ادب کے فروغ میں خواتین تخلیق کاروں کا اہم کردار ہے
اشاعت کی تاریخ: 25th, January 2025 GMT
ادب ایک الہامی کیفیت ہے، اس الہامی روشنی کو قبول کرنے کی حس بعض لوگوں کو ورثے میں ملتی ہے، جن کی تخلیقات انہیں ادب کے میدان میں ممتاز بناتی ہیں. کراچی کے علمی و ادبی گھرانے کی چشم وچراغ پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی نے اپنے والد معروف شاعر محمد حسین عباسی ظفر نجمی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے ادبی دنیا میں اپنا ایک منفرد مقام بنایا۔
گھریلو علمی وادبی ماحول میں پلنے بڑھنے والی نزہت عباسی نیاسکول کے زمانے سے ہی شاعری کا آغاز بچوں کے رسائل میں نظمیں لکھنے سے کیا.
ـ2005 ءمیں ان کا پہلا شعری مجموعہ سکوت ً ً شائع ہوا، دوسرے مجموعے کی اشاعت وقت کی دستک ً ً 2015 ء میں ہوئی، اس مجموعے پر انھیں پروین شاکر ٹرسٹ کی جانب سے عکس خوشبو ایوارڈ سےنوازا گیا۔ محترمہ نزہت عباسی نے 2011 ء میں جناح یونیورسٹی برائے خواتین کراچی سے پی ایچ ڈی کی سند حاصل کی، 2013ء میں آپ کا تحقیقی مقالہ ً ً اردو کے افسانوی ادب میں نسائی لب ولہجہ ً ً انجمن ترقی اردو نے شائع کیا جبکہ 2019 ء میں تحقیقی و تنقیدی مقالات کا مجموعہ ً ً نسخہ ہائے فکر شائع ہوا۔آپ ایک نجی ٹی وی چینل سے اردو افسانے پر 100 سے زائد پرگرام کر چکی ہیں۔آپ ادبی تقریبات کی نظامت میں شہرت رکھتی ہیں. علم وادب کی بھٹی میں پک کر کندن بننے والی پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی بلاشبہ عصر حاضر کی نمائندہ شاعرہ، ادیبہ، محقق اور نقاد ہیں۔
گزشتہ دنوں اردو ادبیات کی استاد، معروف شاعرہ، ادیبہ، محقق اور نقاد محترمہ نزہت عباسی نے روزنامہ جسارت کیلئے ایک اننٹرویو کے دوران اپنی عملی ودبی سرگرمیوں سے متعلق ایک سوال کے جواب میں بتایا کہ الحمداللہ میرا جنم علمی وادبی گھرانے میں ہوا، آنکھیں کھولتے ہی اپنے اردگرد کتابیں دیکھیں، بچپن سے ہی مطالعہ کا شوق تھا، میریوالد شاعر تھے، والدہ بھی شاعری سے شغف رکھتی تھیں، بھائی بہن سب ادب سے لگاؤ رکھتے تھے۔، اسی ماحول میں پلتے، بڑھتے شاعری سے رغبت ہوئی۔گھر والوں کی جانب سے ہمیشہ ہمت وحوصلہ ملا، پھر پیچھے مڑکر نہیں دیکھا اور علم وادب کے میدان میں دوڑتی چلی گئی. انہوں مزید بتایا کہ بچپن ہی میں مطالعہ میں مشغول ہوگئی، گھریلو ادبی ماحول نے اکسیا تواسکول کے زمانے سے ہی نظمیں لکھنا شروع کردیں، پھر غزل لکھنے کی جانب مائل ہوئی، شاعری میں پے حد پذیرائی ملی. اسی دوران نثرنگاری کے میدان میں بھی قدم رکھا اور الحمداللہ میری چار تصانیف منظر عام پر آچکی ہیں. خواتین کو عملی میدان میں درپیش مشکلات کے حوالے سے پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی کا کہنا تھا کہخواتین کو ہر شعبہ میں مشکلات کاسامنا ہے، اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں خواتین ہرجگہ پورے وقار کے ساتھ کام کررہی ہیں، ادب کے فروغ میں خواتین تخلیق کاروں کا ہمیشہ اہم کردار رہا ہے۔انہوں نے اپنی راہوں کے کانٹے چنے ہیں،
