سائنسدانوں نے خلا میں ایسی کائناتی لہریں دریافت کی ہیں جو پرندوں کی چہچہاہٹ جیسی آواز پیدا کرتی ہیں۔ ان لہروں کو ”کورس ویوز“ کہا جاتا ہے، جو پلازما کی لہریں ہیں اور انسانی سماعت سے مطابقت رکھنے والی فریکوئنسی پر پھیلتی ہیں۔

جب ان لہروں کو آڈیو سگنلز میں تبدیل کیا گیا تو ان کی آواز بلند پچ والے پرندوں کی چہچہاہٹ جیسی معلوم ہوئی۔یہ لہریں زمین سے 62,000 میل (100,000 کلومیٹر) دور ایک ایسی جگہ سے دریافت کی گئیں جہاں پہلے کبھی ان کی موجودگی کا مشاہدہ نہیں ہوا تھا۔

یونیورسٹی آف آئیووا کی ماہر خلائی فزکس ایلیسن جینز کا کہنا ہے، ’یہ دریافت بہت سے نئے سوالات کو جنم دیتی ہے کہ اس علاقے میں کون سے طبیعیاتی عوامل ممکن ہو سکتے ہیں۔‘ماہرین کا خیال ہے کہ یہ لہریں زمین کے مقناطیسی میدان کے اثرات سے پیدا ہو سکتی ہیں، تاہم اس کا میکانزم ابھی تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا۔

یہ لہریں پہلے بھی خلا میں ریکارڈ کی جا چکی ہیں، جیسے 1960 کی دہائی میں انٹارکٹیکا میں ایک تحقیقی اسٹیشن نے ان کا مشاہدہ کیا تھا۔ ناسا کے وین ایلن پروبز نے زمین کے قریب سے بھی ان لہروں کی آوازیں سنی تھیں، لیکن یہ نئی دریافت پہلے سے کہیں زیادہ دور کی ہے۔

تازہ آوازیں ناسا کے میگنیٹوسفیریک ملٹی اسکیل (MMS) سیٹلائٹس کے ذریعے ریکارڈ کی گئیں، جو 2015 میں زمین اور سورج کے مقناطیسی میدانوں کا مطالعہ کرنے کے لیے لانچ کی گئی تھیں۔یہ تحقیق حال ہی میں جریدے ”نیچر“ میں شائع ہوئی ہے۔

کورس ویوز دیگر سیاروں جیسے مشتری اور زحل کے قریب بھی دیکھی گئی ہیں اور یہ ایسے ہائی انرجی الیکٹرانز پیدا کر سکتی ہیں جو سیٹلائٹ کمیونیکیشن کو متاثر کر سکتے ہیں۔تحقیق کے مصنف چینگمینگ لیو کا کہنا ہے کہ یہ لہریں خلا کی سب سے مضبوط اور اہم لہروں میں سے ایک ہیں۔کوانٹم فزکس میں پہلی بار بڑی پیش رفت، الیکٹران کی شکل سامنے آگئی

تازہ دریافت شدہ کورس ویوز زمین کے مقناطیسی میدان کے اس حصے میں ملی ہیں جو غیر متوقع طور پر پھیلا ہوا ہے، جس سے ان لہروں کے بننے کے عمل کے بارے میں نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔ایلیسن جینز نے مزید کہا، ’یہ بہت پرکشش اور دلچسپ دریافت ہے۔ ہمیں مزید ایسے واقعات کی تلاش کرنی چاہیے۔‘

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: ان لہروں یہ لہریں

پڑھیں:

لاہور میں زیر زمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے، ڈائریکٹر ایری گیشن ریسرچ

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ایری گیشن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ لاہور کے ڈائریکٹر ڈاکٹر ذاکر سیال نے خبردار کیا ہے کہ لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے نیچے جا رہی ہے۔

ان کے مطابق شہر کی گلیاں، بازار اور گرین بیلٹس پختہ کر دی گئی ہیں جس کے باعث زمین بارش کے پانی کو جذب نہیں کر پا رہی۔ نتیجتاً لاہور کے ’’قدرتی پھیپھڑے‘‘ بند ہو گئے ہیں اور بارش کا پانی ضائع ہو کر نالوں اور گٹروں میں بہہ جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ حالیہ بارشوں سے بھی زیر زمین پانی کی سطح بلند نہیں ہو سکی اور صرف 15 لاکھ لیٹر پانی مصنوعی طریقے سے ری چارج کیا گیا، جب کہ باقی تمام پانی نکاسی کے نظام میں ضائع ہو گیا۔ یہ صورتحال لاہور کے لیے نہایت خطرناک ہے کیونکہ شہر میں پانی کی دستیابی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔

ڈاکٹر سیال نے کہا کہ لاہور میں اس وقت پینے کا صاف پانی 700 فٹ کی گہرائی سے نکالا جا رہا ہے۔ شہر میں 1500 سے 1800 ٹیوب ویل چوبیس گھنٹے چل رہے ہیں، جس سے پانی کے ذخائر تیزی سے ختم ہو رہے ہیں۔ ان کے مطابق بارش کے پانی کا صرف تین فیصد حصہ زیر زمین واٹر ٹیبل کو ری چارج کرتا ہے، جو کہ خطرے کی گھنٹی ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ پانی کی سطح کو بہتر بنانے کے لیے فوری اقدامات کرنا ہوں گے۔ اس کے لیے ری چارجنگ کنویں بنانا ناگزیر ہیں، جب کہ بڑے ڈیموں کے ساتھ ساتھ انڈر گراؤنڈ ڈیمز کی تعمیر بھی ضروری ہے۔ بصورت دیگر آنے والے سالوں میں لاہور کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • کیا زمین کی محافظ اوزون تہہ بچ پائے گی؟ سائنسدانوں اور اقوام متحدہ نے تازہ صورتحال بتادی
  • جنوب مشرقی ایشیا میں مصر سے بھی زیادہ پرانی ممیاں دریافت
  • دریائے راوی کی زمین پر بنی نجی ہاؤسنگ سوسائٹی کے متاثرین کو فی کس 2 کروڑ کے قریب واپس کردیے گئے
  • بارشوں اور سیلاب سے بھارتی پنجاب میں فصلوں کو بڑے پیمانے پر نقصان
  • زمین کے ستائے ہوئے لوگ
  • کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟
  • بارشوں کے باوجود لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح تیزی سے کمی ریکارڈ
  • لاہور میں زیر زمین پانی تیزی سے نیچے جا رہا ہے، ڈائریکٹر ایری گیشن ریسرچ
  • ابوظبی کے سر بنی یاس جزیرے پر 1400 سال پرانی صلیب کی حیرت انگیز دریافت
  • اب چشمہ لگانے کی ضرورت نہیں! سائنسدانوں نے نظر کی کمزوری کا نیا علاج دریافت کرلیا