اسلام آباد:

ملکی سیاسی میدان میں ایک نئی پارٹی کی انٹری ہوئی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئی سیاسی جماعت رجسٹر کرلی۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان نے نئی سیاسی جماعت ’’بہاولپور عوامی حقوق پارٹی‘‘کو باقاعدہ طور پر رجسٹر کر لیا ہے، جس کا باقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا ہے۔ اس اندراج کے بعد ملک میں رجسٹرڈ سیاسی جماعتوں کی تعداد بڑھ کر 167 ہو گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ اعلامیے میں بہاولپور عوامی حقوق پارٹی کے انٹرا پارٹی انتخابات کو بھی تسلیم کر لیا گیا ہے، جس کے مطابق محمد سلمان مہتاب کو پارٹی کا صدر منتخب کیا گیا ہے۔

بہاولپور عوامی حقوق پارٹی کی رجسٹریشن سے جنوبی پنجاب، خصوصاً بہاولپور کے عوامی مسائل اور حقوق کے لیے ایک نئی سیاسی آواز سامنے آئی ہے، جو آئندہ عام انتخابات میں اپنا کردار ادا کرنے کی اہل ہو گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کی منظوری کے بعد یہ جماعت ملکی سیاست میں اپنی جگہ بنانے کے لیے قانونی و آئینی حیثیت حاصل کر چکی ہے۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: الیکشن کمیشن

پڑھیں:

سیاسی میدان کے چیتن شرما اور جاوید میانداد

عمران خان پاکستانی سیاست کے میدان میں کم و بیش ویسے ہی وارد ہوئے جیسے میچ کے دوران گراؤنڈ میں کہیں سے کوئی کٹی پتنگ اچانک آجائے اور تماشائی کھیل دیکھنے کے بجائے اسی کے پیچھے بھاگ لیں۔

دوسری طرف شہباز شریف کا کرکٹ کے میدانوں سے دور دور تک کوئی تعلق نظر نہیں، اور ان کا اس بارے میں شاید مبلغ علم انہی واقعات پر مبنی ہو جو نواز شریف نے جناح باغ میں کرکٹ کھیلنے کے بعد شام کی چائے پر مرچ مصالحہ لگا کر انہیں سنائے ہوں۔

آمنے سامنے آنے کے بعد دونوں میں سے کس نے کیا کس کو بولڈ، اور کس نے لگایا کس کو چھکا، آئیے دیکھتے ہیں۔

سیاست عمران خان کی ایسی ہے نہ ہی شہباز شریف کی کہ آنکھیں بند کرکے یقین کیا جا سکے، دونوں میں ہی کہیں نہ کہیں کافی ’اندھیرا‘ موجود ہے اور فرق اگر کوئی ہے تو وہ یہ کہ عمران خان کہا کرتے تھے کہ کھیلیں گے نہ کھیلنے دیں گے، جبکہ شہباز شریف کا انداز بتاتا ہے کہ کھیل کر نکالیں گے۔

ذرا ’سیم پیج‘ والے دور پر نگاہ ڈالیے کوئی سوچ سکتا تھا کہ طاقت کے اس مُڈھ کو اگلے کم سے کم 10 سال تک ہلایا بھی جا سکے گا۔

پھر صورت حال بدلی اور بدلتی چلی گئی ہے بمع سیم پیج کے، بلکہ اب تو صورت حال ٹچ بٹنوں کی جوڑی والی ہے۔

تقریباً ڈھائی سال سے کپتان جیل میں ہیں لیکن بہرحال ان کی پارٹی بطور اپوزیشن پارلیمنٹ میں موجود رہی جبکہ کے پی میں ان کے حکومت بھی ہے بارہ سال سے۔

پچھلے دنوں صورت حال میں ڈرامائی تبدیلی اس وقت آئی جب ان کی ہمشیرہ نے افسوس سے کہا کہ ’وہ مائنس ہو گئے ہیں‘ اور اب تو مخصوص نشستوں کے بارے میں سپریم کورٹ کا فیصلہ بھی آ گیا ہے اور کے پی میں جے یو آئی اور ن کی مخلوط حکومت کی چہ میگوئیاں ہی نہیں ہو رہیں راہ بھی ہموار ہوتی نظر آ رہی ہے۔

یعنی تقریباً ویسی ہی صورت حال پیدا ہو چکی ہے جیسی 1986 میں ایشیا کپ کے فائنل میں شارجہ میں تھی۔ انڈین بولر چیتن شرما بال کرا رہے تھے اور کریز پر جاوید میانداد موجود تھے۔ آخری گیند تھی اور چار سکور چاہیے تھے۔

اس کے بعد میچ میں کیا ہوا بتانے کی ضرورت نہیں اور جاوید میانداد نے اچھے خاصے ٹیلنٹڈ بولر کا بوریا بستر گول کر دیا۔

اگرچہ اس کے بعد بھی چیتن شرما کرکٹ کھیلتے رہے اور ایک موقع پر ہیٹ ٹرک بھی کی تاہم شارجہ والا واقعہ ان کے کیریئر کو کسی لہسوڑے کی طرح چمٹ گیا اور وہ کب ختم ہوا کسی کو پتہ ہی نہیں چلا۔

اب اس صورت حال کو ذرا سیاست کے تناظر میں دیکھیے تو کچھ ایسی تصویر ابھرتی ہے کہ عمران خان آپ کو اسی انڈین بولر کی طرح دکھائی دیں گے جس کا تجربہ پاکستانی بلے باز سے کم تھا، کچھ ایسا ہی معاملہ عمران خان اور شہباز شریف کے ساتھ بھی ہے۔

چیتن شرما بھی شروع میں جلدی مہشور نہ ہو سکے تھے مگر پھر آگے بڑھتے گئے بالکل اسی طرح عمران خان بھی اگرچہ 90 کی دہائی کے وسط میں سیاست میں قدم رکھ چکے تھے تاہم زیادہ مقبول نہ ہو سکے اس دوران انہوں نے پرویز مشرف کا بھی ساتھ دیا۔

بہرحال بے نظیر بھٹو شہادت کے بعد 2008 میں جب پی پی کو حکومت ملی تو یکدم ان کی مقبولیت بڑھنے لگی اور کچھ برس بعد لاہور مینار پاکستان کا وہ مشہور جلسہ ہوا جس نے ملکی سیاست کا رخ بدل دیا۔

 2013 کے الیکشن میں وہ مرکز میں تو حکومت میں نہ آ سکے، تاہم کے پی ضرور حاصل کر لیا۔ اس دوران وہ مرکز اور پنجاب میں مسلم لیگ ن کی حکومت پر مسلسل احتجاج کے تازیانے برساتے رہے اور ’سیاسی کزن‘ کی معیت میں 126 روز والا مشہور دھرنا بھی دیا۔

قصہ مختصر 2018 کے الیکشن میں وہ مرکز، پنجاب، خیبرپختونخوا حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے اور اونچی اڑان میں رہے۔

اب پھر پلٹیے میچ کی طرف، جاوید میانداد کے ساتھ سپن بولر توصیف احمد کریز پر موجود تھے اور سیکنڈ لاسٹ گیند کا سامنا بھی وہی کر رہے تھے، اس سے قبل جاوید میانداد نے ان کے قریب جا کر کان میں کچھ کہا تھا جو سوائے اس کے کچھ اور نہیں ہو سکتا تھا کہ کسی طرح ایک رن لے کر مجھے سامنے آنے دو۔ ایسا ہی ہوا اور پھر آئے جاوید میانداد چیتن شرما کے مقابل۔

جب آخری گیند ہو اور چار سکور چاہیے ہوں تو صرف بلے باز ہی نہیں بولر پر بھی کافی پریشر ہوتا ہے اور وہ بھی کسی ایسے ملک کے خلاف جس کو صرف کرکٹ ہی نہیں بلکہ دیگر بہت سے میدانوں میں بھی حریف سمجھا جاتا ہو۔

جاوید میانداد کئی بار انٹرویوز میں بتا چکے ہیں کہ بات چوکے سے بھی نہیں بننی تھی اور صرف چھکے کی آپشن تھی اس لیے یہی سوچا تھا کہ کسی طرح بال کو باؤنڈری کے باہر پھینکا جائے۔

دوسری جانب چیتن شرما کو بھی اس بات کا احساس تھا اس لیے انہوں نے تیز ترین گیند کرانے کا نہ صرف سوچا بلکہ اس پر عمل بھی کیا اور اس کوشش میں فل ٹاس کرا دی جو جاوید میانداد جیسے بلے باز کے مقابل ایسی غلطی تھی کہ خمیازہ رکنے والا نہیں تھا۔

