سکھر،سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو پھر شدید تنقید کی سامنا
اشاعت کی تاریخ: 9th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
سکھر(نمائندہ جسارت )سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی (SBCA) ایک بار پھر شدید تنقید کی زد میں ہے، جہاں بڑے پیمانے پر کرپشن، سیاسی بنیادوں پر تقرریاں، اور نااہلی کے الزامات سامنے آ رہے ہیں جنہیں صوبے بھر میں عمارتوں کے حادثات اور قیمتی جانوں کے ضیاع کا سبب قرار دیا جا رہا ہے۔اقربا پروری اور رشوت ستانی کی اس جڑ پکڑتی روایت نے خطرناک نتائج پیدا کیے ہیں۔ غیرقانونی تعمیرات کو روکنے میں ایس بی سی اے کی ناکامی کے باعث بالخصوص سکھر اور کراچی جیسے شہری علاقوں میں غیر محفوظ اور بغیر اجازت تعمیر ہونے والی عمارتوں کی بھرمار ہو چکی ہے۔ کئی معاملات میں، افسران نے یا تو آنکھیں بند کر لیں یا رشوت لے کر خلاف ورزیوں کو ممکن بنایا۔اس بدترین انتظامی ناکامی کی ایک ہولناک مثال لیاری میں دیکھنے کو ملی، جہاں ایک بوسیدہ عمارت گرنے سے 6 خاندانوں کے دو درجن سے زائد افراد جاں بحق ہو گئے۔ حیران کن طور پر، یہ عمارت پہلے ہی ایس بی سی اے کی جانب سے غیر محفوظ قرار دی جا چکی تھی، مگر انخلا کے احکامات رشوت کے عوض نظر انداز کر دیے گئے ۔ ایسی عمارتیں موت کے پھندے سے کم نہیں،” ایک سینئر افسر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا۔ آج بھی سکھر اور کراچی میں درجنوں ایسی عمارتیں موجود ہیں۔ ہر بار جب کوئی عمارت گرتی ہے، تحقیقاتی کمیٹی بنا دی جاتی ہے، لیکن اصل مسائل کرپشن، غفلت، اور قانون نافذ نہ کرنے کی پالیسی پر کوئی بات نہیں ہوتی۔ماہرین اور سول سوسائٹی کا کہنا ہے کہ اگر ایس بی سی اے خطرناک عمارتوں کو خالی کرانے میں وہی سنجیدگی دکھائے جو حادثے کے بعد کمیٹیاں بنانے میں دکھاتا ہے، تو بے شمار زندگیاں بچائی جا سکتی تھیں۔عوامی مایوسی میں مزید اضافہ اس وقت ہوتا ہے جب قانونی تعمیراتی منصوبے کرنے والے بلڈرز اور عام شہریوں کو بھی ہر قدم پر رشوت دینی پڑتی ہے۔ ایک مقامی بلڈر نے بتایا، آپ قانونی طور پر منظور شدہ نقشہ بھی ایس بی سی اے کو رشوت دیے بغیر کلیئر نہیں کرا سکتے۔ جبکہ غیر قانونی بلند عمارتیں بے روک ٹوک بنتی جا رہی ہیں۔ایس بی سی اے پر ناقص تعمیراتی مواد کے استعمال کی اجازت دینے کا بھی الزام ہے، جس کے نتیجے میں بنیادی حفاظتی اصولوں سے عاری کمزور عمارتیں تعمیر ہو رہی ہیں۔ چونکہ کوئی مؤثر چیک اینڈ بیلنس موجود نہیں، یہ خطرناک تعمیرات پورے صوبے میں جاری ہیں۔عوام اب مجرمانہ احتساب کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ لیاری کے ایک رہائشی نے کہا، جنکی نااہلی اور لالچ نے بے گناہ زندگیاں چھینیں، ان کے خلاف مقدمات درج کیے جائیں۔ انہیں بیوروکریسی کی ناکامی کے پردے میں چھپ کر بچنے نہیں دیا جا سکتا۔صورتحال واضح کرتی ہے کہ ایس بی سی اے میں فوری اصلاحات کی ضرورت ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ایس بی سی اے
پڑھیں:
