Juraat:
2025-04-25@07:16:39 GMT

ماہ شعبان کے مختصر فضائل و احکام

اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT

ماہ شعبان کے مختصر فضائل و احکام

مولانا محمد الیاس گھمن

شعبان آٹھواں اسلامی مہینہ ہے جو رمضان المقدس سے پہلے آتا ہے۔ اس مہینے کو اللہ تعالیٰ نے بہت فضیلت عطا فرمائی ہے، جس کی عظیم وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینہ میں ماہ ِرمضان کے روزوں، تراویح اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے۔ رمضان جو اپنی برکتوں، رحمتوں اور عنایات ربانی کا موسم بہار ہے اس کی تیاری کا ماہِ شعبان سے شروع ہونا اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیتاہے۔ گویا شعبان کو رمضان کا ‘‘مقدمہ’’ کہنا چاہیے۔

ماہ شعبان کی فضیلت:
ماہِ شعبان عظمت والا مہینہ ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں خصوصیت سے خیر و برکت کی دعا فرمائی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا دَخَلَ رَجَبُ قَالَ: اَللّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ (مشکوۃ المصابیح:رقم الحدیث 1396)
ترجمہ:جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اورہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔

چونکہ یہ رمضان کامقدمہ ہے، اس لیے اس میں رمضان کے استقبال کے لیے تیاری کی جاتی ہے۔ خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ میں رمضان کی تیاری کی ترغیب دی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ: یا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّکُمْ شَہْرٌ عَظِیمٌ مُبَارَکٌ الحدیث (صحیح ابن خزیمہ)
ترجمہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے مہینہ کی آخری تاریخ میں خطبہ دیااور فرمایا:اے لوگو!تم پر ایک عظمت و برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔

پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیشبِ قدر، تراویح، مغفرت باری تعالیٰ اوررمضان میں اہتمام سیکیے جانے والے خصوصی اعمال کا تذکرہ فرمایا۔
شعبان کی فضیلت اس بات سے بھی اجاگر ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے چاند اور اس کی تاریخوں کے حساب کا بھی بہت اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَحْصُوا ہِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ (جامع الترمذی:رقم الحدیث687)
ترجمہ:شعبان کے چاند(تاریخوں) کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھو تاکہ رمضان کا حساب ہو سکے۔
یعنی رمضان کے صحیح حساب کے لیے شعبان کا چاند اور اس کی تاریخوں کوخصوصیت سے یاد رکھا جائے۔ جب شعبان کی آخری تاریخ ہو تو رمضان کا چاند دیکھنے میں پوری کوشش کی جائے۔

ماہِ شعبان کے روزے:
ٍ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے، بلکہ رمضان کے بعد جس مہینہ میں روزوں کا زیادہ ا ہتمام فرماتے تھے وہ یہی شعبان کا مہینہ ہے۔ چند احادیث پیش کی جاتی ہیں:
1:عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُومُ حَتَّی نَقُولَ لَا یُفْطِرُ وَیُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ لَا یَصُومُ فَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَہْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہُ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِی شَعْبَانَ (صحیح البخاری:رقم الحدیث:1969)
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب روزے رکھنا شروع فرماتیتو ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ رکھنا ختم نہ کریں گے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ کبھی نہ رکھیں گے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کورمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اورمیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔
2: عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ مَا رَأَیْتُ النبی صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَہْرٍ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِی شَعْبَانَ کَانَ یَصُومُہُ شَعْبَانَ إِلاَّ قَلِیلاً بَلْ کَانَ یَصُومُہُ کُلَّہُ (جامع الترمذی: رقم الحدیث736)
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نیآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مہینہ میں شعبان کے مہینہ سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔

یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان روزے رکھا کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر‘‘کل’’ کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔
3:فتاوی عالمگیریہ میں ہے: الْمَرْغُوبَاتُ من الصِّیَامِ أَنْوَاعٌ أَوَّلُہَا صَوْمُ الْمُحَرَّمِ وَالثَّانِی صَوْمُ رَجَبٍ وَالثَّالِثُ صَوْمُ شَعْبَانَ وَصَوْمُ عَاشُورَاءَ (ج1 ص202)
ترجمہ:مستحب روزوں کی کئی قسمیں ہیں؛ : محرم کے روزے،رجب کے روزے، شعبان اور عاشوراء کے روزے۔
نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھنے کی تحقیق:
جامع الترمذی میں روایت ہے:قَالَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِّنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُوْمُوْا (جامع الترمذی: رقم الحدیث 738)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب شعبان کا مہینہ آدھا رہ جائے توروزہ نہ رکھا کرو۔
اس روایت کے پیش نظر فقہاء ِکرام نے پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا مکروہ قرار دیا ہے، البتہ چند صورتوں کومستثنی فرمایا ہے کہ ان میں پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔وہ صورتیں یہ ہیں:

1: کسی کے ذمہ قضائروزے ہوں یا واجب (کفارہ وغیرہ کے) روزے ہوں اور وہ انہیں ان ایام میں رکھنا چاہتا ہو۔

2:ایسا شخص جو شروع شعبان سے روزے رکھتا چلاا ٓ رہا ہو۔

3:ایسا شخص کہ جس کی عادت یہ ہیکہ مخصوص دنوں یا تاریخوں کے روزے رکھتا ہے، اب وہ دن یا تاریخ شعبان کے آخری د نوں میں آ رہی ہے تو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ایسی کمزوری کا خطرہ نہ ہو کہ جس سے رمضان کے روزوں کا حرج ہونے کا اندیشہ ہو۔ (ملخص: درس ترمذی: ج2ص579)

نصف شعبان کے بعد روزہ کی کراہیت کی وجہ کیاہے؟ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘میرا تو ذوق یہ کہتا ہے کہ رمضان شریف میں جو جاگنا ہوگااس شب کا جاگنا اس کا نمونہ ہے اور یہ صوم ایام رمضان شریف کا نمونہ ہے۔ پس دونوں نمونے رمضان کے ہیں، ان نمونوں سے اصل کی ہمت ہو جاوے گی۔ پھر اس صوم کے بعد جو صوم سے منع فرمایا اس میں حقیقت میں رمضان کی تیاری کے لیے فرمایا ہیکہ جب شعبان آدھا ہو جائے تو روزہ مت رکھو۔ مطلب یہ کہ سامان شروع کرو رمضان کا یعنی کھاؤ، پیو اور رمضان کے لیے تیار ہو جاؤ اور یہ امید رکھو کہ روزے آسان ہو جائیں گے’’(خطبات حکیم الامت: ج7 ص391)

شعبان کی پندرھویں رات:
ماہ شعبان کی پندرھویں رات بہت فضیلت والی رات ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں اور اسلاف امت بھی اس کی فضیلت کے قائل چلے آ رہے ہیں۔ اس کو ‘‘شب براء ت’’ کہتے ہیں، اس لیے کہ اس رات لا تعداد انسان رحمت باری تعالیٰ سے جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں۔شب براء ت کے متعلق لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ بعض تو وہ ہیں جو سرے سے اس کی فضیلت کے قائل ہی نہیں بلکہ اس کی فضیلت میں جو احادیث مروی ہیں انھیں موضوع و من گھڑت قرار دیتے ہیں۔جبکہ بعض فضیلت کے قائل تو ہیں لیکن اس فضیلت کے حصول میں بے شماربدعات، رسومات اور خود ساختہ امور کے مرتکب ہیں، عبادت کے نام پر ایسے منکرات سر انجام دیتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔اس بارے میں معتدل نظریہ یہ ہے کہ شعبان کی اس رات کی فضیلت ثابت ہے لیکن اس کا درجہ فرض و واجب کا نہیں بلکہ محض استحباب کا ہے، سرے سیاس کی فضیلت کا انکار کرنا بھی صحیح نہیں اور اس میں کیے جانے والے اعمال و عبادات کو فرائض و واجبات کا درجہ دینا بھی درست نہیں۔

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے بعد روزہ شعبان کے روزے جامع الترمذی رقم الحدیث فرماتے ہیں مہینہ میں کی تیاری شعبان کی رمضان کا رمضان کے کرتے تھے ی الل ہ اور اس کے لیے

پڑھیں:

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟

اسلام ٹائمز: اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔ تحریر و آزاد تجزیہ: سید نوازش رضا

2025ء کا سال لبنان، شام، فلسطین اور پورے مشرق وسطیٰ کے لیے ایک انقلابی دور بن چکا ہے۔ شام میں بشار الاسد کی حکومت کا خاتمہ، جولانی کی مغرب نواز حکومت کا قیام، حزب اللہ کی قیادت بشمول سید حسن نصراللہ کی شہادت، اور اسرائیل کی لبنان میں براہ راست عسکری موجودگی جیسے عوامل نے پورے خطے کا توازن بدل دیا ہے۔ ان حالات میں لبنانی حکومت پر حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کا غیر معمولی دباؤ ہے۔ بین الاقوامی میڈیا اور مغربی طاقتیں اسے لبنان کے امن کی ضمانت بنا کر پیش کر رہی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ۔۔ کیا یہ واقعی امن کی کوشش ہے یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟

حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی بات، حقیقت ہے یا فریب؟
اس وقت دنیا کو جو بیانیہ دیا جا رہا ہے وہ یہ ہے "لبنان کی خودمختاری اور امن کے لیے، حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا ضروری ہے!" لیکن کیا یہ واقعی لبنان کے حق میں ہے؟ اصل حقیقت یہ ہے کہ یہ مطالبہ امریکہ اور اسرائیل کی ترجیح ہے کیونکہ حزب اللہ وہ واحد قوت ہے جس نے اسرائیل کو نہ صرف روک کر دکھایا بلکہ 2006ء کی جنگ میں سیاسی و عسکری سطح پر شکست دی۔ اگر آج حزب اللہ کے ہتھیار لے لیے جائیں تو لبنان مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے گا جبکہ اسرائیل ایک ایٹمی طاقت کے ساتھ لبنان کی سرحد پر بیٹھا ہے۔ تو کیا یہ برابری کا نظام ہوگا؟ کیا یہ امن ہوگا یا کمزوروں کو مزید کمزور کرنا ہوگا؟

لبنانیوں کے سامنے شام کا تجربہ ہے
بشار الاسد کی حکومت کا امریکہ، مغرب، ترکی اور اسرائیل کی حمایت سے مسلح گروہوں کے ذریعے تختہ الٹا گیا۔ پھر کیا ہوا؟ اسرائیل نے شام کی فوجی طاقت کو تباہ کر دیا، جولان کی پہاڑیوں سے نیچے آگیا اور پیش قدمی جاری رکھی۔ آج شام کے ٹکڑے کیے جا رہے ہیں اور ملک مکمل طور پر اسرائیل اور مغربی طاقتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ شام کی آزادی، خودمختاری اور مزاحمت ختم ہو چکی ہے۔ کیا لبنانی بھی یہی تجربہ دہرانا چاہتے ہیں؟ کیا وہ اسرائیل اور امریکہ پر بھروسہ کر سکتے ہیں؟

حزب اللہ کی طاقت اور اس کا کردار
یہ سچ ہے کہ حزب اللہ کے پاس ریاست جتنی طاقت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے: کیا اس طاقت کا غلط استعمال کیا؟ کیا وہ لبنان کی حکومت کا تختہ الٹنے نکلے؟ کیا انہوں نے اپنی فوجی طاقت کو اپنے شہریوں پر آزمایا؟ حقیقت یہ ہے کہ حزب اللہ نے اپنی طاقت کو صرف ایک ہی مقصد کے لیے استعمال کیا ہے، اسرائیل کے خلاف مزاحمت۔ جب شام میں داعش اور تکفیری گروہ آئے تو حزب اللہ لبنان کی سرحدیں بچانے کے لیے آگے آئی جبکہ باقی سیاست دان صرف بیانات دے رہے تھے۔

حزب اللہ لبنان میں ایسی جماعت نہیں ہے جسے ایک عام سیاسی جماعت کے طور پر دیکھا جائے۔ اس کا سیاسی و عسکری ڈھانچہ منظم اور طاقتور ہے۔ لبنانی سیاست پر اس کی گرفت ہے اور فوج کے اعلیٰ عہدوں پر اس کے حامی اور شیعہ افراد موجود ہیں۔ یہ ایک ریاست کے اندر مکمل طاقتور ریاستی نیٹ ورک رکھتی ہے۔ اس کے فلاحی کام صرف شیعہ علاقوں تک محدود نہیں بلکہ سنی اور عیسائی آبادیوں میں بھی اس کا فلاحی نیٹ ورک متحرک ہے۔ اسکول، اسپتال، امدادی تنظیمیں۔ سب حزب اللہ کی خدمات کا حصہ ہیں۔

حزب اللہ کی کمزوری، ایک تاثر یا حقیقت؟
بعض مبصرین کا خیال ہے کہ حزب اللہ اب کمزور ہو چکی ہے۔ اس کا سبب ہے کہ شام میں بشار الاسد حکومت کا خاتمہ، جس کے باعث حزب اللہ کی سپلائی لائن کٹ گئی ہے۔ سید حسن نصراللہ سمیت کئی اعلیٰ قیادتوں کی شہادت، جس سے تنظیم کو گہرا دھچکہ پہنچا ہے۔ اسرائیلی حملوں میں اس کے اسلحہ ڈپو اور قیادت کو نشانہ بنایا گیا لیکن کیا یہ کمزوری عارضی ہے یا مستقل؟ کیا حزب اللہ مکمل طور پر مفلوج ہو چکی ہے؟ زمینی حقائق یہ بتاتے ہیں کہ حزب اللہ اب بھی منظم، مسلح اور نظریاتی طور پر مزاحمت کے لیے تیار ہے۔

اگر حزب اللہ کو غیر مسلح کردیا جائے، پھر کیا ہوگا؟
اگر حزب اللہ کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے تو کیا اسرائیل اپنی فوجیں پیچھے ہٹا لے گا؟ نہیں۔ بلکہ وہ اور آگے بڑھے گا، یہی اس کی پالیسی رہی ہے: ’’خطرہ ختم ہو تو قبضہ بڑھاؤ‘‘۔ لبنان کی فوج کیا اسرائیل کے خلاف مزاحمت کر سکتی ہے؟ سادہ جواب ہے کہ نہیں۔ وہ نہ صرف کمزور ہے بلکہ فرقہ وارانہ تقسیم کا شکار ہے۔ تو پھر کیا لبنان اپنی بقاء کے لیے امریکہ، فرانس یا اقوام متحدہ پر انحصار کرے؟ ماضی کا تجربہ بتاتا ہے کہ یہ سب طاقتوروں کے ساتھ ہوتے ہیں، کمزوروں کے ساتھ نہیں۔

کیا حزب اللہ کو تنقید سے بالاتر سمجھا جائے؟
بالکل نہیں، کوئی بھی انسانی ادارہ، چاہے وہ مذہبی ہو یا عسکری، تنقید سے بالاتر نہیں ہو سکتا لیکن تنقید کا معیار یہ ہونا چاہیئے، اگر حزب اللہ نے کرپشن کی ہو، لبنانی عوام کو لوٹا ہو، فرقہ واریت کو بڑھایا ہو، یا ذاتی مفاد کے لیے ہتھیار اٹھائے ہوں تو وہ تنقید کے قابل ہیں، لیکن اگر کسی گروہ نے صرف دشمن کے خلاف مزاحمت کی ہو، غریب علاقوں میں فلاحی نظام قائم کیا ہو، دفاعِ وطن کی خاطر جانیں قربان کی ہوں، تو پھر حزب اللہ کے خاتمے کا مطالبہ حکمت نہیں بلکہ قومی خودکشی ہے۔

نتیجہ: ایک جائز سوال
اگر واقعی حزب اللہ کو غیر مسلح کرنا لبنان کی آزادی اور امن کے لئے ہوتا، تو سب اس کا خیرمقدم کرتے لیکن جب یہ مطالبہ دشمن کی طرف سے آئے، دباؤ کے ذریعے نافذ ہو اور مزاحمت کی آخری لائن کو ختم کرنے کی کوشش ہو تو ہمیں پوچھنا چاہیئے کہ کیا ہم ایک ایسا لبنان چاہتے ہیں جو باوقار، آزاد اور مزاحمت کا علمبردار ہو؟ یا پھر ایک ایسا لبنان جو کمزور، مطیع اور اسرائیل کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا ہو۔

اصل تحریر:
https://hajij.com/en/articles/political-articles-analysis/item/2935-the-campaign-to-disarm-hezbollah-a-peace-effort-or-the-agenda-of-the-powerful

متعلقہ مضامین

  • دریائے راوی میں ایک ہی خاندان کے 3 بچے ڈوب کر جاں بحق
  • گورنر سندھ کامران خان ٹیسوری کی روضہ حضرت امام حسین علیہ السلام پر حاضری
  • دعا کی طاقت… مذہبی، روحانی اور سائنسی نقطہ نظر
  • امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی و سماجی خدمات
  • بانی پی ٹی آئی سیاسی داؤ پیچ میں صفر بٹا صفر ہیں، حفیظ اللہ نیازی
  • پہلگام حملہ :بھارتی وزیراعظم مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کر کے وطن واپس پہنچ گئے
  • پہلگام حملہ: وزیراعظم مودی سعودی عرب کا دورہ مختصر کرکے نئی دہلی پہنچ گئے
  • مظلوم مسلمانوں کے دفاع کی اجتماعی ذمہ داری
  • حزب اللہ کو غیر مسلح کرنے کی مہم، امن کی کوشش یا طاقتوروں کا ایجنڈا؟
  • وزیر اعظم شہباز شریف دو روزے دورے پر ترکیہ پہنچ گئے