Daily Mumtaz:
2025-04-26@02:30:36 GMT

“ڈرل بے بی ڈرل” سے بڑھ کر تعاون کرو

اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT

“ڈرل بے بی ڈرل” سے بڑھ کر تعاون کرو

 

” میگا ” ” میگا “) میک امریکہ گریٹ اگین) کا نعرہ ۔تو ہمارے بارے میں کیا؟ اس دنیا کے بارے میں کیا؟
ڈونلڈ ٹرمپ واپس آ گئے! مقامی وقت کے مطابق 20 جنوری کو ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کے سینتالیسویں صدر کی حیثیت سے حلف اٹھایا اور عہدہ سنبھالنے کے پہلے ہی روز انہوں نے تقریباً 200 ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے جن میں معیشت، امیگریشن، توانائی اور قومی سلامتی جیسے کئی شعبوں کا احاطہ کرتے ہوئے کہا گیا کہ ان حکم ناموں کا مقصد امریکہ کی مکمل تعمیر نو اور اسے دوبارہ عظیم بنانا ہے۔
اگر آپ خود کو دنیا کا لیڈر سمجھتے ہیں تو آپ کو پوری دنیا کی فلاح و بہبود کے لئے سوچنا اور کام کرنا ہوگا۔ تاہم اب ٹرمپ “امریکہ فرسٹ”، اور ” میگا ” کا نعرہ لگاتے ہوئے ، خلیج میکسیکو کو خلیج امریکہ بنانے، گرین لینڈ اور کینیڈا کو امریکہ میں شامل کرنے ، ٹیڑف میں اضافہ اور امریکہ کی جانب سے غیر ممالک کو دی جانے والی امداد ختم کرنے پر غور کر رہے ہیں۔ ان کی حلف برداری کی تقریب میں مدعو کیے گئے یورپی سیاست دان انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کے رہنما ہیں جو مضبوط قوم پرستی اور قدامت پسندی کی وکالت کرتے ہیں ۔یوں دنیا بھر کے لوگ فکر کیے اور سوال کئے بغیر نہیں رہ سکتے کہ محترم ڈونلڈ ٹرمپ، ہمارے بارے میں کیا خیال ہے؟ پائیدار ترقی کے عالمی اہداف کے بارے میں کیا خیال ہے؟ اس دنیا کے بارے میں کیا خیال ہے؟
حقیقت یہ ہے کہ بہت زیادہ پریشان ہونے کی بھی ضرورت نہیں کیوں کہ دنیا کا تعلق صرف ایک امریکہ سے ہی نہیں ہے۔ اگرچہ عالمگیریت کے عمل کو مشکلات کا سامنا ہے تاہم اب یہ وقت کا رحجان ہے کہ سیاست دانوں کے یہ نعرے ترقی اور خوشحالی کے حصول میں دنیا بھر کے ممالک کے لئے مل کر کام کرنے کے خوبصورت وژن اور کوششوں کو روک نہیں سکتے اور دنیا کی دو بڑی معیشتوں یعنی چین اور امریکہ کے درمیان تعاون ،بلاشبہ مندرجہ بالا اہداف کے حصول میں فیصلہ کن کردار ادا کرتا ہے، لہٰذا اگر ”امریکہ فرسٹ” اور ”میگا ” کے نعرے بلند تر بھی ہوتے رہے تو بھی یہ حقیقت اپنی جگہ مسلمہ ہے کہ حقیقت پسند ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے تعاون کے دروازے مکمل طور پر بند نہیں کیے اور چین اور امریکہ دونوں نے ایک دوسرے کو بروقت کچھ مثبت اشارے دیے ہیں ۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ عہدہ سنبھالنے سے قبل ٹرمپ نے کہا تھا کہ چین اور امریکہ مل کر دنیا کے تمام مسائل کو حل کر سکتے ہیں جو دراصل چین امریکہ تعاون کی اہمیت کے بارے میں ان کی سنجیدہ تفہیم کو ظاہر کرنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عہدہ سنبھالنے کے 100 دن کے دوران چین کا دورہ کرنے کی امید ظاہر کی جس پر چینی وزارت خارجہ نے بھی مثبت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے چین امریکہ تعلقات میں مزید پیش رفت کو فروغ دینے کے لیے امریکہ کے ساتھ مل کر کام کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا اور ٹرمپ کی حلف برداری کی تقریب میں چین کے اعلیٰ سطحی وفد کی شرکت نے بھی دوطرفہ تبادلوں اور تعاون کو مضبوط بنانے کے حوالے سے چین کے مثبت رویے کو واضح طور پر ظاہر کیا۔
چین اور امریکہ دنیا کی کل معیشت کا ایک تہائی سے زیادہ حصہ ، دنیا کی کل آبادی کا تقریباً ایک چوتھائی اور دنیا کی دو طرفہ تجارت کے حجم کے تقریباً پانچویں حصے کے مالک ہیں۔ امریکہ کے سابق نائب وزیر خارجہ رابرٹ ہارمیٹس نے حال ہی میں امریکہ چین تعلقات کے حوالے سے چائنا انسٹی ٹیوٹ ان امریکہ کی جانب سے منعقدہ اجلاس میں کہا کہ اگر امریکہ اور چین آب و ہوا، صحت کی دیکھ بھال، تعلیم، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں تعاون کریں تو دنیا بہتر ہوگی۔ اگر دونوں فریق محاذ آرائی کی طرف بڑھتے ہیں تو دنیا کو شدید نقصانات ہونگے۔
وسیع تر نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو چین اور امریکہ کا مل کر چلنا بڑی حد تک دنیا کی سمت کا تعین کرے گا ۔ دونوں ممالک کے مستحکم تعلقات عالمی امن و استحکام کی بنیاد ہیں اور چین امریکہ تعاون موسمیاتی تبدیلی، خوراک کے بحران اور صحت عامہ کے عالمی مسائل سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے ۔ چین اور امریکہ کے درمیان بات چیت اور تعاون کا مضبوط ہونا بھی تمام فریقوں کے مفاد میں بہترین انتخاب ہے۔ امریکہ چین تعلقات سے متعلق امریکی قومی کمیٹی کے چیئرمین اسٹیفن اولینز نے نشاندہی کی کہ امریکہ اور چین کے تعلقات جتنے زیادہ مشکل ہوں گے، دونوں ممالک کے درمیان تعاون کو فروغ دینے کے لئے اتنی ہی جرات کی ضرورت ہوگی اور ان کے درمیان تعمیری اور نتیجہ خیز تعلقات سے امریکی عوام کو بھی ٹھوس فوائد حاصل ہوں گے۔
ٹرمپ اپنی دوسری صدارتی مدت کا آغاز کر رہے ہیں، دنیا تمام متعلقہ فریقوں سے توقع کرتی ہے کہ وہ “زیرو سم گیم” اور سرد جنگ کی ذہنیت کو ترک کریں، بات چیت اور مواصلات کو مضبوط کریں، اختلافات کو مناسب طریقے سے حل کریں، باہمی فائدہ مند تعاون اور مشترکہ طور پر تعاون کو وسعت دیں، تاکہ دنیا کے اتحاد اور ترقی اور عالمی پیداواری چین اور سپلائی چین کے استحکام اور اصلاح میں حصہ لیا جاسکے۔ لہذا ہم اب بھی ٹرمپ اور ان کی ٹیم سے اپیل کرنا چاہتے ہیں کہ ، صرف “ڈرل بے بی ڈرل” جیسے عارضی مقاصد اور امریکہ کے اندرونی امور کے بارے میں نہ سوچیں بلکہ دنیا کو ایسی بلند نگاہی سے دیکھیں جو دور اندیش ہو اور جو تمام رکاوٹوں کو ختم اور غلط فہمیوں کو دور کرنے کا حل دیکھ سکے۔دنیا کو تعاون کی ضرورت ہے، لیکن ،”ڈرل بے بی ڈرل” کے نعرے سے بڑھ کر .

ذریعہ: Daily Mumtaz

پڑھیں:

تجارتی جنگ: ٹرمپ کا صدر شی سے گفتگو کا دعویٰ، چین کا انکار

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 25 اپریل 2025ء) واشنگٹن سے جمعہ 25 اپریل کو ملنے والی نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسی ہفتے منگل کے دن امریکی جریدے ٹائم کو ایک انٹرویو دیا تھا، جو اس جریدے کی تازہ اشاعت میں جمعے کے روز چھپا۔

ٹرمپ کے ٹیرف سے عالمی اقتصادی ترقی کی رفتار سست، آئی ایم ایف

اس انٹرویو میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے خود انہیں فون کیا اور دونوں کے مابین گفتگو ہوئی۔

اس بیان میں امریکی صدر نے یہ وضاحت نہیں کی تھی کہ ان کے چینی ہم منصب نے انہیں کب فون کیا اور دونوں صدور کے مابین کس مو‌ضوع یا موضوعات پر بات چیت ہوئی تھی۔ چین کی طرف سے تردید

امریکی صدر کے ٹائم میگزین کے ساتھ اس انٹرویو کے مندرجات کے ردعمل میں جمعے ہی کے روز بیجنگ میں چینی حکومت کی طرف سےڈونلڈ ٹرمپ کے موقف کی تردید کرتے ہوئے کہا گیا کہ امریکہ اور چین کے درمیان، دونوں کے مابین شدید نوعیت کے تجارتی تنازعے سے متعلق، قطعاﹰ کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی اس پس منظر میں صدر شی نے امریکی صدر کو کوئی فون کال کی ہے۔

(جاری ہے)

امریکی صدر ٹرمپ نے ٹائم میگزین کے ساتھ انٹرویو میں محصولات کی جنگ اور چینی صدر شی کے بارے میں بات کرتے ہوئے کہا تھا، ''انہوں (صدر شی) نے فون کیا۔ اور میرے خیال میں یہ ان کی طرف سے کسی کمزوری کا اشارہ نہیں ہے۔‘‘

تجارتی معاہدے کے لیے امریکہ کی 'خوشامد' سے کچھ حاصل نہیں ہوگا، چین

اس سلسلے میں چینی وزارت تجارت کے ترجمان ہے یاڈونگ نے بیجنگ میں صحافیوں کو بتایا، ''میں یہ بات زور دے کر کہنا چاہتا ہوں کہ اس وقتچین اور امریکہ کے مابین کسی بھی طرح کے کوئی اقتصادی اور تجارتی مذاکرات نہیں ہو رہے۔

‘‘ چینی تردید کے باوجود ٹرمپ کا اصرار

بیجنگ میں چینی حکام کی طرف سے ٹرمپ اور شی کے مابین گفتگو کی سرے سے تردید کے باوجود امریکی صدر ٹرمپ نے آج پھر زور دے کر کہا کہ ان کی چینی صدر سے بات چیت ہوئی ہے اور انہیں فون بھی چینی صدر نے ہی کیا تھا۔

امریکی صدر نے اس موضوع پر اپنے تازہ ترین بیان میں بھی جمعے کے دن یہ تو نہیں بتایا کہ چینی صدر سے ان کی بات چیت کب ہوئی، تاہم انہوں نے یہ ضرور کہا کہ وہ اس کی تفصیلات ''مناسب وقت پر‘‘ جاری کریں گے۔

چینی صدر کا دورہ جنوب مشرقی ایشیا، آزاد تجارت پر زور

صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ تازہ ترین بیان اس وقت دیا، جب وہ ویٹیکن سٹی میں کل ہفتے کے روز پوپ فرانسس کی آخری رسومات میں شرکت کی خاطر اٹلی جانے کے لیے وائٹ ہاؤس سے روانہ ہو رہے تھے۔

