Jasarat News:
2025-09-18@13:41:15 GMT

ٹرمپ کی واپسی۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نئی دنیا کا آغاز؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ٹرمپ کی واپسی۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نئی دنیا کا آغاز؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت ہمیشہ تنازعات کا مرکز رہی ہے، اور ان کے موجودہ اقدامات اس تسلسل کو مزید نمایاں کر رہے ہیں۔ تازہ ترین معاملے میں ایک امریکی فیڈرل جج نے ان کے اس ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے جس کے تحت پیدائشی شہریت کے قانون میں تبدیلی کی جا رہی تھی۔ یہ قانون جو امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت قائم ہے، امریکا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو شہریت کا حق دیتا ہے۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے، جس سے ایک نیا قانونی تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر واپسی امریکی سیاست کا ایک غیر معمولی موڑ ہے، لگتا ہے وہ ایک نئی دنیا کی تشکیل کرنے جارہے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کی ایک لیک شدہ اندرونی دستاویز کے مطابق امریکا نے تمام جاری غیر ملکی امداد کو معطل کر دیا ہے اور کسی بھی نئی امداد کی عملدرآمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، یہ میمو امریکی حکام اور بیرونِ ملک امریکی سفارتخانوں کو ارسال کیا گیا تھا، مذکورہ دستاویز میں واضح کیا گیا ہے کہ صرف خوراک کی ہنگامی امداد اور اسرائیل ومصر کے لیے فوجی امداد کو اس فیصلے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ امریکا بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 68 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں نہ صرف گزشتہ انتخابات کو ’’تاریخ کے نتیجہ خیز ترین انتخابات‘‘ قرار دیا بلکہ امریکا کے زوال کو ختم کرنے اور سنہری دور کے آغاز کا اعلان کیا۔ ان کے اس بیان میں سیاسی ایجنڈے کی جھلک نظر آتی ہے جو ایک مرتبہ پھر صرف امریکی مفادات کو ترجیح دینے سے متعلق ہے۔

ٹرمپ کے اس فیصلے میں امریکا کے بیرونِ ملک سفارت خانوں اور مشن کے دفاتر پر پرائیڈ فلیگ (ہم جنس پرستوں کا جھنڈا) یا بلیک لائیوز میٹر (سیاہ فاموں کی حمایت میں) کے جھنڈوں پر پابندی عائد کر کے ’’پرچمِ واحد‘‘ کی پالیسی نافذ کرتے ہوئے صرف امریکی پرچم لہرانے کی ہدایت بھی شامل ہے، جس سے کئی اہم مغربی ایشوز پر امریکا کی پریشانی اور داخلی کشمکش کا پتا چلتا ہے، بلکہ ان کی نئی پالیسی کی ترجیحات بھی واضح ہو رہی ہیں، ٹرانس جینڈرز سے متعلق بائیڈن کا یہ ایگزیکٹو آرڈر 2021ء میں جاری ہوا تھا، جس کا بظاہر مقصد صنفی شناخت کو فوج میں خدمات انجام دینے میں رکاوٹ کے طور پر ختم کرنا تھا۔ لیکن متعلقہ لوگوں کا خیال ہے کہ بائیڈن کی پالیسی کی منسوخی کے باوجود اِس وقت خدمات انجام دینے والے ٹرانس جینڈر اہلکاروں پر فوری طور پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم ٹرمپ کی یہ کارروائی مستقبل میں ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں توانائی کے شعبے میں خودانحصاری، سرحدی سیکورٹی کو بہتر بنانا اور مشرق وسطیٰ میں امن معاہدے جیسے اقدامات اہم کامیابیاں سمجھی جاتی ہیں تاہم ان کی پالیسیوں پر کثرت سے تنقید بھی ہوئی، خاص طور پر امیگریشن پالیسیوں کے حوالے سے۔ ان کی جانب سے میکسیکو بارڈر پر ایمرجنسی لگانے اور غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کی مہم نے امریکا کے اندر اور باہر ایک بڑی بحث چھیڑ دی تھی، صدر ٹرمپ کے نئے دور کی ابتدا ہی ایگزیکٹو آرڈرز کے ساتھ ہوئی ہے، ان کے پہلے دن جاری کیے گئے ایگزیکٹو آرڈرز کی تعداد ریکارڈ توڑنے والی رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

