Daily Ausaf:
2025-09-18@15:45:07 GMT

عالمی ادارے کی بے توقیری

اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT

عالمی منظر نامہ میں ایک شرم ناک پیش رفت یہ ہوئی ہے کہ اسرائیلی وزیرِ اعظم کے وارنٹ گرفتاری جاری کرنے کی مذمت میں امریکی ایوانِ نمائندگان نے عالمی عدالت انصاف کے خلاف پابندیوں کا بل منظور کرلیا تھا اور اس کے ساتھ ہی امریکی ایوانِ نمائندگان نے کاری وار کرتے ہوئے ایک بار پھر عالمی امن کی کوششوں کو سبوتاژ کرتے ہوئے اسرائیلی وزیرِِ اعظم بن یامین نیتن یاہو اور سابق وزیرِِ دفاع یوو گیلنٹ کے حق میں بل منظور کرکے دنیا کو بتا دیا کہ عالمی عدالت انصاف کے اسرائیل کے خلاف اس فیصلے کو وہ جوتے کی نوک پر رکھتا ہے اور اسے تسلیم نہیں کرتا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ کمال ڈھٹائی کے ساتھ امریکی ایوانِ زیریں میں بھاری اکثریت کے ساتھ دو سو تیتالیس میں سے ایک سو چالیس اسرائیل نواز ارکان نے اپنا حقِ رائے دہی کا استعمال کرتے ہوئے اس بل کے حق میں اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے اسے کامیابی سے ہمکنار کردیا تھا۔ اب ایوانِ زیریں سے منظوری کے بعد یہ بل سینٹ کو منظوری کے لیے بھیجا جائے گیا تھا جہاں ریپبلیکن پارٹی کی پہلے ہی سے واضح اکثریت موجود ہے اس لیے اس فیصلے پر عمل درآمد ممکن نہیں ہو پایا تھا۔
اگرچہ اقوام متحد میں دنیا بھرکے ایک سو چوبیس رکن ممالک عدالتی احکامات پر عمل در آمد کے پابند ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ ’’بلی‘‘ کے گلے میں ’’گھنٹی‘‘ کون باندھے گا؟ اسرائیل دراصل ایک خون آشام بھڑیے اور عفریت کی طرح فلسطینیوں کی گردنوں پر سوار رہا ہے اور جس نے اپنے ظالمانہ استبدادی پنجے فلسطین کے سارے وجود میں گاڑ رکھے ہیں۔ امریکی ایوانِِ نمائندگان سے پاس ہونے والے پابندیوں کے بل میں اثاثوں کو منجمد کرنے کے ساتھ ساتھ عدالتی عمل داری کی کوششوں میں مالی یا مادی طور پر تعاون دینے سے انکار بھی شامل ہے۔ حالیہ امریکی اقدام کو بلاشبہ امن کی کوششوں کو تباہ کرنے کی ایک شعوری کوشش قرار دی جاسکتی ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے امریکی ایوانِِ نمائندگان کے اس عمل کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے اور بین الاقوامی فوج داری عدالت سے جنگی جرائم پر اسرائیلی رہنماؤں کے وارنٹ جاری کیے جانے پر امریکی ایوانِ نمائندگان میں بین الاقوامی فوج داری عدالت کے اہل کاروں پر پابندیوں کے لیے ووٹنگ ہوئی جو کثرتِ رائے سے منظور ہوگئی تھی۔ گزشتہ سال نومبر میں عالمی عدالت کی جانب سے اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو اور اُن کے سابق وزیرِ دفاع یوو گیلنٹ کے لیے وارنٹِ گرفتاری جاری کیے گئے تھے، جس پر امریکی ایوانِ زیریں میں اس عدالتی فیصلے کے خلاف اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے حق میں بل منظور کرلیا تھا۔ نیتن یاہو کے وارنٹ جاری کرنے پر امریکی ایوان میں عالمی عدالت کے خلاف پابندیوں کا بل منظور کرکے عالمی امن کو تباہی کے راستے پر گامزن رکھنے کی نئی بنیاد رکھ دی گئی تھی، یہ عمل ایسے وقت میں کیا گیا تھا جب نئے امریکی صدر ابھی مسند پر فائز نہیں ہوئے اور یہ الگ بات ہے کہ نئے امریکی صدر ٹرمپ اسرائیلی کی بقاء کے لیے کسی بھی حد کو پار کرسکتے ہیں، وہ دنیا کو اسرائیل کی عینک سے دیکھتے ہیں۔
عالمی عدالت انصاف سترہ جولائی سن انیس سو اٹھانوے کو روم میں قائم کی گئی تھی، اسی طرح کا ایک عالمی فورم جنگی جرائم کا ٹریبونل بھی ہے دونوں کا مقصد کم وبیش ایک ہی ہے۔ انصاف کا بول بالا کرنا، جنگی جرائم کے ممالک کے خلاف کارروائی کرنا اور عالمی سطح پر ناانصافی کی شکار اقوام کو مظالم سے نجات دلانا جس کے اہم نکات ہیں۔ معاہدہ روم کے تحت آئی سی سی میں شامل تمام ایک سو چوبیس ملک نیتن یاہو اور گیلنٹ کے وارنٹ گرفتاری پر عمل درآمد کے قانونی طور پر پابند ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب واضح ہے کہ یہ خون آشام بھیڑیئے دنیا کے کسی ملک میں نہیں جاسکتے، جہاں بھی جائیں گے انہیں گرفتاری کا سامنا کرنا پڑے گا اور جو رکن ممالک اس پر عمل نہیں کریں گے وہ خلاف ورزی کے مرتکب ہوں گے۔ دوسری طرف پولینڈ نے وارنٹ گرفتاری جاری ہونے کے باوجود اسرائیلی وزیرِ اعظم نیتن یاہو یا کسی اسرائیلی نمائندے کو گرفتار نہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا تھا۔
اسرائیل کے مظلوم فلسطینیوں پر مظالم بڑھتے ہی جارہے ہیں اور کوئی اس ناجائز اور بدمعاش صیہونی ریاست کی کلائی مروڑنے کی جرأت نہیں کر پارہی ہے۔ اسلامی ممالک کا تو حال یہ ہے کہ وہ شتر مرغ کی طرح ریت میں منہ دبائے بیٹھے ہیں جبکہ ہم جیسے عالم اسلام کا ’’تارا‘‘ سمجھے جانے والے بھی اپنے بانی پاکستان قائدِ اعظم محمد علی جناحؒ کے اس پالیسی بیان کو در خور اعتنا خاطر میں لانے کو تیار نہیں ہیں جس میں انہوں نے اس ریاست کو ناجائز اور عالم اسلام کی پیٹھ میں خنجر قرار دیا تھا، ان کی دور بین نگاہ آنے والے منظر نامے کو بھانپ چکی تھی کہ اگر یہ ناجائز صیہونی ریاست پنپ گئی تو مسلمانوں کا قافیہ تنگ کردے گی، افسوس کہ آج ہم بھی دنیا کی بھیڑ چال میں اپنی منفرد شناخت اور انفرادیت کو بھول چکے ہیں اور دو ریاستی فورمولے کے پیٹے جانے والے دھنڈورے کی لے تال میں اپنی سُر بھی شامل کررہے ہیں اور اہلِ یہود کے ہم رکاب ہیں۔ سرکار دو ریاستی فارمولا مسئلہ فلسطین کا کوئی قابل قبول حل نہیں ہے۔
