔ شاہدرہ، ٹھوکر نیاز بیگ، رائے ونڈ اور جلو اور برکی کے ارد گرد کھیت لہلہاتے تھے، درختوں کی چھاؤں تھی، اور ہوا میں بارش کے بعد مٹی کی خوشبو بستی تھی۔ راوی کا پانی اگرچہ کم تھا، مگر شہر کے لیے زندگی کا پیغام لاتا تھا۔ ان دنوں جب کسان فصل کٹنے کے بعد بھوسہ جلاتے بھی تھے تو شہر کی فضا پھر بھی صاف رہتی تھی۔ دھواں ہوا میں تحلیل ہو جاتا تھا، کیونکہ فضا میں سبزہ اور درخت اس کا بوجھ جذب کر لیتے تھے۔
پھر کیا بدلا؟ بدلاو? آیا بے لگام شہری توسیع اور غیر ذمہ دارانہ منصوبہ بندی کے ساتھ۔ پچھلے دو عشروں میں لاہور کی آبادی تیزی سے بڑھی اور اب ایک کروڑ چالیس لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ جو شہر کبھی کوٹ لکھپت اور مغلپورہ پر ختم ہو جاتا تھا، وہ اب بحریہ ٹاؤن، ڈیفنس فیز ٨ اور اس سے بھی آگے تک پھیل چکا ہے۔ زرعی زمینیں رہائشی اسکیموں میں تبدیل ہو گئیں۔ ہر نئی اسکیم کے ساتھ سڑکیں، گاڑیاں اور پلازے تو بڑھ گئے مگر درخت، کھیت اور کھلی جگہیں کم ہوتی گئیں۔ منافع کے لالچ میں منصوبہ سازوں نے ماحولیاتی توازن کا خیال نہیں رکھا۔ کوڑا کرکٹ ٹھکانے لگانے کا کوئی مؤثر نظام نہ بن سکا، صنعتوں کو بغیر کسی اخراجی کنٹرول کے چلنے کی اجازت دی گئی، اور شہر کے ”سبز پھیپھڑوں” کو آہستہ آہستہ بند کر دیا گیا۔
ہمارے ترقی کے مظاہر جیسے میٹرو بس یا اورنج لائن ٹرین عام شہری کی نقل و حمل کے لیے سہولت تو ہیں، مگر ان کی قیمت ماحول نے ادا کی۔ کنکریٹ کے بڑے ڈھانچے تو تعمیر ہوئے مگر ماحولیاتی نقصان کے ازالے کے لیے کچھ نہ کیا گیا۔ سڑکوں کی توسیع کے لیے درخت کاٹے گئے مگر دوبارہ لگائے نہیں گئے۔ ماہرین کے مطابق راوی ریور فرنٹ اربن ڈویلپمنٹ پراجیکٹ، اگرچہ بلند نظر منصوبہ ہے، مگر اس نے لاہور کے قدرتی ماحولیاتی توازن کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔ پانی کے قدرتی راستے سکڑنے سے ہوا کی گردش متاثر ہوئی اور سموگ میں اضافہ ہوا۔
آج لاہور کے لوگ — خصوصاً بچے اور بزرگ — اس بگاڑ کی قیمت چکا رہے ہیں۔ سانس کی بیماریاں جیسے دمہ، برونکائٹس اور الرجی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہیں۔ میو، سروسز اور جناح اسپتالوں کے ڈاکٹر بتاتے ہیں کہ سردیوں میں فضائی آلودگی سے متعلق مریضوں کی تعداد کئی گنا بڑھ جاتی ہے۔ طلبہ ”سموگ ڈیز” پر گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں، ان کی تعلیم متاثر ہو رہی ہے۔ وہ شامیں جو کبھی فوڈ اسٹریٹ، گلشنِ اقبال یا ریس کورس پارک میں ہنسی خوشی گزرتی تھیں، اب گھروں کے اندر بند کھڑکیوں کے پیچھے گزر رہی ہیں تاکہ آلودہ فضا سے بچا جا سکے۔
