سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال مندوخیل—فائل فوٹو

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار نذر عباس کی انٹرا کورٹ اپیل واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔

سماعت کے دوران جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہم آئین کو فالو کریں گے، فیصلے کو نہیں، یہاں سوال اختیارات سے تجاوزکا ہے، کیا کمیٹی نے اپنا اختیارات سے تجاوز کیا؟ 

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار کیخلاف شوکاز واپس لے لیا

سپریم کورٹ نے ایڈیشنل رجسٹرار سپریم کورٹ کے خلاف شوکاز نوٹس کی کارروائی ختم کر دی۔

جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ آج وکلاء آپ کے سامنے کہہ رہے تھے بینچز اختیارات کو بھی چیلنج کیا ہے؟ آرمی ایکٹ میں ترمیم ہوتے ہی ملٹری ٹرائل والا کیس آئینی بینچ میں آگیا، کس نے لگایا؟

درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ انٹرا کورٹ اپیل اس درخواست کے خلاف تھی، وہ ختم ہو گیا۔

جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ اگر فیصلے پر سوموٹو لینا ہے تو اس کا اختیار آئینی بینچ کے پاس ہے۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ خدانخواستہ اس وقت ہم سب بھی توہینِ عدالت تو نہیں کر رہے؟ 

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اب یہ فیصلہ عدالتی پراپرٹی ہے، ایک بار سارے معاملے کو دیکھ لیتے ہیں، روز کا جو تماشہ لگا ہوا ہے، یہ تماشا تو ختم ہو، دیکھ لیتے ہیں یہ توہین عدالت کی کارروائی شروع کیسے ہوئی، دیکھ لیتے ہیں کیا کمیٹیوں کے فیصلے اس بینچ کے سامنے چیلنج ہوئے تھے؟ میں روز سنتا ہوں کہ مفادات سے ٹکراؤ کا معاملہ ہے، اس لیے ہم نہ بیٹھیں، آج یہ مفادات سے ٹکراؤ والے معاملے پر مجھے بول لینے دیں، آئینی بینچ میں شامل کر کے ہمیں کون سی مراعات دی گئی ہیں؟ ہم روزانہ دو دو بینچ چلا رہے ہیں، دو چیزوں کو پڑھ کر آتے ہیں، کیا یہ مفادات سے ٹکراؤ ہے؟ اگر آئینی بینچ میں بیٹھنا ہمارا مفاد ہے تو پھر شامل نہ ہونے والے متاثرین میں آئیں گے، مفادات سے ٹکراؤ والے اور متاثرین، دونوں پھر کیس نہیں سن سکتے، ایسی صورت میں پھر کسی ہمسایہ ملک کے ججز لانا پڑیں گے، کوئی مجھے بتا دے ہمیں آئینی بینچ میں بیٹھ کر کیا فائدہ مل رہا ہے؟ ہمارا واحد مفاد آئین کا تحفظ کرنا ہے، کیا ہم خود شوق سے آئینی بینچ میں بیٹھے ہیں؟ جس انداز میں توہینِ عدالت کا مرتکب قرار دیا گیا میں کمیٹی اجلاس میں نہیں جاؤں گا، توہینِ عدالت کے نوٹس کا سلسلہ ختم ہو، اس لیے چاہتے ہیں ایسے حکم جاری نہ ہوں، مستقبل میں آنے والے ساتھی ججز کو توہین عدالت سے بچانا چاہتے ہیں۔

آئینی بینچ: 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹسز جاری

سپریم کورٹ کے آئینی بینچ نے 26ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستوں پر فریقین کو نوٹسز جاری کر دیے۔

دورانِ سماعت جسٹس اطہر من اللّٰہ نے کہا کہ آج ایک سینئر سیاستدان کا بیان چھپا ہوا ہے، ملک میں جمہوریت نہیں، بیان ہے کہ ملک آئین کے مطابق نہیں چلایا جا رہا، بدقسمتی ہے کہ تاریخ سے سبق نہ ججز نے سیکھا، نہ سیاستدانوں اور نہ ہی قوم نے، 6 ججز کا عدلیہ میں مداخلت کا خط آیا تو سب نے نظریں ہی پھیر لیں۔

جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ جسٹس اطہر من اللہ تیسری مرتبہ یہ بات کہہ رہے ہیں۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ ہم صرف اٹارنی جنرل کو سننا چاہتے ہیں۔ 

جس پر جسٹس اطہر من اللّٰہ نے سوال کیا کہ موجودہ بینچ کے سامنے کوئی کیس ہی نہیں تو اٹارنی جنرل کو کس نکتے پر سننا ہے؟ 

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ جس علاقہ سے تعلق رکھتا ہوں وہاں روایات کا بہت خیال رکھا جاتا ہے، بدقسمتی سے اس مرتبہ روایات کا بھی خیال نہیں رکھا گیا۔