میرپورخاص،ڈی سی کی مخدوش عمارتوں کیخلاف کارروائی کی ہدایت
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میرپورخاص (نمائندہ جسارت ) کراچی مخدوش عمارت گرنے کے بعد میرپورخاص کی انتظامیہ نے بھی قدیم مخدوش عمارتوں کے خلاف 13 سال قبل دیے گئے نوٹس پر عملدرآمد کرانے کے لیے سرجوڑ لیے ، ڈپٹی کمشنر میرپورخاص ڈاکٹر رشید مسعود خان کی ہدایت پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ٹو فیصل علی سومرو نے اپنے دفتر میں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے اجلاس کی صدارت کی ۔اس موقع پر ایڈیشنل ڈپٹی کمشنر ٹوفیصل علی سومرو نے کہا کہ مون سون بارشوں کو مدنظر رکھتے ہوئے میرپور خاص شہر کی مخدوش عمارتوں کو خالی کرایا جائے تاکہ کوئی بھی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہو سکے اس موقع پر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر چیتن لاکھانی نے بتایا کہ سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے میرپور خاص شہر کی 7 عمارتوں کو 2012 میں مخدوش و خطرناک قرار دیا گیا ہے اور مالکان کو مخدوش عمارتیں خالی کرنے کے لیے متعدد بار نوٹسز جاری کیے گئے ہیں تاحال مالکان عمارت خالی کرنے سے انکار کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اگر تیز بارشوں کے دوران اگر مخدوش عمارتیں گریں گی تو گھر والوں اور عوام کا جانی و مالی نقصان ہو سکتا ہے جس پر ایڈیشنل ٹپٹی کمشنر ٹو فیصل علی سومرو نے ڈپٹی ڈائریکٹر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو ہدایت کی کہ مخدوش و خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کی تفصیلی رپورٹ فوری طور پر ڈپٹی کمشنر آفس میں دی جائے تاکہ مخدوش عمارتوں کو خالی کرانے کے لیے اقدامات کیے جا سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ اس ضمن میں کوتاہی ہرگز برداشت نہیں کی جائے گی انہوں نے خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کے مالکان سے اپیل کی ہے کہ وہ عمارتیں خالی کر دیں تاکہ کسی بھی قسم کے نقصان سے بچا جا سکے۔ واضح رہے کہ ڈپٹی ڈائریکٹر سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی چیتن لاکھانی کے مطابق میرپورخاص شہر میں 7 عمارتیں جو کہ شاہی بازار ،کاہو بازار ،اسٹیشن چوک، کھری کواٹر ، فروٹ فارم روڈ سمیت دیگر علاقوں میں واقع ہیں یہ عمارتیں خطرناک حالت میں ہیں 2012ء میں ان 7 عمارتوں کو گرانے یا مرمت کرنے کے نوٹس جاری کرنے کے باوجود مالکان بلڈنگ خالی کرنے پر تیار نہیں ہیں ۔ گزشتہ 13 سال قبل ان 7 عمارتوں کے مالکان اور مکینوں کو نوٹس جاری کیے گئے تھے لیکن مالکان نوٹس پر عمل نہیں کر رہے جبکہ اس حوالے سے تمام محکموں کو مراسلہ جاری کر دیا گیا ہے بارشوں کی موسم کی پیشگوئی کے بعد بھی مالکان کو وارننگ نوٹس جاری کر دیے گئے تھے اب انتظامیہ اس حوالے سے دوبارہ متحرک ہوچکی ہے آنے والے دنوں میں پتہ چل جائے گا کہ انتظامیہ اپنے حکم پر عمل کرانے میں کامیاب ہوتی ہے یا پھر قدیم عمارتوں کے مالکان اثر و رسوخ رکھتے ہیں۔