نائب وزیراعظم اور وزیرخارجہ اسحاق ڈار کی انتہائی غیر معمولی سفارتکاری کے نتیجے میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے تنازعات کے پُر امن حل سے متعلق پاکستان کی پیش کردہ قرارداد متفقہ طورپر منظور کرلی۔تنازعات کے پرامن حل سے متعلق میکانزم مضبوط کرنے سے متعلق قرارداد اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار کی زیرصدارت منظور کی گئی۔تمام رکن ممالک کو قرارداد کے مسودے پر متفق کرنے کے لیے وزیرخارجہ اسحاق ڈار پچھلے 2 روز سے سفارتی سطح پر انتہائی فعال تھے جس کانتیجہ یہ نکلا کہ سلامتی کونسل میں موجود تمام اراکین نے پاکستان کی قرارداد کا بھرپور ساتھ دیا۔روس یوکرین جنگ، غزہ پر اسرائیلی حملے، اسرائیل ایران امریکا جنگ اور بھارت کی جانب سے پاکستان پر مسلط کردہ جنگ کے بعد پیش کردہ اس قرارداد کو سفارتی حلقوں میں انتہائی اہمیت دی جا رہی ہے۔سحاق ڈار کی زیرصدارت پیش اس قرارداد میں رکن ممالک اور اقوام متحدہ سے یہ بھی کہا گیا ہےکہ وہ ایسے راستے تلاش کریں کہ تنازعات بڑھنے سے روکے جائیں۔ ساتھ ہی علاقائی اور عالمی سطح پر سفارتی ذرائع، ثالثی، اعتماد سازی کے اقدامات اور مذاکرات میں تعاون کیا جائے۔نائب وزیراعظم اسحاق ڈارنے اس سے پہلے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں پُرامن تصفیۂ تنازعات" کے موضوع پر اعلیٰ سطح کی کھلی بحث سے بھی بطور صدر خطاب کیا جس میں انہوں نے مسئلہ کشمیر اور بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ کی یکطرفہ معطلی کا معاملہ انتہائی مؤثر انداز سے اٹھایا۔سلامتی کونسل میں بطور صدر پاکستان کا تجویز کردہ یہ پہلا سیگنیچر ایونٹ تھا۔ وزیرخارجہ نے خطاب میں کہا کہ پاکستان اپنے خطے میں امن کی خواہش پرقائم ہے تاہم امن کی یہ کوشش محض یکطرفہ نہیں ہوسکتی۔اسحاق ڈار نے کہا کہ بامقصد مذاکرات کیلئے باہمی عمل، سنجیدگی اور خواہش دونوں جانب ہونی چاہیے اور واضح کیا کہ پاکستان بامقصد مذاکرات کیلئے تیار ہے۔نائب وزیراعظم نے کہا کہ جموں وکشمیر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کےقدیم ترین حل طلب ایجنڈوں میں سے ایک ہے اور زور دیا کہ مسئلہ کشمیرکا حل سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کےمطابق ہونا چاہیے۔وزیرخارجہ نے واضح کیا کہ حق خودارادیت کا کوئی متبادل نہیں ہوسکتا،اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادیں حق خودارادیت کی یقین دہانی کراتی ہیں۔بھارتی جارحیت کا ذکر کرتے ہوئے وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ 65 برس سے سندھ طاس معاہدہ ڈائیلاگ اورسفارت کاری کی علامت تھا اور یہ انتہائی قابل مذمت ہے کہ بھارت نے یکطرفہ اور غیرقانونی اقدام کرتے ہوئے اسے معطل کر دیا ہے۔اسحاق ڈار نے کہا کہ بھارت کی کوشش ہے کہ پاکستان کے 24کروڑ 40 لاکھ افراد کا پانی بند کردے جو کسی صورت برداشت نہیں کیا جاسکتا۔وزیرخارجہ نے کہا کہ اقوام متحدہ کی قراردادوں کا مخصوص انداز سے استعمال، دہرے معیار اور ہیومینٹیرین اصولوں کو سیاست کی نذر کیا جانا ان قراردادوں کی ساکھ اور ان کے مؤثر ہونے کو زائل کر رہا ہے۔مقبوضہ جموں وکشمیر اور فلسطین میں سانحات اس کیفیت کی واضح مثالیں ہیں۔وزیر خارجہ نے کہا کہ فلسطینیوں پر مظالم خصوصاً غزہ کی صورتحال منصفانہ ، دیرپا اورفوری حل کی متقاضی ہے۔ اسرائیل کے حالیہ حملوں میں 58 ہزار سے زائد فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان غزہ میں فوری جنگ بندی چاہتا ہے جو کہ وسیع تر اور دیرپا امن کی بنیاد بنے۔ انہوں نے امید ظاہر کی سعودی عرب اور فرانس کے تعاون سے ہونے والی کانفرنس سیاسی منظرنامے کا نیا در کھولے گی اور مسئلہ فلسطین کا پرامن حل نکالنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ ایسی فلسطینی ریاست بنے جو 1967 سے پہلے کی سرحدوں پر مشتمل ہو اور القدس اس کا دارالحکومت ہو۔وزیرخارجہ اسحاق ڈار نے تنازعات کے پرامن حل کیلئے 5 نکات بھی تجویز کیے جن میں اقوام متحدہ کے نظام پر اعتماد کی بحالی اور سلامتی کونسل کی قراردادوں پر بلا تفریق عمل کو اولیت دی اور علاقائی شراکت داری کو پروان چڑھانے پر بھی زور دیا۔وزیرخارجہ نے کہا کہ عالمی قانون خصوصاً اقوام متحدہ کے چارٹر کی عملداری ہونا چاہیے جس میں دھمکی، طاقت کے استعمال، غیرملکی قبضہ یا حق خود ارادیت سے انکار کی جگہ نہیں ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ تنازعات ابھرنے کی صورت میں اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کے دفتر کا مؤثر استعمال ہونا چاہیے اور دیرینہ تنازعات کے حل میں بھی اسی دفتر کا کردار ہونا چاہیے۔وزیر خارجہ نے ساتھ ہی بھارتی رویہ پر بھی چوٹ کی اور کہا کہ اگر ایک فریق مذاکرات سے انکار کرے تو دوطرفیت کو بے عملی کی بنیاد نہیں بننے دینا چاہیے۔وزیرخارجہ نے کہا کہ پاکستان اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت کی ذمہ داری یواین چارٹر، عالمی قانون اور کثیرالجہتی کے تحت ادا کر رہا ہے۔اسحاق ڈار نے پاکستان کی جانب سے پیش قرارداد کی متفقہ منظوری پر اراکین سے اظہار تشکر کیا اور کہا کہ تنازعات کا پر امن حل نہ صرف ایک اصول بلکہ یہ اسٹریٹیجک ضرورت اور عالمی استحکام کی لائف لائن ہے۔

