پشاور ہائیکورٹ ؛ڈی جی نیب خیبرپختونخوا کی تعیناتی کیخلاف دائر درخواست پر چیئرمین نیب کو نوٹس ،جواب طلب
اشاعت کی تاریخ: 30th, January 2025 GMT
پشاور(ڈیلی پاکستان آن لائن)پشاور ہائیکورٹ نے ڈی جی نیب خیبرپختونخوا کی تعیناتی کیخلاف دائر درخواست پر چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب خیبرپختونخوا کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق پشاور ہائیکورٹ میں ڈی جی نیب خیبرپختونخوا کی تعیناتی کیخلاف دائر درخواست پر سماعت ہوئی، سماعت جسٹس اعجاز انور اور جسٹس فضل سبحان نے کی،وکیل درخواستگزار نے کہاکہ درخواستگزار کی پروموشن روکنے کیلئے ان کیخلاف انکوائری کی گئی،عدالت نے استفسار کیا کہ کس سے جواب طلب کریں،درخواستگزار نے کہاکہ چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب سے جواب طلب کیا جائے،جسٹس اعجاز انور نے کہاکہ انکوائری شروع کی ہے ابھی تو نہیں روک سکتے،عدالت نے کہاکہ درخواستگزار کیخلاف کوئی امتیازی سلوک نہ کیا جائے،عدالت نے چیئرمین نیب اور ڈی جی نیب کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
خاتون سے زیادتی کے بعد بچوں کے سامنے تیزاب بھی پھینک دیا گیا
مزید :.ذریعہ: Daily Pakistan
کلیدی لفظ: ڈی جی نیب خیبرپختونخوا چیئرمین نیب نے کہاکہ جواب طلب اور ڈی
پڑھیں:
ریاست کو شہریوں کی جان بچانے کیلئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہو گا: لاہور ہائیکورٹ
لاہور (خبر نگار) لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس امجد رفیق نے ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے آئی جی پنجاب کو درخواستگزار کو فوری طور پر پولیس پروٹیکشن دینے کا حکم دے دیا۔ عدالت نے قرار دیا کہ اگر کسی شہری کی جان کو خطرہ ہو تو اسے پولیس پروٹیکشن اس کا حق ہے۔ 10صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا گیا ہے کہ آئین میں شہریوں کی جان کا تخفظ مشروط نہیں بلکہ اسے ہر قیمت پر بچانا ہے۔ قرآن پاک میں بھی ہے کہ جس نے ایک جان بچائی اس نے پوری انسانیت کو بچایا۔ ریاست کو اپنے شہریوں کی جان بچانے کے لئے ہر ممکن قدم اٹھانے کا جذبہ دکھانا ہوگا۔ درخواست گزار کے مطابق وہ قتل کے متعدد کیسز میں بطور گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق وہ اپنی بہن اور بہنوئی کے قتل کا سٹار گواہ ہے۔ درخواستگزار کے مطابق مقدمے میں نامزد ایک ملزم کا پولیس مقابلہ ہو گیا، مقتول کی فیملی اسے دھمکیاں دے رہی ہے۔ آئی جی پنجاب نے رپورٹ جمع کرائی کہ ڈسٹرکٹ انٹیلی جنس کمیٹی نے درخواستگزار کو دو پرائیوٹ گارڈ رکھنے کی تجویز دی، ہوم ڈیپارٹمنٹ پالیسی 2018 کی تحت پولیس پروٹیکشن کی 16مختلف کیٹگریز بنائی گئی ہیں، جن میں وزیر اعظم، چیف جسٹس، چیف جسٹس ہائیکورٹ، بیوروکریٹس سمیت دیگر شامل ہیں، پالیسی کے پیرا چار میں معروف شخصیات کو پولیس پروٹیکشن دینے کا ذکر ہے۔ آئی جی پولیس مستند رپورٹ پر 30 روز تک پولیس پروٹیکشن دے سکتا ہے، غیر ملکیوں اور اہم شخصیات کو سکیورٹی دینے کیلئے پنجاب سپشل پروٹیکشنز یونٹ ایکٹ 2016 لایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002 شہریوں کی جان، مال اور آزادی کے تحفظ کی ذمہ داری واضح کرتا ہے، آرٹیکل 4 کے تحت ہر پولیس افسر پر شہریوں کے تحفظ کی قانونی ذمہ داری عائد ہے، اضافی پولیس کی تعیناتی صوبائی پولیس افسر کی منظوری سے مشروط ہوگی۔ درخواست گزار کاروباری ہونے کے ناطے سنگین دھمکیوں کے پیش نظر پولیس تحفظ کا حق رکھتا تھا، ایف آئی آرز میں گواہ ہونے کے باعث اسے پنجاب وِٹنس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے تحت بھی تحفظ دیا جا سکتا تھا، پنجاب کے تمام قوانین اور پالیسیز شہری کے تحفظ کے حق کی ضمانت دیتے ہیں۔ درخواست گزار کو پولیس تحفظ سے محروم کرنا غیر مناسب ہے۔ پولیس کسی شہری کو جان کے خطرے کی صورت میں خود تحفظ فراہم کرنے کی مجاز ہے۔ ڈی آئی سی کی رپورٹ محض سفارشاتی حیثیت رکھتی ہے، حتمی اختیار پولیس کو حاصل ہے۔