عاطف اکرام فاٹا کا سامان مقامی مارکیٹ میں فروخت کر رہے ہیں، غلام علی
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
کراچی(کامرس رپورٹر)سابق گورنر خیبر پختونخوااورسابق صدر فیڈریشن چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری(ایف پی سی سی آئی)سینیٹرحاجی غلام علی نے فاٹا کے نام منگوائے گئے سامان کو مقامی مارکیٹ میں فروخت کرنے کا الزام ایف پی سی سی آئی کے موجودہ صدر عاطف اکرام شیخ پر عائد کرتے ہوئے کہا کہ فاٹا کے نام پر منگوایا گیا کھانے کا تیل اور دیگرسامان کے 5 بڑے ٹرکس سندھ میں حیدرآباد کے پاس فروخت کرتے ہوئے پکڑے گئے اور ایف بی آرکے محکمہ کسٹمز نے چھاپہ بھی مارا مگر بھاری رشوت لے کران گاڑیوں کو چھوڑ دیا گیا،ہمارا مطالبہ ہے کہ ایف پی سی سی آئی کے صدر عاطف اکرام شیخ کے خلاف باضابطہ ایف آئی آر درج کی جائے تاکہ انہیں سزا ملے۔گزشتہ شب مقامی ہوٹل میں سابق صدر ایف پی سی سی آئی میاں ناصر حیات مگوں کی جانب سے دیئے گئے استقبالیہ سے خطاب کرتے ہوئے حاجی غلام علی نے موجودہ صدر کی طرف سے اسلام آباد ایف پی سی سی آئی دفتر کی چھٹی منزل اور کراچی فیڈریشن ہاؤس کی چوتھی منزل پر اراکین کے جانے پر پابندی کے احکامات کی مذمت کی اور کہا کہیہاں تک کہ ایف پی سی سی آئی کے سیکریٹری جنرل کو بھی جانے کی اجازت نہیں جو کہ شرمناک بات ہے۔حاجی غلام علی نے کہا کہ موجودہ صدر ایف پی سی سی آئی کے خلاف ملک بھر میں کئی اسکینڈلز گردش کر رہے ہیں لیکن حکومتی ادارے ان کے خلاف کوئی ایکشن نہیں لے رہے، انہیں قانون کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیے۔تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سابق صدر ایف پی سی سی آئی اور بزنس مین پینل (بی ایم پی) پاکستان کے چیئرمین میاں انجم نثار نے انکشاف کیا کہ لاہور چیمبر کا الیکشن سب سے اہم اور حساس مرحلہ تھا جہاں ہمارے خلاف تمام حریف اکٹھے ہوئے تھے تاکہ ہمیں شکست دے سکیں لیکن اللہ کے فضل سے ہم نے انہیں زبردست شکست دی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایف پی سی سی ا ئی کے کرتے ہوئے غلام علی
پڑھیں:
اے آئی کی کارکردگی 100 گنا بڑھانے والی جدید کمپیوٹر چپ تیار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
واشنگٹن: امریکہ کی سرزمین سے ایک انقلابی اختراع سامنے آئی ہے جو مصنوعی ذہانت (اے آئی) کی دنیا کو نئی جہت دے سکتی ہے۔
فلوریڈا یونیورسٹی، یو سی ایل اے اور جارج واشنگٹن یونیورسٹی کے ماہرین کی مشترکہ کاوشوں سے تیار کردہ یہ نئی آپٹیکل کمپیوٹر چپ، بجلی کی جگہ روشنی کی توانائی استعمال کرتے ہوئے اے آئی کی پروسیسنگ کو 10 سے 100 گنا تیز تر بنا سکتی ہے۔ یہ تحقیق 8 ستمبر کو معتبر جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ میں شائع ہوئی، جو ٹیکنالوجی کے شعبے میں ایک سنگ میل ثابت ہو سکتی ہے۔
