Daily Mumtaz:
2025-07-26@06:57:20 GMT

“ڈرل بے بی ڈرل” سے بڑھ کر تعاون کرو

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

“ڈرل بے بی ڈرل” سے بڑھ کر تعاون کرو

 

” میگا ” ” میگا “) میک امریکہ گریٹ اگین) کا نعرہ ۔تو ہمارے بارے میں کیا؟ اس دنیا کے بارے میں کیا؟
ڈونلڈ ٹرمپ واپس آ گئے! مقامی وقت کے مطابق 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے سینتالیسویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی روز انہوں نے تقریباً 200 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے جن میں معیشت، امیگریشن، توانائی اور قومی سلامتی جیسے کئی شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان حکم ناموں کا مقصد امریکہ کی مکمل تعمیر نو اور اسے دوبارہ عظیم بنانا ہے۔
اگر آپ خود کو دنیا کا لیڈر سمجھتے ہیں تو آپ کو پوری دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے سوچنا اور کام کرنا ہوگا۔ تاہم اب ٹرمپ “امریکہ فرسٹ”، اور ” میگا ” کا نعرہ لگاتے ہوئے ، خلیج میکسیکو کو خلیج امریکہ بنانے، گرین لینڈ اور کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنے ، ٹیڑف میں اضافہ اور امریکہ کی جانب سے غیر ممالک کو دی جانے والی امداد ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ان کی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیے گئے یورپی سیاست دان انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے رہنما ہیں جو مضبوط قوم پرستی اور قدامت پسندی کی وکالت کرتے ہیں ۔یوں دنیا بھر کے لوگ فکر کیے اور سوال کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ محترم ڈونلڈ ٹرمپ، ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟ پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس دنیا کے بارے میں کیا خیال ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ بہت زیادہ پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ دنیا کا تعلق صرف ایک امریکہ سے ہی نہیں ہے۔ اگرچہ عالمگیریت کے عمل کو مشکلات کا سامنا ہے تاہم اب یہ وقت کا رحجان ہے کہ سیاست دانوں کے یہ نعرے ترقی اور خوشحالی کے حصول میں دنیا بھر کے ممالک کے لئے مل کر کام کرنے کے خوبصورت وژن اور کوششوں کو روک نہیں سکتے اور دنیا کی دو بڑی معیشتوں یعنی چین اور امریکہ کے درمیان تعاون ،بلاشبہ مندرجہ بالا اہداف کے حصول میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے، لہٰذا اگر ”امریکہ فرسٹ” اور ”میگا ” کے نعرے بلند تر بھی ہوتے رہے تو بھی یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ حقیقت پسند ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے تعاون کے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے اور چین اور امریکہ دونوں نے ایک دوسرے کو بروقت کچھ مثبت اشارے دیے ہیں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عہدہ سنبھالنے سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین اور امریکہ مل کر دنیا کے تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں جو دراصل چین امریکہ تعاون کی اہمیت کے بارے میں ان کی سنجیدہ تفہیم کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے 100 دن کے دوران چین کا دورہ کرنے کی امید ظاہر کی جس پر چینی وزارت خارجہ نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے چین امریکہ تعلقات میں مزید پیش رفت کو فروغ دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا اور ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں چین کے اعلیٰ سطحی وفد کی شرکت نے بھی دوطرفہ تبادلوں اور تعاون کو مضبوط بنانے کے حوالے سے چین کے مثبت رویے کو واضح طور پر ظاہر کیا۔
چین اور امریکہ دنیا کی کل معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ، دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی اور دنیا کی دو طرفہ تجارت کے حجم کے تقریباً پانچویں حصے کے مالک ہیں۔ امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رابرٹ ہارمیٹس نے حال ہی میں امریکہ چین تعلقات کے حوالے سے چائنا انسٹی ٹیوٹ ان امریکہ کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں کہا کہ اگر امریکہ اور چین آب و ہوا، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کریں تو دنیا بہتر ہوگی۔ اگر دونوں فریق محاذ آرائی کی طرف بڑھتے ہیں تو دنیا کو شدید نقصانات ہونگے۔
وسیع تر نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو چین اور امریکہ کا مل کر چلنا بڑی حد تک دنیا کی سمت کا تعین کرے گا ۔ دونوں ممالک کے مستحکم تعلقات عالمی امن و استحکام کی بنیاد ہیں اور چین امریکہ تعاون موسمیاتی تبدیلی، خوراک کے بحران اور صحت عامہ کے عالمی مسائل سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ چین اور امریکہ کے درمیان بات چیت اور تعاون کا مضبوط ہونا بھی تمام فریقوں کے مفاد میں بہترین انتخاب ہے۔ امریکہ چین تعلقات سے متعلق امریکی قومی کمیٹی کے چیئرمین اسٹیفن اولینز نے نشاندہی کی کہ امریکہ اور چین کے تعلقات جتنے زیادہ مشکل ہوں گے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لئے اتنی ہی جرات کی ضرورت ہوگی اور ان کے درمیان تعمیری اور نتیجہ خیز تعلقات سے امریکی عوام کو بھی ٹھوس فوائد حاصل ہوں گے۔
ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی مدت کا آغاز کر رہے ہیں، دنیا تمام متعلقہ فریقوں سے توقع کرتی ہے کہ وہ “زیرو سم گیم” اور سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کریں، بات چیت اور مواصلات کو مضبوط کریں، اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کریں، باہمی فائدہ مند تعاون اور مشترکہ طور پر تعاون کو وسعت دیں، تاکہ دنیا کے اتحاد اور ترقی اور عالمی پیداواری چین اور سپلائی چین کے استحکام اور اصلاح میں حصہ لیا جاسکے۔ لہذا ہم اب بھی ٹرمپ اور ان کی ٹیم سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ ، صرف “ڈرل بے بی ڈرل” جیسے عارضی مقاصد اور امریکہ کے اندرونی امور کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ دنیا کو ایسی بلند نگاہی سے دیکھیں جو دور اندیش ہو اور جو تمام رکاوٹوں کو ختم اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا حل دیکھ سکے۔دنیا کو تعاون کی ضرورت ہے، لیکن ،”ڈرل بے بی ڈرل” کے نعرے سے بڑھ کر .

