ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر نے ملتان کی اسپن پچ کو بہت مشکل قرار دے دیا
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر بیٹسمین ٹیوین املیج نے کہا کہ ہم اچھی بیٹنگ کیلیے پر اعتماد تھے اور بڑی شاٹس بھی کھیلیں لیکن یہ پچ بہت مشکل اور چیلنجنگ ہے۔
کھیل کے دوسرے روز کھیل کے اختتام پر میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ہم نے 3 اننگز یہاں کھیلیں اور اس سے سیکھا ہے، سیکھنے سے ہی چیلینج کا سامنا کیا جا سکتا ہے، ہماری کوشش ہوگی کہ پیر کو پاکستان کو جلدی آؤٹ کر لیں، ہماری پوزیشن بہت مضبوط ہے۔
ٹیوین املیج نے کہا کہ کریبیئن اور یہاں کی اسپن پچ میں بہت فرق ہے، ہماری کنڈیشن کے مقابلے یہاں گیند اسپن زیادہ ہوتی ہے، جو بیٹرز کے لیے بہت زیادہ مشکل ہے، اس طرح کی اسپن پچ ٹیسٹ میچ میں نہیں دیکھی۔
ویسٹ انڈیز کے وکٹ کیپر کا کہنا تھا کہ ہمارے بیٹرز کی طرح اسپن بولرز نے بھی عمدہ گیندیں کیں، ہم پاکستان کے بیٹرز کو مشکل میں ڈالنے اور وکٹیں اڑانے کیلیے پراعتماد ہیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
3 برس میں 30 لاکھ پاکستانی نے ملک چھوڑ کر چلے گئے
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور:3 برس میں تقریباً 30 لاکھ پاکستانی ملک کو خیرباد کہہ گئے، ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی، لاقانونیت، بے روزگاری نے ملک کے نوجوانوں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا۔ محکمہ پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس سے ملنے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ تین سالوں میں پاکستان سے 28 لاکھ 94 ہزار 645 افراد 15 ستمبر تک بیرون ملک چلے گئے۔بیرون ملک جانے والے پروٹیکٹر کی فیس کی مد میں 26 ارب 62 کروڑ 48 لاکھ روپے کی رقم حکومت پاکستان کو اربوں روپے ادا کر کے گئے۔ بیرون ملک جانے والوں میں ڈاکٹر، انجینئر، آئی ٹی ایکسپرٹ، اساتذہ، بینکرز، اکاو ¿نٹنٹ، آڈیٹر، ڈیزائنر، آرکیٹیکچر سمیت پلمبر، ڈرائیور، ویلڈر اور دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل ہیں جبکہ بہت سارے لوگ اپنی پوری فیملی کے ساتھ چلے گئے۔
پروٹیکٹر اینڈ امیگرینٹس آفس آئے طالب علموں، بزنس مینوں، ٹیچرز، اکاو ¿نٹنٹ اور آرکیٹیکچر سمیت دیگر خواتین سے بات چیت کی گئی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ یہاں جتنی مہنگائی ہے، اس حساب سے تنخواہ نہیں دی جاتی اور نہ ہی مراعات ملتی ہیں۔ باہر جانے والے طالب علموں نے کہا یہاں پر کچھ ادارے ہیں لیکن ان کی فیس بہت زیادہ اور یہاں پر اس طرح کا سلیبس بھی نہیں جو دنیا کے دیگر ممالک کی یونیورسٹیوں میں پڑھایا جاتا ہے، یہاں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ جوان جو باہر جا رہے ہیں اسکی وجہ یہی ہے کہ یہاں کے تعلیمی نظام پر بھی مافیا کا قبضہ ہے اور کوئی چیک اینڈ بیلنس نہیں۔
بیشتر طلبہ کا کہنا تھا کہ یہاں پر جو تعلیم حاصل کی ہے اس طرح کے مواقع نہیں ہیں اور یہاں پر کاروبار کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، کوئی سیٹ اَپ لگانا یا کوئی کاروبار چلانا بہت مشکل ہے، طرح طرح کی مشکلات کھڑی کر دی جاتی ہیں اس لیے بہتر یہی ہے کہ جتنا سرمایہ ہے اس سے باہر جا کر کاروبار کیا جائے پھر اس قابل ہو جائیں تو اپنے بچوں کو اعلی تعلیم یافتہ بنا سکیں۔ خواتین کے مطابق کوئی خوشی سے اپنا گھر رشتے ناطے نہیں چھوڑتا، مجبوریاں اس قدر بڑھ چکی ہیں کہ بڑی مشکل سے ایسے فیصلے کیے، ہم لوگوں نے جیسے تیسے زندگی گزار لی مگر اپنے بچوں کا مستقبل خراب نہیں ہونے دیں گے۔