امریکہ کا اب تارکین وطن کو گوانتانامو بے میں رکھنے کا فیصلہ
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 30 جنوری 2025ء) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کیوبا کی گوانتانامو بے میں تارکین وطن کے حراستی مرکز کی تعمیر کا حکم دیا ہے، جس میں ان کے بقول ایسے 30 ہزار افراد کو رکھا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ کیوبا میں امریکی بحریہ کے اڈے کی یہ نئی سہولت اس کی اعلیٰ حفاظتی فوجی جیل سے الگ ہو گی اور یہ "امریکی عوام کے لیے خطرہ بننے والے بدترین غیر قانونی اجنبی مجرموں" کی رہائش ہو گی۔
ٹرمپ کی نئی امیگریشن پالیسی افغان شہریوں کے لیے بڑا دھچکہ
امریکی صدر نے بدھ کے روز اعلان کیا کہ وہ ملک بدر کیے گئے تقریباﹰ تیس ہزار غیر قانونی تارکین وطن کو گوانتانامو بے میں رہائش فراہم کرنے کے لیے ایک ایگزیکٹو آرڈر پر دستخط کرنے جا رہے ہیں۔
(جاری ہے)
بعد میں شام کو ہی ٹرمپ نے محکمہ دفاع اور ہوم لینڈ سکیورٹی کو اس کی تیاری شروع کرنے کی ہدایت جاری کر دی۔
ٹرمپ کے پہلے ایگزیکٹو آرڈرز ان کی ترجیحات کے مظہر
ٹرمپ کا کہنا تھا کہ گوانتانامو بے میں "تارکین وطن کی سہولت" کا استعمال ان "بدترین مجرموں اور غیر قانونی بیرونی افراد کو حراست میں لینے کے لیے کیا جائے گا، جو امریکی عوام کے لیے خطرہ ہیں۔"
ٹرمپ نے مزید کہا، "ان میں سے کچھ تو اتنے برے ہیں کہ ہم ان کے ممالک پر بھی بھروسہ نہیں کرتے کہ وہ انہیں روک پائیں گے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ واپس آئیں۔
"امریکہ اور افغان طالبان میں قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت، رپورٹ
کیوبا کی منصوبے پر تنقیدبدھ کی شام کو سرحد سے متعلق ٹرمپ کے خاص عہدیدار ٹام ہوم نے کہا کہ گوانتنامو بے پر موجود سہولت میں توسیع کی جائے گی اور امیگریشن اینڈ کسٹمز انفورسمنٹ (آئی سی ای) کے ذریعے اسے چلایا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ تارکین وطن کو امریکی کوسٹ گارڈ کے ذریعے سمندر میں روکے جانے کے بعد ہی براہ راست وہاں پہنچایا جا سکتا ہے اور یہ کہ اس کے لیے "اعلیٰ ترین" حراستی معیار نافذ کیے جائیں گے۔
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ اس سہولت کی تیاری پر کتنی لاگت آئے گی اور یہ کب مکمل ہو گی اور یہ کہ "اعلیٰ ترین" حراستی معیار کیا ہو گا۔
ادھر کیوبا کی حکومت نے اس منصوبے کی مذمت کی اور امریکہ پر "مقبوضہ" زمین پر تشدد اور غیر قانونی حراست کا الزام لگایا۔
امریکہ نے گوانتانامو بے میں قید گیارہ یمنی شہریوں کو رہا کر دیا
ٹرمپ کا مہاجرین کی ملک بدری میں اضافے کا وعدہانتخابی مہم کے دور ٹرمپ نے امیگریشن کو کافی حد تک کم کرنے اور سرحدی کنٹرول کو مضبوط کرنے کا وعدہ کیا تھا اور عہدہ صدارت سنبھالنے کے بعد ہی انہوں نے اس سلسلے میں سرحد اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو نشانہ بنانے والے ایگزیکٹو آرڈرز پر دستخط کیے ہیں۔
ان کی انتظامیہ بھی ان کے ان احکامات اور اس پر عمل کو کافی نمایاں کر کے پیش کر رہی ہے، جیسے وسطی امریکہ میں تارکین وطن کو لے جانے والے امریکی فوجی طیاروں کی تصاویر کو خوب شیئر کیا جا رہا ہے۔
لاکھوں افراد کی ممکنہ ملک بدری امریکی معیشت کے لیے خطرہ بھی
اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کے دوران بھی تارکین وطن کی اسی طرح کی ملک بدری ہوئی تھی، تاہم اس وقت امریکہ نے اس کے لیے فوجی طیارے استعمال نہیں کیے تھے۔
ٹرمپ نے بدھ کے روز امیگریشن سے متعلق بل پر دستخط کے موقع پر کہا کہ کچھ لوگوں کو ان کے آبائی ممالک میں واپس بھیجا جا رہا ہے، جن کے وہاں رہنے پر بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔
ٹرمپ نے کہا، "ان میں سے کچھ اتنے برے ہیں کہ ہم ان ممالک پر بھروسہ نہیں کرتے کہ وہ انہیں روک سکیں گے، کیونکہ ہم نہیں چاہتے کہ وہ پھر واپس آئیں، اس لیے ہم انہیں گوانتانامو بے بھیجنے والے ہیں۔