دنیا کی دو سب سے بڑی معیشتوں کی تجارتی جنگ

امریکی صدر ٹرمپ نے واشنگٹن کا بیرونی دنیا کے ساتھ تجارتی خسارہ کم کرنے کے لیے چند ہفتے قبل دنیا کے تقریباﹰ 200 ممالک سے امریکہ میں درمدآت پر جو بہت زیادہ نئے محصولات عائد کر دیے تھے، اس عمل کے بعد سے خاص طور پر امریکہ اور چین کے مابین تو ایک شدید تجارتی جنگ شروع ہو چکی ہے۔

امریکہ دنیا کی سب سے بڑی معیشت ہے اور چین کا نام اامریکہ کے بعد دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ اب تک واشنگٹن اور بیجنگ اپنے ہاں ایک دوسرے کی برآمدی مصنوعات پر 'ادلے کے بدلے‘ کے طور پر اتنے زیادہ نئے محصولات عائد کر چکے ہیں کہ کئی مصنوعات پر اس نئے ٹریڈ ٹیرف کی شرح 145 فیصد تک بنتی ہے۔

صدر ٹرمپ کی طرف سے ان محصولات کے اعلان کے بعد خود ٹرمپ ہی کے بقول اس وقت دنیا کے بیسیوں ممالک امریکہ کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں۔

ٹرمپ نے متعدد ممالک پر ٹیرفس کا اطلاق نوے دن کے لیے روک دیا

ساتھ ہی صدر ٹرمپ نے یہ اشارہ بھی دیا کہ وہ اگلے چند ہفتوں میں امریکہ کے تجارتی ساتھی ممالک کے ساتھ طے پانے والے معاہدوں کا اعلان کریں گے۔ انہوں نے کہا، ''میں تو کہوں گا کہ اگلے تین چار ہفتوں تک ہم یہ کام مکمل کر لیں گے۔‘‘

ٹرمپ کے اصرار کے بعد پھر چینی تردید

امریکی دارالحکومت واشنگٹن سے موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر کے چینی ہم منصب کے ساتھ گفتگو ہونے پر اصرار کے جواب میں بیجنگ نے پھر تردید کی کہ ٹرمپ انتظامیہ اور چین کے مابین کوئی ایسی بات چیت جاری ہے، جس کا مقصد تجارتی محصولات کے شعبے میں کوئی ڈیل طے کرنا ہو۔

اضافی امریکی محصولات کا نفاز، دنیا بھر کی اسٹاک مارکیٹس مندی کا شکار

امریکہ میں چینی سفارت خانے کی ویب سائٹ پر شائع کردہ چینی وزارت خارجہ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ''چین اور امریکہ کے مابین محصولات سے متعلق کوئی بھی مشاورت یا مذاکرات نہیں ہو رہے۔ امریکہ کو اس سلسلے میں کنفیوژن پیدا کرنے کا عمل بند کرنا چاہیے۔‘‘

ادارت: امتیاز احمد

متعلقہ مضامین

  • تجارتی جنگ: ٹرمپ کا صدر شی سے گفتگو کا دعویٰ، چین کا انکار
  • بھارتی فوج “فیک انکاونٹرز” کی اسپیشلسٹ نکلی، مقبوضہ کشمیر میں دو بے گناہوں کو شہید کردیا
  • امریکہ نئے دلدل میں
  • رانا ثناء اللہ نے مودی کی سندھ طاس معاہدے پر عملدرآمد روکنے کی کوشش کو “پاگل پن” قرار دیدیا
  • “میں تمہیں مار دوں گا” بھارتی ہیڈکوچ کو قتل کی دھمکی
  • پہلگام حملہ: مودی کا سخت ردعمل، حملہ آوروں کو “تصور سے بھی بڑی سزا” دینے کا اعلان
  • کھیل میں سیاست؛ پہلگام واقعہ! “کرکٹ نہیں کھیلیں گے”
  • امریکی عدالت نے وائس آف امریکہ کی بندش رکوادی، ملازمین بحال
  • بیجنگ میں خصوصی پروگرام “شی جن پھنگ کی اقتصادی سوچ  کا مطالعہ ” کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد 
  • “ملتان سلطانز کی قیمت بڑھائی تو نہیں خریدوں گا”