کراچی:

 سندھ بھر کے سرکاری اسپتالوں میں تھیلیسمیا اور خون کے کینسر(اے پلاسٹک اینیمیا) کے مریضوں کے علاج کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ کی سہولت میسر نہیں، خون کے کینسر کی تشخیص اور علاج غریب مریضوں کے لیے نامکمن ہے جبکہ کراچی کے این آئی سی ایچ اور انڈس سمیت مختلف نجی اسپتالوں میں ماہانہ 5 ہزار مریض سندھ اور بلوچستان سے رپورٹ ہوتے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ تھیلیمیسا اور خون کا کینسر(اے پلاسٹک انیمیا) کے مریضوں کو کیا جاتا ہے اور دیگر خون کے کینسر کا علاج مختلف ادویات کے ذریعے کیا جاتا ہے اور خون کے کینسر کی ادویات بہت مہنگی ہونے کی وجہ سے مریضوں کے لواحقین شدید مالی مشکلات سے دوچار ہیں۔ 

تھیلیسمیاکے مرض میں مبتلا 14 سالہ ساتوین کلاس کے طالب علم طاہر نے بتایا کہ میں پیدائشی 14سال سے تھیلیسمیا کے مرض میں مبتلا ہوں، میری زندگی کو بچانے کے لیے میرے والدین مجھے ہر ماہ خون لگواتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ڈاکٹروں نے بتایا کہ اس مرض کا مستقل علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ ہے لیکن میرے والدین کے پاس اتنے وسائل نہیں کہ وہ میرا مستقل بنیادوں پر علاج کرواسکیں۔

طالب علم کے والد اسلم مجاہد نے بتایا کہ 10 سال پہلے اپنے بچے کے علاج کے لیے ماہر ڈاکٹر طاہر شمسی سے رجوع کیا تھا جنھوں نے بون میروٹرانسپلانٹ کی ہدایت کی تھی، اس وقت میرے بچے کے علاج پر 30 سے 35 لاکھ روپے بتائے تھے۔

انہوں نے بتایا کہ میں نے سول اور جناح اسپتال سمیت دیگر اسپتالوں میں بون میروعلاج کے لیے رجوع کیا جس پر معلوم ہوا کہ بون میروٹرانسپلانٹ بہت مہنگا ہے اور کسی بھی سرکاری اسپتال میں نہیں ہوتا۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ علاج کراچی کے دو نجی اسپتالوں میں ہوتا ہے جس کے بعد میرے بچے کو زندگی بچانے کے لیے ہر ماہ انتقال خون کے عمل سے گزرنا پڑ رہا ہے، بچے کو ہر ماہ خون لگوانے کی وجہ سے بچے کے جسم میں آئرن کی بڑی مقدار جمع ہوجاتی ہے جس کی وجہ سے بچے کی تلی اور دیگر اعضا بھی متاثر ہوتے ہیں، جسم سے اضافی آئرن نکالنے کے لیے سرکاری اسپتالوں کے زکوٰۃ فنڈ سے بڑی مشکل سے ادویات لیتا ہوں، اکثر ان اسپتالوں سے ادویات بھی نہیں ملتی جو مجھے بازار سے مہنگے داموں خریدنی پڑتی ہے۔

انہوں نے حکومت سے درخواست کی کہ سرکاری اسپتالوں میں تھیلیسمیا کے بچوں کے علاج کے لیے بون میروعلاج شروع کیا جائے۔ 

