Jasarat News:
2025-11-05@01:41:30 GMT

ٹرمپ کی واپسی۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نئی دنیا کا آغاز؟

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

ٹرمپ کی واپسی۔۔۔۔۔۔۔۔ایک نئی دنیا کا آغاز؟

ڈونلڈ ٹرمپ کی قیادت ہمیشہ تنازعات کا مرکز رہی ہے، اور ان کے موجودہ اقدامات اس تسلسل کو مزید نمایاں کر رہے ہیں۔ تازہ ترین معاملے میں ایک امریکی فیڈرل جج نے ان کے اس ایگزیکٹو آرڈر کو عارضی طور پر معطل کر دیا ہے جس کے تحت پیدائشی شہریت کے قانون میں تبدیلی کی جا رہی تھی۔ یہ قانون جو امریکی آئین کی چودھویں ترمیم کے تحت قائم ہے، امریکا میں پیدا ہونے والے ہر بچے کو شہریت کا حق دیتا ہے۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ کا کہنا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کریں گے، جس سے ایک نیا قانونی تنازع کھڑا ہوسکتا ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی بطور صدر واپسی امریکی سیاست کا ایک غیر معمولی موڑ ہے، لگتا ہے وہ ایک نئی دنیا کی تشکیل کرنے جارہے ہیں، امریکی محکمہ خارجہ کی ایک لیک شدہ اندرونی دستاویز کے مطابق امریکا نے تمام جاری غیر ملکی امداد کو معطل کر دیا ہے اور کسی بھی نئی امداد کی عملدرآمد پر بھی پابندی عائد کر دی ہے، یہ میمو امریکی حکام اور بیرونِ ملک امریکی سفارتخانوں کو ارسال کیا گیا تھا، مذکورہ دستاویز میں واضح کیا گیا ہے کہ صرف خوراک کی ہنگامی امداد اور اسرائیل ومصر کے لیے فوجی امداد کو اس فیصلے سے استثنیٰ حاصل ہے۔ امریکا بین الاقوامی امداد فراہم کرنے والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے جو سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2023 میں 68 ارب ڈالر خرچ کر چکا ہے۔ اسی طرح انہوں نے اپنی افتتاحی تقریر میں نہ صرف گزشتہ انتخابات کو ’’تاریخ کے نتیجہ خیز ترین انتخابات‘‘ قرار دیا بلکہ امریکا کے زوال کو ختم کرنے اور سنہری دور کے آغاز کا اعلان کیا۔ ان کے اس بیان میں سیاسی ایجنڈے کی جھلک نظر آتی ہے جو ایک مرتبہ پھر صرف امریکی مفادات کو ترجیح دینے سے متعلق ہے۔

ٹرمپ کے اس فیصلے میں امریکا کے بیرونِ ملک سفارت خانوں اور مشن کے دفاتر پر پرائیڈ فلیگ (ہم جنس پرستوں کا جھنڈا) یا بلیک لائیوز میٹر (سیاہ فاموں کی حمایت میں) کے جھنڈوں پر پابندی عائد کر کے ’’پرچمِ واحد‘‘ کی پالیسی نافذ کرتے ہوئے صرف امریکی پرچم لہرانے کی ہدایت بھی شامل ہے، جس سے کئی اہم مغربی ایشوز پر امریکا کی پریشانی اور داخلی کشمکش کا پتا چلتا ہے، بلکہ ان کی نئی پالیسی کی ترجیحات بھی واضح ہو رہی ہیں، ٹرانس جینڈرز سے متعلق بائیڈن کا یہ ایگزیکٹو آرڈر 2021ء میں جاری ہوا تھا، جس کا بظاہر مقصد صنفی شناخت کو فوج میں خدمات انجام دینے میں رکاوٹ کے طور پر ختم کرنا تھا۔ لیکن متعلقہ لوگوں کا خیال ہے کہ بائیڈن کی پالیسی کی منسوخی کے باوجود اِس وقت خدمات انجام دینے والے ٹرانس جینڈر اہلکاروں پر فوری طور پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ تاہم ٹرمپ کی یہ کارروائی مستقبل میں ان کے لیے مشکلات پیدا کر سکتی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے پہلے دورِ حکومت میں توانائی کے شعبے میں خودانحصاری، سرحدی سیکورٹی کو بہتر بنانا اور مشرق وسطیٰ میں امن معاہدے جیسے اقدامات اہم کامیابیاں سمجھی جاتی ہیں تاہم ان کی پالیسیوں پر کثرت سے تنقید بھی ہوئی، خاص طور پر امیگریشن پالیسیوں کے حوالے سے۔ ان کی جانب سے میکسیکو بارڈر پر ایمرجنسی لگانے اور غیر قانونی تارکین وطن کی ملک بدری کی مہم نے امریکا کے اندر اور باہر ایک بڑی بحث چھیڑ دی تھی، صدر ٹرمپ کے نئے دور کی ابتدا ہی ایگزیکٹو آرڈرز کے ساتھ ہوئی ہے، ان کے پہلے دن جاری کیے گئے ایگزیکٹو آرڈرز کی تعداد ریکارڈ توڑنے والی رہی ہے اور یہ سلسلہ جاری ہے۔