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ

نیویارک (اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 23 جولائی2025ء)نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کے لیے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے، ہماری خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے، اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول، خاص طور پر تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز، بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول پاکستان کی صدارت میں منعقدہ تقریبات کیلئے کلید رہیں گے۔

دفتر خارجہ کے ترجمان کی طرف سے جاری بیان کے مطابق نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے اراکین، معزز مہماناں اور دیگر شرکا کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پاکستان کی اس ماہ کی صدارت کا جشن منا تے ہوئے استقبالیہ تقریب میں آپ سب کو خوش آمدید کہنا میرے لیے انتہائی مسرت کا باعث ہے۔

(جاری ہے)

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی کا بنیادی ستون کثیرالجہتی اور اقوام متحدہ کے ساتھ ہمارا مضبوط عہد ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج مقاصد اور اصول بالخصوص تنازعات کے پرامن حل اور طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز بین الاقوامی انصاف کے لیے ناگزیر ہیں، یہی رہنما اصول ہماری اس ماہ کی صدارت میں بھی سلامتی کونسل کے کام خواہ وہ مباحثے ہوں یا عملی اقدامات ہماری شراکت کو شکل دے رہے ہیں۔

محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آج دنیا میں بڑھتی بے چینی اور تنازعات کے دور میں غیر حل شدہ تنازعات، طویل المدت تصفیہ طلب تنازعات، یکطرفہ اقدامات اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں کے نتائج ہر خطے میں محسوس کئے جا رہے ہیں، ہمارا یقین ہے کہ عالمی امن و سلامتی صرف کثیرالجہتی، تنازعات کے پرامن حل، جامع مکالمے اور بین الاقوامی قانون کے احترام سے ہی حاصل ہو سکتی ہے۔

اسی تناظر میں جیسا کہ آپ جانتے ہیں، پاکستان نے اپنی صدارت کے دوران تین ترجیحات پر توجہ مرکوز کی ہے، اول تنازعات کا پرامن حل اقوام متحدہ کے چارٹر کا بنیادی اصول ہے لیکن اسے اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے، اعلیٰ سطحی کھلے مباحثے اور سلامتی کونسل کی متفقہ قرارداد 2788 میں اس ترجیح کی عکاسی کی گئی ہے۔ دوم کثیرالجہتی، ہم کثیرالجہتی کو نعرے کے بجائے ایک ضرورت سمجھتے ہیں، سلامتی کونسل کو صرف ردعمل کا ایوان نہیں بلکہ روک تھام، مسائل کے حل اور اصولی قیادت کا فورم ہونا چاہیے۔

