ماہ شعبان کے مختصر فضائل و احکام
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
مولانا محمد الیاس گھمن
شعبان آٹھواں اسلامی مہینہ ہے جو رمضان المقدس سے پہلے آتا ہے۔ اس مہینے کو اللہ تعالیٰ نے بہت فضیلت عطا فرمائی ہے، جس کی عظیم وجہ تو یہ معلوم ہوتی ہے کہ اس مہینہ میں ماہ ِرمضان کے روزوں، تراویح اور دیگر عبادات کی تیاری کا موقع ملتا ہے۔ رمضان جو اپنی برکتوں، رحمتوں اور عنایات ربانی کا موسم بہار ہے اس کی تیاری کا ماہِ شعبان سے شروع ہونا اس کی عظمت کو چار چاند لگا دیتاہے۔ گویا شعبان کو رمضان کا ‘‘مقدمہ’’ کہنا چاہیے۔
ماہ شعبان کی فضیلت:
ماہِ شعبان عظمت والا مہینہ ہے، کیونکہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں خصوصیت سے خیر و برکت کی دعا فرمائی ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کَانَ رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اِذَا دَخَلَ رَجَبُ قَالَ: اَللّہُمَّ بَارِکْ لَنَا فِیْ رَجَبَ وَ شَعْبَانَ وَ بَلِّغْنَا رَمَضَانَ (مشکوۃ المصابیح:رقم الحدیث 1396)
ترجمہ:جب رمضان کا مہینہ آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے تھے: اے اللہ! ہمارے لیے رجب اور شعبان میں برکت عطا فرما اورہمیں رمضان کے مہینے تک پہنچا۔
چونکہ یہ رمضان کامقدمہ ہے، اس لیے اس میں رمضان کے استقبال کے لیے تیاری کی جاتی ہے۔ خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مہینہ میں رمضان کی تیاری کی ترغیب دی ہے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں:خَطَبَنَا رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی آخِرِ یَوْمٍ مِنْ شَعْبَانَ فَقَالَ: یا أَیُّہَا النَّاسُ قَدْ أَظَلَّکُمْ شَہْرٌ عَظِیمٌ مُبَارَکٌ الحدیث (صحیح ابن خزیمہ)
ترجمہ:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں شعبان کے مہینہ کی آخری تاریخ میں خطبہ دیااور فرمایا:اے لوگو!تم پر ایک عظمت و برکت والا مہینہ سایہ فگن ہونے والا ہے۔
پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نیشبِ قدر، تراویح، مغفرت باری تعالیٰ اوررمضان میں اہتمام سیکیے جانے والے خصوصی اعمال کا تذکرہ فرمایا۔
شعبان کی فضیلت اس بات سے بھی اجاگر ہوتی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس کے چاند اور اس کی تاریخوں کے حساب کا بھی بہت اہتمام فرماتے تھے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:قَالَ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اَحْصُوا ہِلَالَ شَعْبَانَ لِرَمَضَانَ (جامع الترمذی:رقم الحدیث687)
ترجمہ:شعبان کے چاند(تاریخوں) کو خوب اچھی طرح محفوظ رکھو تاکہ رمضان کا حساب ہو سکے۔
یعنی رمضان کے صحیح حساب کے لیے شعبان کا چاند اور اس کی تاریخوں کوخصوصیت سے یاد رکھا جائے۔ جب شعبان کی آخری تاریخ ہو تو رمضان کا چاند دیکھنے میں پوری کوشش کی جائے۔
ماہِ شعبان کے روزے:
ٍ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت سے روزے رکھا کرتے تھے، بلکہ رمضان کے بعد جس مہینہ میں روزوں کا زیادہ ا ہتمام فرماتے تھے وہ یہی شعبان کا مہینہ ہے۔ چند احادیث پیش کی جاتی ہیں:
1:عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا قَالَتْ کَانَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَصُومُ حَتَّی نَقُولَ لَا یُفْطِرُ وَیُفْطِرُ حَتَّی نَقُولَ لَا یَصُومُ فَمَا رَأَیْتُ رَسُولَ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اسْتَکْمَلَ صِیَامَ شَہْرٍ إِلَّا رَمَضَانَ وَمَا رَأَیْتُہُ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِی شَعْبَانَ (صحیح البخاری:رقم الحدیث:1969)
