اسلام ٹائمز: اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اہل غزہ کے شامل حال ہے۔ اس لیے صیہونی انہیں شکست نہ دے سکے، جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عرب کے چھ (6) ممالک چھ 6 روز کی جنگ (حرب الایام الستہ) میں 6 دن بھی اسرائیل کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ اللہ نے اہل غزہ کو حوصلہ عطا فرمایا۔ اسرائیلی درندے اتنے بڑے ظلم کے باوجود مقاومت کے ان عظیم مجاہدین کو نہ جھکا سکے۔ اسرائیل کو مجبوراً جنگ بندی کے معاہدے کی طرف آنا پڑا۔ وہ غزہ پر قبضہ جمانا چاہتا تھا، مگر ایسا نہ کرسکا۔ وہ حماس کو ختم کرنا چاہتا تھا، مگر ناکام ہوا۔ وہ حزب اللہ کو بے اثر کرنا چاہتا تھا۔ مگر حزب اللہ حضرت سید حسن نصراللہ جیسے عظیم قائد کو کھو کر بھی کمزور نہ ہوئی۔ اہل مقاومت نے اسرائیل کے آئرن ڈوم کو شکست دی۔ اسکے مرکاوہ ٹینکس تباہ کیے اور اسکے تمام دفاعی نظاموں کو تاراج کرکے بتا دیا کہ رب ہمارے ساتھ ہے، وہ ہمیں کبھی تنہاء نہیں چھوڑے گا۔ تحریر: مفتی گلزار احمد نعیمی
 
 غزہ میں جنگ بندی ہوچکی ہے۔ 400 دن تک جاری رہنے والی جنگ نے غزہ کو ایسی  تباہی سے دو چار کر دیا ہے، جس کی نظیر ماضی قریب میں ہمیں دور دور تک دیکھنے کو نہیں ملتی۔ انسانیت کا اتنا بڑا قتل عام چشم فلک نے کم کم ہی دیکھا ہوگا۔ اقوام متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی نے اسرائیل کی اہل غزہ پر جارحیت حد کو اپنی رپورٹ میں بیان کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان جنگی کارروائیوں کو کم از کم بھی اگر کوئی نام دیا جائے تو وہ قاتل عام ہی ہوسکتا ہے۔ غزہ میں اس تاریخی قتل عام کے ساتھ ساتھ اسرائیل مقبوضہ غرب اردن میں نسلی امتیاز کی پالیسی پر بھی عمل پیرا ہے اور یہاں وہ یہودیوں کو بسانے کی کوشش کر رہا ہے۔ جنگ بندی کا اعلان تو ہوچکا ہے مگر جب ہم اس جنگ بندی سے پہلے کے مناظر کو دیکھتے ہیں تو ہمارے ذہن خوفناک صورتحال سے دوچار ہو جاتے ہیں۔ ان 400 دنوں میں 50 ہزار سے زائد  معصوم لوگ شہید ہوئے۔ ان شہداء میں خواتین اور بچوں کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ ظالم یہودیوں نے مجاہدین کے علاوہ علماء، قراء، حفاظ، مریضوں اور مجبور و مقہور لوگوں کا قتل عام کیا۔
 
 اس کے علاوہ ان صیہونی درندوں نے بھوک کو بطور جنگی ہتھیار استعمال کیا۔ شمالی اور جنوبی غزہ میں ایک قحط کی سی صورت حال پیدا  ہوچکی ہے۔ جب زمین پر رزق کے تمام دروازے بند کرکے اسلحہ اور بارود کے ساتھ کسی قوم کو نشانہ بنایا جائے تو یہ صورت حال کسی قیامت سے کم نہیں ہوتی۔ ان چار سو دنوں کو جس صبر و استقامت کے ساتھ اہل غزہ نے گزارا وہ بھی بے مثال ہے۔ جس طرح یہ لوگ راضی برضائے رب ہوئے، اس پر ان کی جرات کو سلام ہے۔ وہ آج بھی اللہ سبحانہ و تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کیے ہوئے ہیں۔ وہ رحمت خداوندی سے مایوس نہیں ہوئے، وہ جانتے ہیں کہ ان کی یہ قربانیاں ایک نہ ایک دن ضرور رنگ لائیں گی۔ فلسطینی آج بھی پرامید ہیں کہ جبر و استبداد کی تاریک راتوں کی بساط بہت جلد لپیٹ دی جائے گی اور بہت عنقریب آزادی کا سویرا طلوع ہوگا۔
 
 یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ اہل فلسطین نے حماس اور حزب اللہ کی قیادت میں یہ جنگ مخص اللہ تعالیٰ کی مدد و نصرت سے لڑی ہے۔ انہوں نے اپنے پیاروں کی لاشیں اپنے ہاتھوں سے اٹھائیں، مگر اللہ سے شکوہ و شکایت نہیں کی۔ انہوں نے اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیا اور اللہ تعالیٰ نے انہیں رسوا نہیں ہونے دیا۔ وہ صیہونیوں کے ظلم و ستم کے سامنے مغلوب نہ ہوئے بلکہ اسرائیل کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں سے وعدہ کیا ہے کہ اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا۔ فرمان خداوندی ہے "اِنْ  یَّنْصُرْكُمُ  اللّٰهُ  فَلَا  غَالِبَ  لَكُمْۚ-وَ  اِنْ  یَّخْذُلْكُمْ  فَمَنْ  ذَا  الَّذِیْ  یَنْصُرُكُمْ  مِّنْۢ  بَعْدِهٖؕ-وَ  عَلَى  اللّٰهِ  فَلْیَتَوَكَّلِ  الْمُؤْمِنُوْنَ"(160) فرمایا: "اگر اللہ تمہاری مدد کرے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمہیں رسوا کرے تو اس کے بعد کون ہے، جو تمہاری مدد کرے۔ تو مومنین کو صرف اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیئے۔"
 
 اللہ تعالیٰ کی تائید و نصرت اہل غزہ کے شامل حال ہے۔ اس لیے صیہونی انہیں شکست نہ دے سکے، جبکہ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ عرب کے چھ (6) ممالک چھ 6 روز کی جنگ (حرب الایام الستہ) میں 6 دن بھی اسرائیل کے سامنے نہیں ٹھہر سکتے تھے۔ اللہ نے اہل غزہ کو حوصلہ عطا فرمایا۔ اسرائیلی درندے اتنے بڑے  ظلم کے باوجود مقاومت کے ان عظیم مجاہدین کو نہ جھکا سکے۔ اسرائیل کو مجبوراً جنگ بندی کے معاہدے کی طرف آنا پڑا۔ وہ غزہ پر قبضہ جمانا چاہتا تھا، مگر ایسا نہ کرسکا۔ وہ حماس کو ختم کرنا چاہتا تھا، مگر ناکام ہوا۔ وہ حزب اللہ کو بے اثر کرنا چاہتا تھا۔ مگر حزب اللہ حضرت سید حسن نصراللہ جیسے عظیم قائد کو کھو کر بھی کمزور نہ ہوئی۔ اہل مقاومت نے اسرائیل کے آئرن ڈوم کو شکست دی۔ اس کے مرکاوہ ٹینکس تباہ کیے اور اس کے تمام دفاعی نظاموں کو تاراج کرکے بتا دیا کہ رب ہمارے ساتھ ہے، وہ ہمیں کبھی تنہاء نہیں چھوڑے گا۔
 