تھیلیمیسا کے مرض میں مبتلا 10 سالہ شایان کی والدہ شازیہ نے بتایا کہ میرا بیٹا پیدائشی طور پر تھیلیسمیا میجر کے مرض میں مبتلا ہے، جس کی وجہ سے اس کے جسم میں خون نہیں بنتا، خون نہ بننے کی وجہ سے میرے بیٹے کا ہیموگلوبن کی شرح بہت کم ہوجاتی ہے اور وہ نڈھال ہوجاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اس صورت میں تھیلیسمیا کے بچوں کو ہر ماہ خون لگوانے کی ضرورت پڑتی ہے، ڈاکٹروں نے تھیلیسمیا کے مرض کا مستقل علاج بون میرو ٹرانسپلانٹ بتایا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ میرے شوہر کا انتقال ہوچکا ہے اور ہمارے پاس اتنے وسائل نہیں کہ میں اپنے بچے کا سرکاری سطح پرعلاج کرواسکوں، ہم نے ایک بڑے نجی اسپتال میں بون میرو علاج کے حوالے سے معلومات حاصل کی تو پتا چلا کہ بون میرو علاج کے لیے سب سے پہلے والدین یا بہن بھائیوں کے بون میرو کے ٹیسٹ کیے جاتے ہیں، وہ ٹیسٹ اتنے مہنگے ہیں کہ ہماری دسترس سے باہر ہے، مجبوراً اپنے بیٹے کی زندگی بچانے کے لیے ہر ماہ خون لگوانا پڑتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ تھیلیسمیا کے بچوں کو خون نہ لگوانے کی صورت میں ان بچوں کو ہیموگلوبن بہت کم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بچہ نڈھال ہوجاتا ہے، خون لگوانے سے ہیموگلوبن نارمل ہوجاتا ہے لیکن ہر ماہ خون لگوانے سے تھیلیسمیا کے بچوں میں آئرن کی اضافی مقدار جسم میں جمع ہوتی رہتی ہے، اس اضافی مقدار کو نکالنے کے لیے دوائیں استعمال کرنی پڑتی ہیں۔

ماہر امراض خون ڈاکٹرثاقب انصاری نے بتایا کہ خون کے کینسر کی تشخیص اور علاج بہت مہنگا ہوگیا ہے، اس بیماری میں مبتلا مریضوں کی ادویات بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی ہیں، ڈالر مہنگا ہونے کی وجہ سے ادویات کی قیمتیں غریب آدمی کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ کراچی کے مختلف اسپتالوں میں مختلف اقسام کے خون کے کینسر کے ماہانہ 10 ہزار مریض سے زائد مریض رپورٹ ہوتے ہیں جن کی اکثریت سندھ اور بلوچستان سے ہوتی ہے،  وہاں میں خون کے کینسر کے علاج کی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے ایسے مریض کراچی لائے جاتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے سندھ کے سرکاری اسپتالوں میں خون کے کینسر، تھیلیمیسا اور اے پلاسٹک انیمیا کے مریضوں کی زندگی بچانے کے لیے بون میرو ٹرانسپلانٹ کیا جاتا ہے لیکن سرکاری اسپتالوں میں بون میرو کی سہولت سرے سے موجود ہی نہیں ہے۔

ڈاکٹر نے کہا کہ پاکستان میں خون کے کی اقسام میںAcute lymphoblastic leukemia، Acute myeloid leukemia، Chronic myeloid leukemia، Chronic lymphoid leukemia، Multiple myeloma، Diffuse large B-cell lymphoma ، Hodgkin's lymphoma، Myelodysplastic syndrome، Myeloproliferative neoplasm، Myeloproliferative neoplasmشامل ہیں۔

ڈاکٹر ثاقب نے بتایا کہ خون کا کینسر اس وقت ہوتا ہے جب خون کے خلیات میں غیر معمولی تبدیلی رونما ہوجائے جس کی وجہ سے خون کو اپنے معمول کے کام کرنے سے روک دیا جاتا ہے۔

انہوں نے بتایا کہ سرکاری اسپتالوں میں بون میروعلاج کی سہولتیں دستیاب نہیں ہیں، خون کے کینسر اے پلاسٹک اینیمیا اور تھیلیسمیا کے مریضوں میں بون میرو مستقل علاج ہے، بون میرو ٹرانسپلانٹ کے بعد  مریض کو مکمل صحت یاب ہونے میں ایک سال کا وقت درکار ہوتا ہے، طبی پیچیدگیاں اور ٹرانسپلانٹ میں ناکامی جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ بون میرو ٹرانسپلانٹ کے لیے مریض کا اہل خانہ سے بون میرو کے نمونے لیے جاتے ہیں جس کے بعد لیبارٹری کے ذریعے مریض اور ڈونر کے نمونے مطابقت ہونے پر بون میرو کیا جاتا ہے، اس سے پہلے خون کے مختلف ٹیسٹ بھی کرائے جاتے ہیں۔ 