ٹرمپ کے خیالات اور اقدامات بین الاقوامی تعلقات پر بھی گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں، نہر پاناما کے حوالے سے بیان کہ امریکا کو اسے واپس لینا چاہیے اُن کے جارحانہ رویے کا عکاس ہے۔ اسی طرح ڈیووس میں ورلڈ اکنامک فورم سے خطاب میں کینیڈا کو امریکی ریاست بنانے کی حیرت انگیز پیشکش نے بحث کو جنم دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے دورِ حکومت میں جمہوری اقدار اورعدالتی نظام کے درمیان کشمکش بھی جاری رہی ہے، سابقہ دور میں ان کے کئی فیصلے عدالتوں میں چیلنج کیے گئے تھے اور نئے دور میں بھی ایسی ہی توقعات ہیں، مثال کے طور پر مارٹن لوتھر کنگ جونیئر اور کینیڈی برادران سے متعلق فائلوں کو منظر عام پر لانے کے حکم کو ان کے ناقدین سیاسی حربہ قرار دے رہے ہیں۔ ٹرمپ کے نئے دور کے آغاز نے ایک بات واضح کردی ہے کہ ان کی پالیسیوں کا مرکز ’’پہلے امریکا‘‘ اور ’’خودمختاری کا تحفظ‘‘ ہوگا۔ تاہم ان کی متنازع پالیسیاں، امیگریشن کے سخت قوانین اور عالمی معاہدوں پر نظرثانی جیسے اقدامات مستقبل میں امریکا کی داخلی سیاست اور عالمی حیثیت پر کیا اثر ڈالیں گے یہ وقت ہی بتائے گا۔ لیکن ماہرین موجودہ حالات اور فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ ضرور کہہ رہے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ مسلمانوں کے لیے کسی طور سازگار نظر نہیں آتی۔ مشرق وسطیٰ کے تناظر میں ان کی پالیسیوں کا محور اسرائیل کو عرب اور اسلامی دنیا سے تسلیم کرانا ہے اس مقصد کے حصول کے لیے وہ سفارتی دباؤ سے لے کر جبر کا ہر ممکنہ ہتھکنڈا اپنانے کے لیے تیار دکھائی دیتے ہیں۔ اب دیکھنا ہے کہ کیا ٹرمپ کی پالیسیاں داخلی طور پر امریکا کے لیے بہتری کی علامت ثابت ہوسکتی ہیں؟ اس کا جواب جلد سامنے آنا شروع ہوجائے گا۔ ٹرمپ کی پالیسیوں کے اثرات نہ صرف امریکا بلکہ پوری دنیا کے سیاسی اور اقتصادی نظام پر محسوس کیے جائیں گے، اس ضمن میں پوری دنیا کو ہوشیار رہنا ہوگا کیونکہ ٹرمپ کچھ بھی کرسکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کی پالیسیوں ایگزیکٹو ا امریکا کے ٹرمپ کے ٹرمپ کی کے لیے

پڑھیں:

امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2026 کے لیے تارکینِ وطن کے داخلے کی نئی حد مقرر کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ آئندہ سال صرف 7,500 افراد کو امریکا میں امیگریشن کی اجازت دی جائے گی، یہ 1980 کے ”ریفوجی ایکٹ“ کے بعد سب سے کم حد ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ ان کی حکومت امریکی تاریخ میں امیگریشن کی سطح کم کرنے جا رہی ہے، کیونکہ ”امیگریشن کو کبھی بھی امریکا کے قومی مفادات کو نقصان نہیں پہنچانا چاہیے۔“

انہوں نے مزید دعویٰ کیا کہ جنوبی افریقہ میں سفید فام افریقیوں کو نسل کشی کے خطرات لاحق ہیں، اسی وجہ سے ان افراد کو ترجیحی بنیادوں پر ویزے دیے جائیں گے۔ واضح رہے کہ فی الحال امریکا کا سالانہ ریفیوجی کوٹہ 125,000 ہے، لیکن ٹرمپ کی نئی پالیسی کے تحت یہ تعداد 7,500 تک محدود کر دی گئی ہے۔

ٹرمپ انتظامیہ کے مطابق نئی پالیسی کے تحت پناہ گزینوں کی سیکیورٹی جانچ مزید سخت کر دی جائے گی، اور کسی بھی درخواست دہندہ کو داخلے سے پہلے امریکی محکمہ خارجہ اور محکمہ داخلہ دونوں کی منظوری لازمی حاصل کرنا ہوگی۔

جون 2025 میں صدر ٹرمپ نے ایک نیا ایگزیکٹو آرڈر جاری کیا تھا جس کے ذریعے غیر ملکی شہریوں کے داخلے کے ضوابط میں بھی تبدیلی کی گئی۔ ان ضوابط کے تحت ”غیر مطمئن سیکیورٹی پروفائل“ رکھنے والے افراد کو امریکا میں داخلے سے روکنے کا اختیار حکومت کو حاصل ہو گیا ہے۔

انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس فیصلے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ادارہ برائے مہاجرین کے سابق مشیر کے مطابق یہ اقدام امریکا کی طویل عرصے سے جاری انسانی ہمدردی اور مہاجرین کے تحفظ کی پالیسیوں سے کھلا انحراف ہے۔

نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے اپنے بیان میں کہا کہ ”یہ فیصلہ رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تفریق کے مترادف ہے، اور امریکا کی امیگریشن تاریخ کو نصف صدی پیچھے لے جا سکتا ہے۔“

سیاسی ماہرین کے مطابق ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی ایک طرف انتخابی وعدوں کی تکمیل ہے، جبکہ دوسری جانب یہ ان کے ووٹ بینک کو متحرک رکھنے کی کوشش بھی ہے، خاص طور پر اُن حلقوں میں جو غیر ملکی تارکینِ وطن کی مخالفت کرتے ہیں۔

امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق، وائٹ ہاؤس کے اندر بھی اس فیصلے پر اختلافات پائے جاتے ہیں، کیونکہ کئی سینئر حکام کا ماننا ہے کہ اس پالیسی سے امریکا کی عالمی ساکھ اور انسانی حقوق کے میدان میں قیادت کو نقصان پہنچے گا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر یہ پالیسی نافذالعمل رہی تو لاکھوں پناہ گزین، بالخصوص مشرقِ وسطیٰ، افریقہ اور جنوبی ایشیا سے تعلق رکھنے والے افراد، امریکا میں داخلے کے مواقع سے محروم ہو جائیں گے، جبکہ سفید فام جنوبی افریقیوں کو ترجیح دینے کا فیصلہ دنیا بھر میں شدید تنازع کا باعث بن سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • ہمارے ایٹمی ہتھیار پوری دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتے ہیں، امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکا کو کرپٹو کا چیمپئن بنانا چاہتا ہوں: ٹرمپ
  • امریکا کے پاس اتنے ایٹمی ہتھیار ہیں کہ پوری دنیا کو 150 مرتبہ تباہ کر سکتا ہے: امریکی صدر
  •  صدر نکولاس مادورو کے دن گنے جاچکے ہیں‘ ٹرمپ کی دھمکی
  • امریکا ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرتا تب تک مذاکرات نہیں کریں گے: ایران
  • وینزویلا صدر کے دن گنے جاچکے، ٹرمپ نے سخت الفاظ میں خبردار کردیا
  • امریکا جب تک ملعون اسرائیل کی حمایت بند نہیں کرے گا، مذاکرات نہیں کریں گے؛ ایران
  • وینیزویلا سے جنگ کا امکان کم مگر صدر نکولس مادورو کے دن گنے جاچکے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • امریکا: تارکین وطن کے ویزوں کی حد مقرر: ’سفید فاموں کو ترجیح‘
  • ’عیسائیوں کا قتلِ عام‘: ٹرمپ کی نائجیریا کے خلاف فوجی کارروائی کی دھمکی