اسرائیل نے فلسطینیوں کا صرف جینا ہی حرام نہیں کیا ہوا بلکہ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ بیسیوں و درجنوں سیکڑوں اسلامی ممالک کے جیتے جاگتے ہوئے سات اکتوبر سن بیس تئیس سے غزہ میں جاری اسرائیلی جارحیت کی قیامت خیزی میں اب تک مظلوم اور نہتے فلسطینی شہداء کی تعداد چھیالیس ہزار سے زائد ہوچکی ہے۔ یہ تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے جو اصل میں فلسطینی ذرائع بیان کرتے ہیں۔ ظلم کی انتہاء یہ ہے کہ غزہ میں اکتوبر بیس تئیس سے اب تک شہید ہونے والے چھیالس ہزار سے زائد فلسطینیوں میں بچوں اور خواتین کی بڑی تعداد شامل ہے، اس عمل کو اقوامِ متحدہ کے ماہرین نے نسل کشی سے تعبیر کیا ہے۔ جبکہ جارح اسرائیل نے لبنان اور یمن میں بھی فضائی حملے جاری رکھے ہوئے تھے اور یمن کے دارالحکومت صنعا میں حوثیوں کے زیرکنٹرول و اثر علاقوں پر بمباری سے ایک بجلی گھر تباہ بھی کر دیا گیا تھا جبکہ حدیدہ اور راس عیسیٰ کے بندرگاہوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ کہا جاسکتا ہے کہ امریکہ کی طرف سے عالمی امن کو داؤ پر لگانے اور عالمی اداروں کی بے توقیری میں اضافہ کرنے والا امریکہ اور اس کا ہم رکاب اسرائیل دنیا میں کہیں بھی سکھ و چین نہیں چاہتے۔ اسرائیل کے توسیع پسندانہ اقدامات میں اگر کوئی ملک رکاوٹ بننے کی کوشش کرتا ہے تو اسے بری طرح ناکام بنا دیا جاتا ہے، یہ اسی کا شاخسانہ ہے کہ ہمارے پڑوس میں موجود اسرائیلی طرز کا ایک ملک انڈیا نے بھی کشمیریوں کی زندگیاں جہنم بنا رکھی ہیں، پاکستان پر کئی بار مسلح جارحیت بھی کرچکا ہے اور اقوامِ متحدہ کی کسی قرار داد کا اس پر بھی کوئی اثر نہیں ہوتا۔ شام کو بھی جہنم بنائے رکھنے والے بشار الاسد کی پشت پر انہیں جارح ممالک کا ہاتھ تھا جہاں امن ہوتا نظر آرہا تھا لیکن اسے بھی جہنمِ زار بنائے رکھنے کی طرف پیش قدمی جاری ہے۔ امریکہ کو آنکھیں دکھانے والے یمن کا بھی گھیراؤ جارہا ہے اور اس کی مزاحمت کو توڑنے کی کوشش جاری ہے۔ جو بھی اسلامی ملک اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کی کوشش کرتا ہے اسے سرنگوں کردیا جاتا ہے یا کمزور کرکے وہاں اپنی من پسند حکومتیں لائی جاتی ہیں۔ کب تک یہ کھیل جاری رہے گا۔ کیا دنیا کسی نئی عالمگیر جنگ کی چاپ سن رہی ہے؟
دعا ہے اللہ رب العزت کہ وہ امتِ مسلمہ پر اپنا رحم و کرم فرمائے اور انہیں ان کا رعب و دبدبہ واپس لوٹا کر انہیں سچا مسلمان بنا اقوام عالم میں مسلمانوں کو نصرت عطا فرما آمین۔

