غزہ سفرِ عزمِ نو؛ ہزاروں فلسطینیوں کی کھنڈر بن چکے اپنے گھروں میں واپسی شروع
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
اپنے تباہ حال گھروں کو واپسی اور زندگی کو پھر سے شروع کرنے کے عزم کے ساتھ غزہ کے لاکھوں بے گھر فلسطینی نصیرات کے پناہ گزین کیمپ سے شمالی علاقوں کی جانب روانہ ہونا شروع ہوگئے۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق اسرائیلی فوج نے نتساریم کے علاقے سے انخلا شروع کر دیا جس کے بعد جنوبی علاقوں کے پناہ گزین فلسطینی شمالی علاقوں میں اپنے گھروں کو واپس جانا شروع ہوگئے۔
غزہ کے جنوبی علاقے میں ہزاروں بے گھر فلسطینی ہاتھوں میں اپنا سامان اٹھائے پیدل شمالی علاقوں میں اپنے کھنڈر بن چکے گھروں کی جانب جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔
برسوں کی محنت سے بنائے گئے اپنے گھروں کی تباہی پر امید اور دکھ و کرب کے ملے جلے رجحان ساتھ یہ سفرِ عزمِ نو جاری ہے۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ غزہ کے شمالی علاقوں میں 80 فیصد عمارتیں تباہ مکمل طور پر ہوچکی ہیں۔
اس سفر کے لیے غزہ کے جنوبی علاقے کے ساحل کی شاہراہ الرشید فلسطینی پناہ گزینوں سے بھر چکی ہے۔
خیال رہے کہ غزہ میں وزارت داخلہ نے اس شاہراہ پر گاڑیوں کو عارضی طور پر گزرنے سے روک دیا ہے۔
اسی طرح ایک اور شاہراہ صلاح الدین سے گزرنے والی گاڑیوں کو تلاشی کے مرحلے سے گزرنا ہوگا۔
اسرائیل نے فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے گھروں کو واپسی کے لیے راہداری کھولنے سے انکار کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ پہلے اسرائیلی خاتون قیدی اربیل یہود کو رہا کیا جائے۔
حماس نے اربیل یہود سمیت ایک اور خاتون قیدی کو جمعرات کے روز رہا کرنے کا اعلان کیا جس کے بعد فلسطینی بے گھروں کو اس راہداری سے گزرنے کی اجازت دیدی گئی۔
یاد رہے کہ 29 سالہ اربیل یہود کو بوائے فرینڈ کے ساتھ 7 اکتوبر 2023 کے حماس کے حملے میں تحویل لیا تھا تاہم وہ حماس نہیں بلکہ اسلامی جہاد گروپ کے پاس ہیں۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شمالی علاقوں اپنے گھروں گھروں کو
پڑھیں:
ٹرمپ کو امن کا پیامبر قرار دینا فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے، علامہ بشارت زاہدی
اپنے ایک بیان میں قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر کا کہنا تھا کہ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ اسلام ٹائمز۔ قم المقدسہ میں نمائندہ قائد ملت جعفریہ پاکستان اور مدیر دفتر علامہ بشارت حسین زاہدی کا کہنا تھا کہ وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو "امن کا پیامبر" قرار دینے کے بیان نے بہت سے حلقوں میں شدید غم و غصے اور تشویش کو جنم دیا ہے۔ یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ٹرمپ کی پالیسیاں اور ان کی حکومتی فیصلوں کو عالمی سطح پر، خصوصاً مسلم دنیا میں، سخت تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا ہے۔
بیان پر تحفظات کے اہم نکات:
* فلسطینی تنازعہ اور القدس:
ڈونلڈ ٹرمپ کے دور حکومت میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے القدس منتقل کیا گیا، جس کی عالمی سطح پر شدید مذمت کی گئی اور اسے فلسطینیوں کے حقوق کی صریح خلاف ورزی سمجھا گیا۔ اس فیصلے نے مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کو مزید بڑھاوا دیا اور دو ریاستی حل کی امیدوں کو شدید دھچکا پہنچایا۔ ایک ایسے شخص کو جو اس قسم کے فیصلے کا ذمہ دار ہو، "امن کا پیامبر" کہنا نہ صرف فلسطینیوں کے زخموں پر نمک پاشی کے مترادف ہے بلکہ عالمی امن کے اصولوں کے بھی خلاف ہے۔
* مسلم ممالک سے متعلق پالیسیاں:
ٹرمپ انتظامیہ نے بعض مسلم ممالک پر سفری پابندیاں عائد کیں، جسے "مسلم بین" کا نام دیا گیا تھا۔ یہ پالیسی نہ صرف تعصب پر مبنی تھی بلکہ اس نے عالمی سطح پر اسلامو فوبیا کو بھی فروغ دیا۔ ایسے اقدامات کرنے والے شخص کو امن کا علمبردار قرار دینا کروڑوں مسلمانوں کے جذبات کو مجروح کرنے کے مترادف ہے۔
* مقبولیت پسندی اور تقسیم کی سیاست:
ٹرمپ کی سیاست کو دنیا بھر میں مقبولیت پسندی اور تقسیم کو فروغ دینے والی سیاست کے طور پر دیکھا جاتا ہے، جس سے معاشرتی ہم آہنگی اور عالمی امن متاثر ہوا ہے۔ ان کے بیانات اور پالیسیاں اکثر عالمی سطح پر تصادم اور عدم استحکام کا باعث بنیں۔
اس بیان پر اٹھنے والے تحفظات اور غم و غصے کو سمجھنا مشکل نہیں۔ عوام کی یہ توقع بجا ہے کہ ان کے منتخب نمائندے ایسے بیانات سے گریز کریں، جو قومی غیرت اور عالمی امن کے اصولوں سے متصادم ہوں۔ بین الاقوامی تعلقات میں الفاظ کا چناؤ بہت اہمیت رکھتا ہے اور ایک رہنماء کا بیان ملک کی نمائندگی کرتا ہے۔ ایسے میں، ایک متنازعہ شخصیت کو "امن کا پیامبر" قرار دینا ملک کی خارجہ پالیسی اور عوام کے جذبات کی درست عکاسی نہیں کرتا۔ یہ ضروری ہے کہ ہمارے رہنماء ایسے بیانات دیتے وقت زمینی حقائق اور عوامی جذبات کا پاس رکھیں، تاکہ قومی وقار اور عالمی ساکھ کو برقرار رکھا جا سکے۔