یہ درست ہے کہ ترقی اور جدیدیت بڑھتی آبادی کے لیے ضروری ہیں، مگر بے منصوبہ ترقی ایک سست زہر ہے۔ دنیا میں لاہور سے کہیں پرانے اور زیادہ آباد شہر جیسے لندن، پیرس اور بیجنگ کبھی شدید آلودگی کا شکار تھے مگر انہوں نے نظم و ضبط اور بصیرت سے حالات بدل دیے۔ مثال کے طور پر بیجنگ نے صنعتوں پر سخت قوانین لاگو کیے، فیکٹریوں کو شہروں سے باہر منتقل کیا اور برقی ٹرانسپورٹ کو فروغ دیا۔ نتیجتاً وہاں کی فضا میں نمایاں بہتری آئی۔ سنگاپور اور سیول نے بھی شہری منصوبہ بندی میں فطری سبزے کو شامل کیا، تاکہ ہر نئی تعمیر کے ساتھ پارک اور سبز علاقے بھی قائم ہوں۔
لاہور بھی ایسا کر سکتا ہے۔ شہر کو ایک جامع ماحولیاتی حکمتِ عملی درکار ہے — جو عملی، مستقل اور قابلِ عمل ہو۔ سال میں ایک بار درخت لگانے سے بات نہیں بنے گی، اسے شہری عادت بنانا ہوگا۔ حکومت کو چاہیے کہ برقی اور ہائبرڈ گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دے، صنعتی اخراج کے لیے سخت قوانین بنائے، اور شہر کے قریب کھیتوں میں بھوسہ جلانے پر مکمل پابندی لگائے۔ صنعتی علاقے رہائشی آبادیوں سے دور منتقل کیے جائیں۔ راوی اور دیگر آبی گزرگاہوں کو دوبارہ زندہ کیا جائے تاکہ فطری توازن بحال ہو۔ شہریوں کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہوگا — کوڑا کم پیدا کریں، توانائی بچائیں، اور صفائی کو شعار بنائیں۔
لاہور محض ایک جگہ نہیں، تاریخ کا ایک زندہ باب ہے۔ اس نے مغلوں کی شان، صوفیوں کی دانش اور مجاہدینِ آزادی کی قربانیاں دیکھی ہیں۔ یہ پاکستان کا ثقافتی دل ہے جہاں شاعری، فن، اور مہمان نوازی ایک ہی روح میں ڈھل جاتے ہیں۔ مگر آج وہ روح سانس لینے کو ترس رہی ہے۔
اگر ہم چاہتے ہیں کہ لاہور زندہ دلوں کا شہر بنا رہے تو سب سے پہلے اسے صاف ہوا اور کھلے آسمانوں کا شہر بنانا ہوگا۔ لاہور کے باغوں کی خوشبو، گلیوں کی لے اور لوگوں کی مسکراہٹیں دھوئیں کے پردوں میں گم نہیں ہونی چاہیئں۔ عمل کا وقت آ چکا ہے — نہ کل، نہ اگلے سال، بلکہ ابھی — تاکہ آنے والی نسل فخر سے کہہ سکے:
”ہاں، ہم نے لاہور دیکھا ہے، اور یہ اب بھی وہی شہر ہے جو کبھی مرنے کے لیے پیدا ہی نہیں ہوا تھا۔”
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرغزہ امن معاہدے کے اگلے مرحلے پر عملدرآمد کیلئے عرب اور مسلم ممالک کا اجلاس پیر کو ہوگا سوشل میڈیا ہماری خودی کو کیسے بدل رہا ہے. کشمیر سے فلسطین تک — ایک ہی کہانی، دو المیے تعمیراتی جمالیات سے صاف فضا تک: پاکستان کے لیے ایک حیاتیاتی دعوت اِک واری فیر دشمن بھی باوقار ہونا چاہیے پاکستان کا دل اسلام آبادCopyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم