Express News:
2025-04-25@11:22:43 GMT

دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشنز

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

پاکستان کی سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں 24 اور 25 جنوری کو انٹیلی جنس بیسڈ تین کامیاب آپریشنز کیے ہیں۔ان کارروائیوں میں 30 دہشت گرد مارے گئے ہیں جب کہ 8 زخمی ہونے کی اطلاعات ہیں۔ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے مطابق خوارج کی موجودگی کی اطلاع ملنے پر سیکیورٹی فورسز نے ضلع لکی مروت میں آپریشن کیا، اس کارروائی میں 18 خوارج جہنم واصل کیے گئے ہیں جب کہ 6 خوارج زخمی ہوئے ہیں۔

ضلع کرک میں ایک اور انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کیا گیا،فائرنگ کے تبادلے کے دوران سیکیورٹی فورسز نے موثر طریقے سے 8 خوارج کو ہلاک کر دیا۔ضلع خیبر کے علاقے باغ میں کی گئی تیسری کارروائی میں فورسز نے کامیابی سے 4 خوارج کو ہلاک کر دیا جن میں خارجی سرغنہ عزیز الرحمن عرف قاری اسماعیل اور خارجی مخلص شامل ہیں جب کہ دو خوارج زخمی ہو ئے ہیں۔

مرنے والے دہشت گرد سیکیورٹی فورسز کے خلاف دہشت گردی کی متعدد کارروائیوں کے ساتھ ساتھ معصوم شہریوں کے قتل میں بھی ملوث تھے۔ صدر مملکت آصف علی زرداری ،وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے خیبر پختونخوا میں کامیاب کارروائیوں کے دوران 30 خوارج دہشت گردوں کو جہنم واصل کرنے پر سیکیورٹی فورسز کو خراج تحسین پیش کیا۔

ادھر ڈیرہ اسماعیل کے  علاقے کلاچی میں دہشت گردوں نے فائرنگ کرکے پولیس کانسٹیبل کو شہید کردیا ہے، ضلع ٹانک میں بھی پولیس کانسٹیبل کو گھر سے اغوا کیا گیا ہے اور اس کے مکان کو نذر آتش کر دیا گیا، بعد میں اس کی نعش قریبی کھیتوں سے برآمد ہو گئی ہے۔ خیبرپختونخوا میں دہشت گردوں کے خلاف سیکیورٹی فورسز کی مسلسل کارروائیاں جاری ہیں، ضلع کرم میں بھی آپریشن ہو رہا ہے جس کے اچھے نتائج سامنے آرہے ہیں۔

ادھرسی ٹی ڈی پنجاب کی مختلف کارروائیوں کے دوران کالعدم تنظیم کے 10 دہشت گرد گرفتار کیے گئے، خبر میں بتایا گیا ہے کہ یہ گرفتاریاں لاہور ،راولپنڈی،شیخوپورہ ،بہاول نگر ،میانوالی، سرگودھا اور فیصل آباد سے کی گئی ہیں ، دہشت گردوں نے اہم عمارتوں کو ٹارگٹ کرنے کا منصوبہ بنا رکھا تھا ۔یوں دیکھا جائے تو سیکیورٹی ادارے جن میں پاک فوج، ایف سی، رینجرز اور سی ٹی ڈی شامل ہیں، مسلسل آپریشن میں مصروف ہیں جب کہ انٹیلی جنس ادارے بھی پوری تندہی سے اپنے فرائض ادا کررہے ہیں جس کی وجہ سے دہشت گردوں کو خاصا نقصان ہورہا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کی حالیہ لہر کی بنیادی وجہ افغانستان ہے۔ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کی واپسی کے بعد‘ طالبان نے وہاں اقتدار سنبھالا ۔ابھی طالبان فورسز نے کابل پر قبضہ نہیں کیا تھا‘ باگرام جیل کو توڑ کر وہاں قید ایسے دہشت گردوں کو فرار قرار دیا گیا جو پاکستان کو مطلوب تھے اور جنھیں اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کی حکومت نے گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال رکھا تھا۔ اس سے یہ واضح ہو گیا تھا کہ طالبان کے عزائم کیا ہیں۔