جسٹس اطہر نے وکیل شاہد جمیل سے سوال کیا کہ کیا آپ نے دو رکنی بینچ میں فُل کورٹ کی استدعا کی تھی؟ 

وکیل شاہد جمیل نے کہا کہ اس بینچ میں بھی استدعا کر رہا ہوں کہ فُل کورٹ ہی اس مسئلے کو حل کرے۔

جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ اگر ہم آرڈر کریں اور فُل کورٹ نہ بنے تو ایک اور توہین عدالت شروع ہوجائے گی۔

سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ بینچ کی اکثریت انٹرا کورٹ اپیل نمٹانے کی وجوہات دے گی۔

جسٹس اطہر من اللّٰہ اور جسٹس شاہد وحید نے درخواست بغیر وجوہات واپس لینے کی بنیاد پر نمٹا دی۔

جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس مسرت ہلالی وجوہات جاری کریں گے۔

.

ذریعہ: Jang News

کلیدی لفظ: جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ سپریم کورٹ نے

پڑھیں:

توہینِ مذہب الزامات پر کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ

اسلام آباد:

توہینِ مذہب الزامات پر کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل قابل سماعت ہونے پر اسلام آباد ہائیکورٹ  نے فیصلہ محفوظ  کرلیا۔ جسٹس خادم حسین سومرو نے وکلا کو ہدایت کی کہ ابتدائی آرڈر ریڈر سے معلوم کر لیجئے گا ۔

جسٹس خادم حسین سومرو اور جسٹس اعظم خان نے کیس کی سماعت کی ، جس میں راؤ عبد الرحیم کی جانب سے وکیل کامران مرتضیٰ و دیگر عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔

جسٹس خادم حسین سومرو نے استفسار کیا کہ اس فیصلے سے آپ متاثرہ کیسے ہیں ؟، جس پر وکیل نے بتایا کہ ہمیں مکمل حق سماعت نہیں دیا گیا ۔ 400 کیسز ہیں اور کچھ کیسز اس کورٹ کے دائرہ اختیار سے باہر ہیں ۔ کیا اس کیس میں کمیشن تشکیل دیا جا سکتا ہے ؟ ۔

وکیل نے کہا کہ کمیشن کی تشکیل کا اختیار وفاقی حکومت کا ہے ۔ عدالت میں یہ کیس نمٹایا گیا تھا پھر تحریری فیصلہ آیا کہ کیس زیر التوا رہے گا ۔ کیا کسی اور کی طرف سے رِٹ پٹیشن قابل سماعت ہو سکتی ہے ؟ ۔

کامران مرتضیٰ نے عدالت نے اپنا مؤقف بتاتے ہوئے مزید کہا کہ بے شک بھائی بیٹا یا باپ ہو ان میں سے کوئی بھی ہو متاثرہ فریق کیسے ہے ؟ آرڈر ایسے کر رہے ہیں جیسے سپریم کورٹ سے بھی اوپر کی عدالت ہے ۔

جسٹس اعظم خان نے استفسار کیا کہ  فائنل آرڈر کے بعد کیا کیس زیر التوا رکھ سکتے ہیں ؟ ، جس پر وکیل نے  بتایا کہ جاری نہیں رکھ سکتے۔ بعد ازاں عدالت نے ابتدائی سماعت کے بعد اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

متعلقہ مضامین

  • ریاست آسام میں بلڈوزر کارروائی پر سپریم کورٹ آف انڈیا برہم، توہین عدالت کا نوٹس جاری
  • توہینِ مذہب کے الزامات: اسلام آباد ہائیکورٹ نے کمیشن کی تشکیل پر عملدرآمد روک دیا
  • توہینِ مذہب الزامات پر کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ
  • انضمام ختم کرنے یا ایف سی آر بحالی سے متعلق افواہیں بے بنیاد ہیں، کمیٹی اجلاس کا اعلامیہ
  • زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے، سپریم کورٹ
  • توہینِ مذہب کے الزامات کی تحقیقات کیلیے کمیشن تشکیل دینے کے فیصلے کیخلاف اپیل دائر
  • زیر التوا اپیل کی بنیاد پر عدالتی فیصلہ پر عملدرآمد روکنا توہین کے مترادف ہے: سپریم کورٹ
  • زیر التوا اپیل، نظرثانی یا آئینی درخواست کی بنا پر فیصلے پر عملدرآمد روکا نہیں جا سکتا، سپریم کورٹ کا بڑا فیصلہ
  • کسی اپیل کے زیر التوا ہونے سے چیلنج شدہ فیصلے پر عملدرآمد رک نہیں جاتا، سپریم کورٹ
  • عدالتی اصلاحات کا ہر قدم سائلین کی ضروریات اور توقعات کے مطابق اٹھایا جائے، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی