فلسطینی مزاحمت کا حیران کن منصوبہ (آخری حصہ)
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
جب دین کے اصولوں اور تعلیمات کے مطابق جہاد کیا جاتا ہے، تو اللہ کی مدد سے حق کے پیرو کاروں کے لیے ایسی راہیں کھلتی ہیں جو باطل قوتوں کی کئی دہائیوں کی محنت کو ختم کر دیتی ہیں۔ قرآن کی یہ آیت اس حقیقت کو بیان کرتی ہے: یعنی ’’جو چیز بے فائدہ ہوتی ہے وہ ختم ہو جاتی ہے، اور جو لوگوں کے لیے مفید ہو وہ زمین پر باقی رہتا ہے‘‘۔
ان عظیم جانبازوں کی قربانیوں کو دل سے سراہا جانا چاہیے جنہوں نے ایک چھوٹے سے علاقے میں، سخت ترین حالات اور دشمن کی بے پناہ ظلم و درندگی کے باوجود، اسلامی تعلیمات کو ہر لمحے مضبوطی سے تھامے رکھا۔ ان کی جرأت، عزم اور ثابت قدمی بے مثال ہیں، اور وہ ہمیشہ اپنے ایمان اور اصولوں پر قائم رہے۔ یہ قربانیاں اور حوصلہ تاریخ میں ایک سنہری باب کے طور پر ہمیشہ یاد رکھے جائیں گے۔ غزہ کے مجاہدین نے سیدنا محمدؐ اور آپ کے صحابہ کرامؓ کے حسن سلوک کے واقعات کو عملی طور پر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اسلام میں قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کی جو تعلیم دی گئی ہے، وہ غزہ میں نہ صرف عملی طور پر دکھائی دی بلکہ اس کے اثرات نے دنیا کو اسلام کی عظمت اور انسانیت کے اصولوں کی حقیقت سے روشناس کرایا۔
سیدنا محمدؐ نے ہمیشہ قیدیوں کے ساتھ نرمی، عدل اور رحمت کا سلوک کیا۔ جنگی قیدیوں کو نہ صرف اذیت سے بچایا بلکہ انہیں بہترین رہائش، کھانا اور تحفّظ فراہم کیا۔ یہ سنّتِ رسول اور صحابہ کرام کا طرز عمل تھا، جسے غزہ کے مجاہدین نے آج کے دور میں بہترین طریقے سے اپنایا۔ ان کے اس سلوک نے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ اسلام میں قیدیوں کے ساتھ انسانیت کے اصولوں کے مطابق حسن سلوک کرنا ضروری ہے اور یہ دین کی روح کا حصّہ ہے۔ غزہ کے مجاہدین نے اپنی قربانیوں کے دوران بھی اس بات کو ثابت کیا کہ اسلام کی حقیقت صرف جنگ میں نہیں، بلکہ انسانیت کی خدمت اور عدل کے راستے پر چلنے میں ہے۔ یہ ایک عظیم مثال ہے جو اسلام کے عالمی پیغام کو اجاگر کرتی ہے۔
دین اسلام کی حقیقی خوبصورتی اس کے اصولوں اور اخلاقی تعلیمات میں ہے، خاص طور پر قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک میں، جو دنیا کے کسی بھی مذہب میں اتنی جامع اور بلیغ انداز میں نہیں ملتا۔ اسلام قیدیوں کے ساتھ نہ صرف انصاف بلکہ رحم و کرم کا بھی حکم دیتا ہے، اور یہ پیغام صرف مسلمانوں تک محدود نہیں بلکہ پوری انسانیت کے لیے ہے۔ جب اسلام کے پیارے پیروکار اپنے دشمنوں یا قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک کرتے ہیں، تو یہ ان کے دلوں میں محبت اور عقیدت پیدا کرتا ہے، اور وہ اسلام کی طرف مائل ہو جاتے ہیں۔ ان شاء اللہ! یہ حسن سلوک اور انسانی ہمدردی ہزاروں نافرمان دلوں میں بھی دین اسلام کا پیغام پہنچائے گی، اور اسلام کے روشن اصول ان کے دلوں میں جگہ بنا لیں گے۔ یہ نہ صرف ایک اخلاقی فرض ہے بلکہ دین کی اصل روح کا عکس ہے جو ہمیشہ انسانیت کی فلاح کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔
اسلام نے جنگ و امن کے جو اصول وضع کیے ہیں، وہ انصاف، انسانیت، اور اخلاقیات پر مبنی ہیں۔ ان کا مقصد محض فتح نہیں، بلکہ ظلم کا خاتمہ، مظلوموں کی حمایت، اور انسانی وقار کا تحفظ ہے۔ حماس نے اپنے عمل سے ایک ایسی تصویر دنیا کے سامنے رکھی جو مغربی میڈیا کے یک طرفہ بیانیے سے مختلف تھی۔ ان کی جدوجہد نے ان اصولوں کو اجاگر کیا جو عالمی سطح پر نظر انداز کیے جا رہے تھے۔ یہ واقعہ ہمیں یاد دلاتا ہے کہ انصاف اور حقیقت کی ترجمانی کے لیے مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنی آواز بلند کرنی ہوگی۔ اسلام کے اصول ہمیں ہمیشہ یہ سکھاتے ہیں کہ ہماری جنگ صرف ظلم اور ناحق کے خلاف ہے، اور یہ جنگ اخلاقیات، انصاف، اور انسانیت کے دائرے میں رہ کر لڑی جانی چاہیے۔ یہ پیغام دنیا کے سامنے پیش کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔
فلسطینی عوام اور قیادت کی قربانیاں انسانی ضمیر کو جھنجھوڑ دیتی ہیں۔ حماس کی جدوجہد نے نہ صرف فلسطینی مسئلے کو زندہ رکھا بلکہ دنیا کو دکھایا کہ ظلم و جبر کے سامنے ان کا سر جھکنا ناممکن ہے۔ عرب دنیا کی بے رخی اور بین الاقوامی برادری کی دوغلی پالیسی کے باوجود، غزہ کے عوام نے اپنی قربانیوں سے اس مسئلے کو زندہ رکھا۔ حماس کی حالیہ جدوجہد نے ان قوتوں کو بھی چیلنج کیا جو اسرائیل کو تسلیم کرنے کی راہ پر گامزن تھیں۔ یہ قربانیاں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ حق کو دبایا تو جا سکتا ہے لیکن مٹایا نہیں جا سکتا۔ فلسطینی عوام کا عزم اور قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ نہ صرف اپنے حقوق بلکہ امت مسلمہ کی غیرت اور اتحاد کے لیے بھی کھڑے ہیں۔ یہ قربانیاں آنے والی نسلوں کے لیے ایک مثال بن کر تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔
یہ ایک ایسی حقیقت ہے جو تاریخ میں سنہرے حروف سے لکھی جائے گی۔ غزہ کے مجاہدین نے دنیا کے سامنے یہ ثابت کیا کہ محمد مصطفی کے امتی دشمنوں کے ساتھ بھی اعلیٰ اخلاق، رحمدلی اور انسانیت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ یہودی قیدیوں کے ساتھ حسن سلوک اس بات کا عملی ثبوت ہے کہ اسلام نہ صرف اپنے پیرو کاروں کو انصاف اور رحم دلی کا درس دیتا ہے بلکہ مخالفین کے ساتھ بھی بہترین برتاؤ کا حکم دیتا ہے۔ بدر، اْحد اور صلحِ حدیبیہ جیسے واقعات ہمیں رسول اللہ کی بے مثال شفقت اور کرم کی یاد دلاتے ہیں، اور غزہ کے مجاہدین نے انہی اصولوں کو زندہ کر دکھایا۔ انہوں نے اپنی جدوجہد سے دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑا اور یہ پیغام دیا کہ اسلام ہی حقیقی انسانیت اور عدل کا علمبردار ہے۔ ان کا یہ عمل ان لوگوں کے لیے ایک واضح پیغام ہے جو اسلام کو غلط رنگ میں پیش کرتے ہیں یا اس کے پیرو کاروں کو بدنام کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہ قربانیاں اور اعلیٰ کردار ہمیشہ یاد دلاتے رہیں گے کہ اسلام ظلم کے خلاف کھڑا ہوتا ہے، لیکن رحم اور انسانیت کا دامن نہیں چھوڑتا۔ شکریہ اہلِ غزہ، آپ کی جدوجہد نے دنیا کو حق اور تکریمِ انسانیت کی روشن مثال دکھائی۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: غزہ کے مجاہدین نے دنیا کے سامنے یہ قربانیاں اور انسانیت قربانیاں ا انسانیت کے کے اصولوں اسلام کی کہ اسلام یہ پیغام کرتے ہیں اسلام کے نے دنیا دنیا کو اور یہ کے لیے
پڑھیں:
ایک سال میں بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد: گزشتہ ایک سال کے دوران بیرون ملک جانے والے پاکستانیوں کی تعداد میں حیران کن اضافہ ریکارڈ ہوا ہے۔
پاکستان میں معاشی دباؤ، بڑھتی مہنگائی اور مقامی سطح پر روزگار کی کمی ایک عرصے سے عوام کو مجبور کر رہی ہے کہ وہ اپنے بہتر مستقبل کی تلاش میں بیرون ملک کا رخ کریں۔ حالیہ اقتصادی سروے رپورٹ نے اس رجحان کی ایک چونکا دینے والی تصویر پیش کی ہے، جس کے مطابق صرف رواں مالی سال میں لاکھوں پاکستانیوں نے روزگار کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑ کر غیرملکی سرزمین پر قدم رکھا ہے۔
یہ رپورٹ نہ صرف اعداد و شمار کا ایک مجموعہ ہے بلکہ اس میں وہ تلخ حقیقت بھی جھلکتی ہے جس کا سامنا پاکستانی نوجوان روزانہ کی بنیاد پر کر رہے ہیں۔ رواں سال میں مجموعی طور پر جو پاکستانی ملازمت کے لیے بیرون ملک گئے، ان کی تعداد 7 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہے۔ ان میں سے ہر ایک شخص ایک خواب، ایک امید اور ایک جدوجہد لے کر سرحد پار گیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ افراد صوبہ پنجاب سے بیرون ملک روانہ ہوئے، جہاں معاشی حالات اور آبادی کے دباؤ نے اس رجحان کو اور تیز کر دیا ہے۔ پنجاب سے مجموعی طور پر 4 لاکھ 4 ہزار 345 افراد نے دیگر ممالک میں روزگار کی تلاش میں ہجرت کی۔ یہ اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ صوبہ بھر میں روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر رہ گئے ہیں یا جو موجود ہیں وہ خاطر خواہ تنخواہ یا معیار زندگی فراہم نہیں کرتے۔
دوسرے نمبر پر خیبر پختونخوا رہا، جہاں سے ایک لاکھ 87 ہزار افراد نے غیرملکی ملازمتوں کے لیے رجوع کیا۔ صوبے میں اگرچہ ترسیلات زر کا ایک مضبوط کلچر موجود ہے، تاہم اتنی بڑی تعداد میں نقل مکانی اس بات کی علامت ہے کہ مقامی سطح پر معاشی بہتری کے دعوے زمینی حقائق سے ہم آہنگ نہیں ہو سکے۔