 عرب ممالک نے اہل غزہ کی مدد نہیں کی، مسلم ممالک بھی خاموش رہے اور بین الاقوامی طور پر بھی ان کی دادرسی نہیں کی گئی۔ اسرائیل جرائم پر جرائم کرتا رہا لیکن پوری دنیا نے شرق سے لیکر غرب تک اور شمال سے لے کر جنوب تک اہل غزہ کی کوئی قابل ذکر مدد نہیں کی۔ وہ اپنے رب کے آسرے پر لڑتے رہے اور اللہ نے انہیں سرخرو فرمایا۔ وہ تمام ممالک جو شر کے عالمبردار تھے، وہ اپنے ناجائز بچے (اسرائیل) کے پشت پناہ رہے اور دوسری طرف لبنان کی حزب اللہ، غزہ  کی حماس، عراق کے الحشد الشعبی اور یمن کی انصاراللہ اور مقاومت کا سرخیل اسلامی جمہوریہ ایران تھے، انہوں نے کل شر کو ناکوں چنے چبوائے۔ اسرائیل نے ایک ظالم اور جارح کے طور پر تو اپنا نام پیدا کر لیا ہے مگر وہ فاتح قرار نہ پا سکا۔ بلکہ اگر دیکھا جائے تو اخلاقی میدان میں اسے بری طرح شکست فاش ہوئی۔
 
 اس تمام قضیے میں ہمیں امت کے حکمرانوں کا کردار بہت قابل افسوس بلکہ شرمناک نظر آتا ہے۔ وہ امریکہ کی غلامی کو اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں۔ ہمارے بے حس حکمران یہ سمجھتے ہیں کہ ہم پر صرف وہی جہاد فرض ہے، جو امریکہ بہادر کی سرپرستی میں کیا جائے یا جو امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے ہو۔ تاریخ گواہ ہے کہ جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو چشم زدن میں امت پر جہاد فرض ہوگیا تھا۔ دنیائے اسلام کے کم و بیش تمام ممالک اس امریکی جہاد میں شامل ہوگئے، الا ما شاء اللہ۔ لیکن غزہ میں 50 ہزار سے زائد معصوم فلسطینی مسلمان شہید ہوگئے، مگر ابھی تک امت پر جہاد فرض نہیں ہوا۔ فرق بالکل واضح ہے کہ دنیا کا شیطان اعظم اسرائیل کی سرپرستی کر رہا ہے۔ خدا جانے غیرت مسلم مر گئی ہے یا اسے مار دیا گیا ہے۔ غیرت اور خودی کا مسلمانوں نے خود ہی جنازہ نکال دیا ہے۔ حکمران دل مردہ کے ساتھ چلتی پھرتی لاشیں ہیں، جو غیرتمند مسلمانوں کو یرغمال بنائے ہوئے ہیں۔ علامہ اقبال نے کہا تھا:
 اگر خودی کی حفاظت کریں تو عین حیات
 نہ کر سکیں تو سراپا فسوں و فسانہ
 ہوئی ہے زیر فلک امتوں کی رسوائی
 خود ہی سے جب ادب و دین ہوئے بے گانہ 
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: اسرائیل کے اللہ تعالی حزب اللہ کے ساتھ اہل غزہ نہیں کی ہے اور
پڑھیں:
غزہ میں مستقل امن اور تعمیر نو
دفتر خارجہ سے جاری بیان کے مطابق استنبول اجلاس کے دوران پاکستان جنگ بندی معاہدے پر مکمل عمل درآمد، مقبوضہ فلسطینی علاقوں، بالخصوص غزہ سے اسرائیلی افواج کے مکمل انخلا، فلسطینی عوام کو بلا رکاوٹ انسانی امداد کی فراہمی اور غزہ کی تعمیرِ نو کی ضرورت پر زور دے گا۔ پاکستان اس بات کو بھی دہرائے گا کہ تمام فریقوں کو مل کر ایک آزاد، قابلِ عمل اور جغرافیائی طور پر متصل فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کوششیں تیزکرنی چاہئیں۔