ٹرمپ کے خیالات اور اقدامات بین الاقوامی تعلقات پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، نہر پاناما کے حوالے سے بیان کہ امریکا کو اسے واپس لینا چاہیے اُن کے جارحانہ رویے کا عکاس ہے۔ اسی طرح ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب میں کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کی حیرت انگیز پیشکش نے بحث کو جنم دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دورِ حکومت میں جمہوری اقدار اورعدالتی نظام کے درمیان کشمکش بھی جاری رہی ہے، سابقہ دور میں ان کے کئی فیصلے عدالتوں میں چیلنج کیے گئے تھے اور نئے دور میں بھی ایسی ہی توقعات ہیں، مثال کے طور پر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور کینیڈی برادران سے متعلق فائلوں کو منظر عام پر لانے کے حکم کو ان کے ناقدین سیاسی حربہ قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے نئے دور کے آغاز نے ایک بات واضح کردی ہے کہ ان کی پالیسیوں کا مرکز ’’پہلے امریکا‘‘ اور ’’خودمختاری کا تحفظ‘‘ ہوگا۔ تاہم ان کی متنازع پالیسیاں، امیگریشن کے سخت قوانین اور عالمی معاہدوں پر نظرثانی جیسے اقدامات مستقبل میں امریکا کی داخلی سیاست اور عالمی حیثیت پر کیا اثر ڈالیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ماہرین موجودہ حالات اور فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ مسلمانوں کے لیے کسی طور سازگار نظر نہیں آتی۔ مشرق وسطیٰ کے تناظر میں ان کی پالیسیوں کا محور اسرائیل کو عرب اور اسلامی دنیا سے تسلیم کرانا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے وہ سفارتی دباؤ سے لے کر جبر کا ہر ممکنہ ہتھکنڈا اپنانے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا ٹرمپ کی پالیسیاں داخلی طور پر امریکا کے لیے بہتری کی علامت ثابت ہوسکتی ہیں؟ اس کا جواب جلد سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے اثرات نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے سیاسی اور اقتصادی نظام پر محسوس کیے جائیں گے، اس ضمن میں پوری دنیا کو ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ ٹرمپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی پالیسیوں ایگزیکٹو ا امریکا کے ٹرمپ کے ٹرمپ کی کے لیے

پڑھیں:

چارلی کرک کا قتل

رواں ستمبر کی 10 تاریخ کو امریکا میں ایک سیاسی قتل ہوا، چارلی کرک کا قتل۔ اس کیس میں ٹائلر رابنسن نام کا ایک 22 سالہ نوجوان پولیس کی تحویل میں ہے۔ اور قتل بظاہر سیاسی انتہا پسندی کا نتیجہ دکھتا ہے۔ ہم منتظر ہی رہ گئے کہ امریکا کے تعلیمی نصاب پر کب یہ کہہ کر حملہ کیا جائے گا؟

’انتہا پسندی تعلیمی نصاب کی وجہ سے فروغ پاتی ہے‘

مگر آہ! وہ فارمولہ صرف ہم پر مسلط کرنے کے لیے ہی گھڑا گیا تھا۔ امریکا میں وہ اس کے باوجود نظر انداز کردیا گیا کہ چارلی کا قتل ایک یونیورسٹی کے ہی سبزہ زار پر ہوا۔

سی این این پر ایک خاتون صحافی نے انتہا پسندی کی ذمہ داری ویڈیو گیمز کے سر تھوپنے کی کوشش کی مگر اسے بھی یہ کہہ کر مسترد کردیا گیا کہ ویڈیو گیمز تو سب سے زیادہ جاپانی کھیلتے ہیں اور وہ انتہا پسند نہیں ہیں۔

ہم یہ سطور اس یقین کے ساتھ لکھ رہے ہیں کہ آپ جانتے ہی ہیں کہ یہ ذکر اسی امریکا کا چل رہا ہے جو ساری دنیا کو یہ باور کراتا تھا کہ ’اصلی والی جمہوریت‘ صرف ہماری دکان پر دستیاب ہے، اور آپ سب نے بس ہم سے ہی امپورٹ کرنی ہے۔ نہیں کریں گے تو ہم آپ کا جینا حرام کردیں گے۔

خود ہمارے ہاں بھی ان کے فرنچائزر دن رات یہ سودا بیچا کرتے کہ ہمیں مہذب اقوام سے سیکھنا چاہیے۔ صدشکر کہ ان لبرل دانشوروں کے انتقال پر ملال سے قبل ہی وہ گھڑیاں آگئیں جن میں امریکی اداروں کی سروے رپورٹس بتا رہی ہیں کہ 2016 سے 2024 کے دوران امریکا میں انتہا پسندی 360 فیصد اضافہ پاچکی۔ اور یہ اضافہ اس کے باوجود ہوا کہ نائن الیون کے بعد والے 20 برسوں میں امریکا نے دنیا بھر میں جو ہنگامہ برپا کر رکھا تھا۔ اس میں ایک اہم ہدف انتہا پسندی کا خاتمہ بھی تھا۔