" گوانتانامو بے، ایذا رسانی اور تشدد کے لیے بدنامگوانتانامو بے ایک فوجی جیل ہے، جو جنوری 2002 میں جنوب مشرقی کیوبا میں واقع امریکی بحریہ کے اڈے پر قائم کی گئی تھی۔
اس وقت کے صدر جارج ڈبلیو بش کی انتظامیہ نے، 11 ستمبر 2001 کے دہشت گردانہ حملوں کے بعد دہشت گردی کے خلاف اپنی جنگ کو انجام دینے کے دوران، امریکہ کی طرف سے پکڑے گئے افراد کو حراست میں رکھنے کے لیے اس جیل کا انتخاب کیا تھا۔
بش انتظامیہ نے اس بدنام زمانہ جیل کا انتخاب اس کی منفرد حیثیت کی وجہ سے کیا تھا، کیونکہ یہ علاقہ امریکی کنٹرول میں تو ہے، تاہم تکنیکی طور پر یہ امریکہ کے اندر نہیں ہے۔
لیکن جن سینکڑوں افراد کو گوانتانامو بے میں رکھا گیا وہ ایسے علاقے میں داخل ہوئے جہاں ان کے پاس کسی طرح کے کوئی بھی قانونی حقوق نہیں تھے۔
برسوں اس جیل میں بند قیدیوں کے ساتھ جسمانی زیادتیوں کے سلوک، تشدد اور ایذا کے ذریعے پوچھ گچھ کے الزامات بھی لگتے رہے اور امریکی حکومت نے سینکڑوں افراد کو بغیر کسی الزام اور مقدمہ چلائے تقریباﹰ دو دہائی تک قید میں رکھا، جس پر اقوام متحدہ سمیت بین الاقوامی سطح پر احتجاج بھی کیا گیا۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، اے پی)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے گوانتانامو بے میں تارکین وطن کو افراد کو نے کہا کے لیے اور یہ گی اور کہا کہ
پڑھیں:
امریکہ، حکومتی شٹ ڈاؤن کا سنگین اثر
رپورٹ کے مطابق ہفتے سے امریکی فوڈ امدادی پروگرام "سپلیمنٹل نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام" (SNAP) کی فنڈنگ ختم ہونا شروع ہو جائے گی، جسے عام طور پر "فوڈ اسٹامپس" کہا جاتا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ امریکا میں جاری سرکاری شٹ ڈاؤن کے باعث تقریباً 4 کروڑ 20 لاکھ شہریوں کے خوراکی امدادی پروگرام سے محروم ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے، کیونکہ وفاقی حکومت کے پاس فنڈز تیزی سے ختم ہو رہے ہیں اور کانگریس میں ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان تعطل برقرار ہے۔ رپورٹ کے مطابق ہفتے سے امریکی فوڈ امدادی پروگرام "سپلیمنٹل نیوٹریشن اسسٹنس پروگرام" (SNAP) کی فنڈنگ ختم ہونا شروع ہو جائے گی، جسے عام طور پر "فوڈ اسٹامپس" کہا جاتا ہے۔ امریکی محکمہ زراعت (USDA) نے اعلان کیا ہے کہ وہ ہنگامی فنڈز استعمال نہیں کرے گا، جس سے نومبر کے جزوی فوائد کی ادائیگی ممکن ہو سکتی تھی۔ ڈیموکریٹس نے اس فیصلے کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ محکمہ قانونی طور پر پابند ہے کہ تقریباً 5.5 ارب ڈالر کے Contingency Funds استعمال کرے تاکہ لاکھوں شہری بھوک سے محفوظ رہ سکیں۔ سینیٹر جین شاہین نے الزام عائد کیا کہ ٹرمپ انتظامیہ "بھوک کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے"، جبکہ ریپبلکن ارکان نے اس تعطل کا ذمہ دار ڈیموکریٹس کو ٹھہرایا ہے۔
ریپبلکن سینیٹر جان ہووین کا کہنا ہے کہ اگر ڈیموکریٹس حکومت کھولنے کے لیے Continuing Resolution Bill (CR) کے حق میں ووٹ دے دیں تو یہ بحران ختم ہو سکتا ہے۔ دوسری جانب، امریکی کانگریس میں ایس این اے پی کی فنڈنگ پر تنازعہ بڑھ گیا ہے۔ کچھ ریپبلکن اراکین نے نومبر کے لیے امدادی پروگرام کی جزوی بحالی کا بل پیش کیا ہے، تاہم اس پر ووٹنگ تاحال نہیں ہو سکی۔ ماضی میں شٹ ڈاؤن کے دوران بھی ایس این اے پی کے فوائد تقسیم کیے جاتے رہے ہیں، لیکن اس بار محکمہ زراعت نے اپنے مؤقف میں یوٹرن لے لیا ہے اور ویب سائٹ سے سابقہ رہنمائی ہٹا دی ہے۔ یہ بحران امریکا کی ان ریاستوں کے لیے سب سے زیادہ تشویشناک ہے جہاں آبادی کا بڑا حصہ وفاقی خوراکی امداد پر انحصار کرتا ہے، جیسے لوزیانا، اوکلاہوما اور ویسٹ ورجینیا۔