Nai Baat:
2025-06-10@06:25:23 GMT

پتھروں کے زمانے کی قوم

اشاعت کی تاریخ: 26th, January 2025 GMT

پتھروں کے زمانے کی قوم

اِسلام آباد میں 11اَور 21جنوری 2025ءکو مسلم معاشروں میں لڑکیوں کی تعلیم، مواقع اَور چیلنجز کے موضوع پر رابطہ اِسلامی اَور مسلم ورلڈ لیگ کے زیر اہتمام ایک بین الاقوامی کانفرنس منعقد کی گئی۔ اِس کانفرنس کے آخر میں جو اعلامیہ جاری ہوا ا±س میں کہا گیا کہ شرکاءیہ واضح پیغام دیتے ہیں کہ اِسلام اَور لڑکیوں کی تعلیم کو بدنام کرنا بند کیا جائے۔ شرکاءنے لڑکیوں کی تعلیم صرف مذہبی نہیں بلکہ معاشرتی اِعتبار سے بھی اہم قرار دی۔ شرکاءنے کہا کہ لڑکیوں کی تعلیم میں حائل اِنتہاءپسندانہ خیالات، فتوے اَور نظریات سے خبردار کیا جاتا ہے۔ کانفرنس میں او آئی سی کے نمائندے بھی شریک ہوئے۔
ایک طرف دیکھا جائے تو یہ کانفرنس ہونا خوش آئندہے کہ اَب اِس موضوع پر سرعام گفتگو ہورہی ہے اَور پوری اِسلامی د±نیا سے مندوبین اِس میں شریک ہوئے ہیں، سوائے افغانستان کے کہ ا±س نے اِس کانفرنس کا بائی کاٹ کیا تھا۔لیکن د±وسری جانب یہ ایک مذاق بھی ہے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم د±نیا کو اِس موضوع پر کانفرنس کرنے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی۔ کیا ہم آج وہاں کھڑے ہیں جہاں د±نیا دو سو سال قبل موجود تھی؟ مسلمان قوم وہ ہے جسے آج سے چودہ سو سال پہلے یہ ہدایت دی گئی تھی کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد اَور عورت پر فرض ہے۔ اگر ا±س قوم کے اَندر یہ کانفرنس کرنی پڑ رہی ہے تو اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہم چودہ سو سال پہلے سے بھی پیچھے چلے گئے ہیں۔ ہم عرب کے زمانہ جاہلیت میں زِندہ ہیں یا پتھروں کے زمانے میں رہ رہے ہیں۔
خواتین کی تعلیم صرف افغانستان کا مسئلہ نہیں ہے۔ پاکستان کے اَندر بھی بہت سے لوگ اَیسے پائے جاتے ہیں جن کے نزدِیک خواتین کی تعلیم غیراِسلامی کام ہے۔ چنانچہ ہمارے چاروں صوبوں کے دیہی علاقوں میں اَور بعض جگہ شہری علاقوں میں بھی لڑکیوں کی تعلیم کو غیر ضروری، بدعت، غیراِسلامی اَور گناہ تک سمجھا جاتا ہے۔ مسئلہ حل کرنے کے لیے پہلے ا±سے سمجھنا ضروری ہے۔ ہمارے خیال میں پاکستان کی حد تک تو یہ مسئلہ دو دھاری تلوار ہے۔ ایک طرف یہ معاشرتی مسئلہ ہے کہ ہم جس خطے میں رہتے ہیں وہاں کی رِیت رواج عورتوں کو د±وسرے درجے کا اِنسان سمجھتی رہی ہیں۔ ہم ایک طویل عرصہ ہندوو¿ں کے ساتھ رہے ہیں۔ ا±ن کے نزدِیک عورت کی تخلیق کا مقصد مرد کا دِل بہلانا، ا±س کی سیوا کرنا، ا±س کے لیے بچے پیدا کرنا وغیرہ ہیں۔ اِسی لیے شوہر کے مرنے کے بعد عورت اگر ستی ہوجاتی تو اِسے بہت بڑا فعل سمجھا جاتا کہ یہ شوہر کی چتا کے ساتھ ہی زِندہ جل گئی۔ گویا شوہر کے مرنے کے بعد بیوی کے زِندہ رہنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ ہمارے یہاں بھی بیوہ یا طلاق یافتہ عورت کا دوبارہ شادی کرنا بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ لوگ اَب تک شادی کو صرف جنسی لذت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ سمجھتے ہیں۔ اِس سے زیادہ ا±ن کے نزدِیک شادی کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔ چنانچہ مرد اگر د±وسری شادی کرے تو ا±سے بھی ٹھرکی سمجھا جاتا ہے۔ اگر عورت یہ کام کرے تو ا±سے بھی بری نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے یہاں بیوہ یا طلاق یافتہ عورت بھی زِندہ رہتے ہوئے ستی ہوجاتی ہے یا ا±س سے یہی توقع کی جاتی ہے۔
اِس کا د±وسرا پہلو مذہبی ہے۔ مسلمانوں نے اِسلام کی جو تشریح کی ہے ا±س کے مطابق عورت کا کام گھرمیں رہنا، بچے پیدا کرنا اَور ہانڈی روٹی کرنا ہے۔ جو عورت یہ کام کرے وہ بہت ستی ساوتری سمجھی جاتی ہے۔ جو باہر نکل کر کام کرے، تعلیم حاصل کرے ا±سے لوگ اچھی نظروں سے نہیں دیکھتے۔ جو لوگ زیادہ مذہبی ہوجاتے ہیں وہ تو اَیسی عورتوں سے باقاعدہ نفرت کرتے ہیں۔ ا±ن کے نزدِیک یہ صرف گمراہی ہے اَور شیطانی چال ہے۔ وہ مغربی معاشروں کی مثالیں دیتے ہیں کہ وہاں عورتیں گھروں سے باہر نکلیں اَور وہاں فحاشی اَور عریانی کا طوفان کھڑا ہوگیا۔ ا±ن لوگوں کو پاکستان میں زمین کے نیچے ٹھاٹیں مارتا فحاشی کا سمندر نظر نہیں آتا۔ یہاں گھروں کے اَندر جو کچھ ہوتا ہے وہ مغربی معاشرے سے کہیں زیادہ ہے۔ ہمارے ہی لیڈروں اَور مذہبی رہنماو¿ں نے اِس قسم کی باتیں کی ہیں کہ اگر بازار میں کوئی خوبصورت خاتون نظر آجائے تو اگر مرد کا اِیمان خراب نہ ہو تو ا±س مرد میں کوئی ذہنی یا جسمانی بیماری ہے۔ گویا مردانگی کا اِمتحان یہ ہے کہ خوبصورت عورت کے نظر آجانے پر مرد اَپنے آپے سے باہر ہوجائے۔ جہاں اِس قسم کی سوچ پائی جاتی ہو، جو لوگ یوں عورت کو دیکھتے ہوں، ا±س معاشرے میں زنا کا ہونا ایک عام بات ہے۔ چنانچہ اَیسا ہی ہورہا ہے۔ پاکستان میں جنسی جرائم میں وقت کے ساتھ بے پناہ اِضافہ ہوا ہے۔ یہاں تو یہ حال ہے کہ آپ اَپنی بیٹی کو ہی نہیں، بیٹے کو بھی باہر اکیلے بھیجتے ہوئے گھبراتے ہیں کہ نہ جانے کب، کہاں اِسے پکڑ کر اِس کے ساتھ زیادتی کردی جائے گی۔ پھر یہ کہ صرف زیادتی ہی نہیں ہوگی، بعد میں ا±سے قتل بھی کردیا جائے گا تاکہ وہ یہ بتانے کے قابل ہی نہ رہے کہ کس نے یہ کام کیا ہے۔