غزہ کی موجودہ صورتحال میں جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کا مرحلہ نہایت نازک اور پیچیدہ صورت اختیارکرچکا ہے۔ یہ معاہدہ جسے عالمی برادری نے ایک بڑی سفارتی پیش رفت قرار دیا تھا، عملاً ایک ایسی آزمائش بن گیا ہے جس پر فلسطین کے مستقبل، خطے کے استحکام اور عالمی طاقتوں کی نیتوں کا دار و مدار ہے۔
جنگ بندی بظاہر ایک سانس لینے کا موقع فراہم کرتی ہے، مگر غزہ کے عوام کے لیے یہ اب تک مکمل راحت کا باعث نہیں بن سکی۔ ملبے میں دبے انسان، اجڑی بستیاں، برباد اسپتال اور امدادی قافلوں پر عائد پابندیاں اس حقیقت کا پتہ دیتی ہیں کہ امن کے وعدے اب بھی زمین پر اترنے سے قاصر ہیں۔ اس معاہدے کے تحت فریقین نے تین بنیادی مراحل میں امن کی جانب بڑھنے پر اتفاق کیا تھا۔ پہلے مرحلے میں مکمل فائر بندی، یرغمالیوں اور قیدیوں کی مرحلہ وار رہائی اور انسانی امداد کی فراہمی شامل تھی۔
دوسرے مرحلے میں اسرائیلی افواج کا تدریجی انخلا، شہریوں کی واپسی اور جنگ زدہ علاقوں کی بحالی طے پائی تھی۔ تیسرے مرحلے میں مستقل امن، تعمیر نو اور غزہ کے مستقبل کے سیاسی ڈھانچے پر اتفاق ہونا تھا۔ معاہدے کی ضمانت کے لیے قطر، مصر اور امریکا ثالث بنے اور یہ یقین دہانی کرائی گئی کہ کسی بھی خلاف ورزی کی صورت میں بین الاقوامی نگرانی کی جائے گی، لیکن زمینی حقائق نے جلد ہی ظاہر کر دیا کہ یہ معاہدہ صرف کاغذی نہیں بلکہ عملی لحاظ سے کئی رکاوٹوں میں گھرا ہوا ہے۔
معاہدے پر دستخط کے چندگھنٹوں بعد ہی فائر بندی کی خلاف ورزیاں سامنے آنا شروع ہو گئیں۔ اسرائیلی افواج نے کئی علاقوں میں چھاپے مارے، بمباری کی اطلاعات آئیں اور امدادی قافلوں کو روکا گیا۔ دوسری طرف حماس نے الزام لگایا کہ اسرائیل انسانی امداد کو سیاسی دباؤ کے آلے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔ اسرائیل کی جانب سے یہ جواز پیش کیا گیا کہ وہ حماس کی فوجی سرگرمیوں کے مکمل خاتمے تک پیچھے نہیں ہٹ سکتا۔ یوں ایک بار پھر’’ سلامتی‘‘ اور ’’سیاست‘‘ کے درمیان وہی قدیم تضاد ابھرا جس نے ہمیشہ اس خطے کے امن کو برباد کیا ہے۔
شمالی غزہ کے ہزاروں مہاجرین اب بھی بے گھر ہیں۔ ان میں وہ خاندان شامل ہیں جو پچھلے برس کے فضائی حملوں میں اپنے گھروں سے محروم ہو گئے تھے۔ معاہدے کے تحت انھیں اپنے علاقوں میں واپس جانے کی اجازت ملنی تھی، مگر اسرائیلی فوج نے متعدد راستے بند کر رکھے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر امدادی رسائی بحال نہ ہوئی تو انسانی بحران مزید گہرا ہو جائے گا۔ دوسری جانب اسرائیل کا مؤقف یہ ہے کہ حماس کے عسکری ڈھانچے کی موجودگی واپسی کے لیے خطرہ ہے، اس لیے سیکیورٹی کلیئرنس کے بغیر شہریوں کو داخل نہیں ہونے دیا جا سکتا۔
