پاکستان اٹامک انرجی کمیشن (پی اے ای سی) کے مغوی کنٹریکٹ ملازم کی لاش ضلع لکی مروت کے دور افتادہ اور دشوار گزار علاقے ظریف وال سے برآمد کرلی گئی۔ ایک بزرگ نے بتایا کہ مقامی عمائدین، یرغمالیوں کے رشتے دار اور شہری تنظیموں کے مسلح ارکان مغوی ملازمین کی تلاش میں علاقے میں داخل ہوئے تھے۔بزرگ کا کہنا تھا کہ ’وہ لوگ جمعہ کو سیکیورٹی فورسز کی جانب سے عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں پر گولہ باری کی اطلاعات سننے کے بعد وہاں گئے۔تاہم اس آپریشن کی سرکاری طور پر کوئی تصدیق نہیں کی گئی اور نہ ہی پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) نے ان ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کے حوالے سے کوئی بیان جاری کیا ہے۔سوشل میڈیا پر زیر گردش ایک ویڈیو میں مسلّح عمائدین اور پہاڑی علاقے کے رہائشی نظر آرہے ہیں، جب کہ بزرگ نے انکشاف کیا کہ اغوا کاروں نے ریحان اللہ(مغوی اہل کار) کی لاش عمائدی کے حوالے کردی تھی.

جسے بعد میں گورنمنٹ سٹی اسپتال منتقل کردیا گیا۔انہوں نے اس بات کی بھی تصدیق کی کہ عمائدین نے کوچ ڈرائیور نواز خان کی رہائی کو یقینی بنایا، جسے 9 جنوری کو پی اے ای سی کے کنٹریکٹ ملازمین کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا۔ان کا مزید کہنا تھا کہ ’عمائدین، عسکریت پسند رہنماؤں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں .تاکہ یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی ممکن بنائی جا سکے۔اسپتال میں طبی و قانونی کارروائی کے بعد ریحان اللہ کی لاش لواحقین کے حوالے کردی گئی. جسے بعداز نماز جنازہ مقامی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا. جہاں ضلع بھر سے لوگوں کی بڑی تعداد نے شرکت کی۔

دوسری جانب شاپ کیپرز یونین کے عہدیداروں نے گرینڈ جرگے کی کال پر پیر کے روز لکی مروت شہر میں مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا ہے۔ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ تاجر برادری یرغمالیوں کی بحفاظت رہائی کو یقینی بنانے کے لیے عمائدین کی مکمل حمایت کرے گی، جب کہ تاجروں نے آئندہ احتجاجی مظاہروں میں شرکت کا بھی اعلان کردیا ہے۔

ذریعہ: Nawaiwaqt

پڑھیں:

کالج کی ’مغوی‘ طالبہ36 روز بعد عدالت میں پیش، عمر کے تعین کا حکم، یہ کیسے ہوگا اور کیا طریقہ کار ہے؟

شہر قائد کے علاقے سیکٹر ایل ون سے 36 روز لاپتہ ہونے والی 16 سالہ کالج علیشاہ کی طالبہ کو عدالت نے دارالامان منتقل کرنے کا حکم دے دیا۔

ایکسپریس نیوز کے مطابق 30 ستمبر کو گھر سے کالج کیلیے نکلنے والی علیشاہ کا عدالت میں پیشی سے قبل اہل خانہ سے کوئی رابطہ نہیں ہوسکا تاہم آج والدین کا عدالت میں بیٹی کے ساتھ آمنا سامنا ہوا۔

اس کیس کی ایف آئی آر 15 اکتوبر کو درج ہوئی جس کے بعد مبینہ طور پر ملزمان نے اہل خانہ کو دھمکیاں دے کر قانونی چارہ جوئی سے دستبردار ہونے اور 20 لاکھ روپے ادائیگی کا مطالبہ کیا تھا۔

والدہ صائمہ کے مطابق کیس کا مرکزی ملزم رفیق بگٹی ہے جبکہ بیٹی کے اغوا میں اُس کے تین ساتھی حمد علی، علی اور منظر شامل ہیں جنہوں نے گھر آکر اہل خانہ کو دھمکایا اور 24 اکتوبر کی رات مبینہ طور پر فائرنگ بھی کی تھی۔

گزشتہ روز ملزمان کی جانب سے علیشاہ کو سٹی کورٹ میں جوڈیشل مجسٹریٹ 17 کی عدالت میں پیش کیا گیا تاہم جج نے سماعت کو آج تک ملتوی کردیا گیا تھا۔

درخواست گزار (لڑکی کی والدہ) صائمہ کے مطابق آج اُن کی بیٹی کو ملزمان عدالت میں لے کر پیش ہوئے، بچی کے ساتھ لڑکا، اُس کی ماں، بہن اور دیگر 25 سے 27 لوگ تھے جو پوری تیاری کے ساتھ آئے ہوئے تھے۔

