جمہوری ملک میں پر امن احتجاج کو طاقت اور تشدد سے کچلنا غیر قانونی ہے
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام آباد (رپورٹ: میاں منیر احمد) جمہوری ملک میں پرامن احتجاج کو طاقت اور تشدد سے کچلنا غیرقانونی ہے‘احتجاج سے ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہوجائے تو طاقت اورتشدد کاجواز مل جاتاہے‘ پاکستان میں جمہوریت نہیں‘ اراکین اسمبلی کی اکثریت کوہینڈپک کے ذریعے لایا گیا ہے ‘ اسلام آباد میں4 رینجرز اہلکاروں کو گاڑی تلے کچلنے کو پرامن احتجاج قرار نہیں دیا جاسکتا۔ان خیالات کا اظہار پیپلز پارٹی ورکرز کی مرکزی رہنما ناہید خان‘ عدالت عظمیٰ کے سینئر قانون دان حسنین ابراہیم کاظمی‘ مسلم لیگ (ن) سندھ کے رہنما ناصر محمود ‘ دانشور اور سول سوسائٹی کے رکن بابر جمال‘تحریک انصاف کے مرکزی رہنما نائب صدر انجینئر افتخار چودھری‘ فیڈریشن آف ریئلٹرز پاکستان کے مرکزی رہنما اسرار الحق مشوانی اور فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے سابق ایگزیکٹو ممبر عمران شبیر عباسی نے جسارت کے اس سوال کے جواب میں کیا کہ’’جمہوری ملک میں احتجاج کو طاقت سے کچلنے کا کیا جواز ہے؟‘‘ ناہید خان نے کہا کہ اگر آپ پاکستان کو ایک جمہوری ملک سمجھتے ہیں تو مجھے افسوس ہے کہ میں اس سے اتفاق نہیں کرتی‘ اگرچہ اس وقت ملک میں پارلیمانی نظام موجود ہے
لیکن اکثریتی ارکان کو ’’ہینڈ پک‘‘ کے ذریعے دھاندلی کرکے رکن بنایا گیا ہے جہاں تک ایک جمہوری ملک میں سیاسی مخالفین پر تشدد اور طاقت کے استعمال کا تعلق ہے تو یہ سراسر بلاجواز ہے کیونکہ یہ آزادی اظہار رائے اور اجتماعی آزادی اور شہریوں کے تحفظ کے حق سمیت بنیادی حقوق کی ڈھٹائی سے خلاف ورزی کرتا ہے‘ اس طرح کے اقدامات جمہوریت کے اصولوں کو مجروح کرتے ہیں، سماجی تانے بانے کو نقصان پہنچاتے ہیں، حکومتی اداروں پر اعتماد کو ختم کرتے ہیں‘ عموماً جمہوری حکومتیں طاقت کے استعمال کے بجائے سیاسی بات چیت کا طریقہ اپناتی ہیں‘ نظام کے خلاف سیاسی مخالفین کے خدشات کو دور کرنے کے لیے ادارہ جاتی اصلاحات لائیں‘ جمہوری حکومتیں جمہوریت کے اصولوں کو برقرار رکھنے اور انسانی حقوق کی اقدار کو برقرار رکھنے کے لیے کام کرتی ہیں‘ ایک جمہوری نظام شہریوں کو اپنی رائے کے اظہار، پرامن طریقے سے جمع ہونے اور حکومتی پالیسیوں یا اقدامات کے خلاف احتجاج کرنے کے حق کی ضمانت دیتا ہے اور اس کے بدلے میں حکومتیں شہریوں کی جان ومال کی حفاظت کو یقینی بنانے کی پابند ہوتی ہیں‘ مظاہرین کے خلاف تشدد کا استعمال اس بنیادی حق کی خلاف ورزی ہے‘ تشدد کے سنگین نتائج سامنے آتے ہیں جو تنازعات کو بڑھا سکتے ہیں اور یہاں تک کے جانوں کا ضیاع بھی ہو سکتا ہے ۔ حسنین ابراہیم کاظمی کا کہنا ہے کہ سابق امریکی صدر رونالڈ ریگن کے مطابق جمہوری حکومتیں شہریوں کی آزادی کے معاہدوں کو پروان چڑھاتی ہیں اور آپ کے سوال کا جواب بھی اسی میں ہے۔ ناصر محمود نے کہا کہ میری رائے میں جمہوری ملک میں احتجاج اگر سیاسی اصولوں کے مطابق قانون اور آئین کے دائرے میں رہتے ہوئے ہو رہا ہے تو اُس احتجاج کو طاقت سے کچلنا غیر قانونی، غیر آئینی، غیر سیاسی اور غیر اخلاقی فعل تصور کیا جائے گا جس کا کوئی جواز نہیں ہے لیکن اگر احتجاج کی آڑ میں اُمورِ مملکت کو مفلوج کرنا یا اِس طرز کا احتجاج کرنا کہ جس کے نتیجے میں ریاست کے وجود کو خطرہ لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو ایسے احتجاج کے خلاف طاقت کے استعمال کو قانونی و اخلاقی جواز حاصل ہو جاتا ہے‘ ایک جمہوری ملک میں اُمید یہی کی جانی چاہیے کہ وہاں حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف دونوں ہی آئین میں طے شدہ اصولوں کے تحت ریاستی اُمور کی انجام دہی میں اپنا اپنا مثبت کردار ادا کریں اور کوئی بھی فریق اُس حد کو عبور نہ کرے کہ جہاں احتجاج اُس انتہا پر پہنچ جائے کہ ریاست کو خطرات کا سامنا کرنا پڑے اور حکومت اُس صورتحال کو بنیاد بناکر احتجاج کو کچلنے کے لیے طاقت کے استعمال کو جواز بنا سکے۔ بابر جمال نے کہا کہ جمہوری ملک میں کسی قسم کے پرامن احتجاج کو کچلنے کی گنجائش نہیں ہوتی‘ احتجاج یقیناً پالیسیوں کے خلاف ہوتے ہیں‘ یہ غیر جمہوری بلکہ غیر انسانی رویوں کی نشانی ہے کہ ارباب اقتدار کسی قسم کی مخالفت کو برداشت نہ کر پائیں۔ یہ انتہائی ذہنی پستی اور خوف کی علامت ہے‘ آپ پاکستان کے گزشتہ40 سال کا جائزہ لیں تو آپ کو درجہ بدرجہ اپنے معاشرے اور اداروں میں اس کی نشانیاں واضح ملتی ہیں اور اگر شروعات یا ارتقا کی بات کریں تو اس کے ڈانڈے 1947ء سے ملنے شروع ہو جاتے ہیں۔ افتخار چودھری نے کہا کہ پرامن احتجاج کو کچلنا یہ کوئی نئی بات نہیں بلکہ یہ تو یزیدی طرز عمل ہے جس کی ہمارے ملک میں طویل تاریخ ہے۔ اسرار الحق مشوانی نے کہا کہ آئین اور جمہوریت دونوں پر امن احتجاج کا حق دیتے ہیں مگر تشدد کا حق حکومت اور مظاہرین دونوں کو حاصل نہیں ہے‘ 2، 3 ماہ پہلے اسلام آباد میں کیا کچھ نہیں ہوا‘ سری نگر ہائی وے پر رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھادی گئی جس کے نتیجے میں 4 رینجرز اہلکار شہید ہوگئے، اس طرح تو احتجاج نہیں ہوتے‘ انتشار پسند اور دہشت گرد عناصر کی جانب سے کسی بھی قسم کی دہشت گردانہ کارروائی سے نمٹنے کے لیے تمام اقدامات بروئے کار لائے جاتے ہیں‘ کسی بھی مہذب معاشرے میں پرامن احتجاج کا حق نہیں چھینا جا سکتا‘ تحریک انصاف کی طرف سے پہلے بھی احتجاج کیے جاتے رہے ہیں‘ اسلام آباد تو اب بہت زیادہ دبائو میں آنے والا شہر بن گیا ہے جس کی وجہ کاروبار اور روز مرہ کی زندگی متاثر ہورہی ہے۔ عمران شبیر عباسی نے کہا کہ ہمارے ملک میں احتجاج کے نام پر تصادم ہوتا ہے‘ ایسی صورت میں ریاستی مشینری کا حرکت میں آنا فطری عمل ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: طاقت کے استعمال احتجاج کو طاقت جمہوری ملک میں ایک جمہوری نے کہا کہ ملک میں ا کے لیے
