ٹرمپ کی واپسی۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نئی دنیا کا آغاز؟
اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT
ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت ہمیشہ تنازعات کا مرکز رہی ہے، اور ان کے موجودہ اقدامات اس تسلسل کو مزید نمایاں کر رہے ہیں۔ تازہ ترین معاملے میں ایک امریکی فیڈرل جج نے ان کے اس ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے جس کے تحت پیدائشی شہریت کے قانون میں تبدیلی کی جا رہی تھی۔ یہ قانون جو امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت قائم ہے، امریکا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو شہریت کا حق دیتا ہے۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے، جس سے ایک نیا قانونی تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر واپسی امریکی سیاست کا ایک غیر معمولی موڑ ہے، لگتا ہے وہ ایک نئی دنیا کی تشکیل کرنے جارہے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کی ایک لیک شدہ اندرونی دستاویز کے مطابق امریکا نے تمام جاری غیر ملکی امداد کو معطل کر دیا ہے اور کسی بھی نئی امداد کی عملدرآمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، یہ میمو امریکی حکام اور بیرونِ ملک امریکی سفارتخانوں کو ارسال کیا گیا تھا، مذکورہ دستاویز میں واضح کیا گیا ہے کہ صرف خوراک کی ہنگامی امداد اور اسرائیل ومصر کے لیے فوجی امداد کو اس فیصلے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ امریکا بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 68 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں نہ صرف گزشتہ انتخابات کو ’’تاریخ کے نتیجہ خیز ترین انتخابات‘‘ قرار دیا بلکہ امریکا کے زوال کو ختم کرنے اور سنہری دور کے آغاز کا اعلان کیا۔ ان کے اس بیان میں سیاسی ایجنڈے کی جھلک نظر آتی ہے جو ایک مرتبہ پھر صرف امریکی مفادات کو ترجیح دینے سے متعلق ہے۔
ٹرمپ کے اس فیصلے میں امریکا کے بیرونِ ملک سفارت خانوں اور مشن کے دفاتر پر پرائیڈ فلیگ (ہم جنس پرستوں کا جھنڈا) یا بلیک لائیوز میٹر (سیاہ فاموں کی حمایت میں) کے جھنڈوں پر پابندی عائد کر کے ’’پرچمِ واحد‘‘ کی پالیسی نافذ کرتے ہوئے صرف امریکی پرچم لہرانے کی ہدایت بھی شامل ہے، جس سے کئی اہم مغربی ایشوز پر امریکا کی پریشانی اور داخلی کشمکش کا پتا چلتا ہے، بلکہ ان کی نئی پالیسی کی ترجیحات بھی واضح ہو رہی ہیں، ٹرانس جینڈرز سے متعلق بائیڈن کا یہ ایگزیکٹو آرڈر 2021ء میں جاری ہوا تھا، جس کا بظاہر مقصد صنفی شناخت کو فوج میں خدمات انجام دینے میں رکاوٹ کے طور پر ختم کرنا تھا۔ لیکن متعلقہ لوگوں کا خیال ہے کہ بائیڈن کی پالیسی کی منسوخی کے باوجود اِس وقت خدمات انجام دینے والے ٹرانس جینڈر اہلکاروں پر فوری طور پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم ٹرمپ کی یہ کارروائی مستقبل میں ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں توانائی کے شعبے میں خودانحصاری، سرحدی سیکورٹی کو بہتر بنانا اور مشرق وسطیٰ میں امن معاہدے جیسے اقدامات اہم کامیابیاں سمجھی جاتی ہیں تاہم ان کی پالیسیوں پر کثرت سے تنقید بھی ہوئی، خاص طور پر امیگریشن پالیسیوں کے حوالے سے۔ ان کی جانب سے میکسیکو بارڈر پر ایمرجنسی لگانے اور غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کی مہم نے امریکا کے اندر اور باہر ایک بڑی بحث چھیڑ دی تھی، صدر ٹرمپ کے نئے دور کی ابتدا ہی ایگزیکٹو آرڈرز کے ساتھ ہوئی ہے، ان کے پہلے دن جاری کیے گئے ایگزیکٹو آرڈرز کی تعداد ریکارڈ توڑنے والی رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔
ٹرمپ کے خیالات اور اقدامات بین الاقوامی تعلقات پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، نہر پاناما کے حوالے سے بیان کہ امریکا کو اسے واپس لینا چاہیے اُن کے جارحانہ رویے کا عکاس ہے۔ اسی طرح ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب میں کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کی حیرت انگیز پیشکش نے بحث کو جنم دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دورِ حکومت میں جمہوری اقدار اورعدالتی نظام کے درمیان کشمکش بھی جاری رہی ہے، سابقہ دور میں ان کے کئی فیصلے عدالتوں میں چیلنج کیے گئے تھے اور نئے دور میں بھی ایسی ہی توقعات ہیں، مثال کے طور پر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور کینیڈی برادران سے متعلق فائلوں کو منظر عام پر لانے کے حکم کو ان کے ناقدین سیاسی حربہ قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے نئے دور کے آغاز نے ایک بات واضح کردی ہے کہ ان کی پالیسیوں کا مرکز ’’پہلے امریکا‘‘ اور ’’خودمختاری کا تحفظ‘‘ ہوگا۔ تاہم ان کی متنازع پالیسیاں، امیگریشن کے سخت قوانین اور عالمی معاہدوں پر نظرثانی جیسے اقدامات مستقبل میں امریکا کی داخلی سیاست اور عالمی حیثیت پر کیا اثر ڈالیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ماہرین موجودہ حالات اور فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ مسلمانوں کے لیے کسی طور سازگار نظر نہیں آتی۔ مشرق وسطیٰ کے تناظر میں ان کی پالیسیوں کا محور اسرائیل کو عرب اور اسلامی دنیا سے تسلیم کرانا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے وہ سفارتی دباؤ سے لے کر جبر کا ہر ممکنہ ہتھکنڈا اپنانے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا ٹرمپ کی پالیسیاں داخلی طور پر امریکا کے لیے بہتری کی علامت ثابت ہوسکتی ہیں؟ اس کا جواب جلد سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے اثرات نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے سیاسی اور اقتصادی نظام پر محسوس کیے جائیں گے، اس ضمن میں پوری دنیا کو ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ ٹرمپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی پالیسیوں ایگزیکٹو ا امریکا کے ٹرمپ کے ٹرمپ کی کے لیے
پڑھیں:
چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ جلد ممکن ہے‘ٹیرف کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے.ٹرمپ
واشنگٹن(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔23 اپریل ۔2025 )امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ چین کے ساتھ ٹیرف معاہدہ بہت جلد ممکن ہے اور اس پر عائد ٹیرف کو نمایاں طور پر کم کیا جا سکتا ہے وائٹ ہاﺅس میں صحافیوں سے گفتگو کے دوران انہوں کہا کہ چین پر عائد 145 فیصد درآمدی ٹیرف کو کم کیا جائے گا.(جاری ہے)
انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ یہ کمی کتنی ہو گی امریکی صدر نے کہاکہ چین کے ساتھ ڈیلنگ بہت اچھی کرنے جا رہے ہیں چین کو معاہدہ کرنا ہی پڑے گا چین نے معاہدہ نہیں کیا تو ہم ڈیل طے کریں گے صدرٹرمپ کے بیان سے پہلے امریکی وزیر خزانہ اسکاٹ بیسنٹ نے ایک تقریب میں کہا تھا کہ چین کے ساتھ جاری ٹیرف تنازعہ زیادہ دیر تک نہیں چل سکتا اور دنیا کی دو بڑی معیشتوں کے درمیان تجارتی کشیدگی میں کمی کی امید ہے تاہم انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ امریکا اور چین کے درمیان باضابطہ مذاکرات کا ابھی آغاز نہیں ہوا.
دریں اثنا امریکی صدر تارکین وطن کے بارے میں ایک بیان میں کہا کہ وہ بغیر مقدمہ چلائے تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کا حق رکھتے ہیں ان کا بیان عدالتی فیصلے کے بعد سامنے آیا ہے جس میں امریکی سپریم کورٹ نے ایک عبوری حکم کے ذریعے وینزویلا کے درجنوں شہریوں کی ملک بدری روکنے کا حکم دیا تھا امریکی حکومت وینزویلا کے ان شہریوں پر مجرمانہ تنظیم ”ترین دی آراجوا“ سے تعلق رکھنے کا الزام عائد کرتی ہے. ٹرمپ انتظامیہ 1798 میں منظور کیے گئے متنازع اور شاذ و نادر استعمال ہونے والے ”ایلن اینمی ایکٹ“کے تحت ان افراد کو ملک بدر کرنے کی تیاری کر رہی تھی مذکورہ ایکٹ صدر کو جنگ یا حملے کی حالت میں غیر ملکیوں کو ملک بدر کرنے کی اجازت دیتا ہے. سپریم کورٹ نے حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ عدالت کے اگلے حکم تک ان افراد میں سے کسی کو بھی ملک بدر نہ کرے یہ فیصلہ امریکی سول لبرٹیز یونین کی جانب سے دائر کی گئی ایک ہنگامی درخواست پر دیا گیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ ان افراد کو ان کے قانونی حقوق اور واجب الاجراءطریقہ کار سے محروم رکھا گیا ہے. صدرٹرمپ نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ عدالتیں تعاون کریں گی تاکہ وہ ہزاروں افراد کو جو ملک بدری کے لیے تیار ہیںانہیں نکال سکیں انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ ان تمام افراد کے لیے مقدمات چلانا ممکن نہیں ہے. امریکی صدر نے ایک بار پھر یہ الزام دہرایا کہ وینزویلا جیسی ریاستیں اپنی جیلوں کو خالی کر کے لوگوں کو امریکہ بھیج رہی ہیں واضح رہے کہ صدر ٹرمپ نے اپنی پہلی مدت میں جنوری 2017 میں اقتدار سنبھالنے کے بعد سے ہی امیگریشن سے متعلق سخت موقف اختیار کیا ہوا ہے صرف گذشتہ ماہ امریکی حکام نے وینزویلا کے 200 سے زیادہ شہریوں اور سلواڈور کے کچھ باشندوں کو سلواڈور کی سخت پہرے والی ”سیکوٹ“ جیل منتقل کیا تھا یہ جیل نہایت سخت ماحول کی وجہ سے معروف ہے.