ٹرمپ ہوتے تو یوکرین جنگ 48 گھنٹے میں ختم ہو جاتی؟
اشاعت کی تاریخ: 24th, January 2025 GMT
روس کے صدر ولادیمیر پوٹن نے کہا ہے کہ اگر 2020 میں ڈونلڈ ٹرمپ کو صدارتی انتخاب میں جیتنے سے نہ روکا جاتا تو یوکرین جنگ بھی نہ ہوتی۔ سرکاری میڈیا سے گفتگو میں ولادیمیر پوٹن نے کہا کہ اگر ڈونلڈ ٹرمپ مسلسل دوسری بار صدر بنے ہوتے تو روس اور یوکرین کے درمیان قضیے کو اِتنا بڑھنے ہی نہ دیتے کہ معاملات جنگ تک پہنچتے۔
روسی صدر کا کہنا ہے کہ میں بھی یوکرین سے معاملات درست کرنے کے لیے مذاکرات کا حصہ بننا چاہتا ہوں۔ اس حوالے سے دو طرفہ رابطوں کی ضرورت ہے۔ یوکرین کے صدر ولادومور زیلنسکی اس بات پر زور دیتے رہے ہیں کہ امن مذاکرات میں یورپ کا کردار کلیدی نوعیت کا ہونا چاہیے۔ ڈونلڈ ٹرمپ بھی دعوٰی کرتے رہے ہیں کہ اگر وہ صدر ہوتے تو یوکرین جنگ 24 گھنٹوں میں ختم ہو جاتی۔
برطانوی اخبار ڈیلی میل کی ایک رپورٹ کے مطابق روس اور یوکرین کے درمیان معاملات کو بگڑنے سے روکنے کے لیے اُس وقت ٹرمپ کا امریکی ایوانِ صدر میں ہونا لازم تھا۔ صدر پوٹن کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ انتہائی ذہین اور حقیقت پسند ہیں۔ روس اس بات کے لیے تیار ہے کہ امریکا کی وساطت سے مذاکرات کے ذریعے یوکرین جنگ ختم کی جائے۔
واضح رہے کہ صدر پوٹن کے اس بیان سے چند گھنٹے قبل روسی وزارتِ خارجہ نے یوکرین کی حکومت کو غیر قانونی اور غیر اخلاقی قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ یورپ اب بھی یوکرین کو اسلحہ اور گولا بارود فراہم کر رہا ہے۔ یہ سب کچھ انتہائی خطرناک ہے کیونکہ اس کے نتیجے میں جنگ مزید طول پکڑ سکتی ہے اور روس کے لیے بھی اپنی پوزیشن برقرار رکھنا انتہائی دشوار ہو جائے گا۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ یوکرین جنگ کے لیے
پڑھیں:
جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہے: امریکا
امریکی وزیرِ توانائی کرس رائٹ نے کہا کہ امریکا فی الحال جوہری دھماکوں کے تجربات کی منصوبہ بندی نہیں کر رہا۔
فاکس نیوز کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کرس رائٹ نے کہا جوہری ہتھیاروں کے تجربات دھماکوں پر مشتمل نہیں ہوں گے، ہم جس قسم کے ٹیسٹ کی بات کر رہے ہیں، وہ صرف سسٹم ٹیسٹ ہیں، یہ جوہری دھماکے نہیں ہیں بلکہ انہیں ہم نان کریٹیکل ایکسپلوژنز کہتے ہیں۔
کرس رائٹ کے مطابق یہ تجربات ایسے تمام حصوں پر مشتمل ہوتے ہیں جو جوہری ہتھیار کو متحرک کرنے کے لیے ضروری ہوتے ہیں مگر ان میں جوہری مواد کا دھماکہ شامل نہیں ہوتا۔
امریکی وزیر کا کہنا ہے کہ اِن دھماکوں کا مقصد صرف یہ جانچنا ہے کہ آیا ہتھیار کے باقی تمام نظام صحیح طریقے سے کام کر رہے ہیں اور کسی حقیقی جوہری دھماکے کی صورت میں فعال ہو سکتے ہیں۔