اس میچ کی صورت حال کا سیاسی میدان سے موازنہ کرنے پر کچھ لوگ سوال اٹھا سکتے ہیں کہ چیتن شرما نے تو لوز گیند پھینکی تھی، سیاست میں عمران خان نے ایسا موقع کب دیا تو عرض ہے کہ انہوں نے ایک نہیں دو، دو پھینکیں۔

جب ان کو عدم اعتماد کی تحریک کے نتیجے میں کرسی سے اتارا گیا اور بقول ان کے حامی یوٹیوبرز کے ’وہ صرف ڈائری اٹھا کر چلتے بنے‘ تو اس کے بعد ہی انہوں نے وہ فل ٹاس پھینک دی تھی جس پر چھکے جیسی صورت حال بنی۔

ذرا یاد کیجیے کہ جب مرکز میں ان کی حکومت ختم ہوئی تو اس وقت پنجاب، خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان اور کشمیر میں ان کی حکومتیں موجود تھیں، جن کو انہوں نے خود ہی تحلیل کیا اور یہی تھی پہلی حلوہ بال۔

اب ذرا یہ خیال ذہن میں لائیے کہ مرکز سے نکلنے کے بعد بھی وہ ان حکومتوں کو برقرار رکھتے تو کیا صورت بنتی، یہی کہ ان کی پوزیشن مستحکم ہوتی۔ وہ اپنی ساری توجہ ان حکومتوں پر مرکوز کرتے اور ایسا کچھ کر کے دکھاتے کہ مرکز میں ان کی کمی محسوس کی جاتی اور کے پی میں بیٹھ کر شاید گرفتاری سے بھی بچے رہتے۔

اس طرح شاید ان کو وہ لانگ مارچ بھی نہ کرنا پڑتا جس میں مبینہ طور پر گولی کھانے کے باوجود بھی وہ ہمدردی نہ سمیٹ سکے جو ایسے لیڈرز کے حصے میں آیا کرتی ہے۔

ان کا یہ داؤ بھی رائیگاں چلا گیا کہ 3 مہینے کے اندر الیکشن ہو جائیں گے اور مجموعی طور پر پوری سیاسی فضا ان کے خلاف بنتی چلی گئی یہ اور بات کہ وہ سیاسی طور پر مقبول رہے اور الیکشن میں بلے کے نشان کے بغیر بھی خیبرپختونخوا میں کلین سویپ کرنے میں کامیاب رہے۔

مگر تیسری دنیا کے ممالک میں صرف مقبولیت ہی سب کچھ نہیں ہوتی، بلکہ فل ٹاس ٹائپ گیندوں سے بھی گریز کرنا پڑتا ہے، جن میں سے ایک تو وہ کرا چکے تھے دوسری ’نو مئی‘ کی شکل میں کرا دی۔

پس ثابت ہوا کہ عمران خان سیاست کے چیتن شرما ہیں اور شہباز شریف جاوید میانداد، چھکا وہاں بھی لگا اور یہاں بھی، فرق اگر کچھ ہے تو شاید امپائرز کا ہو۔

نوٹ: جو دوست عمران خان کو ایک انڈین بولر سے تشبیہہ دینے پر معترض ہوں وہ 87 کے ورلڈ کپ کو ذہن میں رکھتے ہوئے انہیں سلیم جعفر اور شہباز شریف کو رچرڈ بھی سمجھ سکتے ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

جاوید خان

جاوید میانداد سابق وزیر اعظم نواز شریف عمران خان

متعلقہ مضامین

  • الیکشن کمیشن کی "ووٹ بندی" جمہوریت کو برباد کردیگی، جے رام رمیش
  • ملکی سیاسی میدان میں نئی انٹری؛ الیکشن کمیشن نے نئی جماعت رجسٹر کرلی،سربراہ کون؟
  • الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں بحال کردیں، کس پارٹی کے حصے میں کتنی سیٹیں آئیں؟
  • سیاسی میدان کے چیتن شرما اور جاوید میانداد
  • الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں سے گوشواروں کی تفصیلات طلب کرلیں
  • مخصوص نشستوں کی تقسیم، اے این پی نے الیکشن کمیشن کے طریقہ کار کو چیلنج کر دیا
  • الیکشن کمیشن فیصلہ؛ کس جماعت کی کتنی مخصوص نشستیں بحال ہوئیں؟
  • سپریم کورٹ کا فیصلہ: الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستوں کی بحالی کا نوٹیفکیشن جاری کردیا
  • الیکشن کمیشن نے مخصوص نشستیں بحال کردیں