مسلمانوں کے ایک مخصوص حصے نے قرآن و حدیث کی جو تشریح گزشتہ دو تین سو سالوں میں کی ہے آج ہم ا±س کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ وہ دین جو ہر ایک کو دیکھنے، سوچنے، غوروفکر کرنے کی تلقین کرتا ہے ا±س کے ماننے والے اب یہ کہتے پائے جاتے ہیں کہ زمین ساکن ہے، اِنسان چاند کے بجائے کسی اَور سیارے پر ا±ترا تھا کیونکہ چاند بہت د±ور ہے، علم صرف نماز روزے کے مسائل کو سمجھنے کا نام ہے، لڑکی گھر سے باہر نکلے تو باپ کی ناک کٹ جاتی ہے اَور شوہر بے غیرت قرار پاتا ہے۔ ہمارے علماءنے قرآن سے ہی لڑکیوں کی تعلیم کے خلاف فتوے نکال لیے ہیں۔ آج اگر ہم طالبان کو کوس رہے ہیں تو ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ یہ طالبان آسمان سے نہیں ا±ترے۔ یہ اِسی معاشرے سے نکلے ہیں۔ اِنہوں نے یہیں پر یہ تعلیم حاصل کی ہے کہ اِسلام عورتوں کی تعلیم کے خلاف ہے۔ ا±ن کے نزدِیک یہ سراسر اِسلامی تعلیم ہے کہ علم پر صرف مرد کا حق ہے، عورت مرد کی لونڈی ہے جس کا کام ا±سے جنسی لذت دینا، بچے پیدا کرنا اَور کپڑے دھونا ہے، عورت اول تو گھر سے نکل ہی نہیں سکتی اور اگر نکلے بھی تو اِس طرح کہ وہ سامنے ہوتے ہوئے بھی سامنے نہ ہو۔ یہ تمام خیالات ا±نہوں نے اِسلام کے کھاتے میں ڈالے ہیں۔ یہی حالات پاکستان میں بہت سے علاقوں کا ہے، دِیگر اِسلامی ممالک میں بھی کئی جگہوں پر یہ خیالات پائے جاتے ہیں۔ کیا آج سے چند سال پہلے تک عرب ممالک میں عورت پر یہ پابندی نہیں تھی کہ وہ گاڑی نہیں چلا سکتی یا اکیلی باہر نکل کر سودا سلف نہیں خرید سکتی؟ آج وہی لوگ یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ وہ اِقدامات غلط تھے۔ اَب پاکستانی مسلمان مخمصے میں پڑگئے ہیں کہ پہلے والے کام د±رست تھے یا آج کے۔
جن لوگوں نے قرآن اَور حدیث کی غلط تشریح کی ا±نہوں نے گویا اَپنے خیالات اَور نظریات قرآن اَور حدیث میں گھسانے کی کوششیں کیں۔ یہ کام کرنا سراسر اللہ تعالیٰ پر بہتان باندھنا ہے۔ اِس کی نہایت خوفناک سزا ہے۔ قرآنِ حکیم میں کئی جگہ یہ بات کہی گئی ہے اللہ تعالیٰ کی طرف غلط بات منسوب کرنا جہنم کی آگ خریدنے کے برابر ہے۔ جس نے بھی یہ کام کیا ا±سے بہت سخت سزا ملے گی۔ لہٰذا قرآن و حدیث کا درس دینے والوں پر بڑی بھاری ذِمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ا±ن کی غلط تشریح کرنے سے باز رہیں اَور اللہ تعالیٰ اَور نبی اکرم کے منہ میں اَپنے الفاظ ڈالنے کے جرم سے پرہیز کریں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: لڑکیوں کی تعلیم ا ن کے نزد یک سمجھا جاتا جاتا ہے کے ساتھ جاتی ہے رہے ہیں ا سلامی سو سال ا سلام سے بھی یہ کام ہیں کہ