عدالت میں لڑکی کو جب مجسٹریٹ کے سامنے 164 کے بیان کیلیے پیش کیا گیا تو درخواست گزار کے وکیل ایڈوکیٹ سلمان مجاہد بلوچ نے سب سے پہلے عمر کا معاملہ اٹھایا اور لڑکی کے میڈیکل ٹیسٹ کا مطالبہ کیا۔

انہوں نے عدالت سے استفسار کیا کہ لڑکی کو تفتیشی افسر کی تحویل میں دیا جائے اور اگر وہ گھر نہیں جانا چاہتی تو پھر اُس کو دارالامان منتقل کیا جائے کیونکہ خدشہ ہے کہ 36 روز میں لڑکی پر بہت زیادہ دباؤ ڈال کر اُس کا دماغ بنایا گیا ہے تاکہ وہ ملزمان کو بچانے کیلیے اُن کے حق میں بیان دے۔

ملزمان کے وکیل نے دفاع میں درخواست گزار کے وکیل کی جرح پر اعتراض کیا اور کہا کہ ’لڑکی کا نکاح ہوچکا ہے لہذا اسے شوہر کے ساتھ جانے کی اجازت دی جائے، لڑکی اپنے گھر نہیں بلکہ شوہر کے ساتھ رہنا چاہتی ہے‘۔

سماعت کے دوران جج نے درخواست گزار کے وکیل کی استدعا پر لڑکی کا بیان مجسٹریٹ نے اینٹی ریپ کے تحت اکیلے میں قلم بند کروایا۔ پھر جج نے عمر کا تعین کرنے کیلیے تفتیشی افسر کو ہدایت کی اور لڑکی کو اگلی سماعت تک دارالامان منتقل کرنے کا حکم دیتے ہوئے میڈیکل رپورٹس بھی جمع کروانے کی ہدایت کی۔

ملزمان کا کہنا ہے کہ لڑکی نے اپنی مرضی اور پسند سے نکاح کیا اور اس کا ثبوت بھی موجود ہے جبکہ لڑکی خود مجسٹریٹ کے سامنے اعتراف کرنا چاہتی ہے۔

اُدھر لڑکی نے عدالت میں والدین کے ساتھ جانے انکار کیا جبکہ والدہ کی ملاقات کی کوشش کو ملزمان کے وکلا نے روکتے ہوئے علیشاہ کو والدہ سے ملنے نہیں دیا اور کہا کہ لڑکی خود کسی سے ملنا نہیں چاہتی۔

جج کی جانب سے جاری ہونے والے آرڈر میں تفتیشی افسر کو ہدایت کی گئی ہے کہ اگلے احکامات تک لڑکی کو اپنی حفاظتی تحویل میں رکھیں، (اس دوران علیشاہ کو کسی سے ملاقات کی اجازت نہیں ہوگی) جبکہ عدالتی حکم نامے میں لڑکی کو کم عمر لکھا گیا ہے جس کا مطلب کہ قانونی طور پر شادی کیلیے اُس کی عمر مقررہ حد سے کم ہے۔

عمر کا تعین کیسے ہوگا؟

پاکستان میں عدالتیں عمر کا تعین کرنے کیلیے ہڈیوں (آسییفیکیشن) ٹیسٹ کیا جاتا ہے، جس کے تحت ہڈیوں کی کثافت کی بنیاد پر عمر کا تعین کیا جاتا ہے۔

ٹیسٹ کیسے ہوتا ہے؟

طبی ماہرین کے مطابق کسی بھی شخص کی عمر کے تعین کیلیے کلائی، کہنی، کاندھے اور کولہے کی ہڈیوں کا ایکسرے کر کے جوڑوں کے جڑنے کا مشاہدہ کیا جاتا ہے۔

اس ٹیسٹ کی رپورٹ ایک چارٹ کی صورت میں سامنے آتی ہے جس میں ہڈیوں کی عمر کا تعین ہوتا ہے تاہم طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ حتمی نہیں بلکہ قریب قریب ہوتا ہے۔

یہاں ایک بات بہت اہم ہے کہ انسانی کی جسامت، خاندان کے اعتبار سے ہڈیوں کے بڑھنے کی رفتار مختلف ہوتی ہے جبکہ متعدد مواقعوں پر غذائیت، صحت اور کم خوراک کی وجہ سے ہڈیوں کی نشوونما بھی متاثر ہوسکتی ہے۔

طبی ماہرین کے مطابق اس ٹیسٹ کی رپورٹ میں ایک دو سال کم یا زیادہ ہوسکتے ہیں۔

’ہڈیوں کا ٹیسٹ ثانوی ثبوت ہے‘

ماہر قانون نے بتایا کہ پاکستان سمیت کئی ممالک کی عدالتیں اس ٹیسٹ کی رپورٹ کو ثانوی ثبوت کے طور پر لیتی ہیں اور اصل ثبوت کے طور پر پیدائشی سرٹیفیکٹ، تعلیمی اسناد سمیت دیگر دستاویزات کو ترجیح دی جاتی ہے۔