حماس نے ابتدائی طور پر قیدیوں اور یرغمالیوں کے تبادلے میں تعاون کیا۔ درجنوں اسرائیلی یرغمالی رہا ہوئے اور اس کے بدلے میں کئی فلسطینی قیدیوں کو آزادی ملی۔ مگر جب یہ عمل سست پڑا تو بداعتمادی نے جنم لیا۔ بین الاقوامی برادری، خصوصاً امریکا اور یورپی یونین، نے ابتدا میں اسے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کی دلچسپی کم ہوتی جا رہی ہے۔ قطر اور مصر اب بھی ثالثی میں متحرک ہیں، مگر وہ بھی دونوں فریقوں کے دباؤ سے نالاں دکھائی دیتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے نمایندے نے حالیہ بیان میں کہا کہ ’’امن کی بنیاد اعتماد ہے، اور اعتماد اس وقت مفقود ہے۔‘‘ یہی وہ نکتہ ہے جو غزہ کے مستقبل کا فیصلہ کرے گا۔
عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ سیاسی ارادے کی کمی ہے۔ اسرائیلی حکومت کے اندر مختلف دھڑے ہیں، ایک طرف وہ گروہ جو فوجی تسلط کو کم کرنے کے حق میں نہیں، اور دوسری جانب وہ عناصر جو عالمی دباؤ کے تحت کسی حد تک نرمی چاہتے ہیں۔ اسی طرح حماس کے اندر بھی یہ بحث جاری ہے کہ آیا جنگ بندی کو عارضی حکمت عملی سمجھا جائے یا ایک مستقل سیاسی پیش رفت کے طور پر قبول کیا جائے۔ ان باہمی تضادات نے فضا کو غیر یقینی بنا دیا ہے۔
غزہ کی موجودہ صورتحال پوری انسانیت کے ضمیر کو جھنجھوڑ رہی ہے۔ وہاں کے بے قصور شہریوں پر مسلط جنگ نے صرف عمارتوں اور بستیوں کو نہیں بلکہ امید اور زندگی کے احساس کو بھی تباہ کر دیا ہے۔
ایسے حالات میں جنگ بندی معاہدہ امید کی ایک کرن کی حیثیت رکھتا ہے لیکن اس معاہدے پر حقیقی اور پائیدار عملدرآمد اس وقت تک ممکن نہیں جب تک عالمی طاقتیں اور مسلم ممالک اپنا کردار سنجیدگی سے ادا نہیں کرتے۔ ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ جب بھی اس خطے میں کوئی جنگ بندی ہوئی، وہ زیادہ دیرپا ثابت نہ ہو سکی کیونکہ طاقتور فریقوں نے اپنے وعدے پورے نہیں کیے اور عالمی برادری نے بھی محض بیانات پر اکتفا کیا۔ اب وقت کا تقاضا ہے کہ اس غلطی کو دوبارہ نہ دہرایا جائے۔ عالمی طاقتیں، خصوصاً وہ ممالک جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل ارکان ہیں، ان کی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس معاہدے کی نگرانی کریں اور کسی بھی خلاف ورزی پر فوری کارروائی یقینی بنائیں۔ اسی طرح مسلم دنیا کو محض بیانات اور قراردادوں سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کرنے ہوں گے۔
