دوسری ہائیکورٹ سےجج لایا جائےنہ چیف جسٹس ، ججزکاصدراورچیف جسٹس کوخط لکھ دیا
اشاعت کی تاریخ: 31st, January 2025 GMT
اسلام آباد: چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کےلیے دوسری ہائیکورٹ سے جج لانے کی ممکنہ کوشش، عدلیہ میں ایک اوربحران جنم لینے لگا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے ججزکا صدرپاکستان، چیف جسٹس پاکستان اوردیگرہائیکورٹس کے نام خط سامنے آگیا۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ کےلیے دوسری ہائیکورٹ سے جج لانے کی ممکنہ کوشش کےمعاملے پرجسٹس محسن اختر کیانی سمیت مختلف ججزنے صدرمملکت، چیف جسٹس یحییٰ آفریدی اور دیگرہائیکورٹس کو خط لکھا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ دوسری ہائیکورٹ سے جج نہ لایا جائےنہ چیف جسٹس بنایا جائے۔
نجی ٹی وی کے مطابق ججزکی جانب سےخط میں لکھا گیا کہ دوسری ہائیکورٹ سے جج چیف جسٹس بنانے کے لیےنہ لایا جائے، اسلام آباد ہائی کورٹ سے ہی تین سینئرججزمیں سے چیف جسٹس بنایا جائے۔
عدالتی ذرائع کا کہنا ہے کہ ججز کی جانب سے خط میں کہا گیا ہے کہ دوسری ہائیکورٹ سے جج لانے کے لیےبامعنی مشاورت ضروری ہے۔
خط میں یہ بھی کہا گیا کہ دوسری ہائیکورٹ سے جج لانے کے لیے وجوہات دینا بھی ضروری ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کی نسبت لاہورہائیکورٹ میں زیرالتوا کیسزدولاکھ ہیں، اسلام آباد ہائیکورٹ کی جانب سے جاری سینئرٹی کیسے تبدیل ہوسکتی ہے؟
ججزکی جانب سے صدرپاکستان اورچیف جسٹس آف پاکستان کو خط کی کاپی بھیجوا دی۔ سندھ ہائیکورٹ، لاہورہائی کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو بھی کاپی بھجو ا دی گئی۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
مشال یوسف زئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا
مشال یوسف زئی(فائل فوٹو)۔پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی سے ملاقات نہ کرانے پر جیل حکام کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کے معاملے پر مشال یوسف زئی نے 17مارچ کے اسلام آباد ہائیکورٹ کے فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا۔
درخواست کے مطابق اسلام آباد ہائیکورٹ کا زیرِ اعتراض حکم قانون کی نظر میں برقرار نہیں رہ سکتا، مزید یہ کہ ہائیکورٹ کا زیرِ اعتراض حکم قانون اور ریکارڈ پرموجود حقائق کے منافی ہے۔
درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ہائیکورٹ کا فیصلہ ریکارڈ پر موجود حقائق کے غلط اور عدم مطالعے پر مبنی ہے۔
درخواست کے مطابق جیل حکام درخواست گزار کو مسلسل ہراساں کرنے کے ساتھ اسکے بنیادی، قانونی وآئینی حقوق سلب کر رہے ہیں۔
جبکہ بطور ملزم، قیدیوں کا بنیادی حق ہے کہ اپنی مرضی کا وکیل مقرر کریں اور قانونی و دیگر معاملات کےلیے فوکل پرسن خود منتخب کریں۔
درخواست کے مطابق آرٹیکل 10-اے منصفانہ ٹرائل اور قانونی کارروائی کی ضمانت دیتا ہے۔ درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ ہائی کورٹ کا زیرِ اعتراض حکم کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست میں استدعا کی گئی کہ درخواست منظور کرتے ہوئے جیل انتظامیہ کو بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی سے ملاقات کی اجازت دینے کی ہدایت کی جائے۔
درخواست کے مطابق ہائی کورٹ نے زیرِ اعتراض حکم عجلت اور غیر سنجیدگی سے جاری کیا، استدعا ہے کہ اپیل کے حتمی فیصلے تک اسلام آباد ہائیکورٹ کا 17 مارچ کا حکم معطل کیا جائے۔