ڈیجیٹلائزیشن: ٹیکس اصلاحات کا واحد راستہ!
اشاعت کی تاریخ: 29th, January 2025 GMT
گزشتہ دنوں میں نے اپنے ایک کالم میں تفصیل سے لکھا تھا کہ پاکستان میں ہر سال ٹیکس کولیکشن بڑھی ہے لیکن مسائل جوں کے توں ہیں۔ پاکستان میں ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح اب بھی کم ہے۔اس وقت بقول وزیرخزانہ محمد اورنگزیب پاکستان کی ٹیکس ٹو جی ڈی پی شرح 10 فیصد کے قریب ہے جسے وہ اگلے 3سال میں 13.5 فیصد تک لے جانا چاہتے ہیں۔ وزیرخزانہ کی یہ خواہش اور سوچ درست ہے کیونکہ ورلڈ بینک کے مطابق، جی ڈی پی کا 15 فیصد ٹیکس ریونیو معیشت کی ترقی کو فروغ دیتا ہے۔ اس سے معاشی استحکام لانے میں مدد ملتی ہے۔ جب حکومت کے پاس اضافی وسائل ہوتے ہیں تو وہ ان کو صحت، تعلیم اور دیگر اہم شعبوں میں خرچ کرتی ہے، جو عوام کی زندگی کے معیار کو بہتر بناتا ہے۔ اس طرح سے ٹیکس کی شرح میں اضافہ معاشی ترقی، استحکام اور سماجی مساوات میں بہتری لاتا ہے، جو ایک مضبوط اور خوشحال معاشرے کی بنیاد فراہم کرتا ہے۔ لیکن وزیرخزانہ کی خواہش اور سوچ کو عملی جامہ پہنانا ایک بڑا چیلنج ہے۔ اس کے لیے حکومت کو ایسے ٹھوس اور عملی اقدامات کرنا پڑیں گے جس سے دو کام ہوں۔ ایک تو ان لوگوں کے لیے نظام میں آسانیاں پیدا کی جائیں جوٹیکس دینا توچاہتے ہیں لیکن ٹیکس نظام سے خوفزدہ ہیں کہ کہیں رجسٹرڈ ہونے کے بعد انہیں ٹیکس سے زیادہ متعلقہ اداروں کے اہلکاروں کو نوازنے کے لیے پیسے خرچ نہ کرنا پڑیں اور دوسرا ان ٹیکس نہ دینے والوں کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لیے ایسا نظام وضح کیا جائے کہ اربوں روپیہ افراد کی جیبوں میں جانے کے بجائے ملکی خزانے میں جمع ہو۔
میری نظر میں یہ دونوں کام کرنے کا ایک بہترین راستہ ڈیجیٹلائزیشن کا فروغ ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن دنیا کا مستقبل ہے۔ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے دنیا کے ہر چھوٹے بڑے مسئلے کو حل کیا جارہا ہے لیکن میں حیران ہوں کہ پاکستان میں سرکاری کاموں میں اس کا استعمال اب بھی پوری طرح نہیں ہوپارہا جس کی وجہ وزیر مملکت برائے آئی ٹی و ٹیلی کمیونیکیشن شزہ فاطمہ خواجہ نے پچھلے دنوں بتائی کہ کوئی بھی سرکاری محکمہ ڈیجیٹل نہیں ہونا چاہتا، انہیں سرکاری اداروں کی ڈیجیٹائزیشن کے لیے جنگ لڑنا پڑ رہی ہے، انہوں نے سوال اٹھایا کہ رشوت کے بازار کو ختم کرنا ہے یا نہیں؟ اگر رشوت کو ختم کرنا اور نظام میں شفافیت لانا ہے تو ڈیجیٹل ہونا پڑے گا۔ وزیرخزانہ محمد اورنگزیب اور اور وزیر آئی ٹی شیزہ فاطمہ کی باتوں کا خلاصہ کریں تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت میں موجود لوگوں کو مسائل اور ان کا حل دونوں معلوم ہیں لیکن وہ کسی نہ کسی سطح پر بے بسی کا شکار ہیں۔ حکومتی اور عوامی نمائندوں کی بے بسی کا عالم یہ ہے کہ پچھلے دنوں خبرآئی کہ ایف بی آر نے اپنے افسران کے لیے اربوں روپے مالیت کی 1010 گاڑیاں خریدنے کا فیصلہ کیا ہے۔ جس پر گزشتہ ہفتے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے برہمی کا اظہار کیا تھا۔چیئرمین قائمہ کمیٹی خزانہ سلیم مانڈوی والا نے سوال کیا تھا کہ ایک ہزار دس گاڑیاں ایف بی آر کس لیے خرید رہا ہے جس پر وزارت خزانہ کے حکام کی جانب سے آگاہ کیا گیا کہ یہ گاڑیاں فیلڈ افسران کے لیے خریدی جارہی ہیں۔سینیٹر سلیم ماونڈوی والا نے پوچھا کہ کیا پہلے فیلڈ افسر سائیکل پر سفر کرتے تھے؟ اہم حلقوں میں محبوب سمجھے جانے والے سینیٹر فیصل واوڈا نے بھی اعتراض کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایف بی آر مخصوص کمپنی سے گاڑیاں خرید رہا ہے، یہ بہت بڑا سکینڈل ہے۔ تاہم چیئرمین ایف بی آر راشد محمود لنگڑیال نے افسران کے لیے گاڑیوں کی خریداری پر ہونے والے اعتراض کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ نوجوان افسران کے لیے گاڑیاں ضرور خریدیں گے، آپریشنز کے لیے گاڑیوں کی ضرورت ہے۔ حد یہ ہے کہ جب ایک صحافی نے چیئرمین ایف بی آر سے پوچھا کہ ’کیا آپ اپنے ٹارگٹس حاصل کرلیں گے‘، تو اس کے جواب میں چیئرمین ایف بی آر نے کہا کہ میں نے ابھی جوتشی والا کام شروع نہیں کیا۔ اس ساری صورتحال سے آپ اندازہ لگاسکتے ہیں کہ ٹیکس جمع کرنے والوں کی اپنی ترجیحات کیا ہیں اور عوامی نمائندوں کے اختیارات کتنے مؤثر ہیں۔
میری رائے میں اگر حکومت اصلاحات چاہتی ہے تو اسے ٹیکس نہ دینے والوں اور اپنے اداروں پر رٹ منوانے کے لیے کچھ ایسے اقدامات کرنا پڑیں گے کہ ٹیکس چوری کا سانپ بھی مرجائے اور حکومتی بھرم کی لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔ اس کا بہترین حل یہ ہے کہ حکومت تھوڑا حوصلہ کرکے ٹیکس نظام میں ڈیجیٹلائزیشن پر عملدرآمد یقینی بنائے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں جس سے ٹیکس دینے والوں کی حوصلہ افزائی، ٹیکس چوروں کی پکڑ اور افسر شاہی کے غیر ضروری عمل دخل کا خاتمہ ایک ساتھ ہو۔ میرا مشورہ یہ ہے کہ ٹیکنالوجی اور آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے ذریعے خرید و فروخت کا ایسا نظام بنایا جائے کہ ٹیکس چوری ہو ہی نہ سکے۔ حکومت ڈیجیٹل ٹرانزیکشنز کو فروغ دے۔ فوری طورپر کریڈٹ اور ڈیبیٹ کارڈ کے ذریعے خریداری پر سیلز ٹیکس 18 فیصد سے کم کرکے5 فیصد کردیا جائے تاکہ ڈیجیٹل پیمنٹس کے ذریعے خریداری کو فروغ ملے اور جتنی بھی ادائیگیاں ہیں وہ آہستہ آہستہ باضابطہ بینکنگ چینلز کے ذریعے ہوں۔ اب ہوٹلز اور ریسٹورنٹس میں لوگ کارڈ کے ذریعے پیمنٹس کو ترجیح دیتے ہیں جس پر 16 فیصد کی بجائے 5 فیصد سیلز ٹیکس کٹتا ہے۔ اس سے فائدہ یہ ہوگاکہ حکومت کے پاس ٹیکس بیس کر بڑھانے کے لیے ڈیٹا دستیاب ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ حکومت پوائنٹ آف سیل نظام کو مزید بہتری لانے کے اقدامات بھی کرے۔