سو سوال تو بنتا ہے کہ آخر اسی جنگ کے دوران خود امریکا کیسے اس کی لپیٹ میں آگیا؟ اگر آپ یاد کریں تو امریکا میں سیاہ فاموں کو حقوق بیسویں صدی کے آخری حصے میں آکر ہی حاصل ہوئے تھے۔

بظاہر یوں لگتا تھا کہ یہ مسئلہ حل ہوا، اور نسلی تعصب مٹ گیا۔ مگر ایسا تھا نہیں۔ ہوا فقط اتنا تھا کہ جب مارٹن لوتھر کنگ مالکم ایکس کے قتل بھی سیاہ فاموں کی حقوق کی جدوجہد نہ روک سکے تو سفید فاموں نے ہتھیار ڈالنے میں ہی عافیت جانی۔ مگر دلوں میں تعصب وسیع پیمانے پر موجود رہا۔ اور یہ وقتاً فوقتاً اپنا اظہار کرتا تھا۔ مثلا 90 کی دہائی والا اوکلوہاما سٹی کا ہولناک دھماکا۔

نسلی تعصب کو پوری طاقت کے ساتھ پھر سے سر اٹھانے کا موقع تب ملا جب 2008 کے صدارتی انتخابات کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی نے سیاہ فام باراک اوباما کو امیدوار نامزد کردیا۔

اوباما کی جیت میں اس چیز نے اہم کردار ادا کیا تھا کہ سیاہ فام اور ایشین ووٹ قریباً سارے ہی وہ لے اڑے تھے۔ اس معاملے میں سیاہ فام اتنے جذباتی تھے کہ بش دور کے سیاہ فام وزیر خارجہ جنرل کولن پاؤل، اوباما کی جیت پر اس کے باوجود فرط جذبات سے رو پڑے تھے کہ کولن پاؤل خود ریپبلکن تھے۔ کولن پاؤل نے اوباما کی جیت کو ناقابل یقین تاریخی لمحہ قرار دیا تھا۔

باراک اوباما نے اقتدار سنبھالا تو امریکی سینیٹ میں مشہور زمانہ سینیٹر جان مکین نے فلور پر کہا ’اب میرا ہر لمحہ اس صدر کو ناکام کرنے میں گزرے گا‘۔

اگر آپ بغور جائزہ لیں تو نظر آئے گا کہ اگلے 3 برس میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک امریکا میں از سرنو نمایاں ہونا شروع ہوچکی تھی۔ مگر اس کا کوئی باضابطہ قائد نہ تھا۔ اس خلا کو ڈونلڈ ٹرمپ نے یوں پر کرنا شروع کیا کہ ان کی جانب سے وقتاً فوقتاً تعصب بھرے بیانات سامنے آنے لگے اور جب ماحول بنتا نظر آیا تو برتھ سرٹیفیکیٹ والا معاملہ اٹھا کر باراک اوباما کو باقاعدہ نشانے پر رکھ لیا۔

امریکی بہت اچھی طرح جانتے ہیں کہ تحریکوں کی مضبوط اور مستحکم بنیادیں ڈلنے میں کئی سال لگتے ہیں۔ سو ٹرمپ اور وائٹ سپرمیسی کی تحریک نے کوئی جلد بازی نہیں دکھائی۔ انہوں نے 2012 کے صدارتی انتخابات میں اوباما کو چیلنج نہیں کیا۔ ان کی توجہ اب بھی اپنی تحریک کو مضبوط کرنے پر رہی۔

یہ 2016 کا انتخاب تھا جس میں وائٹ سپرمیسی کی تحریک پوری قوت کے ساتھ سامنے آئی۔ اگر آپ پرانے اخبارات نکال کر دیکھیں تو ٹرمپ کی نامزدگی کے ساتھ ہی ہمارے ہاں انہیں ایک انتہا پسند لیڈر کے طور پر رپورٹ کیا گیا تھا۔ اور اس لیڈر نے اپنی انتخابی مہم میں 2 کارڈ کھل کر استعمال کیے تھے۔ ایک مذہب کا کارڈ جس کا استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ نے یہاں تک کہا کہ وہ منتخب ہوا تو نعوذباللہ حرمین پر بمباری کروائے گا اور دوسرا ایمیگرنٹس کارڈ۔