سوم اقوام متحدہ اور علاقائی تنظیموں کے درمیان تعاون، بالخصوص اسلامی تعاون کی تنظیم (او آئی سی)جو 57 رکن ممالک کے ساتھ عالمی امن کی تعمیر میں ایک اہم شراکت دار ہے، ہم 24 جولائی کو او آئی سی کے ساتھ ہونے والے اجلاس میں اس تعاون کو مزید بڑھانے کے منتظر ہیں۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ اور دنیا بھر میں امن اور ترقی کے مشترکہ مقاصد کو آگے بڑھانے کے لیے رکن ممالک، دوستوں اور شراکت داروں کے ساتھ فعال طور پر مصروف عمل ہے، یہ مشغولیت اور عہد صرف سلامتی کونسل تک محدود نہیں بلکہ پورے اقوام متحدہ کے نظام میں پھیلا ہوا ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی اور ترقی کے عالمی مباحثے میں ایک اہم آواز ہے، چاہے وہ جنرل اسمبلی ہو، ای سی او ایس او سی ہو یا دیگر فورمز، ہم نے اقوام متحدہ کے تین ستونوں امن و سلامتی، ترقی اور انسانی حقوق کو مضبوط بنانے کی وکالت کی ہے اور عالمی ادارے کی اصلاحات کو سپورٹ کیا ہے تاکہ ہماری تنظیم کو زیادہ موثر، مضبوط اور عام اراکین کے مفادات کے لیے جوابدہ بنایا جا سکے۔

نائب وزیراعظم و وزیر خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے 2026-28 کے لیے انسانی حقوق کونسل کے انتخابات میں اپنی امیدواری پیش کی ہے جو ایشیا پیسیفک گروپ کی طرف سے حمایت شدہ ہے، ہم آپ کی قیمتی حمایت کے لئے بھی پر امید ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارا انسانی حقوق کونسل کے ساتھ تعلق ٹی آر یو سی ای (رواداری، احترام، عالمگیریت، اتفاق رائے اور مشغولیت) کے تصور پر مبنی ہے۔ محمد اسحاق ڈار نے کہا کہ آخر میں میرا پیغام ہے کہ ایک ایسی دنیا میں جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں، ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارت کاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان ان مشترکہ اہداف کو آگے بڑھانے کے لیے آپ سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے حکمرانوں نے غزہ میں مظالم کی پشت پناہی کرنیوالے ٹرمپ کو نوبل انعام کیلئے نامزد کردیا، حافظ نعیم
  • ٹرمپ غزہ میں مظالم کی پشت پناہی کر رہا ہے جبکہ حکمرانوں نوبل انعام کیلئے نامزد کردیا ہے، حافظ نعیم
  • اسحاق ڈار کا دورہ امریکہ
  • دنیا  امریکہ کی اداروں اور معاہدوں سے’’ دستبرداری‘‘کی عادی ہو گئی ہے، سی جی ٹی این کا سروے
  • غزہ کے لیے امداد لے جانے والے جہاز “حنظلہ” سے رابطہ منقطع، اسرائیلی ڈرون حملے کا خدشہ
  • انسداد دہشتگردی میں پاکستان کے کلیدی کردار کی دنیا معترف
  • سینئر صحافی سہیل وڑائچ کا سکردو میں "حسین سب کا" کانفرنس سے خطاب
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اورچیلنجزبڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اورطاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے ، وزیرخارجہ
  • ایسی دنیا جہاں تقسیم اور چیلنجز بڑھ رہے ہیں ہمیں تصادم کے بجائے تعاون اور طاقت کے بجائے سفارتکاری کو ترجیح دینی چاہیے، پاکستان مشترکہ اہداف پر پیش قدمی کےلئے سب کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہے، نائب وزیراعظم سینیٹر محمد اسحاق ڈار
  • اگلے 10 برسوں تک بھی جوان” نظر آنے کیلیے انجلینا جولی کیا تیاری کر رہی ہیں