پاکستان میں ٹیکس اور دیگر سرکاری نظام کی ڈیجیٹلائزیشن وقت کی اہم ضرورت ہے۔ ڈیجیٹلائزیشن کے ذریعے نہ صرف کرپشن کا خاتمہ کیا جا سکتا ہے بلکہ عوامی اعتماد بھی بحال ہو سکتا ہے۔ ٹیکس دہندگان کو سہولت فراہم کرنے، ٹیکس چوری کے خلاف کارروائی اور سرکاری اداروں کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت کو فوری طور پر اقدامات کرنا ہوں گے۔ اگر حکومت اس سمت میں سنجیدہ اقدامات کرے تو نہ صرف معیشت میں استحکام آئے گا بلکہ عوام کی زندگی کے معیار میں بھی بہتری آئے گی، اور ایک مضبوط اور خوشحال پاکستان کا خواب پورا ہو سکے گا۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: افسران کے لیے پاکستان میں ایف بی ا ر کے ذریعے یہ ہے کہ
پڑھیں:
مٹھی بھر دہشتگرد بلوچستان، پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا راستہ نہیں روک سکتے: ڈی جی آئی ایس پی آر
راولپنڈی(آ ئی این پی )پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ( آئی ایس پی آر) کے ڈائریریکٹر جنرل لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے کہاہے کہ مٹھی بھر دہشتگرد بلوچستان اور پاکستان کی ترقی و خوشحالی کا راستہ نہیں روک سکتے،کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور رہے گا،کہ بھارتی اسٹریٹجک مفروضوں کو ہمیشہ کیلئے زمین بوس کر دیا۔ لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چوہدری نے کنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کا دورہ جہاں انتظامیہ اور طلبہ نے ان کا استقبال کیا۔دورے کے دوران انہوں نے بھارت کے خلاف کامیاب آپریشن بنیان مرصوص میں پاک افواج کی حکمت عملی اور کامیابی پر روشنی ڈالی۔ لیفٹیننٹ جنرل احمدشریف چوہدری نے کہا کہ معرکہ حق میں فتح مبین میں عوام کی حمایت بالخصوص نوجوانوں کا کردار اہم رہا، کشمیر پاکستان کی شہ رگ تھا، ہے اور رہے گا۔انہوں نے کہا کہ بلوچ عوام پاکستان سے تاریخ، مذہب، ثقافت اور روایت کے رشتوں میں جڑی ہے، مٹھی بھر دہشتگرد ترقی و خوشحالی کا راستہ نہیں روک سکتے۔طلبا و طالبات نے آپریشن بنیان مرصوص کی تاریخی فتح پر افواج پاکستان کو خراج تحسین پیش کیا جبکہ فیکلٹی ممبران نے مزید ایسے انٹرایکٹیو سیشنز کے انعقاد کی خواہش کا اظہار کیا۔اس سے قبل ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹینٹ جنرل احمد شریف چوہدری نے جناح یونیورسٹی برائے خواتین کراچی کا دورہ کیا تھا جہاں انتظامیہ اور طالبات نے ان کا پرجوش استقبال کیا تھا۔انہوں نے طالبات کو آپریشن بنیان مرصوص میں حکمت عملی، قربانیوں سے آگاہ کیا اور کہا تھا کہ آپریشن میں عوام بالخصوص طلبا و طالبات نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ترجمان پاک فوج نے کہا تھا کہ بھارتی اسٹریٹجک مفروضوں کو ہمیشہ کیلئے زمین بوس کر دیا، بلوچستان کے عوام مذہب، ثقافت، روایات کے رشتوں میں بندھے ہیں، فتنہ الہندوستان کے مٹھی بھر دہشتگرد بلوچستان سے رشتے کو نقصان نہیں پہنچا سکتے۔