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم جب روزے رکھنا شروع فرماتیتو ہم کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ رکھنا ختم نہ کریں گے اور جب کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ نہ رکھنے پہ آتے تو ہم یہ کہتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اب روزہ کبھی نہ رکھیں گے۔ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کورمضان شریف کے علاوہ کسی اور مہینہ کے مکمل روزے رکھتے نہیں دیکھا اورمیں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو شعبان کے علاوہ کسی اور مہینہ میں کثرت سے روزہ رکھتے نہیں دیکھا۔
2: عَنْ عَائِشَۃَ رَضِیَ اللَّہُ عَنْہَا أَنَّہَا قَالَتْ مَا رَأَیْتُ النبی صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ فِی شَہْرٍ أَکْثَرَ صِیَامًا مِنْہُ فِی شَعْبَانَ کَانَ یَصُومُہُ شَعْبَانَ إِلاَّ قَلِیلاً بَلْ کَانَ یَصُومُہُ کُلَّہُ (جامع الترمذی: رقم الحدیث736)
ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نیآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی مہینہ میں شعبان کے مہینہ سے زیادہ روزے رکھتے نہیں دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ دنوں کے علاوہ پورے شعبان کے روزے رکھتے، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو پورے شعبان کے روزے رکھا کرتے تھے۔
یہاں پورے شعبان کے روزے رکھنے سے مراد یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اکثر شعبان روزے رکھا کرتے تھے، کیونکہ بعض مرتبہ اکثر پر‘‘کل’’ کا اطلاق کر دیا جاتا ہے۔
3:فتاوی عالمگیریہ میں ہے: الْمَرْغُوبَاتُ من الصِّیَامِ أَنْوَاعٌ أَوَّلُہَا صَوْمُ الْمُحَرَّمِ وَالثَّانِی صَوْمُ رَجَبٍ وَالثَّالِثُ صَوْمُ شَعْبَانَ وَصَوْمُ عَاشُورَاءَ (ج1 ص202)
ترجمہ:مستحب روزوں کی کئی قسمیں ہیں؛ : محرم کے روزے،رجب کے روزے، شعبان اور عاشوراء کے روزے۔
نصف شعبان کے بعد روزہ نہ رکھنے کی تحقیق:
جامع الترمذی میں روایت ہے:قَالَ رَسُولُ اللّہِ صَلَّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ: اِذَا بَقِیَ نِصْفٌ مِّنْ شَعْبَانَ فَلَا تَصُوْمُوْا (جامع الترمذی: رقم الحدیث 738)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جب شعبان کا مہینہ آدھا رہ جائے توروزہ نہ رکھا کرو۔
اس روایت کے پیش نظر فقہاء ِکرام نے پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنا مکروہ قرار دیا ہے، البتہ چند صورتوں کومستثنی فرمایا ہے کہ ان میں پندرہ شعبان کے بعد روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔وہ صورتیں یہ ہیں:
1: کسی کے ذمہ قضائروزے ہوں یا واجب (کفارہ وغیرہ کے) روزے ہوں اور وہ انہیں ان ایام میں رکھنا چاہتا ہو۔
2:ایسا شخص جو شروع شعبان سے روزے رکھتا چلاا ٓ رہا ہو۔
3:ایسا شخص کہ جس کی عادت یہ ہیکہ مخصوص دنوں یا تاریخوں کے روزے رکھتا ہے، اب وہ دن یا تاریخ شعبان کے آخری د نوں میں آ رہی ہے تو روزہ رکھنے میں کوئی حرج نہیں بشرطیکہ ایسی کمزوری کا خطرہ نہ ہو کہ جس سے رمضان کے روزوں کا حرج ہونے کا اندیشہ ہو۔ (ملخص: درس ترمذی: ج2ص579)
نصف شعبان کے بعد روزہ کی کراہیت کی وجہ کیاہے؟ حکیم الامت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:‘‘میرا تو ذوق یہ کہتا ہے کہ رمضان شریف میں جو جاگنا ہوگااس شب کا جاگنا اس کا نمونہ ہے اور یہ صوم ایام رمضان شریف کا نمونہ ہے۔ پس دونوں نمونے رمضان کے ہیں، ان نمونوں سے اصل کی ہمت ہو جاوے گی۔ پھر اس صوم کے بعد جو صوم سے منع فرمایا اس میں حقیقت میں رمضان کی تیاری کے لیے فرمایا ہیکہ جب شعبان آدھا ہو جائے تو روزہ مت رکھو۔ مطلب یہ کہ سامان شروع کرو رمضان کا یعنی کھاؤ، پیو اور رمضان کے لیے تیار ہو جاؤ اور یہ امید رکھو کہ روزے آسان ہو جائیں گے’’(خطبات حکیم الامت: ج7 ص391)