اگر لڑکی کم عمر نکلی تو کیا ہوگا؟

ایڈوکیٹ سلمان مجاہد بلوچ نے بتایا کہ اگر ٹیسٹ کی رپورٹ میں لڑکی کی عمر کم آتی ہے تو کیس مزید مضبوط ہوسکتا ہے اور پھر یہ مقدمہ اینٹی ریپ کی دفعات کے تحت چلے گا۔

انہوں نے بتایا کہ ٹیسٹ رپورٹ عمر کم آنے کے بعد اگلے مرحلے میں والدین کی جانب سے عدالت میں بچی کی تحویل کیلیے درخواست دائر کی جائے گی اور پھر تنسیخ نکاح (خلع) کو چلینج کیا جائے گا۔

دوسری جانب سندھ ہائیکورٹ میں علیشاہ کی گمشدگی پر دائر درخواست کی سماعت 11 نومبر کو مقرر ہے جس میں جج نے ایس ایچ او سے جواب طلب کیا ہے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل کراچی کے علاقے ملیر کی رہائشی ایک لڑکی کو بھی جھانسے میں لانے کے بعد پنجاب میں نکاح کیا گیا تھا، یہ کیس کئی ماہ تک چلتا رہا جس کے بعد اب بچی اپنے والدین کے ساتھ ہے۔

اس کیس میں عدالت نے جب ہڈیوں کے ٹیسٹ کے ذریعے عمر کے تعین کی ہدایت کی تو اُس کی عمر نکاح کیلیے مقررہ کی گئی حد سے کم آئی تھی۔

یاد رہے کہ پاکستان میں کم عمری کی شادیوں کے حوالے سے قانون موجود ہے اور لڑکی یا لڑکے کی شادی کیلیے کم از کم عمر کا تعین کیا گیا ہے۔ قانون کی خلاف ورزی پر نہ صرف نکاح کرنے والے بلکہ نکاح خواں کو بھی سخت سزائیں دی جاتی ہیں، جن میں قید اور جرمانے شامل ہیں۔

ہر صوبے میں شادی کے حوالے سے عمر کی حد مختلف ہے

سندھ میں چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت لڑکی اور لڑکے کی عمر کم از کم اٹھارہ سال، پنجاب میں لڑکی کی عمر 16 اور لڑکے کی 18 سال، خیبرپختونخوا، بلوچستان میں بھی عمر کی حد یہی ہے۔

خلاف ورزی پر جرمانے اور سزائیں

سندھ

سندھ میں چائلڈ میرج ایکٹ کی خلاف ورزی ناقابل ضمانت اور قابل گرفتاری جرم ہے، جس پر تین سال سزا اور 45 ہزار روپے تک جرمانہ یا پھر دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی پر نکاح خواں، والدین یا سرپرست اور نکاح میں معانت کرنے والے تمام افراد کو قانونی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

پنجاب

دستیاب معلومات کے مطابق پنجاب چائلڈ میرج ریسٹرینٹ (ترمیمی) ایکٹ کی خلاف ورزی پر 6 ماہ قید یا 50 ہزار روپے تک جرمانے یا پھر دونوں سزائیں ہوسکتی ہیں۔ یہاں بھی نکاح خواں، والدین یا کسی بھی معاون کو سزا دی جا سکتی ہے۔

 

متعلقہ مضامین

  • کالج کی ’مغوی‘ طالبہ36 روز بعد عدالت میں پیش، عمر کے تعین کا حکم، یہ کیسے ہوگا اور کیا طریقہ کار ہے؟
  • لکی مروت: مسلح افراد ٹرک سے 8 بائیکس لوٹ کر لے گئے، کارروائی کس نے کی؟
  • پاکستان کی اسرا وسیم جوجٹسو ایتھلیٹس کمیشن کی رکن منتخب
  • پنجاب حکومت کا بڑا فیصلہ، مستقل ملازمت کا قانون منسوخ
  • خواتین نے ہنی ٹریپ اور جنسی ہراسانی کا نشانہ بنایا، کمرے میں خفیہ کیمرے لگائے گئے، شیر افضل مروت کا انکشاف
  • فیکٹری کے ایک ملازم کے اکاؤنٹ میں تمام ملازمین کی تنخواہ ٹرانسفر
  • خیبر، دہشتگردوں نے جرگہ مذاکرات پر مغوی پولیس اہلکار کو رہا کردیا
  • خیبر، دہشت گردوں نے مغوی پولیس اہلکار رہا کردیا
  • خیبر،جرگہ مذاکرات، دہشتگردوں نے مغوی پولیس اہلکار رہا کردیا
  • روس میں فیکٹری ملازم کو تمام ملازمین کی تنخواہیں غلطی سے وصول، واپس کرنے سے انکار