Jasarat News:
2025-09-18@17:47:10 GMT

سکھر: مغوی علی اصغر منگریو 479 روز بعد بھی گھر نہ پہنچ سکا

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

سکھر (نمائندہ جسارت) ایوب گیٹ کے رہائشی ریلوے پولیس اہلکار زاہد حسین منگریو نے اپنے دیگر عزیزوں مقدم حسیب منگریو، محمد اعظم منگریو، محمد علی، علی احمد و دیگر کے ہمراہ پریس کلب کے سامنے 479 ویں روز بھی اپنے مغوی بیٹے علی اصغر منگریو کی عدم بازیابی کے خلاف علامتی بھوک ہڑتال جاری رکھتے ہوئے نعرے بازی کی۔ اس موقع پر مغوی بچے علی اصغر منگریو کے ورثاء زاہد منگریو، اعظم منگریو و دیگر نے بتایا کہ 8 سال قبل مغوی علی اصغر منگریو کو تھانہ بی سیکشن کی حدود سے اغواء کیا گیا تھا، اغواء میں جوابدار سعید منگریو، خالد منگریو، مسعود منگریو، جنید منگریو و دیگر شامل ہیں، سندھ ہائیکورٹ کے احکامات پر جے آئی ٹی کی رپورٹ اور پولیس تفتیش کے بعد کیس سپریم کورٹ میں چل رہا ہے، 2 جے آئی ٹی تشکیل دی گئی لیکن ان رپورٹ کو بھی 2 سال بیت گئے۔ ورثاء کا کہنا تھا کہ گزشتہ کئی سال سے مغوی کی بازیابی کے لیے پر امن احتجاج کیا جا رہا ہے لیکن اب تک مغوی کو بازیاب نہ کرایا جا سکا، انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے کے بعد علامتی بھوک ہٹرتال کا سلسلہ شروع کیا ہے، ملوث افراد کیس واپس لینے کے لیے دھمکیاں دے رہے ہیں۔ مظاہرین نے حکام سے نوٹس لے کر انصاف و تحفظ فراہمی کا پرزور مطالبہ کیا۔ جبکہ دوسری جانب سول سوسائٹی کی جانب سے کیمپ پر پہنچ کر ورثاء سے اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: علی اصغر منگریو

پڑھیں:

انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟

انسان کو سمجھنا ہمیشہ سے ایک معمہ رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں پہلے بھی لوگوں نے انسانی فطرت کو مختلف خانوں میں بانٹنے کی کوشش کی۔

یہ بھی پڑھیں: کتے انسانوں کے دوست کتنے ہزار سال پہلے بنے؟

شخصیت کو 4 بنیادی اقسام میں تقسیم کرنے کا ایسا ہی ایک قدیم نظریہ جسے ’4 مزاج‘ یا (فور ہیومرز) کہا جاتا ہے تقریباً ڈھائی ہزار سال پہلے یونان میں متعارف ہوا لیکن اس کی گونج آج بھی جدید نفسیات میں سنائی دیتی ہے۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نظریے نے صدیوں تک نہ صرف طب، خوراک اور طرز زندگی کو متاثر کیا بلکہ انسان کے جذبات اور رویوں کو سمجھنے کا ایک مستقل ذریعہ بھی بن گیا۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اگرچہ سائنسی لحاظ سے اس کی بنیادیں اب غلط تسلیم کی جا چکی ہیں لیکن اس نظریے کی جھلک آج کے ماڈرن نفسیاتی ماڈلز میں بھی دیکھی جا سکتی ہے۔

یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز نے 4 عناصر زمین، پانی، ہوا اور آگ کو کائنات کی بنیاد قرار دیا اور بعد ازاں طبیب ہپوکریٹس نے اس سے متاثر ہوکر انسانی جسم کے اندر 4 مائعات کا نظریہ پیش کیا جو مندرجہ ذیل ہے۔

خون (Sanguine): خوش مزاج اور پُرجوش

بلغم (Phlegmatic): ٹھنڈے مزاج اور نرم طبیعت

پیلا صفرا (Choleric): غصیلا اور ضدی

سیاہ صفرا (Melancholic): افسردہ اور گہری سوچ رکھنے والا

مزید پڑھیے: 3 ہزار سال قبل یورپی باشندوں کی رنگت کیسی ہوتی تھی؟

ان مزاجوں کو جسم کی حرارت اور نمی کے ساتھ جوڑا گیا جیسے گرم و خشک مزاج والے چولیرک (Choleric) سمجھے گئے جبکہ سرد و مرطوب لوگ فلیگمیٹک (Phlegmatic) کہلائے۔

یہ نظام قرون وسطیٰ اور شیکسپیئر کے دور میں بھی رائج تھا۔ مثلاً شیکسپیئر کے مشہور ڈرامے’دی ٹیمنگ آف دی شریو‘ میں کردار کیتھرین کے بگڑے رویے کو ’پیلے صفرے‘ کی زیادتی سے جوڑا گیا اور علاج کے طور پر اسے گرم کھانوں سے دور رکھا گیا۔