طالبان نے کابل کا اقتدار سنبھالا تو اس کے فوراً بعد پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں بتدریج اضافہ دیکھنے میں آیا۔ اب اس میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہا ہے کہ افغان طالبان کی تائید و حمایت سے کالعدم ٹی ٹی پی نے افغانستان میں محفوظ ٹھکانے بنا رکھے ہیں اور ٹی ٹی پی کے لوگ افغانستان میں پوری آزادی کے ساتھ کاروبار بھی کر رہے ہیں۔ پاکستان کی سرحد سے ملحق صوبہ جات سے ٹی ٹی پی کے دہشت گرد پاکستان آ کر کارروائیاں کرتے ہیں۔

ان میں سے کئی مارے جاتے ہیں جب کہ جو دہشت گرد بچ نکلتے ہیں وہ افغانستان فرار ہو جاتے ہیں جہاں ان کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔طالبان نے دوحہ مذاکرات میں اس عہد نامے پر دستخط کیے ہیں کہ طالبان حکومت افغانستان میں موجود تمام دہشت گرد گروپوں کا خاتمہ کرے گی‘ کسی گروپ کو افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہیں کرنے دی جائے گی۔ افغان طالبان نے یہ یقین دہانی بھی کرائی کہ اس سلسلے میں فوری کام شروع کردیا جائے گا لیکن اس پر آج تک عمل نہیں ہوسکا ہے۔

طالبان حکومت کی رٹ افغانستان میں کتنی موثر ہے‘ یہ بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔ طالبان حکومت کو ابھی تک کسی بھی بین الاقوامی طاقت نے براہِ راست تسلیم نہیں کیا اور انھیں اندرونی چیلنجوں کا سامنا بھی ہے۔ طالبان کے اپنے رینک اینڈ فائل میں بھی اختلافات اور گروہ بندی نظر آتی ہے۔ ایسی اطلاعات بھی ہیں کہ ٹی ٹی پی کے کئی ہزار دہشت گرد بلوچستان اور خیبرپختونخوا سے ملحق افغانستان کے صوبوں میں پھیلے ہوئے ہیں جو مختلف گروہوں کی شکل میں حملہ کر کے روپوش ہو جاتے ہیں۔

گزشتہ دنوں پاک فوج کے سربراہ جنرل سید عاصم منیر نے پشاور کا دورہ کیا تھا۔ اس دوران خیبرپختون خوا کی مختلف سیاسی جماعتوں کے نمایندوں نے ان سے ملاقاتیں بھی کی تھیں‘ تمام سیاسی جماعتوں کے نمایندوں نے دہشت گردی کے خلاف مسلح افواج اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غیر متزلزل حمایت پر واضح موقف اپناتے ہوئے دہشت گرد گروپوں کے انتہا پسندانہ فلسفے کے خلاف ایک متحد محاذ کی ضرورت پر اتفاق کیا تھا۔ یہ ایک اچھی پیشرفت ہے بلاشبہ متحدہ سیاسی آواز اور قومی بیانیہ وقت کی اولین ضرورت بن چکا ہے۔ تمام سیاسی جماعتوں کو دہشت گردی کے خلاف واضح عزم کا اظہار کرنا چاہیے اور ایک قومی موقف اختیار کر کے اس حوالے سے اپنا منشور سب سے سامنے رکھنا چاہیے۔

دہشت گردی کے خلاف ہماری سیکیورٹیز ایجنسیاں فرنٹ اور بیک لائن پر سیسہ پلائی ہوئی دیوار کی طرح کھڑی ہیں، اس ناسور کی بیخ کنی کے لیے قوم اور سیاسی و مذہبی قیادت کو بھی متحد ہونا پڑے گا۔ درحقیقت دہشت گردوں کے سہولت کار ہمارے درمیان موجود ہیں۔ پاکستان کی سر زمین پر افغانستان سے لائے جانے والے غیر ملکی اسلحہ کے استعمال کے ثبوت کئی بار پھر منظرِ عام پر آئے ہیں، دہشت گردوں کو افغانستان میں امریکا کا چھوڑا ہوا اسلحہ دستیاب ہے۔ یہ ہتھیار افغانستان کی حکومت کی مرضی کے بغیر دہشت گردوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ دہشت گردوں کو ہتھیاروں کی فراہمی نے خطے کی سلامتی کو خاطر خواہ نقصان پہنچایا ہے۔اس کا اقرار ڈونلڈ ٹرمپ انتظامیہ کے کئی اہم افراد بھی کرتے ہیں۔

کئی غیر ملکی جریدے بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ پاکستان میں ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں نے غیر ملکی ساخت کا اسلحہ استعمال کیا ہے۔ امریکی اور نیٹو افواج انخلا کے وقت افغانستان کی نیشنل آرمی کے پاس بڑی تعداد میں امریکی ہتھیار موجود تھے۔ امریکا نے 2005 سے اگست 2021 کے درمیان افغان قومی دفاعی اور سیکیورٹی فورسز کو تقریباً اٹھارہ ارب ڈالر کا سامان فراہم کیا۔ امریکی انخلا کے بعد ان ہتھیاروں نے ٹی ٹی پی کو سرحد پار دہشت گرد حملوں میں مدد دی ہے۔ یہ تمام حقائق اس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ افغان عبوری حکومت نہ صرف ٹی ٹی پی کو مسلح کر رہی ہے بلکہ دیگر دہشت گرد تنظیموں کے لیے محفوظ راستہ بھی فراہم کر رہی ہے۔

آج ہم دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑ رہے ہیں۔ اس جنگ میں پاکستانی معیشت کو اربوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے۔ طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کو اسٹرٹیجک ڈیپتھ فراہم کر دی ہے۔ افغانستان میں طالبان کی اقتدار میں واپسی کے بعد سے پاکستان میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے۔ طالبان کی اقتدار میں واپسی نے ٹی ٹی پی کو ایک نئی زندگی دے دی۔ ٹی ٹی پی نے طالبان کی فتح کو اپنی فتح کے طور پر منایا۔ ٹی ٹی پی اور طالبان کے درمیان طویل عرصے سے جنگی، سیاسی، نسلی اور نظریاتی روابط ہیں۔ اس لیے طالبان حکومت نے پاکستان کو کوئی مدد دینے کے بجائے ٹی ٹی پی کی مدد کی ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ افغانستان دہشت گردی کی تربیت گاہ بنا ہوا ہے اور افغانستان کی سرزمین پاکستان میں دہشت گردی کے لیے استعمال ہو رہی ہے۔ اس صورتحال میں افغان حکومت کو دوسروں پر بے بنیاد الزام تراشی کے بجائے اپنے معاملات درست کرنے کی ضرورت ہے جس میں پہلی ترجیح اپنے ملک کو دہشت گردوں کے دباؤ اور اثر سے آزاد کرانا ہونا چاہیے۔

پاکستان اندرون ملک دہشت گردوں کے خلاف مسلسل جنگ لڑ رہا ہے۔ لیکن جب تک افغانستان میں طالبان دہشت گردوں کی سہولت کاری بند نہیں کرتے ‘ دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نظر نہیں آتا۔ امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کے برسراقتدار آنے کے بعد صورت حال میں تبدیلی آنے کی توقع ہے۔ دہشت گردی کے حوالے سے ٹرمپ اور ان کے ساتھیوں کا موقف بہت واضح ہے۔ افغانستان کی حکومت کو بدلتے ہوئے حالات میں اپنی پالیسی پر نظرثانی کرنی چاہیے اور دہشت گردوں کے خلاف حقیقی آپریشن کر کے اقوام عالم میں اپنی ساکھ کو بہتر بنانا چاہیے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: دہشت گردوں کے خلاف دہشت گردی کے خلاف سیکیورٹی فورسز افغانستان میں دہشت گردوں کو افغانستان کی طالبان حکومت پاکستان میں ٹی ٹی پی کے ٹی ٹی پی کو طالبان کی طالبان نے ہیں جب کہ فورسز نے میں بھی ہیں کہ کے لیے کے بعد