.

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف

غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف WhatsAppFacebookTwitter 0 1 November, 2025 سب نیوز

غزہ(آئی پی ایس )اردن اور جرمنی نے کہا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے غزہ پلان کے تحت فلسطینی پولیس کی معاونت کے لیے متوقع بین الاقوامی فورس کو اقوامِ متحدہ کا مینڈیٹ حاصل ہونا چاہیے۔غیر ملکی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق امریکا کی ثالثی میں حماس اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی معاہدے کے تحت زیادہ تر عرب اور مسلمان ممالک پر مشتمل ایک اتحاد فلسطینی علاقے میں فورس تعینات کرنے کی توقع ہے۔

یہ نام نہاد بین الاقوامی استحکام فورس غزہ میں منتخب فلسطینی پولیس کو تربیت دینے اور ان کی معاونت کرنے کی ذمہ دار ہوگی، جسے مصر اور اردن کی حمایت حاصل ہوگی جبکہ اس فورس کا مقصد سرحدی علاقوں کو محفوظ بنانا اور حماس کو ہتھیاروں کی اسمگلنگ سے روکنا بھی ہوگا۔اردن کے وزیرِ خارجہ ایمن الصفدی نے کہا کہ ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ اگر اس استحکام فورس کو مثر طریقے سے اپنا کام کرنا ہے تو اسے سلامتی کونسل کا مینڈیٹ حاصل ہونا ضروری ہے۔