امریکی انجینئرنگ ٹیم نے ایک ابتدائی ماڈل (پروٹوٹائپ) تیار کیا ہے جو موجودہ جدید ترین چپس سے کئی گنا زیادہ کارآمد ہے۔ ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ ایجاد اے آئی کے میدان میں طوفان برپا کر دے گی، کیونکہ مشین لرننگ کے پیچیدہ حساب کتاب—جیسے تصاویر، ویڈیوز اور تحریروں میں پیٹرنز کی تلاش (کنوولوشن)—روایتی پروسیسرز پر بھاری بجلی کا استعمال کرتے ہیں۔ اس مسئلے کا حل تلاش کرتے ہوئے، تحقیق کاروں نے چپ کے ڈیزائن میں لیزر شعاعیں اور انتہائی باریک مائیکرو لینسز کو سرکٹ بورڈز سے براہ راست مربوط کر دیا ہے، جس سے توانائی کی بچت کے ساتھ ساتھ رفتار میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
لیبارٹری کے تجربات میں اس چپ نے کم سے کم توانائی خرچ کرتے ہوئے ہاتھ سے لکھے گئے ہندسوں کی پہچان 98 فیصد درستگی سے کر لی، جو اس کی افادیت کا واضح ثبوت ہے۔ فلوریڈا یونیورسٹی کے تحقیقاتی ایسوسی ایٹ پروفیسر اور مطالعے کے شریک مصنف ہانگبو یانگ نے اسے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور کہا، “یہ پہلی بار ہے کہ آپٹیکل کمپیوٹنگ کو براہ راست چپ پر نافذ کیا گیا اور اسے اے آئی کے نیورل نیٹ ورکس سے جوڑا گیا۔ یہ قدم مستقبل کی کمپیوٹیشن کو روشنی کی طرف لے جائے گا۔”
اسی تحقیق کے سرکردہ ماہر، فلوریڈا سیمی کنڈکٹر انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر وولکر جے سورجر نے بھی اس ایجاد کی اہمیت پر زور دیتے ہوئے کہا، “کم توانائی والے مشین لرننگ حسابات آنے والے برسوں میں اے آئی کی صلاحیتوں کو وسعت دینے کا بنیادی ستون ثابت ہوں گے۔ یہ نہ صرف ماحولیاتی فوائد لائے گی بلکہ اے آئی کو روزمرہ استعمال کے لیے مزید قابل رسائی بنا دے گی۔”
یہ پروٹوٹائپ کیسے کام کرتی ہے؟
یہ جدید ڈیوائس دو ستاروں کے انتہائی پتلے فرینل لینسز کو یکجا کرتی ہے، جو روشنی کی شعاعوں کو کنٹرول کرنے کا کام انجام دیتے ہیں۔ کام کا عمل انتہائی سادہ مگر موثر ہے: مشین لرننگ کا ڈیٹا پہلے لیزر کی روشنی میں تبدیل کیا جاتا ہے، پھر یہ شعاعیں لینسز سے گزر کر پروسیس ہوتی ہیں، اور آخر میں مطلوبہ ٹاسک مکمل کرنے کے لیے دوبارہ ڈیجیٹل سگنلز میں بدل دیا جاتا ہے۔ اس طریقہ کار سے نہ صرف بجلی کی کھپت کم ہوتی ہے بلکہ حسابات کی رفتار بھی روشنی کی رفتار کے قریب پہنچ جاتی ہے، جو روایتی الیکٹرانک سسٹمز سے کئی گنا تیز ہے۔
یہ ایجاد ابھی ابتدائی مراحل میں ہے، مگر ماہرین کا خیال ہے کہ آنے والے وقت میں یہ اے آئی کی ایپلی کیشنز—صحت، ٹرانسپورٹیشن اور انٹرٹینمنٹ—کو بدل ڈالے گی، اور توانائی بحران کا سامنا کرنے والے عالمی چیلنجز کا بھی حل پیش کرے گی۔ مزید تفصیلات کے لیے جریدہ ‘ایڈوانسڈ فوٹوونکس’ کا تازہ شمارہ دیکھیں۔