واضع رہے کہ  کراچی میں پروفیسر ڈاکٹر طاہر شمسی مرحوم نے تھیلیسمیا اورخون کے کینسر کے علاج کے لیے پہلا بون میرو ٹرانسپلانٹ 1994 میں لیاری کے رہائشی اشرف کا کیا تھا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسپتالوں میں بون میرو سرکاری اسپتالوں میں بون میرو ٹرانسپلانٹ ان کا کہنا تھا کہ کے مرض میں مبتلا کے علاج کے لیے ٹرانسپلانٹ کی بچانے کے لیے خون کے کینسر جس کی وجہ سے کیا جاتا ہے نے بتایا کہ کہ بون میرو خون لگوانے ہر ماہ خون کے مریضوں خون کے کی انہوں نے جاتے ہیں ہے اور

پڑھیں:

دنیا کا انوکھا علاج

نارمن کزنز (cousins) کے ساتھ 1964 میں عجیب واقعہ پیش آیا‘ امریکی صدرلنڈن بی جونسن نے اسے وفد کا سربراہ بنا کر ماسکو بھجوایا‘ وہ کولڈ وار کا زمانہ تھا‘ نارمن ایٹمی تنصیبات کے خلاف تھا‘ اس کا خیال تھا یہ پہلے انسانیت اور پھر انسان کو کرہ ارض سے مٹا دیں گی۔

 وہ بیک وقت انگریزی اور روسی زبانوں کا ماہر تھا لہٰذا صدر نے اسے انتہائی اہم وفد کا سربراہ بنا کر روس بھجوا دیا‘ یہ امریکا اور سوویت یونین کے درمیان جوہری توانائی پر پہلا رابطہ تھا اور اس کی تمام تر ذمے داری نارمن کزنز پر تھی‘ دورہ بہت کام یاب رہا لیکن آخری دن ایک ایسی گڑ بڑ ہو گئی جس نے تمام کام یابیاں مٹی میں ملا دیں اور امریکا اور روس کے تعلقات مزید خراب ہو گئے۔

 نارمن کزنز آخری دن کانفرنس ہال کے لیے نکلا‘ اس کے ہوٹل اور کانفرنس ہال کے درمیان 20 کلومیٹر کا فاصلہ تھا‘ ڈرائیور وقت پر آ گیا‘ وہ وقت پر روانہ ہوا لیکن ڈرائیور اسے منزل کی مخالف سائیڈ پر بہت دور لے گیا وہاں پہنچ کر پتا چلا ہم غلط آ گئے ہیں‘ اس کے بعد کزنز کے ساتھ کیا ہوا‘ میں اس طرف آتا ہوں لیکن اس سے پہلے آپ کو نارمن کزنز کا تعارف کراتا چلوں‘ نارمن امریکن یہودی تھا‘ نیوجرسی میں پیدا ہوا‘ کولمبیا یونیورسٹی سے گریجوایشن کی اور نیویارک پوسٹ جوائن کر لی‘ وہ بعدازاں اخبار کا منیجنگ ایڈیٹر بن گیا۔

 وہ ترقی کرتا ہوا 1942میں ایڈیٹر انچیف ہو گیا اور 1972 تک اس پوزیشن پر رہا‘ وہ اپنے زمانے کے مشہور ترین امریکی صحافیوں میں شمار ہوتا تھا‘ جوہری تنصیبات کے خلاف تھا لہٰذا صدر نے اسے اہم ترین وفد کا سربراہ بنا کر روس بھجوا دیا لیکن اس دن اس کے ساتھ افسوس ناک واقعہ پیش آیا‘ ڈرائیور اسے مخالف سمت میں بہت دور لے گیا‘ جب ان لوگوں کو اندازہ ہوا تو بہت تاخیر ہو چکی تھی‘ وہ ہال کی طرف واپس مڑے لیکن ٹریفک میں پھنس گئے‘ وہ حساس انسان تھا اسے شدید ٹینشن ہوئی‘ وہ جب منزل پر پہنچا تو تقریب معاہدے کے بغیر ختم ہو چکی تھی اور وفد اسے نفرت سے دیکھ رہا تھا۔

