ٹرمپ پر تنقید، نوبل انعام یافتہ نائجیرین مصنف کا امریکی ویزا منسوخ
اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT
نوبیل انعام یافتہ نائجیرین ادیب اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ناقد، وولے شوئینکا (Wole Soyinka) نے انکشاف کیا ہے کہ ان کا امریکی ویزا منسوخ کر دیا گیا ہے۔
لاگوس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے 91 سالہ ادیب نے بتایا کہ ان کا ویزا ایک تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ کا موازنہ یوگنڈا کے آمر عیدی امین سے کرنے پر منسوخ کیا گیا، میرے پاس اب کوئی ویزا نہیں، مجھے پابندی کا سامنا ہے۔
انہوں نے طنزیہ انداز میں کہا کہ عیدی امین ایک بین الاقوامی قد کاٹھ رکھنے والے شخصیت تھے، ایک ریاستی رہنما تھے، اس لیے جب میں نے ڈونلڈ ٹرمپ کو عیدی امین کہا تو میں سمجھا کہ میں ان کی تعریف کر رہا ہوں لیکن دراصل وہ ایک آمر جیسا برتاؤ کر رہے ہیں۔
نوبیل انعام یافتہ مصنف نے مزید بتایا کہ امریکی قونصل خانے نے مجھے پاسپورٹ کے ساتھ بلایا تاکہ ویزا منسوخ کیا جا سکے۔
عیدی امین یوگنڈا کے وہ فوجی حکمران تھے جنہوں نے 1971 سے 1979 تک حکومت کی اور اپنے جابرانہ طرزِ حکمرانی اور انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے باعث بدنام ہوئے۔
یاد رہے کہ وولے شوئینکا نے 2016 میں ڈونلڈ ٹرمپ کے امریکی صدر منتخب ہونے کے بعد احتجاجاً اپنا گرین کارڈ پھاڑ دیا تھا اور امریکی مستقل رہائش ترک کر دی تھی۔
امریکا میں ٹرمپ کی دوسری مدتِ صدارت کے بعد ویزا پالیسیوں میں بڑی تبدیلیاں کی گئی ہیں۔
جولائی میں امریکی محکمہ خارجہ نے ایک نئی پالیسی کے تحت اعلان کیا تھا کہ نائیجیریا، کیمرون، ایتھوپیا اور گھانا کے شہریوں کو دیے جانے والے بیشتر غیر سفارتی ویزے اب صرف سنگل انٹری اور تین ماہ کے لیے موزوں ہوں گے۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: ڈونلڈ ٹرمپ
پڑھیں:
امریکی سیاست میں اسلاموفوبیا؟ ری پبلیکن رہنماؤں کی زوہران ممدانی کے شہریت منسوخ کرنے کا مطالبہ
واشنگٹن: نیویارک کے میئر کے انتخابات میں نمایاں امیدوار زوہران ممدانی کو امریکی ری پبلکن رہنماؤں کی جانب سے شدید دباؤ کا سامنا ہے، جنہوں نے امریکی محکمہ انصاف سے ان کی شہریت منسوخ کرنے اور ملک بدر کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
ری پبلکن رکنِ کانگریس اینڈی اوگلز نے اٹارنی جنرل پام بونڈی کو لکھے گئے خط میں الزام عائد کیا کہ 34 سالہ ڈیموکریٹ امیدوار ممدانی نے شہریت حاصل کرتے وقت اپنے "فلسطینی انسانی حقوق کی وکالت" کے مؤقف کو ظاہر نہیں کیا، جسے امریکی قانون کے تحت "دہشت گردی کی حمایت" کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
اسی طرح، ایک اور ری پبلکن رکن رینڈی فائن نے مطالبہ کیا ہے کہ گزشتہ 30 سالوں میں دی جانے والی تمام امریکی شہریتوں کا از سرِ نو جائزہ لیا جائے — "ممدانی سے آغاز کرتے ہوئے"۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص "امریکی نہیں"، تو وہ عوامی عہدے پر نہیں رہ سکتا۔
دوسری جانب، کونسل آن امریکن اسلامک ریلیشنز (CAIR) نے محکمہ انصاف سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ ان "اسلام مخالف اور نسل پرستانہ" مطالبات کو فوری طور پر مسترد کرے۔ تنظیم نے کہا کہ کسی شہری کو سیاسی نظریات یا مذہبی عقائد کی بنیاد پر نشانہ بنانا امریکی آئین کی خلاف ورزی ہے۔
ممدانی، جو یوگنڈا میں بھارتی نژاد والدین کے گھر پیدا ہوئے اور 2018 میں امریکی شہری بنے، نیویارک کی سیاست میں ایک معروف ترقی پسند رہنما سمجھے جاتے ہیں۔ وہ اس وقت انتخابات میں ڈیموکریٹ پارٹی کے نمایاں امیدوار کے طور پر میدان میں ہیں۔
دریں اثنا، نیویارک میں ابتدائی ووٹنگ میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جہاں اب تک 12 لاکھ سے زائد ووٹرز ووٹ ڈال چکے ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق یہ اضافہ ممدانی کے حق میں جا سکتا ہے کیونکہ ان کی حمایت زیادہ تر نوجوانوں اور ترقی پسند ووٹروں میں پائی جاتی ہے۔
ممدانی نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ "یہ افسوسناک ہے کہ واشنگٹن کے ری پبلکن میرے ملک بدر کیے جانے کی فکر میں ہیں بجائے اس کے کہ وہ حکومت کے شٹ ڈاؤن کو ختم کرنے پر توجہ دیں۔"
انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا، "وہ میرے مذہب اور امیگریشن کی تاریخ کو ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔ ہم ڈرنے والے نہیں۔"
ماہرین قانون کے مطابق ری پبلکن رہنماؤں کے دعوے قانونی بنیاد سے خالی ہیں۔ نیویارک کے وکیل سائرس مہتا نے لکھا کہ "شہریت منسوخ کرنا صرف اس صورت میں ممکن ہے جب کوئی شخص دھوکہ دہی یا حقائق چھپانے کا مرتکب ثابت ہو۔ سیاسی اظہار یا فلسطینی حقوق کی حمایت اس کی بنیاد نہیں بن سکتی۔"
ممدانی نے اس سال کے آغاز میں سابق گورنر اینڈریو کومو کو شکست دے کر ڈیموکریٹک پرائمری جیتی تھی، جسے ماہرین نے ایک سیاسی اپ سیٹ قرار دیا تھا۔