پڑھیں:

بھارت کے کسی بھی حملے کا بھر پور جواب دیں گے ، ابھیندن یاد ہوگا، وزیر دفاع

اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہےکہ پاکستان بھارت کےکسی بھی حملے کا بھرپور جواب دینے کی پوزیشن میں ہے، فضائی حدود کی خلاف ورزی پر ابھینندن کی شکل میں دیا گیا جواب بھارت کو یاد ہوگا۔ایک  انٹرویو میں خواجہ آصف نے انکشاف کیا کہ کلبھوشن جیسا ایک  اور  بندہ پاکستان  نے ایران افغان سرحد پر پکڑا ہے، بلوچستان میں دہشت گردی کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں، بھارت کی سرپرستی میں بلوچستان میں دہشت گردی ہورہی ہے، جو کچھ جعفر ایکسپریس واقعے میں ہوا سب کو پتا ہےعلیحدگی پسندوں کو بھارت نے پناہ دی ہے، بلوچستان کے علیحدگی پسند بھارت میں جاکر علاج کراتے ہیں، ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے تانے بانے بھی بھارت کےساتھ ملتے ہیں، اس کے کئی ثبوت ہیں۔

 39ویں آئی ای ای ای پی انٹرنیشنل سمپوزیم کا انعقاد ، صنعت اور پیشہ ورانہ انجینئرنگ اداروں کے درمیان روابط کو مضبوط بنانے کا اعلان

خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ بھارت پہلگام واقعے پر دوسروں پر الزام دھرنے کے بجائے خود احتسابی کرے۔ تفتیش کر کے ذمہ داروں کو تلاش کرے، پاکستان پر الزام لگانا نامناسب بات ہے۔ یہ امکان بھی ہےکہ پہلگام حملہ خود بھارت کا "فالس فلیگ آپریشن" ہو۔ان کا کہنا تھا کہ کوئی بھارت سے بھی تو پوچھے کہ اگر مقبوضہ کشمیر میں بیگناہ لوگ مارے جا رہے ہیں تو وہاں کئی عشروں سے موجود سات لاکھ فوج کر کیا رہی ہے؟وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ  دنیا میں کہیں بھی دہشت گردی ہو ہم اس کی مذمت کرتے ہیں، دہشت گردی سے پاکستان سب سے زیادہ متاثر ہے، پاکستان دہائی سے دہشت گردی کا سامنا کر رہا ہے، جو دہشت گردی کا شکار ہیں وہ کیسے دہشت گردی کو فروغ دیں گے، پاکستان کی افواج ہر جگہ دہشت گردی کا مقابلہ کر رہی ہیں۔

بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدہ معطل کرنےکے بعد قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس کل طلب

مزید :

متعلقہ مضامین

  • مودی دہشت گردی کے جہادی جواب کی ضرورت
  •  پاکستان میں دہشت گردی کے لیے  بھارت دراصل کسے مسلح کررہا ہے؟ تہلکہ خیز دعویٰ
  • پاک افغان تعلقات کا نیا دور
  • پاک افغان تعلقات میں نئے امکانات
  • آج پاکستان نے بھارتی گیدڑ بھبکیوں کا جواب دیا، عطا تارڑ
  • بھارت پاکستان کے شہروں پر دہشت گردی کی منصوبہ بندی کررہا ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف
  • بھارت کے کسی بھی حملے کا بھر پور جواب دیں گے ، ابھیندن یاد ہوگا، وزیر دفاع
  • بھارت کی کسی بھی احمقانہ حرکت کا منہ توڑ جواب دیں گے، خواجہ آصف کا اعلان
  • پاکستان اور ترکی کا دہشت گردی کے خلاف متحد ہونے کا عزم
  • دہشت گردوں سے لڑنا نہیں بیانیے کا مقابلہ کرنا مشکل ہے، انوارالحق کاکڑ