Express News:
2025-04-25@11:13:21 GMT

انسانی اسمگلنگ…منافع بخش غیرقانونی کاروبار

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

پاکستان میں انسانی اسمگلنگ کے ایشو پر بہت سے اقدامات اور فیصلے کیے جارہے ہیں۔ اگلے روز بھی وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف کی زیر صدارت غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی میں پاکستانیوں کی اموات کے واقعے پر اجلاس ہوا ہے۔ خبر میں بتایا گیا ہے کہ وزیراعظم نے پاکستان میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث گروہوں کے سدباب کے لیے خصوصی ٹاسک فورس قائم کردی ہے اور انھوں نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ خود اس ٹاسک فورس کی سربراہی کریں گے۔

انھوں نے ہدایت کی ہے کہ انسانی اسمگلنگ میں ملوث انسانیت کے قاتلوں کو کیفر کردار تک پہنچائیں گے اور اس جرام میں ملوث افراد کی گرفتاریوں میں تیزی لائی جائے۔ تمام ادارے بشمول وزارت خارجہ انسانی سمگلرز کی نشاندہی میں اپنا بھرپور کردار ادا کریں۔

 غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی میں پاکستانیوں کی اموات کے دلخراش واقعے پر مجھ سمیت پوری قوم مغموم ہے۔اس اجلاس کے دوران وزیراعظم کو غیر قانونی تارکین وطن کی کشتی میں پاکستانی باشندوں کی المناک اموات میں ملوث گروہوں، پاکستان میں اس حوالے سے کئی گرفتاریوں، مقدمات اور آیندہ کے لائحہ عمل پر تفصیلی بریفنگ دی گئی۔

اجلاس کو بتایا گیا اب تک 6 منظم گروہوں کی نشاندہی ہوئی ہے جب کہ 12 ایف آئی آرز درج کی گئی ہیں، 25 ملوث افراد کی نشاندہی ہوئی ہے اور 3 اہم افراد کی گرفتاری عمل میں لائی گئی ہے، 16 لوگوں کے نام پاسپورٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالے جا چکے ہیں۔ اجلاس کو گاڑیوں، بینک اکاؤنٹس اور اثاثہ جات ضبط کرنے کی تفصیلات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ ایف آئی اے کے مشتبہ اہلکاروں و افسران کی گرفتاریوں سے بھی آگاہ کیا گیا۔ بیرون ملک جانے والی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ سے بھی آگاہ کیا گیا۔

پاکستان سے غیرقانونی ذرائع سے بیرون ملک جانے کا سلسلہ کوئی ایک دو برس پرانا نہیں ہے بلکہ دہائیوں سے جاری ہے ۔ ماضی میں ترقی یافتہ ممالک خصوصاً امریکا، کینیڈا اور مغربی یورپ کے ممالک کی حکومتوں نے اس جانب توجہ نہیں دی، یوں تارکین وطن کو ہمدردی کے نمبر ملتے رہے۔

ان ممالک میں چونکہ تارکین وطن کے حوالے سے قوانین بہت نرم تھے یا سرے سے موجود ہی نہیں تھے، اس لیے غیرقانونی طور پر ترقی یافتہ ممالک میں ایڈجسٹ ہونا، خاصا آسان تھا، اسی وجہ سے دنیا بھر میں ایسے گروہ منظم ہوئے جن کا کام پیسے لے کر ایسے لوگوں کو ترقی یافتہ ممالک میں پہنچانا ہے جو قانونی ذرائع سے ان ممالک میں نہیں جاسکتے تھے۔

پاکستان میں بھی ایسے گروہ وجود میں آگئے جن کے پاکستان کے مختلف سرکاری اداروں کے افسروں کے ساتھ بھی لین دین کا رشتہ قائم ہوا جب کہ ہمسایہ ممالک خصوصاً ایران، عراق، لیبیا، ترکی اور قبرص و یونان ، اٹلی اور اسپین تک نیٹ ورک قائم ہوگیا۔ دنیا میں خانہ جنگیاں اور غربت بڑھنے کی وجہ سے پسماندہ اور جنگ زدہ ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ ہجرت پر مجبور ہوئے تو ترقی یافتہ ممالک ہی نہیں بلکہ قدرے مستحکم تسیری دنیا کے ممالک بھی متاثر ہونا شروع ہوئے۔

ترقی یافتہ ممالک کی حکومتوں نے ویزا پابندیوں کے ساتھ ساتھ تارکین وطن کے حوالے سے سخت قوانین بنانے شروع کردیے ہیں،اب یہ کام مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے، یہی وجہ سے تارکین وطن کی ہلاکتوں کا سلسلہ بھی زیادہ ہوتا جارہا ہے۔

امریکا کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے تو اقتدار سنبھالتے ہی تارکین وطن کے بارے میں ان کی پالیسی پر عمل کرنے کے احکام جاری کردیے ہیں اور ان کی پالیسی پر عملدرآمد کرتے ہوئے انتظامیہ نے امریکا میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف کریک ڈاون شروع کردیا گیا، وائٹ ہائوس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیویٹ نے بتایا کہ تاریخ کے سب سے بڑی کریک ڈاون میں 538 غیر قانونی تارکین وطن کو گرفتار کیا گیا ہے، ان کو امریکی فوج کے ہوائی جہازوں میں بھر کر ملک بدر کردیا گیا۔

ادھر برطانوی حکومت نے ملک میں غیرقانونی تارکین وطن کے داخلے کو روکنے کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کیا ہے، نئے احکامات کے تحت مشتبہ افراد پر لیپ ٹاپ یا موبائل فون استعمال کرنے، سوشل میڈیا نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کرنے پر پابندی عائد ہوگی۔

یہ اعلان ایک ایسے وقت پرکیا گیا ہے، جب گزشتہ برس انگلش چینل( فرانس اور برطانیہ کے درمیان بحری راستہ) کے ذریعے اس ملک میں غیرقانونی طور پر داخل ہونے والے تارکین وطن کی تعداد میں اضافے کی رپورٹس سامنے آئی ہے۔ اسی جرمنی اور فرانس بھی تارکین وطن کے حوالے سے نئے قوانین بنا رہے ہیں۔

 دنیا میں ہر سال لاکھوں افراد انسانی اسمگلرز کے ذریعے ترقی یافتہ ممالک میں داخل ہونے کی کوشش کرتے ہیں، یہ کروڑوں ڈالر کا غیرقانونی کاروبار ہے۔ غیرمحتاط اندازے کے مطابق اس کا مالی ححم تقریبا آٹھے ارب ڈالر سالانہ ہے ۔

 شمالی افریقہ کے ممالک جن میں الجزائر، مراکش اور ماریطانیہ وغیرہ شامل ہیں، ان ممالک کے ساحلوں سے، اسپین، پرتگال اور اٹلی تک پھیلا اسمگلنگ کا سب سے بڑا اور خطرناک ترین راستہ ہے لیکن لوگ جان ہتھیلی پر رکھ کر یہ راستہ بھی اختیار کررہے ہیں۔

 دنیا بھر میں حکومتی اہلکار اور انسانی سمگلرز کا باہمی نیٹ ورک قوانین کی نرمی ، سمندری راستوں پر سیکیورٹی کا ناقص انتظام اس کاروبارکو جاری رکھنے کا بنیاد سبب ہے۔ پاکستان کو بھی انسانوں کی اسمگلنگ کے مسئلے کا سامنا ہے، اس غیرقانونی کاروبار کا حجم کروڑوں ڈالر سالانہ ہے ۔

