بنچز اختیارات کیس: سپریم کورٹ نے فیصلہ محفوظ کر لیا
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ نے بینچز اختیارات کیس کی سماعت مکمل کرتے ہوئے فیصلہ محفوظ کرلیا جب کہ سماعت کے دوران جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ بادی النظر میں 2 رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، ججز کمیٹی کو توہین عدالت کا نوٹس دے سکتے ہیں لیکن دیں گے نہیں۔سپریم کورٹ میں بینچز کے اختیارات کا کیس مقرر نہ کرنے پر توہینِ عدالت کی سماعت ہوئی۔، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عقیل عباسی سماعت کررہے ہیں جب کہ عدالتی معاون حامد خان کے دلائل دئیے۔عدالتی معاون خواجہ حارث اور احسن بھون بھی عدالت میں پیش ہوئے، اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان بھی عدالت میں موجودتھے۔ جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی، حامد خان نے کہ کچھ ججز کو کم اختیارات ملنا اور کچھ کو زیادہ، ایسا نہیں ہو سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ بولے کہ یہ سوال الگ ہے، اگر ہم آرٹیکل 191اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا تھا، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے۔جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ چیف جسٹس پاکستان اور جسٹس امین الدین خان ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، بادی النظر میں دو رکنی ججز کمیٹی نے جوڈیشل آرڈر کو نظرانداز کیا، اگر ججز کمیٹی جوڈیشل آرڈر کو نظر انداز کریں تو معاملہ فل کورٹ میں جا سکتا ہے، اس سوال پر معاونت دیں.
جسٹس منصور علی شاہ نے ریمارکس دیے کہ ا سکا اختیار موجودہ کیس سے الگ ہے، یہ سوالات 26ویں آئینی ترمیم سے متعلق ہیں، حامد خان نے مؤقف اپنایا کہ آرٹیکل 191اے میں آئینی بنچز کا ذکر ہے، سپریم کورٹ میں ایک آئینی بنچ کا زکر نہیں ہے، کم از کم پانچ ججز پر مشتمل ایک آئینی بنچ ہو سکتا ہے۔انہوں نے اسدلال کیا کہ اس صورتحال میں تین آئینی بنچز بن سکتے ہیں جو ان میں سینئر ہوگا وہی سربراہ ہوگا، آرٹیکل 191اے ججز کمیٹی کے سیکشن 2اے سے ہم آہنگ نہیں اس لیے خلاف آئین ہے۔ اس کے ساتھ ہی عدالتی معاون حامد خان کے دلائل مکمل ہوگئے۔ کیس کی سماعت میں آدھے گھنٹے کا وقفہ کیا، سماعت ساڑھے 11 بجے دوبارہ شروع ہوئی۔احسن بھون نے کہا کہ اس کیس میں جتنے عدالتی فیصلوں کے حوالے دیے جا رہے ہیں 26ویں ترمیم کے بعد وہ غیر موثر ہو چکے ہیں، آپ ججز کمیٹی کا حصہ ہیں، آپ بیٹھیں یا نہ بیٹھیں یہ الگ بات ہے۔ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے عدالت سے شوکاز نوٹس واپس لینے کی استدعا کر دی۔ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس نے کہا ہے کہ عدالتی حکم کی نافرمانی نہیں کی، عدالتی حکم پر بینچ بنانے کے معاملے پر نوٹ بنا کر پریکٹس اینڈ پروسیجر کمیٹی کو بھجوا دیا تھا۔سماعت کے دوران عدالت نے کہا کہ ہمارے سامنے بنیادی سوال یہ ہے کہ جوڈیشل آرڈر کی موجودگی میں ججز کمیٹی کیس واپس لے سکتی تھی؟عدالتی معاون وکیل حامد خان نے کہا کہ کچھ ججز کو کم اختیارات ملنا اور کچھ کو زیادہ، ایسا نہیں ہو سکتا۔ جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ یہ سوال الگ ہے، اگر ہم آرٹیکل 191 اے کی تشریح کا کیس سنتے تو یہ سوال اٹھایا جا سکتا تھا، ہمارے سامنے کیس ججز کمیٹی کے واپس لینے سے متعلق ہے۔
ذریعہ: Nawaiwaqt
کلیدی لفظ: عدالتی معاون ججز کمیٹی کے جوڈیشل ا رڈر سپریم کورٹ نے کہا کہ جا سکتا ا رٹیکل یہ سوال
پڑھیں:
موٹر وے اور جی ٹی روڈ ٹول ٹیکس میں اضافہ بھتے کی مانند ہے، سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن
صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن میاں رؤف عطا نے موٹر وے اور جی ٹی روڈ ٹول ٹیکس میں اضافے کو بھتہ قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: این ایچ اے کی جانب سے ایک بار پھر ٹول ٹیکس میں اضافہ، نئی شرح کیا ہے؟
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی کے مارے عوام کے لیے یہ موٹر وے اور جی ٹی روڈ ٹول ٹیکس میں اضافہ بھتے کی مانند ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ 50 فیصد اضافے کا کوئی جواز نہیں، یہ قابل مذمت ہے اور ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ اضافہ فی الفور واپس لیا جائے بصورت دیگر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اسے عدالت میں چیلنج کرے گی۔
یہ اقدام پراپرٹی کے کاروبار سے وابستہ ایک غیر سیاسی شخصیت کو سنجیدہ نوعیت کی ذمہ داریاں دینے کی کلاسیکل مثال ہے۔ ایک حقیقی سیاسی نمائندہ شخصیت کے لیے عوام کی فلاح و بہبود پہلی ترجیح ہوتی ہے۔
اس اضافے کا جائزہ لیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ وزارت مواصلات ایسے شخص کے پاس ہے جو پراپرٹی کے بزنس سے وابستہ ہے اور این ایچ اے وزارت مواصلات کے ماتحت اتی ہے۔
مزید پڑھیے: موٹروے ٹول ٹیکس میں اضافے کے خلاف کیس، وفاقی حکومت سے جواب طلب
اپنی بری کارکردگی کو چھپانے کے لیے این ایچ اے نے لوگوں کے استحصال کا فیصلہ کیا ہے جو قطعی طور پر ناقابل قبول ہے۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے ائندہ مالی سال کے بجٹ میں وفاقی حکومت میں غیر ترقیاتی اسکیموں کے لیے بہت بڑے فنڈز مختص کیے ہیں جس کی حوصلہ شکنی کرنے کی ضرورت ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ وفاقی حکومت نے اس سال پچھلے سال کی نسبت زیادہ قرضے لیے ہیں۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن اپنی ایگزیکٹو کمیٹی میں اس عوامی مسئلے پر اظہار خیال کر کے لائحہ عمل کا اعلان کرے گی۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن موٹر وے اور جی ٹی روڈ موٹروے اور جی ٹی روڈ ٹول ٹیکس