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: اسرائیلی وزیر امریکی ایوان عالمی عدالت نیتن یاہو کرتے ہوئے کے وارنٹ گیا تھا کے خلاف کے ساتھ نے والے کی کوشش کے لیے ہے اور اور اس

پڑھیں:

دوحا میں اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل ٹرمپ باخبر تھے، امریکی میڈیا کا انکشاف

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

واشنگٹن: امریکی میڈیا کی تازہ رپورٹ نے مشرقِ وسطیٰ کی سیاست میں ہلچل مچا دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق قطر کے دارالحکومت دوحا پر اسرائیلی میزائل حملے کی منصوبہ بندی اور اطلاع محض 50 منٹ پہلے ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تک پہنچ چکی تھی، لیکن صدر نے اس موقع پر کوئی عملی قدم اٹھانے کے بجائے خاموشی اختیار کی۔

اس انکشاف نے نہ صرف امریکا کے کردار پر سوالات اٹھا دیے ہیں بلکہ اس بات کو مزید اجاگر کیا ہے کہ واشنگٹن کے ناراضی بھرے بیانات محض دنیا کو دکھانے کے لیے تھے، حقیقت میں حملے کو روکنے کی کوئی کوشش ہی نہیں کی گئی۔

امریکی ذرائع ابلاغ نے 3 اعلیٰ اسرائیلی حکام کے حوالے سے بتایا کہ تل ابیب کی قیادت نے حماس رہنماؤں کو نشانہ بنانے کے لیے کیے جانے والے حملے کی خبر براہِ راست صدر ٹرمپ تک پہنچائی تھی۔ پہلے یہ اطلاع سیاسی سطح پر صدر کو دی گئی اور پھر فوجی چینلز کے ذریعے تفصیلات شیئر کی گئیں۔

اسرائیلی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اگر امریکا سخت مخالفت کرتا تو اسرائیل دوحا پر حملے کا فیصلہ واپس بھی لے سکتا تھا، لیکن چونکہ واشنگٹن نے کوئی مزاحمت نہ کی، اس لیے اسرائیلی قیادت نے اپنے منصوبے کو عملی جامہ پہنا دیا۔

یہ بھی بتایا گیا کہ امریکا نے دنیا کے سامنے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ حملے پر خوش نہیں تھا۔ وائٹ ہاؤس نے بعد ازاں یہ موقف اختیار کیا کہ جب اسرائیلی میزائل فضا میں داغے جا چکے تھے تب اطلاع موصول ہوئی، اس لیے صدر ٹرمپ کے پاس کوئی آپشن نہیں بچا تھا، لیکن میڈیا کے انکشافات نے اس وضاحت کو مشکوک بنا دیا ہے، کیونکہ اگر صدر واقعی 50 منٹ پہلے ہی آگاہ ہو چکے تھے تو ان کے پاس اسرائیل پر دباؤ ڈالنے کے لیے کافی وقت موجود تھا۔

یاد رہے کہ 9 ستمبر کو دوحا میں ہونے والے میزائل حملے میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنایا گیا تھا، جس پر عالمی سطح پر شدید ردِعمل سامنے آیا۔

عرب ممالک اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس حملے کو بین الاقوامی قوانین کی کھلی خلاف ورزی قرار دیا اور اسرائیل کو قابض قوت قرار دیتے ہوئے امریکی کردار کو بھی کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ فلسطینی عوام پہلے ہی اسرائیلی جارحیت کا شکار ہیں، ایسے میں قطر جیسے ملک پر حملے نے خطے کو مزید غیر مستحکم کرنے کا تاثر پیدا کیا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • نیتن یاہو نے ٹرمپ کو قطر حملے سے پہلے آگاہ کیا یا نہیں؟ بڑا تضاد سامنے آگیا
  • قطر پر اسرائیلی حملہ عالمی قوانین کی سنگین خلاف ورزی، وولکر ترک
  • غزہ میں اسرائیلی جارحیت جاری، ایک ہی دن میں 100 سے زائد فلسطینی شہید
  • عالمی سطح پر اسرائیل کو ذلت اور شرمندگی کا سامنا
  • اسرائیلی سفاکانہ رویہ عالمی یوم جمہوریت منانے والوں کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے، علامہ ساجد نقوی
  • اسرائیل کو عالمی سطح پر بڑھتی ہوئی تنہائی کا سامنا ہے .نیتن یاہو کا اعتراف
  • اسرئیلی وزیراعظم سے ملاقات : اسرائیل بہترین اتحاد ی، امریکی وزیرخارجہ: یاہوکی ہٹ دھرمی برقرار‘ حماس پر پھر حملوں کی دھمکی
  • دوحا پر اسرائیلی حملہ: پاکستان اور کویت کی  درخواست پر سلامتی کونسل کا غیر معمولی اجلاس آج
  • دوحا میں اسرائیلی حملے سے 50 منٹ قبل ٹرمپ باخبر تھے، امریکی میڈیا کا انکشاف
  • گریٹر اسرائیل عالمی امن کیلئے خطرہ ہے؛ تمام حدیں پار کردیں، امیر قطر