 وہ اس کے بعد وفد کے ساتھ ائیرپورٹ پہنچا تو فلائیٹ فل تھی‘ دوسری طرف ان کے ویزے کی مدت ختم ہو چکی تھی بہرحال قصہ مختصر پورا وفد دو دن خوار ہو کر مختلف ملکوں سے ہوتا ہوا امریکا پہنچا‘ امریکی صدر بھی اس سے ناراض ہو گیا‘ وہ چند ہفتے شدید ٹینشن میں رہا‘ اس ٹینشن کے دوران اس کے پورے جسم میں دردیں شروع ہو گئیں‘ وہ ڈاکٹر کے پاس گیا‘ اس کا طبی معائنہ ہوا تو پتا چلا اسے (Ankylosing spondylitis) نام کی بیماری ہو چکی ہے‘ یہ آٹو امیون بیماری ہے جس میں انسان کا جسم اپنے آپ کو کھانا شروع کر دیتا ہے‘ ڈاکٹر نے کزنز کو بتایا تمہاری بیماری کا کوئی علاج نہیں‘ پانچ سو بیماروں میں سے صرف ایک مریض بیماری کے بعد دس سال زندہ رہ سکتا ہے‘ ہم تمہارا علاج نہیں کر سکتے‘ صرف ’’پین کلرز‘‘ کے ذریعے تمہارا درد کم کر سکتے ہیں۔

 کزنز کے جسم میں اس وقت تک ناقابل برداشت درد تھا‘ وہ بستر پر کروٹیں بدلتااور آہ وزاری کرتا رہتا تھا‘ ڈاکٹر اسے روزانہ 38 دردکش گولیاں دیتے تھے لیکن درد اس کے باوجود کنٹرول نہیں ہوتا تھا‘ اسے ریسرچ کی عادت تھی لہٰذا اس نے اسپتال کے بستر پر لیٹے لیٹے اپنی بیماری پر ریسرچ شروع کر دی‘ اسے پتا چلا پین کلرز اینڈ ریلین گلینڈ سے وٹامن سی ختم کر دیتی ہیں جب کہ ریکوری اور قوت مدافعت کا انحصار وٹامن سی پر ہوتا ہے‘ اس نے ڈاکٹروں کی توجہ اس طرف مبذول کرائی لیکن ان کا جواب تھا ’’ڈاکٹرہم ہیں۔

 آپ نہیں‘ یہ فیصلہ ہم نے کرنا ہے‘‘ کزنز بہت جلد اسپتال‘ ادویات اور ڈاکٹروں سے مایوس ہو گیا چناں چہ اس نے اپنا علاج جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا‘ وہ اسپتال سے نکلا اور ہوٹل میں مستقل کمرہ لے لیا‘ وہ کمرہ اسپتال سے سستا بھی تھا اور آرام دہ بھی‘ اس نے پین کلرز بھی بند کر دیں جس کے بعد وہ ساری ساری رات درد سے تڑپتا رہتا تھا لیکن اس کے بعد اس نے پین کلرز کو ہاتھ نہیں لگایا‘ اس کے کمرے میں ٹیلی ویژن تھا‘ وہ سارا دن ٹی وی دیکھتا رہتا تھا‘ ان دنوں چارلی چپلن کی فلمیں چل رہی تھیں‘ اس نے ایک دن محسوس کیا وہ جب چارلی چپلن کی فلم دیکھتا ہے تو اس کا درد کم ہو جاتا ہے‘ اس نے اس تبدیلی کو نوٹ کرنا شروع کر دیا‘ اس نے دیکھا فلم کے دوران وہ قہقہہ لگاتا ہے جس کے ساتھ ہی درد ختم ہو جاتا ہے۔

 اس نے مزید نوٹ کیا دس منٹ کے قہقہوں کے بعد اسے دو گھنٹے تک درد نہیں ہوتا‘ اس نے اس تجربے کو بار بار دہرایا‘ ہر بار رزلٹ وہی نکلا‘ یہ ایک حیران کن دریافت تھی‘ اس نے تحقیق کی تو معلوم ہوا اسے ٹینشن کی وجہ سے بیماری ہوئی تھی اور قہقہہ اس کا علاج ہے‘ اسے یہ بھی معلوم ہوا دنیا میں جو بیماری گندگی سے ہوتی ہے اس کا علاج صفائی ہوتا ہے‘ جو خوراک سے ہوتی ہے وہ فاقے اور روزے سے ٹھیک ہو جاتی ہے‘ جو سستی سے ہوتی ہے اس کا علاج ایکٹویٹی اور حرکت ہوتا ہے چناں چہ دنیا کی تمام ٹینشنوں‘ ڈپریشنز اور اینگزائٹیز کا علاج مسکراہٹ‘ ہنسی اور قہقہہ ہے‘ آپ قہقہے لگاتے جائیں اور صحت مند ہوتے جائیں چناں چہ اس نے ہنسنا اور وٹامن سی لینا شروع کر دیا‘ وہ نہ صرف چند ہفتوں میں پاؤں پر کھڑا ہو گیا بلکہ اس کے جسم سے بیماری کے اثرات بھی ختم ہونے لگے۔