تاہم اردن نے واضح کیا کہ وہ اپنے فوجی غزہ نہیں بھیجے گا، الصفدی کا کہنا تھا کہ ہم اس معاملے سے بہت قریب ہیں، اس لیے ہم غزہ میں فوج تعینات نہیں کر سکتے، تاہم انہوں نے کہا کہ ان کا ملک اس بین الاقوامی فورس کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار ہے۔دوسری جانب، جرمنی کے ویزر خارجہ یوان واڈیفول نے بھی فورس کے لیے اقوامِ متحدہ کے مینڈیٹ کی حمایت کی اور کہا کہ اسے بین الاقوامی قانون کی واضح بنیاد پر قائم ہونا چاہیے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ ان ممالک کے لیے انتہائی اہمیت رکھتا ہے جو نا صرف غزہ میں فوج بھیجنے کے لیے تیار ہیں بلکہ خود فلسطینیوں کے لیے بھی اہم ہے، جبکہ جرمنی بھی چاہے گا کہ اس مشن کے لیے واضح مینڈیٹ موجود ہو۔

خیال رہے کہ گزشتہ ماہ اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ منصوبہ اسرائیلی قبضے کی جگہ امریکی قیادت میں ایک نیا قبضہ قائم کرے گا، جو فلسطینی حقِ خودارادیت کے منافی ہے۔اقوامِ متحدہ نے اس خطے میں بین الاقوامی امن فورسز کئی دہائیوں سے تعینات کر رکھی ہیں، جن میں جنوبی لبنان میں فورس بھی شامل ہے، جو اس وقت لبنانی فوج کے ساتھ مل کر حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان نومبر 2024 کی جنگ بندی پر عملدرآمد کو یقینی بنا رہی ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرسپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئندہ عدالتی ہفتے کے بینچز تشکیل بیرون ممالک کا ایجنڈا ہمارے خلاف کام کررہا ہے: مولانا فضل الرحمان پی ٹی آئی کی سابق قیادت کا حکومتی وزرا اور فضل الرحمان سے ملاقاتوں کا فیصلہ شاہ محمود قریشی سے سابق رہنمائوں کی ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی پاکستان کے بلال بن ثاقب دنیا کے بااثر ترین کرپٹو رہنما ئوں میں شامل اینٹی ٹیرف اشتہار پر صدر ٹرمپ سے معافی مانگ لی، کینیڈین وزیرِاعظم TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • ای چالان کیخلاف متفقہ قرارداد کے بعد کے ایم سی کا یوٹرن
  • ای چالان کی قرارداد پر غلطی سے دستخط ہو گئے، کے ایم سی کی وضاحت
  • غزہ صحافیوں کے لیے خطرناک ترین خطہ ہے، سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ
  • اسرائیل غزہ امن معاہدے کے تحت امداد پنچانے نہیں دے رہا، اقوام متحدہ
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں،متنازع علاقہ ، پاکستان
  • غزہ میں عالمی فورس کیلیے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے‘اردن ‘جرمنی
  • غزہ میں عالمی فورس کیلئے اقوام متحدہ کا مینڈیٹ ضروری ہے، اردن اور جرمنی کا مقف
  • مقبوضہ جموں و کشمیر بھارت کا حصہ نہیں ہے، کبھی تھا نہ کبھی ہوگا، پاکستان
  • الفاشر پر آر ایس ایف کے قبضے کے بعد شہر جہنم میں تبدیل ہو گیا ہے، اقوام متحدہ
  • پاکستان میں 20 سال بعد سمندر میں تیل و گیس کی تلاش کیلئے کامیاب بولیاں منظور