Express News:
2025-07-10@03:39:28 GMT

بلڈر مافیا اور سیاستدان

اشاعت کی تاریخ: 10th, July 2025 GMT

بلڈر مافیا سیاست دانوں کو اپنا پارٹنر بناتی ہے، یوں 100 گز کے پلاٹ پر آٹھ آٹھ منزلہ عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں۔ ایک سے دو منزلہ بنانے کی اجازت ہوتی ہے مگر بلڈر آٹھ سے دس منزلہ بنا لیتے ہیں۔

بارش کم بھی ہوں، پھر بھی یہ عمارتیں جگہ چھوڑ دیتی ہیں۔ سماجی کارکن فیصل ایدھی نے اپنے مختصر اور جامع تجزیے میں لیاری میں گرنے والی عمارتوں کے حقائق کو آشکار کردیا۔ لیاری میں آٹھ چوک کے قریب پانچ منزلہ عمارت کے زمین بوس ہونے سے 27 افراد جاں بحق ہوگئے جن میں سے 20 کا تعلق ہندو برادری سے ہے۔ یہ سب غریب لوگ تھے جنھوں نے اپنی زندگی کی تمام کمائی اس عمارت میں فلیٹ حاصل کرنے پر لگا دی تھی۔ امدادی کارکن ملبے میں سے ایک 3 ماہ کی بچی کو نکالنے میں کامیاب ہوئے جس کو معمولی زخم آئے تھے۔

ایک امدادی کارکن کا خیال ہے کہ ماں نے اپنی جان بچانے کے بجائے بچی کی جان بچانے کے لیے بچی کو دور پھینکنے کی کوشش کی تھی۔ بچی کو جب ملبہ سے نکالا گیا تو اس کی ناک سے خون بہہ رہا تھا۔ وزیر بلدیات سعید غنی کا کہنا ہے کہ کراچی میں 564 کے قریب عمارتوں کو مخدوش قرار دیا گیا ہے جن میں سے 400 سے زیادہ عمارتیں ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں ہیں۔ کراچی کے قدیم علاقے لیاری میں بہت سی عمارتیں مخدوش قرار دی گئی ہیں۔

وزیر بلدیات کا کہنا ہے کہ لیاری میں قیام پاکستان سے پہلے کی عمارتیں موجود ہیں، یہی وجہ ہے کہ سب سے زیادہ مخدوش عمارتیں لیاری میں ہیں۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے افسران کا کہنا ہے کہ مخدوش عمارتوں کو نوٹس جاری کیے جاتے ہیں مگر اس حادثے کی رپورٹنگ کرنے والے رپورٹروں کا کہنا ہے کہ گرنے والی عمارت پہلے تین منزلہ تھی اور یہ گزشتہ چند برسوں کے دوران تعمیر ہوئی اور ناقص تعمیر کی بناء پر جلد ہی کمزور ہوگئی۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے فرض شناس افسروں نے عمارت کو مخدوش قرار دینے کی کارروائی مکمل کی تھی مگر نامعلوم وجوہات کی بناء پر مزید دو منزلیں تعمیر ہوگئیں۔ وزیر بلدیات نے اپنی پریس کانفرنس میں اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ ہیومن رائٹس کمیشن نے اس عمارت کی خستہ حالی کی جانب توجہ مرکوز کرائی تھی۔

این ای ڈی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر اور تعمیر کے ماہر ڈاکٹر سروش لودھی نے ایک ٹی وی انٹرویو میں انکشاف کیا ہے کہ کراچی میں عمارتوں کی تعمیر میں اسٹرکچرل انجینئرنگ استعمال ہی نہیں ہوتی۔ وہ کہتے ہیں کہ انھوں نے کراچی میں عمارتوں کی تعمیر کے لیے ایک ضابطہ اخلاق تیار کیا تھا جس کی مجاز اتھارٹی نے منظوری دی تھی مگر بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی والوں نے اس ضابطہ اخلاق کو اہمیت ہی نہیں دی۔ یہی وجہ ہے کہ آباد کے سربراہ نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ بلڈنگ تعمیرکرنے کے ذمے دار ٹھیکیدار اور اتھارٹی کے افسروں کے خلاف مقدمات درج ہونے چاہئیں۔

 کراچی میں اس عمارت کے زمین بوس ہونے اور اتنی زیادہ ہلاکتوں کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کا ایک مافیا میں تبدیل ہوجانا ہے۔ چند سال قبل تک کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی اپنے دائرہ اختیار میں کام کررہی تھی مگر اس ادارے کی کارکردگی ناقص تھی۔ شہریوں کو عام شکایت تھی کہ کسی عمارت کی تعمیر کا نقشہ منظور کرانے کے لیے اور پھر عمارت کی تکمیل کے سرٹیفکیٹ کے لیے چمک یا سفارش سب سے اہم عناصر سمجھے جاتے تھے۔ یہی وجہ تھی کہ پورے شہر میں قواعد و ضوابط کو نظراندازکرتے ہوئے بلند عمارتوں کی تعمیر شروع ہوگئی، پھر پیپلز پارٹی کی حکومت آگئی۔ پیپلز پارٹی ہمیشہ بڑے فیصلے کرنے کی شہرت رکھتی ہے۔