گزشتہ دس بارہ برسوں میں پاکستانی تارکین وطن کی ہلاکتوں کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔ پاکستان میں اس مسئلے کی بڑی وجوہات میں بیروزگاری میں اضافے اور بڑھتی مہنگائی کو بھی شمار کیا جاتا ہے، لیکن اس سے بھی زیادہ بڑی وجہ مائنڈ سیٹ ہے۔ پاکستانی پڑھے لکھے طبقے کے نوجوانی ہی نہیں بلکہ دیہی پاکستان کے معمولی پڑھے لکھے اور ناخواندہ نوجوانوں بھی امریکا اور یورپ جانے کے سحر میں مبتلا ہیں حالانکہ ان کے پاس اچھا خاصا زرعی رقبہ بھی ہے ۔

اس کی وجہ معاشرتی اور ثقافتی آزادیاں اور ترقی یافتہ ممالک کی رنگا رنگ سرگرمیاں ہیں جب کہ پاکستان میں ایسی سرگرمیاں اول تو موجود نہیں ہیں یا ان پر قانونی پابندیاں عائد ہیں۔ پاکستان کے نوجوانوں میں سیاسی ارتقائی سوچ موجود نہیں ہیںکہ وہ اپنی حکومتوں پر معاشرے کو کھولنے کے دباؤ بڑھائیں ، اس کے بجائے وہ یہاں سے فرار ہونا، زیادہ آسان سمجھتے ہیں۔

پاکستان میں انسانوں کی اسمگلنگ کے خلاف قوانین تو موجود ہیں لیکن ان پر عمل درآمد کا نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کی وجہ بھی بیوروکریسی کا مائنڈ سیٹ ہے ، افسران بھی اس دھندے کو روکنے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کرتے ۔

کچھ اندازوں کے مطابق ہر برس کم از کم 20 ہزار لوگ غیرقانونی طور پر پاکستان سے یورپ اور دوسرے ملکوں میں جاتے ہیں، اس کے لیے جو روٹ سب سے زیادہ استعمال ہوتا ہے ، وہ براستہ بلوچستان سے ایران، عراق اور ترکی کے ذریعے یونان اور اٹلی وغیرہ پہنچتا ہے۔

 وسط ایشیائی ممالک اور افغانستان کے انسانی سمگلر بھی یہی روٹ استعمال کرتے ہیں۔ یہ لوگ پہلے پاکستانی شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بنواتے ہیں اور پھر بطور پاکستانی باشندوں کے غیرممالک میں جاتے ہیں۔ ان غیرقانونی تارکین وطن میں سے کئی دوران سفر سرحدی محافظوں کی گولیوں، سخت موسمی حالات، سمندری لہروں میں کشتیوں کے ڈوبنے یا غیرقانونی ایجنٹوں کے ساتھ معاوضوں کے تنازعات کے بعد جان سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

 ایران کے سنگلاخ پہاڑوں سے یونان کے سمندروں تک، ہر سال اَن گنت نوجوان اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ تارکینِ وطن میں بڑی تعداد پاکستانی نوجوانوں کی بھی ہوتی ہے۔ ہر بڑے حادثے کے بعد حکومت کی جانب سے انسانی اسمگلروں کے خلاف کارروائیاں تیز کرنے کا اعلان کیا جاتا ہے مگر پھر یہ کارروائیاں وقت کی گرد تلے دب جاتی ہیں۔

کہا جاتا ہے کہ سالانہ 15 ہزار پاکستانی غیر قانونی طریقوں سے بیرونِ ملک جانے کی کوشش کرتے ہیں جن کی بڑی تعداد حادثات کا شکار ہو جاتی ہے جب کہ ملک کے حصے میں بدنامی الگ سے آتی ہے۔

 نقل مکانی کے متعلق کام کرنے والی عالمی تنظیم (آئی او ایم) کی ایک رپورٹ کے مطابق نہ صرف پاکستانی بلکہ افغانستان، بنگلہ دیش اور خطے کے کئی دوسرے ممالک کے افراد بھی غیرقانونی طور پر یورپ جانے کے لیے یہی راستہ اور طریقہ استعمال کرتے ہیں۔ آئی او ایم کے مطابق غیرقانونی تارکین وطن پاکستان سے یورپ، مشرق وسطی اور آسٹریلیا جانے کے لیے تین راستے استعمال کرتے ہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: غیر قانونی تارکین وطن انسانی اسمگلنگ تارکین وطن کی تارکین وطن کے میں پاکستانی پاکستان میں ممالک میں حوالے سے میں ملوث کے مطابق کرتے ہیں کیا گیا کے لیے سے بھی

