Express News:
2025-09-18@13:05:32 GMT

پنجابی زبان کا سچا سیوک، طاہر وزیرآبادی

اشاعت کی تاریخ: 2nd, February 2025 GMT

وزیرآباد کا ذکر آتے ہی بابائے صحافت مولانا ظفرعلی خاں، علامہ صائم کرنالی، منو بھائی، سلیم کاشر، مولانا عبدالغفور، عطاء الحق قاسمی، شفقت تنویر مرزا، عرفان اللہ راجا، شریف فیاض وزیرآبادی اور مدثر اقبال کے اسمائے گرامی سے اس کی کہکشاں جگمگانے لگتی ہے۔

طاہر وزیرآبادی جن کی جنم بھومی گمرولہ گاؤں، جو قصبہ درمان (تحصیل ظفر وال ضلع نارو وال) سے متصل ہے۔ جہاں وہ 1960 میں چوہدری برکت علی کے ہاں پیدا ہوئے۔ وہ 1970 میں تحصیل وزیرآباد ضلع گوجرانوالہ میں رہائش پذیر ہوئے۔ انھوں نے 1977میں گورنمنٹ پبلک ہائی اسکول وزیر آباد سے میٹرک کا امتحان پاس کیا،جب کہ 1979میں گورنمنٹ مولانا ظفر علی خاں ڈگری کالج وزیرآباد سے ایف اے کی ڈگری حاصل کی، بعدازاں شعبہ صحافت سے منسلک ہوگئے۔

 کالم نگاری اور تجزیہ نگاری ان کی مرغوب غذا تھی۔ ان کے اُردو میں چند کالم ایک اردو روزنامہ میں پڑھنے کو ملے مگر ان کے زیادہ تر کالم پنجابی زبان میں ہمیں ایک اخبار میں پڑھنے کو ملتے۔ ان کے کالم ادبی، سیاسی، سماجی اور اصلاحی موضوعات پر مبنی تھے۔

طاہر وزیر آبادی نہایت وضع دار اور مجلسی قسم کے آدمی تھے۔ وہ ادبی، صحافتی اور سماجی دائرہ تعلقات کے نہایت متنوع تھے، اسی وجہ سے تمام ادبی، صحافتی اور سماجی حلقوں کے لوگ احباب ان سے محبت اور انکساری سے پیش آتے۔

کیونکہ وہ خود بھی محبت سے بھرپور آدمی تھے اور ساری زندگی چاہتیں دے کر محبتیں سمیٹتے رہے۔ اس حوالے سے مدثر اقبال بٹ بتاتے ہیں کہ ’’ وزیر آباد کی مٹی سے میرا رشتہ ماں بیٹے جیسا ہے۔ میں اس مٹی کا بیٹا ہوں اور ساری زندگی اسی کی محبت کا مزا لیتا رہا ہوں۔

اس مٹی کی خوشبو کو ہمیشہ میری سانسوں نے محسوس کیا۔ میں جب بھی وزیرآباد کا نام لیتا تو میرے سامنے وزیرآباد کی ایک ہنستی مسکراتی صورت طاہر وزیر آبادی کی آجاتی اور میں جب بھی وزیرآباد آتا تو میرا میزبان طاہر وزیر آبادی ہوا کرتا ۔ وہ میرے مشکل وقت کا ساتھی تھا، میری دھرتی کا ایک نیک بیٹا تھا، وہ میرا بھائی بھی تھا اور میرا دوست بھی۔‘‘

طاہر وزیر آبادی لسانی اعتبار سے اُردو اور پنجابی پر یکساں عبور رکھتے تھے۔ فکری حوالے سے وہ ایک محبِ وطن پاکستانی تھے جب کہ موضوعاتی زاویے سے ان کی شاعری کا کینوس بہت وسیع تھا۔ اپنے ارد گرد رونما ہونیوالے روزمرہ واقعات کو اپنے شعروں اورکالموں کی صورت میں پیش کرتے نظر آتے۔ ان کے پنجابی شاعری اورکالموں میں نہایت رنگارنگی پائی جاتی۔ حمد ونعت، نظم و غزل، طنز ومزاح، الغرض ہر میدانِ سخن میں رواں دواں تھے۔ ان کے نعتیہ کلام سے دو اشعار ملاحظہ فرمائیں۔