شعبان کی پندرھویں رات:
ماہ شعبان کی پندرھویں رات بہت فضیلت والی رات ہے۔ احادیث مبارکہ میں اس کے بہت سے فضائل وارد ہوئے ہیں اور اسلاف امت بھی اس کی فضیلت کے قائل چلے آ رہے ہیں۔ اس کو ‘‘شب براء ت’’ کہتے ہیں، اس لیے کہ اس رات لا تعداد انسان رحمت باری تعالیٰ سے جہنم سے نجات حاصل کرتے ہیں۔شب براء ت کے متعلق لوگ افراط و تفریط کا شکار ہیں۔ بعض تو وہ ہیں جو سرے سے اس کی فضیلت کے قائل ہی نہیں بلکہ اس کی فضیلت میں جو احادیث مروی ہیں انھیں موضوع و من گھڑت قرار دیتے ہیں۔جبکہ بعض فضیلت کے قائل تو ہیں لیکن اس فضیلت کے حصول میں بے شماربدعات، رسومات اور خود ساختہ امور کے مرتکب ہیں، عبادت کے نام پر ایسے منکرات سر انجام دیتے ہیں کہ الامان و الحفیظ۔اس بارے میں معتدل نظریہ یہ ہے کہ شعبان کی اس رات کی فضیلت ثابت ہے لیکن اس کا درجہ فرض و واجب کا نہیں بلکہ محض استحباب کا ہے، سرے سیاس کی فضیلت کا انکار کرنا بھی صحیح نہیں اور اس میں کیے جانے والے اعمال و عبادات کو فرائض و واجبات کا درجہ دینا بھی درست نہیں۔
ذریعہ: Juraat
کلیدی لفظ: آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے بعد روزہ شعبان کے روزے جامع الترمذی رقم الحدیث فرماتے ہیں مہینہ میں کی تیاری شعبان کی رمضان کا رمضان کے کرتے تھے ی الل ہ اور اس کے لیے
پڑھیں:
پی ٹی آئی کو احتجاجی تحریک سے کچھ حاصل نہیں ہو گا، رانا ثنا اللہ
فیصل آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)وزیر اعظم کے مشیر برائے سیاسی امور رانا ثنا اللہ نے کہا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) احتجاجی تحریک شروع نہ کرے تو بہتر ہے کیوں کہ انہیں اس سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔فیصل آباد میں نماز عید کی ادائیگی کے بعد میڈیا سے گفتگو کے دوران راناثنااللہ کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی قیادت کو کوئی غلط فہمی ہے تو وہ بھی دور ہوجائے گی اور وہ اس تحریک سے اپنے کارکنوں کے لیے صرف مشکل ہی پیدا کرے گی۔
انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی اس وقت کوئی تحریک چلانے کی پوزیشن میں نہیں ہے، تحریک انصاف ذاتی کے بجائے قومی معاملات پر سیاست کرے۔ان کا کہنا تھا کہ پوزیشن اپوزیشن ہمارے ساتھ بیٹھ کر الیکشن قوانین میں ترامیم کرے اور عوام کے مسائل کے حل کے لیے بات کرے۔ رانا ثنااللہ نے کہا کہ پاکستان معاشی استحکام اور ترقی کی راہ پر گامزن ہوچکا ہے تاہم اسے درپیش چیلنجز سے نکالنے کے لیے سیاسی اتفاق اور معاشی ایجنڈے پر ہم آہنگی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
وہ دن دور نہیں جب بانی پی ٹی آئی رہا ہو کر اپنی قوم کے درمیان ہوں گے، عمر ایوب
ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن پہلے میثاق معیشت کرے اور پھر سیاست سمیت دیگر مسائل پر بھی بات ہوجائے گی۔انہوں نے اپوزیشن رہنماؤں سے اپیل کی کہ وہ وزیراعظم شہباز شریف کی دعوت قبول کرتے ہوئے ایک غیر جانبدار الیکشن کمیشن کی تشکیل پر اتفاق کریں تاکہ آئندہ انتخابات شفاف ہوں اور کسی کو اعتراض نہ ہو۔ایک سوال کے جواب میں وزیراعظم کے مشیر کا کہنا تھا کہ پاکستان کو ذیلی ریاست سمجھنے والا مودی منہ چھپارہا ہے، بھارت نے پاکستان کو کمزور سمجھ کر حملہ کرنے کی حماقت کی مگر پاکستانی مسلح افواج نے عوام کی حمایت سے دشمن کو منہ توڑ جواب دیا اور اس کا غرور خاک میں ملا دیا۔ان کا کہنا تھا کہ بھارت کو منہ توڑ جواب دینے پر سپاہی سے لیکر فیلڈ مارشل عاصم منیر تک مباکباد کے مستحق ہیں جب کہ آج پاکستان دنیامیں ایک طاقتوراورذمہ دارملک کے طور پر جانا جارہا ہے۔
ڈیوڈ بیکھم کا نام سرکاری اعزاز کی لسٹ میں شامل ، لیکن وہ ایک غلطی جس کی وجہ سے ان کا نام نکالا جاسکتا ہے
مزید :