اب کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی میں ضم کردیا گیا تو اتھارٹی کی کارکردگی بجائے بہتر ہونے کے مزید خراب ہونے لگی۔ بعض متاثرہ شہریوں کا کہنا ہے کہ پہلے جو کام سیکڑوں اور ہزاروں میں ہوتا تھا، اب اس کام کے لاکھوں اور کروڑوں روپے کھلے عام مانگے جارہے ہیں۔ نیب نے چند سال قبل بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایک اعلیٰ عہدیدار کے خلاف اربوں روپے کے اثاثے رکھنے کا مقدمہ قائم کیا تھا مگر موصوف اطمینان سے کینیڈا جا کر بس گئے۔

وزیر بلدیات کا دعویٰ ہے کہ اس عمارت کے مکینوں کو نوٹس بھیجنے کے لیے متعلقہ عملہ نے فائل ورک مکمل کیا تھا مگر یہ نوٹس اسی طرح بھیجے گئے تھے جیسے کسی ایسوسی ایشن کے اجلاس کے انعقاد کے نوٹس بھیجے جاتے ہیں، یوں محض ہر نوٹس کے عوض لاکھوں روپے لے کر کام کو جاری رکھا گیا۔ لیاری میں ہی نہیں بلکہ شہر کے مختلف علاقوں میں 100 سے 200 گز کے پلاٹ پر آٹھ سے دس منزلہ عمارت بننا ایک معمول بن گیا۔ یہ عمارتیں ایک دن میں تعمیر نہیں ہوتیں، کئی ماہ لگتے ہیں۔ افسران کی ذمے داری ہے کہ نقشے کے مطابق عمارت کی تعمیر کو یقینی بنائیں اور عمارت کی تعمیر میں استعمال ہونے والے مٹیریل کے معیار پر بھی نظر رکھیں مگر حقائق ظاہر کرتے ہیں کہ متعلقہ افسران اپنے فرائض کی انجام دہی کے علاوہ دیگر کام کرتے ہیں۔

 سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ شہر کے مختلف حصوں میں پوسٹنگ کے لیے بڑے پیمانہ پر رقم کی ادائیگی یا سندھ میں قائم ’’سسٹم‘‘ کے رہنماؤں کی سفارش ضروری ہوتی ہے۔ کراچی میں ہر سال کوئی نہ کوئی عمارت گرتی ہے یا ہر سال کسی نہ کسی بلند عمارت میں آتش زدگی کا واقعہ رونما ہوتا ہے۔ دو سال قبل ایک عمارت میں آتش زدگی کے نتیجے میں کئی افراد جاں بحق ہوئے۔ فائر بریگیڈ کے افسران ہمیشہ کہتے ہیں کہ ان کے محکمے کے پاس پانچ منزل سے زیادہ اونچی عمارت میں لگنے والی آگ پر قابو پانے کے لیے ٹیکنالوجی موجود نہیں ہے مگر اس حقیقت کے باوجود 10 سے 15 منزلہ عمارتیں تعمیر ہوتی ہیں۔ ایک اہم معاملہ امدادی کاموں کا ہوتا ہے۔

یہ عمارت ایک چھوٹی سے گلی میں واقع ہے، جہاں ایک ہجوم جمع ہوگیا جس سے امدادی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ ریسکیو محکمے کے ایک افسر کا کہنا ہے کہ کئی سماجی کام کرنے والی تنظیموں کے رضاکار بھی امدادی کام میں شامل ہوگئے تھے۔ بقول اس افسر کے یوں امدادی کاموں میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس علاقے میں بہت زیادہ شور ہورہا تھا جس کی بناء پر ملبے میں دبے ہوئے انسانوں کا پتہ چلانے والے سائنسی آلات کے سگنل ٹھیک کام نہیں کر رہے تھے، اگر ماحول کو کنٹرول کیا جائے تو ان حساس آلات کی بناء پر ملبے میں دبے ہوئے زندہ افراد کی جلد نشاندہی ہوسکتی ہے۔ لیاری میں منتخب قیادت متحرک ہوتی تو ہجوم کو منتشر کرنے پر آمادہ کیا جاسکتا تھا۔

 صدر اور وزیر اعظم نے لیاری میں 27 غریب افراد کی ہلاکت کا نوٹس ہی نہیں لیا۔ وزیر اعلیٰ نے بھی حادثہ کی جگہ کا معائنہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ تین وزراء نے ایک پریس کانفرنس میں مرنے والے ہر فرد کے لیے 10 لاکھ روپے ادا کرنے اور بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈائریکٹر جنرل سمیت عملے کے کئی افراد کو معطل کرنے کا اعلان کیا ۔ لیاری میں عمارتوں کے گرنے کی تاریخ پرانی ہے۔اب بھی وقت ہے کہ اس سانحے کے ذمے داروں کو گرفتار کیا جائے۔ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے بدعنوان افسروں کو فارغ کیا جائے اور بہرصورت عمارتوں کی تعمیر کے لیے نافذ ضابطہ اخلاق پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ سیاست دانوں کا بھی احتساب ہونا چاہیے جو بلڈر مافیا کی سرپرستی کرتے ہیں۔

