افغان حکومت اور فتنتہ الخوارج کے گٹھ جوڑ کا پردہ فاش ہو گیا اور فتنتہ الخوارج کے دہشت گردوں اور  افغان حکومت کے گٹھ جوڑ کے ناقابل تردید شواہد منظر عام پر آگئے۔

ذرائع کا کہنا ہے کہ 30 اور 31 جنوری کی رات ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیل کلاچی میں سیکیورٹی فورسز ، کےکامیاب آپریشن میں فتنتہ الخوارج کے 4 دہشتگردوں کو جہنم واصل کیا گیا، "ہلاک دہشتگردوں میں افغانستان کےصوبے باغدیس کےنائب گورنرمولوی غلام محمد احمدی کا بیٹا بھی شامل تھا، یہ آپریشن ڈیرہ اسماعیل خان ۔کی تحصیل کلاچی کے علاقے مدی میں کیا گیا"

ذرائع کے مطابق  ہلاک دہشتگردوں سے امریکی ساختہ جدید نائٹ ویژن سمیت ایم 16اے 4 اورایم 24 اسنائپر رائفلز بھی برآمد ہوئیں، باغدیس کے گورنر کے ہلاک کئے جانے والے بیٹے کی شناخت بدر الدین عرف یوسف کے نام سے ہوئی۔

 ذرائع نے کا کہنا تھا کہ افغان حکام اب بدر الدین عرف یوسف کی لاش لینے سے بھی انکاری ہیں، پاکستان نے کئی بار افغان حکام کو لاش وصولی کا کہا ہے  لیکن افغان سائیڈ سے مسلسل انکار کیا جا رہا ہے، بدرالدین اس سے پہلے افغان طالبان کے تربیتی مرکز میں تربیت حاصل کرتا تھااور بعد میں فتنہ الخوراج کاحصہ بنا، بدر الدین افغانستان سے پاکستان میں دہشتگرد حملوں کی نئی لہر میں ایک  اہم کردار کے طور پر براہ راست ملوث تھا۔

ذرائع کے مطابق افغان طالبان کی قیادت اب بھی افغانستان میں دہشت گرد تنظیموں بشمول فتنہ الخوارج کے ساتھ گہرے تعلقات برقرار رکھے ہوئے ہے، اس بات کے شواہد بھی موجود ہیں کہ افغان طالبان فتنہ الخوراج کو  دفاعی ، تکنیکی اور مالی  امداد فراہم  کرتے ہیں

پاکستان کی وزارت خارجہ کے جاری کردہ حالیہ بیان کے مطابقافغانستان میں امریکی ہتھیاروں کی موجودگی پاکستان کے تحفظ اور سلامتی کیلئے گہری تشویش کا باعث ہے۔

 امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حالیہ بیان کے مطابق افغانستان کے لئے مستقبل کی مالی امداد اس وقت اقتدار میں موجود طالبان رہنماؤں کی جانب سے امریکی فوجی سازوسامان کی واپسی پر منحصر ہو گی"

دفاعی تجزیہ کار کے مطابق "افغانستان کے نائب گورنر کے بیٹے کی ہلاکت افغان طالبان اور فتنہ الخوراج کے درمیان گٹھ جوڑ کا واضح ثبوت ہے، افغان حکام پاکستان میں دہشت گردی کی مذمت کرنے کے بجائے، سوشل میڈیا پر نورالدین کی نام نہاد شہادت کا جشن منا رہے ہیں، مولوی غلام محمدکو میڈیا پرافغانستان کی تعمیر نوکاپروپیگنڈہ کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے لیکن اس نے اپنے بیٹے کو پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کی چھوٹ دے رکھی تھی"