نارمن کزنز نے اس کے بعد اپنا طریقہ علاج دوسرے لوگوں پر آزمانا شروع کر دیا‘ نتائج یکساں نکلے‘ لوگوں کا درد اور تکلیف ختم ہو گئی‘ اس نے باقاعدہ اعدادوشمار کے ساتھ آرٹیکل لکھا اور یہ دنیا کے مشہور میڈیکل جرنل آف میڈیسن کو بھجوا دیا‘ ایڈیٹر اس کے پروفائل‘ میڈیکل ہسٹری اور اعدادوشمار سے متاثر ہوا اور اس نے آرٹیکل شایع کر دیا‘ یہ اس میڈیکل جرنل کی ہسٹری کا پہلا مضمون تھا جو کسی نان ڈاکٹر یا نان میڈیکل اسٹوڈنٹ نے لکھا تھا‘ آرٹیکل کے بعد نارمن کزنز ’’لافٹر تھراپی‘‘ کا بانی ہو گیا‘ یہ پہلا شخص تھا جس نے دنیا کو بتایا قہقہہ انسان کا درد ختم کر دیتا ہے‘ یہ دنیا کا بہترین پین کلر ہے‘ یہ پہلا شخص تھا جس نے بتایا ہنسی بھی علاج ہے۔

 یہ انسان کی بے شمار بیماریاں ختم کر دیتی ہے‘ اسے انسانی زندگی میں خوراک اور ادویات جیسی اہمیت ملنی چاہیے‘ اس کا طریقہ علاج امریکا میں اتنا کام یاب اور مشہور ہو گیا کہ اسے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا لاس اینجلس نے پروفیسر کی نوکری کی آفر کر دی‘ اس نے یہ پیش کش قبول کر لی اور نیوجرسی سے لاس اینجلس شفٹ ہو گیا‘ وہ 1978سے 1990تک میڈیکل یونیورسٹی میں سائیکالوجی اینڈ بی ہیور سائنسز کے شعبے میں پروفیسر رہا‘ اس کا سبجیکٹ ’’انسانی رویوں کے صحت پر اثرات‘‘ تھا‘ وہ 1990میں فوت ہوا‘ اس وقت تک اس کے پہلے ہارٹ اٹیک کو 10 سال‘ آنتوں کے کینسر کو 26 سال اور دل کی بیماری کو 36 سال ہو چکے تھے لیکن اس کے باوجود وہ 75 سال زندہ رہا اور اس کی صحت عام لوگوں سے بہتر تھی۔

 وہ پوری یونیورسٹی میں خوش ترین شخص تھا‘ اس نے اپنی بیوی کے ساتھ مل کر صرف ایکسرسائز‘ اپنے کھیت کی قدرتی سبزیوں اورہنسی کی مدد سے اپنے دل کا علاج بھی کر لیا‘ اس نے اپنے تجربات پر مبنی ’’اناٹومی آف این ال نیس‘‘ کے نام سے کتاب بھی لکھی جس پر بعدازاں فلم بھی بنی‘ آپ نے اگر فلم ’’منا بھائی ایم بی بی ایس‘‘ دیکھی ہو تو آپ کو اس میں میڈیکل کالج کے پرنسپل کا کردار ملے گا‘ یہ کردار بومن ایرانی نے ادا کیا‘ یہ اس کی زندگی کی پہلی بڑی فلم تھی جس نے اسے مین ایکٹر کی حیثیت سے متعارف کرایا‘ یہ کردار ڈاکٹر نارمن کزنز سے متاثر ہو کر تخلیق کیا گیا تھا‘ کزنز کی عادت تھی وہ ٹینشن اور اینگزائٹی کے عالم میں مسکرانا بلکہ قہقہے لگانا شروع کر دیتا تھا اور اس کے نتیجے میں اینگزائٹی یا ٹینشن اس کے دماغ اور جسم کو متاثر نہیں کر پاتی تھی‘ لافٹر تھراپی اس کا کمال تھا‘ آپ نے اکثر بالی ووڈ اور ہالی ووڈ کی فلموں میں لوگوں کو پارکوں میں گروپ کی شکل میں ہنستے اور قہقہے لگاتے دیکھا ہو گا‘ یہ ڈاکٹر نارمن کی ریسرچ کا نتیجہ ہے‘ اس کی ریسرچ کے بعد باقاعدہ لطائف کی کتابیں شایع ہونی شروع ہوئیں اور نفسیات دان مریضوں کو ہنسنے کی تلقین کرنے لگے‘ یہ نسخہ بھی آزمودہ ہے اور اس کے نتائج بھی حیران کن ہیں۔