سوہنا رب رحیم وی سانجھا

کر دا کرم کریم وی سانجھا

سانجھا پاک کلام ہے اُسدا

رحمت بھریا میم وی سانجھا

طاہر وزیر آبادی کی شاعری میں پختہ کاری کے تمام اجزا اور جوہر موجود ہیں۔ انھوں نے چھوٹی بحر میں جو لفظی و معنوی کمالات دکھائے وہ اس بات کا حقیقی ثبوت یہ ہے کہ انھوں نے اپنے شعری سفرکو خدا داد صلاحیتوں کے ساتھ طے کیا۔ وہ دورِ حاضر میں مفاد پرستی، منافقت اور ناہمواریوں کے دور کو دیکھ کر بہت دُکھی رہتے۔ ان کے قلم سے نکلنے والے الفاظ ہمیشہ حق و صداقت کی صدائیں بلندکرتے ہوئے جھوٹے اور مکار لوگوں کے چہروں سے نقاب اُٹھاتے۔

غرق ہووے شیطان دی بیڑی

جھوٹھے سیاستدان دی بیڑی

چک لے ربا دیس دے ویری

نالے کوڑگیان دی بیڑی

ان کی شاعری میں تصوف کا رنگ بھی نمایاں جھلکتا دکھائی دیتا ہے، جس کی خاص وجہ ان کے اندر وارث شاہ، بھلے شاہؒ، میاں محمدبخشؒ اور حق باہوؒ جیسے صوفیائے کرام سے محبت کا جذبہ موجود تھا، ان کی یہ محبت عقیدت کا روپ لیے کچھ اس طرح سے اظہار کرتی ہے کہ:

وارث شاہ دی جوء تو صدقے

بُھلے دی خُشبو توں صدقے

میاں محمد تو جند واراں

حق باہو دی ہُو تو صدقے

طاہر وزیر آبادی کے پاس وسیع ذخیرہ الفاظ موجود تھے۔ جن کو وہ اپنی ذہنی و تخلیقی صلاحیتوں سے استعمال کرنے کا بہانہ ڈھونڈ لیتے تھے۔ انھوں نے بعض اشعار اتنی گہرائی سے کہے ہیں کہ پڑھنے والا ہر شخص اس کے آثار میں اُترکر ڈوب مرتا ہے۔ ایسے ہی کچھ اشعار شامل کرتا چلوں کہ:

تتلیاں دے سینے انج پاڑے گئے

پُھل گلابی پیراں ہیٹھ لتاڑے گئے

بوٹ وچاری چڑیاں دے وچ آلنیاں

ظالم سوچ دے ہتھوں زندہ ساڑے گئے

ایس تو اُتے ہور بے قدری کیہ ہونی

رُکھاں اُتوں سجرے بور وی جھاڑے گئے

………

صدیاں وچ شمار نہ جندے

ساہواں دا اتبار نہ جندے

سکھنا جا سی خاک دا پُتلا

ڈھیر کلاوے مار نہ جندے

طاہر وزیرآبادی کے اندر ایک سچا اورکھڑا شاعر موجود تھا ایسا شاعر اور انسان صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں، انھیں سب پیار سے ’’ لالہ جی‘‘ کہہ کر مخاطب ہوتے، مجھ خاکسارکا جب پہلا پنجابی شعری مجموعہ ’’بھلیاں راہواں‘‘ اشاعت پذیر ہُوا تو اس پر انھوں نے بہت جامعہ مضمون لکھا جو بعد میں پنجابی اخبار ’’بھلیکھا‘‘ میں شایع بھی ہُوا۔

ان کی سے میری پہلی ملاقات ’’بھلیکھا‘‘ اخبار کے زیر اہتمام آل پاکستان پنجابی مشاعرہ آرٹس کونسل گوجرانوالہ میں ہوئی۔ میدان سخن کا یہ منفرد شاہسوار، مشاہدات کی تصویر کو اپنے لفظوں میں پیش کرنیوالا فن کار، ادب کی دنیا سے جُڑے لکھاریوں کا خدمت گزار، چاہتیں بکھیر کر محبتیں سمیٹنے والا فنکار، چلتی سانسوں کو راہِ ادب میں وقف کرنے والا جی دار، صنف شعر و سخن سے جنون کی حد تک پیار کرنے والا قلمکار، عاجزی اور انکساری کا روشن مینار اور شہر وزیر آباد کا شہزادہ طاہر وزیر آبادی محبت کے عالمی دن 14 فروری 2020 کو اپنے چاہنے والوں کی محبتیں، عزتیں اور شہرتیں سمیٹ کر اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔

ان کی نمازِ جنازہ سجادہ نشین علی پور سیدہ شریف کے صاحبزادہ حافظ پیر سید کرامت علی حسین نے پڑھائی کیونکہ طاہر وزیرآبادی 1982 میں حضور قبلہ عالم پیر علی حسین شاہ صاحب کے دستِ حق پر بیعت کا شرف حاصل کیا تھا۔ ’’ لالہ طاہر وزیر آبادی‘‘ کی وفات پر نہ صرف وزیرآباد ویران ہوا ہے بلکہ سارا شہر ویران ہو گیا ہے۔ خالد شریف کے اس ضرب المثل شعر کے مصداق۔

بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی

اک شخص سارے شہرکو ویران کرگیا

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طاہر وزیر ا بادی طاہر وزیرا بادی انھوں نے

پڑھیں:

اب جنازوں پر سیاست ہو رہی ہے: علی امین گنڈاپور

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختون خوا علی امین گنڈا پور—فائل فوٹو

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا ہے کہ سیاست میں یہ حالت آ گئی ہے کہ اب جنازوں پر سیاست ہو رہی ہے۔

راولپنڈی میں داہگل ناکے پر میڈیا سے گفتگو کے دوران انہوں نے یہ بات ایک صحافی کے سوال کے جواب میں کہی جس نے سوال کیا کہ علی امین صاحب! آپ فوجی شہداء کے جنازے میں شریک کیوں نہیں ہوتے؟

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا علی امین گنڈاپور نے کہا کہ میں یہاں پر نہیں تھا، کئی جنازے ہوں گے جن پر وزیرِ اعظم نہیں آئے ہوں گے، اب میں یہ بات کروں کہ وزیرِ اعظم کیوں نہیں آئے، اس بات کا دلی دکھ ہے، سب ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے لیے جنگ لڑ رہے ہیں۔

علی امین گنڈاپور کو اڈیالہ جیل کے باہر داہگل ناکے پر روک دیا گیا

وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور نے کہا کہ یہ تمہاری بھول ہے کہ میں پریشر لیتا ہوں، میں دباؤ قبول نہیں کرتا۔

انہوں نے کہا کہ اصل چیز ہے کہ مسئلے کے حل کے لیے ہمیں کیا پالیسی بنانی ہے اور اقدامات کرنے ہیں، بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہمارے ساتھ مل کر بیٹھیں۔

وزیرِ اعلیٰ خیبر پختونخوا نے کہا کہ میں شہید میجر عدنان کے گھر جاؤں گا، میں خود آرمی فیملی سے ہوں، میرے والد اور بھائی بھی آرمی سے ہیں، میرے بھائی نے کارگل جنگ لڑی، وہ رات کو محاذ پر جاتا تو میری ماں روتی تھی۔

علی امین گنڈاپور کا کہنا ہے کہ وفاقی وزراء کی جانب سے جنازوں پر بیانات دیے گئے، سمجھتا ہوں اس معاملے پر سیاست نہیں کرنی چاہیے، یہ بہت گھٹیا حرکت ہے۔

متعلقہ مضامین

  • اللّٰہ کا شکر ہے کہ اس نے ہمیں حرمین شریفین کے دفاع کی سعادت دی ہے: طاہر اشرفی
  • پنجاب بمقابلہ بہار تنازعہ، مودی کی ناکام پالیسیوں کے باعث بھارت میں نئی دراڑ
  • مودی کی ناکام پالیسیوں کے باعث بھارت میں نئی دراڑ
  • وزیرآباد کیلئے الیکٹرک بس سروس کا افتتاح، سیلاب کے باوجود ترقیاتی کام نہیں روکے: مریم نواز 
  • وزیرآباد میں پہلی بار الیکٹرک بس سروس کا آغاز،گوجرانوالہ میٹروبس منصوبہ جلد شروع ہوگا،مریم نواز
  • محمد یوسف کا شاہد آفریدی کیخلاف عرفان پٹھان کی غیرشائسہ زبان پر ردعمل، اپنے ایک بیان کی بھی وضاحت کردی
  • وزیرِ اعلیٰ سندھ کا ڈکیتوں کیخلاف آپریشن تیز کرنے کا حکم
  • اب جنازوں پر سیاست ہو رہی ہے: علی امین گنڈاپور
  • ایبٹ آباد، محکمہ وائلڈ لائف نے آبادی میں گھومنے والے تیندوے کو پکڑ لیا
  • ایچ پی وی سے بچاؤ کی ویکسین لگانا بہت ضروری ہے، وزیر صحت سندھ