اگرچہ ڈونلڈ ٹرمپ کسی بھی طرح کی پولیٹیکل کریکٹنس پر یقین نہیں رکھتے لیکن یہ ایمیگرنٹس والی اصطلاح ہے ایک طرح کی پولیٹیکل کریکٹنس ہے۔ سیاہ فاموں کا تو وہ کچھ بگاڑ نہیں سکتے کیونکہ انہیں امریکا میں صدیاں بیت گئیں۔ سو نسلی تعصب کے اظہار کے لیے ایمیگرنٹس کی اصطلاح ہی واحد آپشن بچتی ہے۔

ایمیگرنٹس کون ہیں؟ یہ امریکا آنے والے غیر سفید فام لوگ ہی تو ہیں۔ جن میں مسلمان، لاطینی اور چائنیز بطور خاص ٹرمپ کا ہدف رہے ہیں۔ یاد ہے ٹرمپ نے اپنے پہلے دور حکومت میں 7 مسلم ممالک کے شہریوں کے داخلے پر بھی پابندی لگائی تھی؟ ان کے 2 مشیر سٹیو بینن اور سٹیون ملر تب بھی اور آج بھی بطور خاص مسلمانوں کے خلاف زہر اگلتے ہیں۔

سٹیو بینن کے تعصب کا اندازہ اس سے لگایئے کہ اس نے پچھلے ہفتے ہی ایک پوڈکاسٹ میں بات کرتے ہوئے پاکستان کے خلاف اپنا زہر یوں اگلا ’بینجمن نیتن یاہو اسرائیل کو نقصان پہنچا رہا ہے، وہ اسرائیل کو یہودیوں کا پاکستان بنا رہا ہے‘۔

اس انتہا پسند سیاست کا ایک اہم موڑ وہ تھا جب 2020 کے انتخابات میں ٹرمپ نے شکست ماننے سے انکار کردیا۔ وہ ماحول کو اس اسٹیج تک لے گئے جہاں کیپٹل ہل پر ہی حملہ ہوگیا۔

سمجھنے والا نکتہ یہ ہے کہ جب ٹرمپ اپنے پہلے دور اقتدار کا حلف اٹھا رہے تھے تو عین اسی دن امریکا میں لبرلز نے بھی بہت پرتشدد ہنگامہ آرائی کی تھی۔ تب بھی صورتحال پر قابو پانے کے لیے نیشنل گارڈز کو طلب کرنا پڑ گیا تھا۔ یہ انتہا پسندی کا وہ جن تھا جو گویا ہر امریکی بوتل سے نکلا تھا۔

بات کیپٹل ہل والے حملے پر کہاں رکی۔ بائیڈن کی قیادت میں ڈیموکریٹک پارٹی نے امریکی سیاسی روایات روندتے ہوئے ٹرمپ کے خلاف اپنے سیاسی انتقام کے لیے تیسری دنیا کے ممالک کی طرح عدالتوں کا استعمال شروع کردیا۔

ٹرمپ کے گھر پر چھاپا مار کر اس انداز سے تلاشی لی گئی کہ میڈیا رپورٹس کے مطابق سابق خاتون اول میلانیہ ٹرمپ کے زیر جامے بھی لہرا لہرا کر ان پر تبصرے کیے گئے۔ انتخابی جلسے میں قاتلانہ حملے کا تڑکا بھی لگ گیا۔

یوں گویا 2011 میں انتہا پسندی کا آغاز بیشک ڈونلڈ ٹرمپ اور اس کے حامیوں نے کیا تھا مگر اس تالی کے لیے اب انہیں ڈیموکریٹس کا ہاتھ بھی میسر تھا۔

اس پورے پس منظر کے ساتھ آج کی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ اپنی دوسری ٹرم کے پہلے سال میں ہیں۔ اپنے انتخابی وعدوں بلکہ دعوؤں پر انہیں بڑی سبکی کا سامنا ہے۔ جان ایف کینیڈی اور مارٹن لوتھر کنگ قتل کیسز کی رپورٹس وہ پبلک نہیں کرپائے۔ ایپسٹین فائلز کی وہ موجودگی سے ہی انکاری ہوچکے۔

جو 2 جنگیں انہوں نے 24 گھنٹوں میں بند کروانی تھیں وہ ان کے اقتدار کے 9ویں مہینے میں بھی گھن گرج کے ساتھ جاری ہیں۔ اور تو اور ان کا ٹیرف کارڈ کی بھی کسی راشن کارڈ جتنی وقعت باقی نہیں رہی لیکن وہ جنگ پورے زوروں پر ہے جسے لڑنے کے لیے انہوں نے ٰیوٹیوبرز کی پوری فوج تیار کر رکھی ہے۔ چارلی کرک ان کی اسی فوج کا ایک اہم ترین کمانڈر تھا۔