تیسرے نمبر پر سندھ سے 60 ہزار 424 افراد بیرون ملک گئے، جو کہ خاص طور پر شہری علاقوں میں بے روزگاری کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سندھ کے بیشتر افراد مشرق وسطیٰ کے ممالک، بالخصوص سعودی عرب، متحدہ عرب امارات اور قطر کی جانب گئے جہاں تعمیرات، ڈرائیونگ، سیکورٹی اور دیگر خدمات کی شعبہ جات میں روزگار کے مواقع دستیاب تھے۔
رپورٹ میں ملک کے دیگر علاقوں کی صورتحال بھی سامنے لائی گئی ہے، جو کم توجہ کے باوجود قابلِ غور ہے۔ سابقہ فاٹا، اب ضم شدہ قبائلی اضلاع سے 29 ہزار 937 افراد نے ملک چھوڑا۔ ان علاقوں میں تعلیمی اور پیشہ ورانہ مواقع کی کمی پہلے ہی عوام کو بیرونی دنیا کی طرف متوجہ کرتی رہی ہے، اور موجودہ اعداد و شمار اس کی تصدیق کرتے ہیں۔
آزاد کشمیر سے 29 ہزار 591 افراد نے روزگار کے لیے ہجرت کی، جس میں زیادہ تر لوگ برطانیہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ کے ممالک کی طرف گئے۔ یہ تعداد خاص طور پر اس لیے اہم ہے کیونکہ آزاد کشمیر میں پہلے سے ہی بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی ایک بڑی آبادی موجود ہے، جس کا اثر نوجوانوں کی سوچ پر بھی پڑتا ہے۔
اسلام آباد جو کہ ملک کا دارالحکومت اور نسبتاً خوشحال شہر تصور کیا جاتا ہے، وہاں سے بھی 8 ہزار 621 افراد نے بیرون ملک ملازمت کو ترجیح دی۔ اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ روزگار کی کمی صرف پسماندہ علاقوں تک محدود نہیں رہی بلکہ بڑے شہروں تک پھیل چکی ہے۔
بلوچستان سے صرف 5 ہزار 668 افراد نے بیرون ملک ہجرت کی، جو نسبتاً کم تعداد ضرور ہے لیکن اسے بلوچستان کی آبادی اور رسائی کی کمی کو مدنظر رکھتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ وہاں بنیادی سہولیات، تعلیم اور پیشہ ورانہ تربیت کے محدود وسائل عوام کو عالمی مارکیٹ کے لیے مکمل تیار نہیں کر پاتے۔
اسی طرح شمالی علاقہ جات، جیسے گلگت بلتستان وغیرہ سے صرف 1692 افراد نے بیرون ملک روزگار کے لیے سفر کیا۔ یہ تعداد کم ضرور ہے لیکن ان علاقوں میں روزگار کے مواقع کی قلت اور انفرا اسٹرکچر کی عدم موجودگی مستقبل میں اس رجحان کو بڑھا سکتی ہے۔
اقتصادی سروے کی یہ رپورٹ محض ایک عددی تجزیہ نہیں دیتی، بلکہ اس سے یہ سوال بھی جنم لیتا ہے کہ آخر ہماری ریاست، حکومتیں اور ادارے کب اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں گے؟ کیا بیرون ملک جانے والے ہر پاکستانی کا خواب، عزت کی روٹی کمانا، ہمیں ایک قومی پالیسی بنانے پر مجبور نہیں کرتا؟ کیا ہمیں ملک میں ایسے حالات فراہم نہیں کرنے چاہییں کہ ہماری افرادی قوت ملک میں ہی استعمال ہو؟
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ ترسیلات زر ہماری معیشت کے لیے اہم ضرور ہیں، لیکن مسلسل بڑھتی ہجرت اس بات کا ثبوت ہے کہ ہم اپنی نوجوان نسل کو وہ مواقع فراہم کرنے میں ناکام ہو رہے ہیں جن کی وہ حق دار ہے۔ اگر اس رجحان کو روکنا ہے تو ہمیں تعلیم، ہنر مندی، روزگار کی فراہمی اور کاروباری مواقع کے شعبوں میں فوری اور دیرپا اقدامات کرنے ہوں گے۔