آپ اگر ایس پی عدیل اکبر کے خودکشی کیس کا دوبارہ مطالعہ کریں تو آپ کو اس میں بھی ہنسی کا عنصر کم ملے گا‘ غیرضروری سنجیدگی انسان کے اندر گھٹن پیدا کرتی ہے‘ آپ دنیا کے کسی بھی سنجیدہ آدمی سے ملیں آپ کو یہ ہمیشہ درد کی شکایت کرتا ملے گا‘ اس کے بدن کے کسی نہ کسی حصے میں ضرور درد ہوگا‘ اس میں ٹینشن‘ اینگزائٹی اور ڈپریشن بھی ہو گا جب کہ قہقہے لگانے اور ہنسنے والے لوگ جلد صحت مند بھی ہو جاتے ہیں اور انھیں عام حالات میں درد اور تکلیف بھی کم ہوتی ہے۔

 اس طرح زندگی کے منفی پہلو دیکھنے اور ہمیشہ مایوس رہنے والے لوگ بھی جلد بیمار ہو جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیوں کہ ان کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے چناں چہ میرا مشورہ ہے آپ کم از کم دن میں ایک گھنٹہ ضرور مسکرایا اور قہقہے لگایا کریں‘ مزاحیہ فلمیں دیکھا کریں‘ لطائف کی کتابیں پڑھا کریں اور ہنسنے اور قہقہے لگانے والے لوگوں کی صحبت میں بیٹھا کریں‘ آپ کی بیماری‘ بیماری اور تکلیف ‘تکلیف نہیں رہے گی اگر آپ کے گھر یا اسپتال میں بھی کوئی مریض ہے تو آپ اسے دس منٹ ہنسا کر دیکھ لیں‘ اسے دو گھنٹے درد نہیں ہوگا‘ اللہ تعالیٰ نے انسان کی ہنسی میں اتنی طاقت رکھی ہوئی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • دنیا کا انوکھا علاج
  • سرکاری افسروں کی ترقی کے لیے لازمی مڈکیرئیر مینجمنٹ کورس کے شرکا کی فہرست تبدیل ؛7 افسروں کے نام واپس 54 نئے افسروں کی منظوری
  • کراچی میں سرکاری اسکول کو سیل کرکے قبضے کی کوششیں، متعلقہ اداروں کا اظہارِ لاعلمی
  • حیدرآباد:سرکاری اسپتال میں آئسولیشن وارڈ میں ڈینگی سے متاثرہ مریض زیر علاج ہیں
  • ڈینگی سے ہلاکتوں کا سلسلہ نہ رک سکا، اسپتالوں میںجگہ کم پڑ گئی
  • پاکستان کڈنی اینڈ لیور ٹرانسپلانٹ جگر کی 1000 پیوندکاریاں کر کے دنیا کے صف اول کے اسپتالوں میں شامل
  • پاکستان میں صحت کے شعبے میں تاریخی کامیابی، پاکستان کڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں جگر کے ایک ہزار کامیاب ٹرانسپلانٹس مکمل
  • ’پی کے ایل آئی‘ کی بڑی کامیابی، عالمی ٹرانسپلانٹ مراکز کی صف میں شامل
  • اسلام آباد میں 24گھنٹوں کے دوران 23نئے ڈینگی کیسزرپورٹ ہوئے
  • امریکا کی 5 فیصد آبادی میں کینسر جینز کی موجودگی، تحقیق نے خطرے کی گھنٹی بجا دی