خواتین شاعرات کو اپنی تخلیقی صلاحیتوں سے خود کو منوانا پڑتا ہے۔پورے اعتماد اور ایقان سے آگے بڑھنا پڑتا ہے، کچھ مشکلات تو درپیش آتی ہیں، مگر ادبی سماج میں مخلص لوگ موجود ہیں جو شاعرات کے وجود کو، ان کے کام کو نہ صرف سراہتے ہیں بلکہ انھیں تسلیم کر کے آگے بڑھنے کا حوصلہ بھی دیتے ہیں۔محترمہ نزہت عباسی نے کہا کہ کراچی ہمیشہ سے ہی اردو ادب کا گہوارہ رہا ہے، جہاں خواتین کیلئے بھی یکساں مواقع میسرہیں. تھوڑی بہت مشکلات کے باوجود اپنی صلاحیتوں اور جہدِمسلسل سے آپ کواپنی پہچان بنانے اور مقام پانے سے کوئی نہیں روک سکتا. نئی شاعرات کیلئے اپنے پیغام میں محترمہ پروفیسر ڈاکٹر نزہت عباسی کا کہنا تھا کہ اپنی صلاحیتوں کے بل بوتے پر آگے بڑھیں، سہارے نہ ڈھونڈیں، اگر آپ جینوئن شاعرہ ہیں تویہی آپ کی کامیابی ہے۔متشاعرات سے نہ گھبرائیں، آپ وقار سے اپنا تخلیقی سفر جاری رکھیں، ظاہری شہرت،نام ونمود سے دور رہیں، اپنی ذات کے ساتھ اپنے عہد کو لکھیں تو آپ کو آگے بڑھنے، اہنی پہنچان بنانے اور اپنا مقام پانے سے کوئی نہیں روک سکتا.
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: محترمہ نزہت عباسی نزہت عباسی نے کی جانب ادب کے
پڑھیں:
قوم کی بات کرنا عمران خان کا جرم ہے‘حلیم عادل شیخ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251104-02-14
کراچی ( اسٹاف رپورٹر ) پاکستان تحریک انصاف سندھ کے صدر حلیم عادل شیخ نے تین نومبر 2022 ء کو چیئرمین عمران خان پر ہونے والے قاتلانہ حملے کی برسی پر وڈیو بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ آج تین نومبر ایک سیاہ دن ہے، جس دن قوم کے عظیم لیڈر عمران خان کو قتل کرنے کی کوشش کی گئی۔انہوں نے کہا کہ عمران خان کا جرم صرف یہ ہے کہ وہ قوم کی بات کرتے ہیں، ناموسِ رسالت کی بات کرتے ہیں اور ملک کو خودمختار و باوقار دیکھنا چاہتے ہیں۔ مگر اللہ تعالیٰ کی ذات بڑی ہے، جس نے عمران خان کو اپنی حفاظت میں رکھا۔حلیم عادل شیخ نے کہا کہ عمران خان پر قاتلانہ حملہ دراصل اس تاریخی تسلسل کا حصہ تھا جو لیاقت علی خان سے شروع ہوا اور آج تک جاری ہے۔ ایسے حملے ہمیشہ ان رہنماؤں پر ہوئے جو قوم کے مفاد، سچائی اور انصاف کی بات کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ عمران خان پر ہونے والا حملہ ریاست اور اداروں کے کردار پر بہت سے سوالات چھوڑ گیا تھا۔ آج بھی قوم یہی سوال دہرا رہی ہے کہ عمران خان پر حملہ کیوں کیا گیا؟ اور اس کے پیچھے اصل کردار کون تھے؟پی ٹی آئی سندھ کے صدر نے کہا کہ عمران خان کو اس ملک و قوم کی رہنمائی سے کوئی نہیں ہٹا سکتا، وہ کروڑوں پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ جب تک حملہ کرنے والے کردار بے نقاب نہیں ہوتے، آج کا دن قوم کے ضمیر پر سوال بن کر رہے گا۔انہوں نے کہا کہ ان شاء اللہ بہت جلد عمران خان جیل سے بھی رہا ہوں گے اور ایک بار پھر قوم کی قیادت کرتے ہوئے پاکستان کی نئی سمت طے کریں گے۔