دفاعی تجزیہ کار نے کہا کہ یہ بلا شک و شبہ واضح ہوچکا ہےکہ پاکستان کیخلاف دہشتگردی میں نہ صرف افغانستان کی سرزمین بلکہ افغان حکومت بھی مکمل طور پر شامل ہوچکی ہے، اس سے بڑا ثبوت کیا ہوگا کہ افغان نائب گورنر کا بیٹا پاکستان میں دہشتگردی کرتے ہوئےہلاک ہوا، فتنتہ الخوارج افغان نوجوانوں کو پاکستان میں تعلیم اور نوکریوں کا جھانسہ دے کر لاوارث موت مروا رہے ہیں"

انہوں نے کہا کہ فتنتہ الخوراج کے ساتھ پاکستان میں دراندازی کرنےوالے زیادہ ترافغان شہری یا تو مارے جاتے ہیں یا گرفتارکرلئےجاتے ہیں افغان عوام کو چاہیے کہ وہ اپنی بھلائی کے لیے اپنے بچوں کو فتنتہ الخوراج سے بچائیں، افغانستان ہر قسم کے دہشت گردوں کی افزائش گاہ بن چکا ہے جس پر بین الاقوامی سطح پر ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے۔

.

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ

کابل(انٹرنیشنل ڈیسک)طالبان دور کی سختیوں اور شدید معاشی بحران کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس تیزی سے مقبول ہو رہے ہیں، جہاں خواتین اور مرد اپنی ظاہری خوبصورتی نکھارنے کے لیے بوٹوکس، فلرز اور ہیئر ٹرانسپلانٹ جیسی سہولیات حاصل کر رہے ہیں۔

نجی اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق کابل کے کاسمیٹک سرجری کلینکس مخملی صوفوں کے ساتھ اس طرح سجے ہیں کہ یہ طالبان دور کی سختیوں سے بالکل مختلف دکھائی دیتے ہیں، جہاں بوٹوکس، لپ فلر اور بالوں کے ٹرانسپلانٹ عام ہو چکے ہیں۔

طالبان کی سخت حکمرانی، قدامت پسندی اور غربت کے باوجود کابل میں جنگ کے خاتمے کے بعد تقریباً 20 کلینکس تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔

غیر ملکی ڈاکٹر خاص طور پر ترکی سے کابل آ کر افغان ڈاکٹروں کو تربیت دیتے ہیں، جب کہ افغان ڈاکٹر استنبول میں انٹرن شپ کرتے ہیں اور کلینکس کے آلات ایشیا اور یورپ سے منگوائے جاتے ہیں۔

ویٹنگ رومز میں زیادہ تر خوشحال لوگ آتے ہیں، جن میں بال جھڑنے والے مرد بھی شامل ہوتے ہیں، لیکن زیادہ تعداد خواتین کی ہوتی ہے جو اکثر میک اپ کیے ہوئے اور سر سے پاؤں تک ڈھکی ہوتی ہیں، بعض اوقات مکمل برقع میں بھی۔

25 سالہ سلسلہ حمیدی نے دوسرا فیس لفٹ کرانے کا فیصلہ کیا کیونکہ وہ سمجھتی ہیں کہ افغانستان میں عورت ہونے کے دباؤ نے ان کی جلد خراب کر دی ہے۔

انہوں نے کہا کہ چاہے دوسرے ہمیں نہ دیکھ سکیں، لیکن ہم خود کو دیکھتے ہیں، آئینے میں خوبصورت لگنا ہمیں حوصلہ دیتا ہے، یہ کہہ کر وہ سرجری کے لیے گئیں تاکہ چہرے کا اوپری حصہ، جو ڈھلکنے لگا تھا، دوبارہ درست کیا جا سکے۔

میڈیکل اسکول سے فارغ التحصیل سلسلہ کا کہنا تھا کہ افغان خواتین پر زیادہ دباؤ کی وجہ سے ان کی جلد متاثر ہو جاتی ہے۔

طالبان حکومت کی پابندیوں کے باعث خواتین کی ملازمت پر سخت روک ہے، وہ مرد سرپرست کے بغیر لمبا سفر نہیں کر سکتیں، گھر سے باہر بلند آواز میں بات نہیں کر سکتیں اور ان پر یونیورسٹی، پارک اور جم جانے کی بھی پابندی ہے۔