جواب میں لبرلز بھی اسی طرح کی فورس رکھتے ہیں۔ جانبین کی ان فورسز نے ہی تو انتہا پسندی کو پورے عروج تک پہنچایا ہے، اس کی شدت کا اندازہ اسی سے لگا لیجیے کہ چارلی کرک کے قتل کے لیے ’ڈسپلے اساسنیشن‘ کی حکمت عملی اختیار کی گئی۔

گویا اسے محض قتل کرنا مقصود نہ تھا بلکہ اس کے کیمپ کے باقی یوٹیوبرز کے لیے ڈراؤنی مثال بنانا بھی پلان میں شامل تھا۔ ردعمل کیا آیا؟ امریکی سوشل میڈیا ان ویڈیوز سے بھر گیا جن میں لبرلز نوجوان اس قتل کی خوشی میں رقص کرتے نظر آئے۔

جواب میں سرکار نے دھمکی دی کہ ان لوگوں کے پاسپورٹ کینسل کیے جائیں گے۔ یہاں تک وارننگ جاری کی گئی کہ اگر کسی نے چارلی کرک کے طرز عمل پر تنقیدی گفتگو کی تو اس کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کردیا جائے گا۔ اور ہزاروں کے اکاؤنٹس حکومت کے کہنے پر بند ہو بھی چکے۔

ٹرمپ کا کیمپ اقتدار میں ہوکر بھی طبل جنگ بجا رہا ہے۔ ایک عجیب ٹرینڈ یہ نظر آیا کہ ٹرمپ کے اہم وزیر اور مشیر ایک تواتر کے ساتھ کچھ اس طرح کے دعوؤں کے ساتھ سامنے آگئے ’اس نے موت سے قبل مجھے جو آخری میسج کیا تھا اس میں فلاں خواہش کا اظہار کیا تھا۔ ہم اس کی یہ خواہش پوری کریں گے‘۔

قابل غور پہلو یہ ہے کہ ایک مردے کی جانب منسوب ہر خواہش لبرلز پر عرصہ حیات تنگ کرنے کی ہی کوئی نہ کوئی اسکیم ہے۔ لگ ایسا رہا ہے کہ اب ٹرمپ کو اپنے کسی بھی انتہا پسند اقدام کے لیے بطور جواز بس اتنا کہہ دینا کافی ہوگا کہ یہ چارلی کرک کی آخری خواہش تھی۔

اس پورے معاملے کا سب سے خوفناک پہلو یہ ہے کہ یہ سب اس امریکا میں ہو رہا ہے جو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہے۔ جو 36 کھرب ڈالرز کے قرضے تلے ڈوبتی سلطنت ہے، جس کا لگ بھگ ہر شہری مسلح ہے۔

سو اس بات کا اندازہ بھی نہیں لگایا جاسکتا کہ جب یہ سلطنت خانہ جنگی کا شکار ہوگی تو اس کے مناظر و نتائج کتنے تباہ کن ہوں گے۔ کیا اقبال کا یہ مصرع منظر ہونے کو ہے ؟ تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی کرے گی!

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

رعایت اللہ فاروقی

اوباما ٹائلر رابنسن ٹرمپ چارلی کرک

متعلقہ مضامین

  • چارلی کرک کا قتل
  • امریکی وزیر خارجہ اسرائیلی دورے سے واپسی پر دوحا پہنچ گئے،امیر قطر اور وزیراعظم سے ملاقات
  • معاہدہ ہوگیا، امریکا اور چین کے درمیان ایک سال سے جاری ٹک ٹاک کی لڑائی ختم
  • ٹک ٹاک بارے معاہدہ طے، عوام دوبارہ موقع دے امریکا کو مضبوط بنائیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکی وزیر خارجہ اسرائیلی دورے سے واپسی پر عجلت میں دوحہ پہنچ گئے؛ اہم پیغام پہنچایا
  • ڈونلڈ ٹرمپ کا نیویارک ٹائمز پر 15 ارب ڈالر ہرجانے کا دعویٰ
  • ٹک ٹاک کی ملکیت کا معاملہ، امریکا اور چین میں فریم ورک ڈیل طے پاگئی
  • قطر پر حملے سے پہلے اسرائیلی وزیراعظم نے صدر ٹرمپ کو آگاہ کر دیا تھا، امریکی میڈیا
  • قطر اور یہودو نصاریٰ کی دوستی کی دنیا
  • روس پر پابندیاں لگانے کیلیے تیار ہیں، امریکا کے قطر کیساتھ خاص تعلقات ‘ اسرائیل کو محتاط رہنا ہوگا‘ ٹرمپ