پڑھیں:

بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ (Eid Story)

بلوچستان پاکستان کا رقبے کے لحاظ سے سب سے بڑا مگر تعلیمی لحاظ سے سب سے پسماندہ صوبہ ہے۔ یہاں تعلیمی سہولیات کی کمی، اسکولوں کی ناکافی تعداد، اساتذہ کی غیر حاضری اور والدین میں تعلیم کی اہمیت کا شعور نہ ہونا جیسے عوامل نے تعلیمی ترقی کو سخت متاثر کیا ہے۔ دیگر صوبوں کی نسبت بلوچستان میں اسکول جانے والے بچوں کی شرح کم اور شرح خواندگی بھی نہایت کم ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا کہ بلوچستان میں اسکولوں سے باہر بچوں کی تعداد کیا ہے؟

یہ بھی پڑھیں: بلوچستان میں 85 فیصد غیر فعال اسکولوں میں تدریس کا آغاز

یہ سوال وی نیوز نے اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر ڈیویلپمنٹ، مانیٹرنگ اینڈ ایویلیوایشن منیر احمد سے کیا جنہوں نے بتایا کہ موجودہ تعلیمی صورتحال کے پیش نظر وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ملک میں تعلیمی ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے، ملک بھر میں 2 کروڑ 62 لاکھ بچے جبکہ بلوچستان میں 29 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کی ہدایت پر صوبے میں اسکولوں سے باہر بچوں کو اسکولوں تک لانے کا پروگرام شروع کیا گیا ہے جس کے لیے ہم نے 2 لاکھ 10 ہزار بچوں کو اسکول لانے کا ہدف مقرر کیا جس کے لیے کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔

ڈائریکٹر اسکول ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ بلوچستان کے مطابق یہ ٹیمیں ایک سال کے دوران 2 لاکھ 26 ہزار 563 طلبا کو اسکول لانے میں کامیاب ہوئیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں امید ہے کے رواں ماہ کے اختتام تک ہم ڈھائی لاکھ بچوں کو اسکول لانے میں کامیاب ہو جائیں گے، اس دوران جہاں وزیر تعلیم راحیلہ درانی اور محکمہ تعلیم نے دن رات کوششیں کیں وہیں یونیسف کے تعاون کے بغیر یہ سب ناممکن ہوتا۔

ڈائریکٹر نظامت اسکولز اختر محمد کھیتران نے وی نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ماضی میں بلوچستان کے تعلیمی نظام میں کئی مسائل موجود تھے لیکن محکمہ تعلیم کی کاوشوں اور یونیسف کے مشکور ہیں جنہوں نے بلوچستان میں تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں احسن قردار ادا کیا۔

مزید پڑھیے: محکمہ تعلیم بلوچستان کا 29 لاکھ بچوں کو اسکولوں میں واپس لانے کا عزم، 372 غیر حاضر اساتذہ نوکری سے فارغ

انہوں نے کہا کہ دراصل بلوچستان میں بڑے پیمانے پر بچے اسکولوں سے باہر ہیں جس کی کئی بنیادی وجوہات ہیں جن میں ایک وجہ فاصلے کا زیادہ ہونا سب سے بڑی وجہ تھا جس پر قابو پانے کے لیے ہم نے صوبے بھر کے لیے 140 بسیں منگوائی ہیں جن میں سے 5 آچکی ہیں جبکہ باقی مرحلہ وار پہنچ جائیں گی۔

یہاں سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ بلوچستان میں بچوں کے اسکولوں سے باہر ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟

 پروگرام منیجر ڈائریکٹر آف اسکول ایجوکیشن نقیب اللہ نے بتایا کہ بلوچستان میں تعلیمی صورتحال اب بھی کئی چیلنجز سے دوچار ہے، جہاں اندازاً 30 لاکھ بچے اسکولوں سے باہر ہیں۔ اس تعلیمی پسماندگی کی کئی اہم وجوہات ہیں جن میں غربت، اسکولوں کا طویل فاصلہ، موسمیاتی تبدیلیاں، کورونا کی وبا، روزگار کے مواقع کی کمی، تعلیمی اداروں میں بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی، تقریباً 3 ہزار اسکولوں کی بندش اور تعلیمی نظام میں ناقص تدریسی و جانچ کے طریقہ کار شامل ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں پرائمری اسکولوں کی تعداد زیادہ جبکہ مڈل اور ہائی اسکولوں کی تعداد نسبتاً کم ہے جس سے تعلیمی تسلسل میں خلل پیدا ہوتا ہے۔ سیکیورٹی کے مسائل، اساتذہ کی کمی اور طلبہ کی کم حاضری بھی تعلیم کی راہ میں بڑی رکاوٹیں ہیں۔ان مشکلات کے مقابلے کے لیے یونیسف بلوچستان کے تعلیمی شعبے میں مدد فراہم کر رہا ہے۔ یونیسف کی معاونت سے بلوچستان ایجوکیشن سیکٹر پلان تیار کیا گیا، جس کے تحت اساتذہ کی پیشہ ورانہ تربیت، اسیسمنٹ میکینزم کی بہتری اور اسکولوں کی بنیادی سہولیات کی فراہمی پر خصوصی توجہ دی جا رہی ہے۔