جنگ بندی کے معاہدے پر عملدرآمد کے حوالے سے ایک اور اہم پہلو یہ ہے کہ اسرائیلی افواج کا مکمل انخلا لازمی ہے۔ جب تک قابض افواج غزہ اور دیگر مقبوضہ علاقوں سے نہیں جاتیں، وہاں پائیدار امن قائم نہیں ہو سکتا۔ اس مقصد کے لیے بین الاقوامی نگران مشن تشکیل دینا ہوگا جو اس بات کی تصدیق کرے کہ انخلا حقیقی ہے، جزوی نہیں۔ ماضی میں دیکھا گیا کہ بعض اوقات اسرائیل محدود پیمانے پر انخلا کا اعلان کر کے بین الاقوامی دباؤ کم کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے لیکن زمینی حقائق تبدیل نہیں ہوتے۔ اس بار عالمی طاقتوں کو اس عمل کی مکمل نگرانی کرنا ہوگی اور مسلم ممالک کو سفارتی سطح پر اسرائیل پر مسلسل دباؤ برقرار رکھنا ہوگا۔
یہ بات بھی اہم ہے کہ جنگ بندی کے معاہدے کے ساتھ ساتھ فلسطین کی تعمیر نو کے عمل کو بین الاقوامی ذمے داری کے طور پر قبول کیا جائے۔ اقوام متحدہ اور اسلامی تعاون تنظیم کے تحت ایک مشترکہ ادارہ قائم کیا جا سکتا ہے جو تعمیر نو کے منصوبوں کی نگرانی کرے، فنڈز کی شفاف تقسیم کو یقینی بنائے اور مقامی اداروں کے ساتھ مل کر غزہ کے عوام کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرے۔ اس عمل میں شفافیت اور جوابدہی انتہائی ضروری ہے تاکہ امدادی رقم بدعنوانی یا سیاسی مقاصد کے لیے استعمال نہ ہو۔ پاکستان اور دیگر مسلم ممالک اگر اپنے فنی ماہرین، انجینئرز اور طبی عملے کو غزہ بھیجیں تو اس سے عملی سطح پر بڑی مدد مل سکتی ہے۔
مسلم ممالک کے لیے اب یہ لمحہ فیصلہ کن ہے۔ اگر وہ واقعی امتِ مسلمہ کے اجتماعی مفادات کے محافظ ہیں تو انھیں اپنے اختلافات پس پشت ڈال کر فلسطینی مسئلے پر متحد ہونا ہوگا۔ اسلامی دنیا کے پاس وسائل کی کوئی کمی نہیں، صرف سیاسی عزم کی کمی ہے۔ اگر او آئی سی کے پلیٹ فارم کو مؤثر بنایا جائے، اگر مشترکہ اقتصادی، سفارتی اور انسانی لائحہ عمل اپنایا جائے تو نہ صرف غزہ بلکہ پورے فلسطین میں ایک نئی صبح طلوع ہو سکتی ہے۔ پاکستان جیسے ملک، جنھوں نے ہمیشہ اصولی موقف اپنایا، ان کے لیے یہ موقع ہے کہ وہ قیادت کا کردار ادا کریں اور دنیا کو بتائیں کہ انصاف، امن اور انسانی اقدار کے لیے مسلم دنیا ایک ہے۔
آخر میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ غزہ کی جنگ بندی معاہدے پر عملدرآمد کے لیے صرف الفاظ نہیں بلکہ عمل کی ضرورت ہے۔ عالمی طاقتیں اگر واقعی امن چاہتی ہیں تو انھیں اپنی پالیسیوں میں توازن لانا ہوگا اور انسانی جانوں کی حرمت کو سیاست پر فوقیت دینی ہوگی۔ مسلم ممالک کو چاہیے کہ وہ اپنے مفادات سے بالاتر ہو کر امت کی اجتماعی بھلائی کو مقدم رکھیں۔ پاکستان نے اپنا مؤقف واضح کر دیا ہے، اب دنیا کی باری ہے کہ وہ ثابت کرے کہ انصاف ابھی زندہ ہے۔ فلسطینی عوام نے بہت قربانیاں دی ہیں، اب وقت ہے کہ ان کی جدوجہد کو منزل تک پہنچایا جائے۔ جنگ بندی کا معاہدہ اگر خلوص، سنجیدگی اور مشترکہ کوششوں سے نافذ کیا جائے تو یہ نہ صرف غزہ بلکہ پوری انسانیت کے لیے امید کا پیغام بن سکتا ہے۔