میرپورخاص،شہر کی 7 خستہ حال عمارتیں خطرناک قرار
اشاعت کی تاریخ: 8th, July 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
میرپورخاص(نمائندہ جسارت)سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے شہر میں 7 خستہ حال عمارتوں کو خطرناک قرار دے دیا تاہم انتظامیہ انہیں خالی کرانے میں کامیاب نہیں ہو سکی، امکانی طوفانی بارشوں میں بڑے نقصان کا اندیشہ ہے اطلاعات کے مطابق 2012ء سے اب تک سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی نے شہر میں 7 عمارتوں کو خطرناک قرار دیا جن میں سے 6 عمارتوں کی فوری مرمت اور ایک عمارت کو گرانے کے نوٹس جاری کئے تاہم 13 سال گزر جانے کے باوجود عمارتیں خالی نہیں کی گئیں سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کی جانب سے 2012ء سے ہر سال نوٹسز جاری کرنے کے باوجود مکین اب بھی خستہ حال عمارتوں میں رہائش پذیر ہیں جبکہ ضلعی انتظامیہ نے خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کو خالی کرانے کے لئے کوئی کارروائی نہیں کی ہے۔ اس حوالے سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کے ڈپٹی ڈائریکٹر چیتن مل کا کہنا تھا کہ 2012ء سے اب تک ہم متعدد بار شہر کی 7 عمارتوں کو شہریوں کے لئے خطرناک قرار دے چکے ہیں لیکن مکین کسی قسم کا تعاون نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ خستہ حال عمارتوں میں عثمانیہ ہوٹل، غریب آباد میں ایک رہائشی مکان، اسٹیشن روڈ پر ایک رہائشی بنگلہ، ٹی بی اسپتال، نائی پاڑے میں ایک مکان اور دیگر عمارتیں شامل ہیں 7 عمارتوں میں سے 6 کی فوری مرمت کی ضرورت ہے جبکہ ایک عمارت کو گرانے کا لیٹر جاری کر دیا گیا ہے تاہم عمارتوں کے مکین ان نوٹسز کو نظر انداز کرتے ہوئے عمارتوں میں رہائش پذیر ہیں ۔ واضح رہے کہ محکمہ موسمیات نے میرپورخاص میں موسلادھار بارشوں کی پیش گوئی کر رکھی ہے ضلعی انتظامیہ خطرناک قرار دی گئی عمارتوں کو خالی کرائے تاکہ کسی بڑے حادثے سے بچا جا سکے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی عمارتوں میں خطرناک قرار عمارتوں کو خستہ حال
پڑھیں:
سیلاب زدہ علاقوں میں وبائی امراض کا خطرناک پھیلاؤ، 24 گھنٹوں میں 33 ہزار سے زائد مریض رپورٹ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور: پنجاب کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں وبائی امراض تیزی سے پھیل رہے ہیں، جس نے حکام اور صحت کے شعبے کے لیے سنگین چیلنج کھڑا کر دیا ہے۔
محکمہ صحت پنجاب کی تازہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 24 گھنٹوں میں بخار، جلدی امراض، آشوب چشم، ڈائریا، سانپ اور کتے کے کاٹنے کے 33 ہزار سے زائد کیسز رجسٹر ہوئے ہیں، جبکہ سیلاب زدہ علاقوں میں مجموعی طور پر مریضوں کی تعداد 7 لاکھ 55 ہزار تک جا پہنچی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا کہ ایک دن کے دوران سانس کی تکلیف کے شکار 5 ہزار افراد، بخار سے متاثرہ 4300، جلدی الرجی کے 4 ہزار اور آشوب چشم کے 700 مریض سامنے آئے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈائریا کے 1900 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جبکہ سانپ کے کاٹنے کے 5 اور کتے کے کاٹنے کے 20 واقعات بھی ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ یہ اعداد و شمار سیلاب سے تباہ حال علاقوں میں صحت کے نظام پر بڑھتے ہوئے دباؤ کی نشاندہی کرتے ہیں۔
محکمہ صحت کے مطابق سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں 405 مستقل طبی کیمپ قائم کیے گئے ہیں، جہاں اب تک 2 لاکھ 79 ہزار سے زائد مریضوں کا معائنہ اور علاج کیا جا چکا ہے۔ حکام نے بتایا کہ ان کیمپوں میں بنیادی طبی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں، لیکن بیماریوں کے تیزی سے پھیلاؤ نے صورتحال کو پیچیدہ کر دیا ہے۔
ماہرین صحت نے خبردار کیا ہے کہ صاف پانی کی کمی، ناقص صفائی ستھرائی اور متاثرہ علاقوں میں امدادی کاموں کی رفتار سست ہونے کی وجہ سے وبائی امراض کا خطرہ مزید بڑھ سکتا ہے۔ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ صورتحال پر قابو پانے کے لیے اضافی وسائل اور فوری اقدامات کی ضرورت ہے، جبکہ شہریوں سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر اختیار کریں اور طبی امداد کے لیے قریبی کیمپوں سے رجوع کریں۔
یہ صورتحال نہ صرف صحت کے شعبے بلکہ امدادی اداروں کے لیے بھی ایک امتحان ہے، کیونکہ متاثرین کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ حکام سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ فوری طور پر ادویات کی فراہمی اور طبی عملے کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ اس بحران سے نمٹا جا سکے۔