نقیب اللہ نے بتایا کہ ہم نے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں ٹرانزیشنل اسکول شیلٹرز قائم کیے گئے اور اسکول مانیٹرنگ کے لیے ریئل ٹائم سسٹم متعارف کرایا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متبادل تعلیمی راستے (Alternative Learning Pathways) بھی متعارف کرائے گئے ہیں، جن کے ذریعے ہزاروں بچوں کو دوبارہ تعلیم کے دائرے میں لایا گیا ہے۔ یونیسف نے اسکل بیسڈ تعلیم کی شروعات کی ہے جس میں مڈل ٹیک اور میٹرک ٹیک کی کلاسز شامل ہیں۔

مزید پڑھیں: بلوچستان میں تعلیم کی تنزلی تیزی سے جاری، غیر فعال اسکول ساڑھے 3 ہزار سے متجاوز

ان کا کہنا تھا کہ کمیونٹی کی شمولیت کے لیے والدین اور ٹیچر ایسوسی ایشنز، اسکول مینجمنٹ کمیٹیاں اور لوکل ایجوکیشن کونسلز فعال کی گئی ہیں۔ بچوں میں قیادت پیدا کرنے کے لیے چیمپئن کلبز قائم کیے گئے ہیں اور ماحولیاتی آگاہی و تعلیمی داخلہ مہمات بھی سالانہ بنیاد پر منعقد کی جاتی ہیں۔

نقیب اللہ نے مزید کہا کہ بچوں میں تعلیم کو فروغ دینے کے لیے لائبریریوں کا قیام، بچیوں کی مخصوص مسائل پر آگاہی اور تعلیمی مواد کی فراہمی جیسے اقدامات بھی جاری ہیں۔ ڈسٹرکٹ سطح پر ایجوکیشن گروپس ماہانہ بنیادوں پر میٹنگز کرتے ہیں جبکہ صوبائی سطح پر لوکل ایجوکیشن گروپ ہر 90 دن بعد تعلیمی اہداف کا جائزہ لیتا ہے۔ حالیہ برسوں میں حکومتی اقدامات، بشمول ٹیچرز کی بھرتی اور بند اسکولوں کی بحالی، تعلیم میں بہتری کی طرف اشارہ کر رہے ہیں۔ ڈیجیٹلائزیشن، فیصلہ سازی کے بہتر نظام، اور اسکولوں کی حاضری و سہولیات میں بہتری سے واضح تبدیلی محسوس ہو رہی ہے۔

انہوں نے توقع ظاہر کی کہ اگر موجودہ رفتار سے اقدامات جاری رہے تو بلوچستان کا تعلیمی مستقبل روشن ہونے کی امید ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آؤٹ آف اسکول بلوچستان بلوچستان اسکول سے باہر بچے بلوچستان کے اسکول بلوچستان میں تعلیم کی صورتحال

متعلقہ مضامین

  • دنیا کے سب سے بہتر تعلیمی نظام کے حامل ممالک کونسے ہیں؟
  • تعلیم اور صحت پر جی ڈی پی کا ایک فیصد سے بھی کم خرچ، شرح خواندگی 60.65 فیصد، اوسط عمر 67.6 سال
  • اقتصادی سروے: پاکستان نے آئی ٹی، ٹیلی کام، صحت اور تعلیم کے شعبے میں کیا کیا؟
  • پنجاب شرح تعلیم میں سرفہرست ، کے پی سب سے پیچھے
  • گرمی کی چھٹیوں میں کون سکول حاضر رہے گا؟ حکم نامہ جاری
  • نئے بجٹ میں دفاع، تنخواہوں اور پنشن میں اضافہ متوقع:تعلیم نظرانداز
  • نیشنل کرکٹ اکیڈمی کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا میرا مقصد ہے: عاقب جاوید
  • بلوچستان میں کتنے بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور انہیں تعلیمی اداروں میں واپس کیسے لایا جاسکتا ہے؟ (Eid Story)
  • امریکا میں سب نے اتفاق کیا کہ پانی کو بطور ہتھیار استعمال کرنا خطرناک ہے: شیری رحمٰن
  • پاکستان کو 30 سیکنڈ میں یہ فیصلہ کرنا تھا کہ بھارت نے ایٹمی حملہ کیا یا نہیں، بلاول بھٹو