ڈونلدٹرمپ کے مشرقی ونگ بال روم منصوبے کے خلاف وائٹ ہاؤس پر مقدمہ
اشاعت کی تاریخ: 12th, December 2025 GMT
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مشرقی ونگ میں نئے بال روم کے منصوبے کے خلاف تاریخی تحفظ کی ایک اہم تنظیم نے وائٹ ہاؤس کے خلاف عدالت میں مقدمہ دائر کر دیا ہے۔
یہ مقدمہ نیشنل ٹرسٹ فار ہسٹورک پریزرویشن نے دائر کیا ہے، جو 1949 میں قائم ایک غیر منافع بخش ادارہ ہے اور کانگریس کے چارٹر کے تحت کام کرتی ہے۔ مقدمے میں موقف اختیار کیا گیا ہے کہ انتظامیہ نے اکتوبر میں مشرقی ونگ کے ایک حصے کو مسمٹ کرنے سے قبل لازمی تاریخی اور ماحولیاتی جائزے حاصل نہیں کیے۔
یہ بھی پڑھیں: یوٹیوب کا ڈونلڈ ٹرمپ سے مقدمہ نمٹانے کے لیے 24.
مقدمے میں کہا گیا ہے کہ ’کوئی صدر، چاہے وہ ڈونلڈ ٹرمپ ہوں یا جو بائیڈن یا کوئی اور بغیر کسی جائزے کے وائٹ ہاؤس کے حصے کو قانونی طور پر مسمٹ نہیں کر سکتا۔‘
وائٹ ہاؤس نے اس منصوبے کو بہت ضروری اور شاندار اضافہ قرار دیا ہے۔ نیشنل ٹرسٹ فار ہسٹورک پریزرویشن چاہتی ہے کہ وفاقی عدالت تعمیراتی کام کو اس وقت تک روکے جب تک کہ وائٹ ہاؤس لازمی جائزے مکمل نہ کر لے، جن میں عوامی مشاورت کا عمل بھی شامل ہے۔
کارول کویلن، صدر نیشنل ٹرسٹ فار ہسٹورک پریزرویشن نے کہا کہ وائٹ ہاؤس ہمارے ملک کی سب سے زیادہ نمایاں عمارتوں میں سے ایک ہے اور عالمی سطح پر امریکی اصولوں کی علامت کے طور پر پہچانی جاتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر ٹرمپ کا خاتون صحافی کو ’بیوقوف‘ قرار دینے پر نیا تنازع
وائٹ ہاؤس نے مقدمے کے جواب میں کہا کہ ’صدر ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس کو جدید بنانے، تزئین و آرائش کرنے اور خوبصورت بنانے کا مکمل قانونی اختیار حاصل ہے، جیسا کہ ان کے تمام پیشروؤں نے کیا۔‘
یاد رہے کہ اکتوبر میں ٹرمپ کے ملٹی ملین ڈالر کے بال روم کی تعمیر کے لیے مشرقی ونگ کے ایک حصے کو مسمٹ کیا گیا تھا، جس کے لیے انہوں نے نجی عطیات کا ذکر کیا تھا۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
we news امریکا بال روم ڈونلڈ ٹرمپ مقدمہ وائٹ ہاؤسذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: امریکا بال روم ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس بال روم کے لیے
پڑھیں:
غزہ امن منصوبے کے دوسرا مرحلہ مؤخر؛ صدر ٹرمپ نے وجہ بھی بتادی
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے کے آغاز اور عمل درآمد سے متعلق ایک بڑا اعلان کرکے سب کو حیران کردیا۔
عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق امریکی صدر نے کہا کہ غزہ کے انتطامی امور کو سنبھالنے کے لیے بنائے جانے والے بورڈ آف پیس کا اعلان فی الحال روک دیا گیا ہے۔
صدر ٹرمپ نے کہا کہ اب بورڈ آف پیس کے ارکان کا اعلاں رواں ماہ کے بجائے آنے والے سال 2026 کے شروع میں کیا جائے گا۔
جس کا مطلب ہے کہ غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے پر عمل درآمد کا آغاز اب کرسمس اور سال نو کی چھٹیوں کے بعد شروع ہوگا۔
قبل ازیں امریکی حکام نے بتایا تھا کہ کرسمس سے پہلے ہی غزہ جنگ بندی کے دوسرے مرحلے اور بورڈ آف پیس کے اراکین کے ناموں کے اعلان کی امید رکھتے ہیں۔
اس کے برعکس تاحال مذاکرات ابتدائی مرحلے میں ہی رکے ہوئے ہیں خاص طور پر حماس کے مکمل غیر مسلح کیے جانے کا معاملہ تاحال حل طلب ہے۔
امریکا اور اسرائیل کا پُرزور اصرار ہے کہ غزہ کی تعمیر نو تب ہی شروع ہو سکتی ہے جب حماس مکمل طور پر غیر مسلح ہو جائے۔
تاہم امریکا اب تک کسی بھی ملک کو قائل نہیں کر سکا کہ وہ غزہ کے مشرقی حصے میں اسرائیلی فوج کی جگہ لینے والی انٹرنیشنل اسٹیبلائزیشن فورس (ISF) میں شمولیت اختیار کرے کیونکہ اکثر ممالک حماس سے براہِ راست ٹکراؤ سے ہچکچا رہے ہیں۔
اگرچہ امریکا نے آذربائیجان کو اس فورس میں شامل کرنے کا عندیہ دیا تھا مگر آذربائیجان نے انکار کردیا۔
اس کے برعکس ترکیہ جو حماس سے رابطے اور ثالثی کی صلاحیت رکھتا ہے، متعدد بار اس فورس میں شامل ہونی کی خواہش کا اظہار کرچکا ہے لیکن اسرائیل نے ویٹو کردیا۔
اس وجہ سے بھی متعدد ممالک غزہ پیس فورس میں شامل ہونے سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ امریکا کی اسرائیل کے مؤقف کو نرم کرانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوسکی ہیں۔
دوسری جانب حماس کے سینئر رہنما خالد مشعل نے الجزیرہ کو انٹرویو میں کہا کہ مکمل غیر مسلح ہونا ناقابلِ قبول ہے البتہ ہتھیار کو محفوظ رکھنے یا عارضی طور پر ذخیرہ کرنے پر غور کیا جا سکتا ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ حماس کو غیر مسلح کرنے کا مطلب اس کی تنظیم کی روح چھین لینا ہے۔ البتہ غیر جانبدار فسطینی فورس کے قیام کے بعد سوچا جا سکتا ہے۔
خالد مشعل نے غیرملکی فوجوں کے غزہ میں تعیناتی کو ’قبضے‘‘ سے تعبیر کرتے ہوئے متبادل طریقے اپنانے کی تجویز دی۔
حماس رہنما نے سرحدوں پر بین الاقوامی فورس کی تعیناتی پر رضامندی ظاہر کرتے ہوئے لبنان میں UNIFIL کی مثال بھی دی۔
یاد رہے کہ صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ بورڈ آف پیس کی سربراہی وہ کریں گے جس میں ٹونی بلیئر سمیت متعدد عالمی رہنما شامل ہوں گے۔