کائنات کے دور دراز حصے میں گونجتی پرندوں کی چہچہاہٹ ،سائنسدان دم بخود رہ گئے
اشاعت کی تاریخ: 27th, January 2025 GMT
سائنسدانوں نے خلا میں ایسی کائناتی لہریں دریافت کی ہیں جو پرندوں کی چہچہاہٹ جیسی آواز پیدا کرتی ہیں۔ ان لہروں کو ”کورس ویوز“ کہا جاتا ہے، جو پلازما کی لہریں ہیں اور انسانی سماعت سے مطابقت رکھنے والی فریکوئنسی پر پھیلتی ہیں۔
جب ان لہروں کو آڈیو سگنلز میں تبدیل کیا گیا تو ان کی آواز بلند پچ والے پرندوں کی چہچہاہٹ جیسی معلوم ہوئی۔یہ لہریں زمین سے 62,000 میل (100,000 کلومیٹر) دور ایک ایسی جگہ سے دریافت کی گئیں جہاں پہلے کبھی ان کی موجودگی کا مشاہدہ نہیں ہوا تھا۔
یونیورسٹی آف آئیووا کی ماہر خلائی فزکس ایلیسن جینز کا کہنا ہے، ’یہ دریافت بہت سے نئے سوالات کو جنم دیتی ہے کہ اس علاقے میں کون سے طبیعیاتی عوامل ممکن ہو سکتے ہیں۔‘ماہرین کا خیال ہے کہ یہ لہریں زمین کے مقناطیسی میدان کے اثرات سے پیدا ہو سکتی ہیں، تاہم اس کا میکانزم ابھی تک مکمل طور پر سمجھا نہیں جا سکا۔
یہ لہریں پہلے بھی خلا میں ریکارڈ کی جا چکی ہیں، جیسے 1960 کی دہائی میں انٹارکٹیکا میں ایک تحقیقی اسٹیشن نے ان کا مشاہدہ کیا تھا۔ ناسا کے وین ایلن پروبز نے زمین کے قریب سے بھی ان لہروں کی آوازیں سنی تھیں، لیکن یہ نئی دریافت پہلے سے کہیں زیادہ دور کی ہے۔
تازہ آوازیں ناسا کے میگنیٹوسفیریک ملٹی اسکیل (MMS) سیٹلائٹس کے ذریعے ریکارڈ کی گئیں، جو 2015 میں زمین اور سورج کے مقناطیسی میدانوں کا مطالعہ کرنے کے لیے لانچ کی گئی تھیں۔یہ تحقیق حال ہی میں جریدے ”نیچر“ میں شائع ہوئی ہے۔
کورس ویوز دیگر سیاروں جیسے مشتری اور زحل کے قریب بھی دیکھی گئی ہیں اور یہ ایسے ہائی انرجی الیکٹرانز پیدا کر سکتی ہیں جو سیٹلائٹ کمیونیکیشن کو متاثر کر سکتے ہیں۔تحقیق کے مصنف چینگمینگ لیو کا کہنا ہے کہ یہ لہریں خلا کی سب سے مضبوط اور اہم لہروں میں سے ایک ہیں۔کوانٹم فزکس میں پہلی بار بڑی پیش رفت، الیکٹران کی شکل سامنے آگئی
تازہ دریافت شدہ کورس ویوز زمین کے مقناطیسی میدان کے اس حصے میں ملی ہیں جو غیر متوقع طور پر پھیلا ہوا ہے، جس سے ان لہروں کے بننے کے عمل کے بارے میں نئے سوالات جنم لیتے ہیں۔ایلیسن جینز نے مزید کہا، ’یہ بہت پرکشش اور دلچسپ دریافت ہے۔ ہمیں مزید ایسے واقعات کی تلاش کرنی چاہیے۔‘
.ذریعہ: Daily Ausaf
پڑھیں:
زمین پر ملنے والی مریخ کی چٹان کی فروخت لاکھوں ڈالر میں متوقع
زمین پر دریافت ہونے والا مریخ کا سب سے بڑا شہابی پتھر رواں مہینے کے آخر میں نیلام کر دیا جائے گا۔ پتھر کی نیلامی 40 لاکھ ڈالر تک میں متوقع ہے۔
زمین پر ملنے والی اس قسم کے صرف 400 میں سے ایک یہ سرخ رنگ کی خلائی چٹان ہے جو مریخ پر سیارچہ ٹکرانے کے بعد سیارے سے نکلی اور 14 کروڑ میل کا فاصلہ طے کر کے زمین تک پہنچی تھی۔
NWA 16788 نامی یہ چٹان ایک گمنام شہابی پتھر ڈھونڈنے والے کو 2023 میں صحارا صحرا میں ملی تھی۔ تاہم، یہ واضح نہیں کہ یہ زمین پر کب گری۔
اگر مریخ کی یہ چٹان فروخت کی جائے تو توقع کی جا رہی ہے کہ یہ ماضی کا ریکارڈ توڑ دے۔ سال 2000 میں چین سے ملنے والا شہابی پتھر اس وقت نیلام ہونے والے سب سے مہنگے شہابی پتھر کا اعزاز رکھتا ہے۔ تاہم، 2008 میں اس کو تقریباً 30 لاکھ ڈالر میں فروخت کیا جا رہا تھا تو اس کو کسی نے نہیں خریدا تھا۔
البتہ، NWA 16788 کی فروخت 20 لاکھ سے سے 40 لاکھ ڈالر کے درمیان متوقع ہے۔