پڑھیں:
غیر قانونی کینالز منظور نہیں، سندھو دریا و حقوق کا دفاع کرینگے، علامہ مقصود ڈومکی
غیر قانونی کینالز کی تعمیر کیخلاف احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے علامہ مقصود ڈومکی نے کہا کہ سندھ کا وسیع رقبہ پانی کی شدید قلت کا شکار ہے اور غیر قانونی کینالز کی زبردستی تعمیر ایک کھلی زیادتی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ مجلس وحدت مسلمین پاکستان کے مرکزی رہنماء علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا ہے کہ پانی زندگی ہے اور اس کی منصفانہ تقسیم ہر انسان کا بنیادی حق ہے۔ انہوں نے کہا کہ 1991 کے پانی کی تقسیم کے معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے نئے کینالز کی تعمیر قابل مذمت ہے اور سندھ کے عوام اسے کسی صورت تسلیم نہیں کریں گے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے ببرلو بائی پاس پر دریائے سندھ پر غیر قانونی نہروں کی تعمیر کے خلاف وکلاء اور سندھ کے باشعور عوام کے احتجاجی دھرنے سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ علامہ مقصود علی ڈومکی نے کہا کہ مجلس وحدت مسلمین پاکستان اور اس کے بہادر قائد علامہ راجہ ناصر عباس جعفری سندھ کے مظلوم عوام کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہیں۔ انہوں نے یقین دلایا کہ ہم سندھ کے عوام کے پانی کے حق کا بھرپور دفاع کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ سندھ کے پانی پر ڈاکہ ڈال کر اسے کربلا بنانے والے سن لیں کہ سندھ کے حسینی اپنے دریا کا دفاع کرنا جانتے ہیں۔ ایم ڈبلیو ایم رہنماء نے مزید کہا کہ سندھ کا وسیع رقبہ پانی کی شدید قلت کا شکار ہے، اور غیر قانونی کینالز کی زبردستی تعمیر ایک کھلی زیادتی ہے۔ سندھ اور بلوچستان کے ساتھ ہونے والا یہ ظلم دراصل وفاق کو کمزور کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کے عوام نے اپنا واضح ریفرنڈم دے دیا ہے کہ وہ کسی بھی زبردستی، جبر اور غیر آئینی فیصلے کو ماننے کو تیار نہیں۔ مجلس وحدت مسلمین سندھ کے عوام کے شانہ بشانہ کھڑی ہے اور ان کے جائز حقوق کی جدوجہد میں ہر محاذ پر شریک رہے گی۔ اس موقع پر مجلس علمائے مکتب اہل بیت کے ضلعی رہنماء علامہ سیف علی ڈومکی، ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی رہنماء ایڈووکیٹ مظہر حسین منگریو، رحمدل ٹالانی، میر مظفر ٹالانی، زوار دلدار حسین گولاٹو، منصب علی ڈومکی، میر منیر ڈومکی، قمر دین شیخ، بخت علی ٹالانی، ریاض علی اور دیگر رہنماء وفد کی صورت میں موجود تھے۔