پڑھیں:

ٹیسلا کو بڑا جھٹکا کمپنی کے منافع میں70فیصد کمی

واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 اپریل ۔2025 )امریکی کمپنی ٹیسلا کے منافع اور آمدنی میں کمی کے بعد ٹیسلا کے سربراہ ایلون مسک نے کہا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ میں اپنا کردار کم کریں گے امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق فروخت میں کمی آئی اور الیکٹرک کار ساز کمپنی کو ردعمل کا سامنا کرنا پڑا کیوں کہ مسک وائٹ ہاﺅس کا سیاسی حصہ بن گئے تھے ٹیسلا نے 2025 کی پہلی سہ ماہی میں فروخت میں گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 20 فیصد کمی کی اطلاع دی جبکہ کمپنی کے منافع میں 70 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی.

(جاری ہے)

کمپنی نے اپنے سرمایہ کاروں کو متنبہ کیا کہ یہ ”درد“ جاری رہ سکتا ہے بتایا گیا ہے مارکیٹ میں ٹیسلا کے حصص کی قدرمیں بھی نمایاں کمی نوٹ کی گئی ہے بیان میں کمپنی نے ترقی کی پیش گوئی کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ بدلتے ہوئے سیاسی جذبات طلب کو معنی خیز طور پر نقصان پہنچا سکتے ہیںکمپنی کی دولت میں حالیہ گراوٹ ایک ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ٹرمپ کی نئی انتظامیہ میں مسک کے کردار پر احتجاج کیا جا رہا ہے جس کے بارے میں انہوں نے اعتراف کیا تھا کہ حکومت کی ذمہ داریوں نے ان کی توجہ کمپنی سے ہٹا دی ہے.

ایلون مسک نے ٹرمپ کے دوبارہ انتخاب میں ایک چوتھائی ارب ڈالر سے زیادہ کا حصہ ڈالا تھا وہ وفاقی اخراجات میں کمی اور سرکاری افرادی قوت میں کمی کے لیے ٹرمپ کے ڈیپارٹمنٹ آف گورنمنٹ ایفیشینسی کے سربراہ ہیں. مسک نے کہا کہ اگلے ماہ سے” ڈوج“ کے لیے ان کے وقت میں نمایاں کمی آئے گی وہ ہفتے میں صرف ایک سے دو دن حکومتی معاملات پر صرف کریں گے جب تک صدر چاہتے ہیں کہ میں ایسا کروں اور جب تک یہ کارآمد ہو امریکی حکومت میں مسک کی سیاسی شمولیت نے دنیا بھر میں ٹیسلا کے خلاف احتجاج اور بائیکاٹ کو جنم دیا.

اعداد و شمار کے مطابق ٹیسلا نے سہ ماہی کے دوران مجموعی آمدنی میں 19 ارب 30 کروڑ ڈالر لائے جو سال بہ سال 9 فیصد کم ہے تجزیہ کاروں کی توقع کے مطابق یہ رقم 21 ارب 10 کروڑ ڈالر سے بھی کم تھی اور یہ اس وقت سامنے آئی جب کمپنی نے خریداروں کو راغب کرنے کے لیے قیمتوں میں کمی کی کمپنی نے اشارہ دیا کہ چین پر ٹرمپ کے محصولات نے ٹیسلا پر بھی بھاری بوجھ ڈالا اگرچہ ٹیسلا اپنی ہوم مارکیٹ میں جو گاڑیاں فروخت کرتی ہے وہ امریکا میں اسمبل کی جاتی ہیں لیکن اس کا انحصار چین میں بننے والے بہت سے پرزوں پر ہوتا ہے.

کمپنی کے مطابق تیزی سے بدلتی ہوئی تجارتی پالیسی اس کی سپلائی چین کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور اخراجات میں اضافہ کر سکتی ہے ٹیسلا کی سہ ماہی اپ ڈیٹ میں کہا گیا ہے کہ بدلتے ہوئے سیاسی جذبات کے ساتھ ساتھ یہ متحرک مستقبل قریب میں ہماری مصنوعات کی طلب پر معنی خیز اثر ڈال سکتا ہے. مسک کا ٹرمپ انتظامیہ کی دیگر شخصیات بشمول تجارتی مشیر پیٹر ناوارو کے ساتھ تجارت کے معاملے پر اختلافات ہے اس ماہ کے اوائل میں انہوں نے ٹیسلا کے بارے میں کیے گئے تبصروں پر ناوارو کو ”بدتمیز“ قرار دیا تھا ناوارو نے کہا تھا کہ مسک کار مینوفیکچرر نہیں ہیں بلکہ کار اسمبلر ہیں ایلون مسک نے کہا کہ ان کے خیال میں ٹیسلا وہ کار کمپنی ہے جو شمالی امریکا یورپ اور چین میں مقامی سپلائی چین کی وجہ سے ٹیرف سے سب سے کم متاثر ہوئی ہے لیکن انہوں نے کہا کہ ٹیرف ایک ایسی کمپنی پر اب بھی سخت ہیں جہاں مارجن کم ہے.

ان کا کہنا تھا کہ میں زیادہ ٹیرف کے بجائے کم ٹیرف کی وکالت کرتا رہوں گا لیکن میں صرف یہی کر سکتا ہوں ٹیسلا کا کہنا ہے کہ مصنوعی ذہانت مستقبل کی ترقی میں کردار ادا کرے گی حالانکہ سرمایہ کار ماضی میں اس طرح کے دلائل سے مطمئن نہیں تھے کمپنی کے حصص اس سال منگل کو مارکیٹ بند ہونے تک اپنی قیمت کا تقریباً 37 فیصد گر چکے تھے نتائج کے بعد گھنٹوں کی ٹریڈنگ میں ان میں 5 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا.

اے جے بیل میں سرمایہ کاری کے تجزیہ کار ڈین کوٹس ورتھ نے توقعات کو ”راک باٹم“ قرار دیا جب کمپنی نے رواں ماہ کے اوائل میں کہا تھا کہ سہ ماہی میں فروخت ہونے والی گاڑیوں کی تعداد 13 فیصد کم ہو کر 3 سال کی کم ترین سطح پر آ گئی ہے. کوٹس ورتھ نے متنبہ کیا کہ ٹرمپ کی تجارتی جنگ کے نتیجے میں عالمی سپلائی چین میں ممکنہ خلل نے بھی خطرات پیدا کیے ہیں.

متعلقہ مضامین

  • 12 ہزار سے زائد غیر قانونی مقیم افغانی ڈی پورٹ
  • شہریوں کی ایران اور عراق اسمگلنگ کی کوشش ناکام بنا دی گئی
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج : 100 انڈیکس میں 1553 پوائنٹس کی کمی
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بڑی مندی کے ساتھ کاروبار کا آغاز
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں بڑی مندی کے ساتھ کاروبار کا آغاز
  • پاکستان اسٹاک ایکسچینج میں منفی رجحان، 1553 پوائنٹس کی کمی
  • آسٹریلوی کرکٹر عثمان خواجہ تارکینِ وطن کے حق میں بول پڑے
  • ٹیسلا کو بڑا جھٹکا کمپنی کے منافع میں70فیصد کمی
  • پنجاب: انسانی اسمگلنگ اور ویزا فراڈ کے 5 ملزمان گرفتار
  • پاکستان سے کوئی فیک پاسپورٹ پر سفر نہیں کرسکتا: طلال چوہدری