قدیم نظریہ، جدید عکس

19ویں صدی میں جسمانی تحقیق، خوردبین کی ایجاد اور جدید طب کے باعث 4 مزاجوں کا نظریہ سائنسی طور پر متروک ہو گیا لیکن اس کے اثرات باقی رہے۔

سنہ 1950 کی دہائی میں معروف ماہر نفسیات ہینس آیزنک نے شخصیت کے 2 بنیادی پہلو متعارف کرائے جن میں ایکسٹروورژن (باہر کی جانب رجحان) اور نیوروٹسزم (جذباتی بےچینی) شامل تھے۔

انہوں نے پایا کہ ان 2 عناصر کو مختلف انداز میں ملا کر جو 4 اقسام بنتی ہیں وہ حیرت انگیز طور پر قدیم مزاجوں سے میل کھاتی ہیں جو مندرجہ ذیل ہیں

زیادہ نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = چولیرک

زیادہ نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = میلینکولک

کم نیوروٹک + زیادہ ایکسٹروورٹ = سینگوئن

کم نیوروٹک + کم ایکسٹروورٹ = فلیگمیٹک

یہ اس بات کی طرف اشارہ تھا کہ انسانی شخصیت میں کچھ مستقل پیٹرن موجود ہیں اب چاہے انہیں مزاج کہیں یا جدید سائنسی اصطلاحات۔

شخصیت کو زمرہ بنانا: فائدہ یا فریب؟

جدید ماڈل جیسے کہ ’بگ فائیو‘ جو شخصیت کی 5 بنیادی جہتوں (اوپننس، کانشسنیس، ایکسٹروورژن، اگری ایبلنس، نیوروٹسزم) پر مشتمل ہے۔ اب زیادہ سائنسی طور پر مستند سمجھے جاتے ہیں لیکن ماہرین تسلیم کرتے ہیں کہ ’کٹیگریز بنانے کی انسانی خواہش اب بھی موجود ہے جیسا کہ میئرز برگز یا آن لائن کوئزز سے ظاہر ہے۔

مزید پڑھیں: جرمنی کا صدیوں پرانا شاہ بلوط کا درخت پریمیوں کا پیغام رساں کیسے بنا؟

ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ یہ نظام بعض اوقات انسانی پیچیدگی کو بہت حد تک سادہ کر دیتے ہیں۔ درحقیقت زیادہ تر لوگ شخصیتی پیمائش میں اوسط کے قریب ہوتے ہیں اور کٹیگری سسٹم ان اختلافات کو مکمل طور پر نہیں سمجھا سکتا۔

لیکن جیسے شیکسپیئر ’چولیرک‘ اور ’سینگوئن‘ کرداروں سے محظوظ ہوتا تھا ویسے ہی آج کا انسان ’ٹائپ اے‘، ’ای این ٹی جے‘ یا ’ورگو‘ جیسی درجہ بندیوں میں دلچسپی رکھتا ہے۔

ماہر نفسیات پامیلا رٹلج کہتی ہیں کہ انسانی فطرت میں درجہ بندی کی خواہش فطری ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ ہمیں دنیا کو سمجھنے، سیکھنے اور اس سے تعامل کرنے میں مدد دیتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: اظہار محبت کے خفیہ اشارے: کیا ایموجیز صدیوں پرانے کوڈ ورڈز کا تسلسل ہیں؟

پامیلا کا کہنا ہے کہ یہ نظریہ ہزاروں سال پرانا ہے لیکن آج بھی ہماری سوچ میں زندہ ہے۔

بہرحال 4 مزاجوں کا یہ قدیم نظریہ آج اگرچہ سائنسی طور پر مستند نہیں رہا لیکن یہ اس انسانی فطرت کی عکاسی ضرور کرتا ہے جو ہر دور میں خود کو، دوسروں کو اور دنیا کو سمجھنے کے لیے چیزوں کو خانوں میں بانٹنے کی کوشش کرتی ہے۔ خواہ زبان بدلے یا نظریہ انسان کا یہ تجسس اور تلاش اور خود فہمی کی یہ جستجو آج بھی جاری ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

4 مزاج انسانی فطرت چار مزاج یونانی فلسفی ایمپیدوکلیز

متعلقہ مضامین

  • انسان کے مزاج کتنی اقسام کے، قدیم نظریہ کیا ہے؟
  • لیڈی ڈاکٹر نے نالے میں چھلانگ لگا لی، وجہ کیا بنی؟
  • مغوی اسسٹنٹ کمشنر حنیف نورزئی بازیاب، خصوصی طیارے کے ذریعے کوئٹہ منتقل
  • ہونیاں اور انہونیاں
  • گزرا یوم آزادی اور تجدید عہد
  • پنجاب میں زور ٹوٹ گیا،سکھر بیراج میں اونچے درجے کا سیلاب،نقل مکانی،فصلیں تباہ
  • مہمان خصوصی کاحشرنشر
  • گدو اور سکھر بیراج پر اونچے درجے کا سیلاب
  • سکھر ،پنوںعاقل کی میر برادری کامختارکار کے خلاف احتجاج
  • ’’عشق پیغمبر اعظم، مرکز وحدت مسلمین‘‘ کانفرنس