محض چند افراد کو معطل کرنے سے صورتحال بہتر نہیں ہوگی۔ میڈیا رپورٹس سرکاری اعداد شمار سے بڑھ کر کراچی شہر میں مخدوش عمارتوں کی نشاندہی کر رہی ہیں جن کی تعداد دوہزار سے بھی زائد ہیں اور یہ سات آٹھ منزلہ عمارتیں سو گز کے رقبے پر محیط پلاٹس پر تعمیرکی گئی ہیں، یہ رجحان گذری، لیاقت آباد اور دیگر کئی علاقوں میں تیزی سے بڑھتا دیکھا گیا ہے جس کا سدباب نہ کیا گیا تو سانحہ لیاری جیسی مزید صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے عمارتوں کی تعمیر کا کہنا ہے کہ وزیر بلدیات منزلہ عمارت امدادی کام کی بناء پر کراچی میں لیاری میں عمارت کی ہی نہیں کے لیے

پڑھیں:

7 ہزار سڑک کی تعمیرمئیر اور ان کے محکمے کی قانوناً ذمہ داری ہے‘ محمد یوسف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

کراچی( اسٹاف رپورٹر)نیو کراچی ٹاؤن سات ہزار روڈ اور برساتی نالے خستہ حالی کا شکار۔ ٹاؤن چیئرمین محمد یوسف نے سیکٹر 5-G میں واقع سات ہزار روڈ اور اس سے متصل برساتی نالے کی انتہائی خستہ حالی کا جائزہ لیا۔ چیئرمین نیو کراچی ٹاؤن محمد یوسف متعلقہ افسران کے ہمراہ متاثرہ مقام پر پہنچے اور شہریوں سے درپیش مسائل دریافت کیے۔ اس موقع پرXEN بی اینڈ آر اشتیاق حْسین،افسران فیصل صغیر،ساجد صدیقی و دیگر متعلقہ افسران بھی موجود تھے۔انہوں نے سات ہزار روڈ اور برساتی نالے پر پْلیا کی تعمیر کے کام کا معائنہ کرتے ہوئے کہا کہ سات ہزار روڈ کی حالت اس قدر ابتر ہوچکی ہے کہ اس پر گاڑیوں کی آمد و رفت ناممکن ہو گئی ہے۔ جگہ جگہ گہرے گھڑے، ٹوٹ پھوٹ اور بارش کے پانی کے باعث یہ سڑک ندی نالے کا منظر پیش کر رہی ہے۔ ہم نے اس حوالے سے مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب صاحب کو درجنوں بار تحریری و زبانی طور پر آگاہ کر چکے ہیں کہ اس سڑک کی تعمیر انتہائی ناگزیر ہو چکی ہے۔لیکن تاحال اس جانب کوئی توجہ نہیں دی جارہی ہے جس کی وجہ سے عوام کے مسائل بڑھ رہے ہیں اور سات ہزار روڈ پر سفر کرنا محال ہوگیا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ سڑک کی تعمیر کی ذمہ داری قانوناً مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب اور ان کے محکمے پر عائد ہوتی ہے۔چیئرمین محمد یوسف نے مئیر کراچی مرتضیٰ وہاب سے مطالبہ کیا کہ ان جگہوں پر فوری ایکشن لیتے ہوئے سات ہزار روڈ کی از سر نو تعمیر، برساتی نالوں کی دیواروں کی مرمت اور پولیا کی بحالی کا کام شروع کرایا جائے تاکہ ممکنہ بارشوں میں عوام کو کسی قسم کی پریشانی کا سامنا نہ کرنا پڑے اورعوام کو اس اذیت ناک صورتحال سے نجات دلائی جا سکے۔

 

متعلقہ مضامین

  • اے این پی کو خیر باد کہنے والی بلور خاندان کی واحد خاتون سیاستدان ثمر ہارون بلور کون ہیں؟
  • لاہور میں موسلادھار بارش سے جل تھل ایک، موسم خوشگوار
  • میرپورخاص،ڈی سی کی مخدوش عمارتوں کیخلاف کارروائی کی ہدایت
  • سکھر،سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو پھر شدید تنقید کی سامنا
  • 7 ہزار سڑک کی تعمیرمئیر اور ان کے محکمے کی قانوناً ذمہ داری ہے‘ محمد یوسف
  • سینئر سیاستدان مصطفیٰ نواز کھوکھرکا خواجہ سعد رفیق اور خرم دستگیر کے حوالے سے بڑا انکشاف
  • میرپورخاص،شہر کی 7 خستہ حال عمارتیں خطرناک قرار
  • کراچی، آگرہ تاج کالونی: مخدوش عمارت کو خالی کرانے کا عمل مکمل، بلڈر کے خلاف مقدمہ درج
  • لیاری حادثہ کے ذمہ دا ر مستعفی ہوں،غیر قانونی بلڈر کو گرفتار کرائیں گے. نبیل گبول