سیلونز پر پابندی، مگر بوٹوکس پر نہیں
جہاں کاسمیٹک سرجری عروج پر ہے، وہیں خواتین کے بیوٹی سیلونز اور پارلرز پر مکمل پابندی ہے۔

23 سال کی عمر میں چہرے کے نچلے حصے کی سرجری کرانے والی سلسلہ کا کہنا ہے کہ اگر بیوٹی سیلونز کھلے ہوتے تو ہماری جلد اس حالت میں نہ پہنچتی اور سرجری کی ضرورت نہ پڑتی۔

طالبان حکام جو عموماً جسمانی ساخت میں تبدیلی کی اجازت نہیں دیتے، کاسمیٹک سرجری سے متعلق بار بار کیے گئے سوالات پر خاموش رہے۔

اس شعبے سے وابستہ افراد کے مطابق یہ اس لیے جائز ہے کیونکہ اسے طب کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

کلینک کے عملے کے مطابق حکومت ان کے کام میں مداخلت نہیں کرتی، لیکن اخلاقی پولیس یہ دیکھتی ہے کہ صنفی علیحدگی برقرار رہے، یعنی مرد مریض کے ساتھ مرد نرس اور خاتون مریضہ کے ساتھ خاتون نرس ہو۔

کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ طالبان کے اپنے ارکان بھی ان کلینکس کے گاہک ہیں۔

نگین ایشیا کلینک کے ڈپٹی ڈائریکٹر ساجد زدران کا کہنا ہے کہ یہاں بال یا داڑھی نہ ہونا کمزوری کی نشانی سمجھا جاتا ہے، یہ کلینک جدید چینی آلات سے مکمل طور پر لیس ہے۔

یوروایشیا کلینک کے ڈائریکٹر بلال خان کے مطابق طالبان کے مردوں کو کم از کم ایک مُٹھی لمبی داڑھی رکھنے کے حکم کے بعد ہیئر ٹرانسپلانٹ کا رجحان بڑھ گیا ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ کچھ لوگ شادی سے پہلے بال لگوانے کے لیے قرض بھی لے لیتے ہیں۔

چار منزلہ ولا کو کلینک میں تبدیل کرنے والے ماہر امراض جلد عبدالنصیم صدیقی کا کہنا ہے کہ یہاں وہی طریقے استعمال ہوتے ہیں جو بیرون ملک رائج ہیں اور ان میں کوئی خطرہ نہیں، ان کے کلینک میں بوٹوکس کی قیمت 43 سے 87 ڈالر اور بال لگوانے کی لاگت 260 سے 509 ڈالر ہے۔

انسٹاگرام کا اثر
یہ رقم اکثر افغانوں کے لیے بہت زیادہ ہے، جن میں سے تقریباً نصف غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، لیکن یہ ان لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے جو بیرون ملک رہتے ہیں۔

لندن میں مقیم افغان ریسٹورنٹ کے مالک محمد شعیب یارزادہ نے برطانیہ میں ہزاروں پاؤنڈ کے اخراجات سے بچنے کے لیے 14 سال بعد افغانستان کے اپنے پہلے دورے میں سر پر بال لگوانے کا فیصلہ کیا۔

انہوں نے کہا کہ جب وہ کلینک میں داخل ہوتے ہیں تو لگتا ہے جیسے یورپ میں ہوں۔

نئے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لیے کلینکس سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر اور دعوے شیئر کرتے ہیں، جیسے چمکتی جلد، بھرے ہونٹ اور گھنے بال۔

نگین ایشیا کلینک کے شریک ڈائریکٹر 29 سالہ لکی خان کے مطابق افغانستان بھی مغربی ممالک کی طرح سوشل میڈیا انفلوئنسرز کے اثر سے محفوظ نہیں رہا، ان کے کلینک میں روزانہ درجنوں نئے مریض آتے ہیں۔

روسی نژاد افغان ڈاکٹر لکی خان کا کہنا ہے کہ کئی مریضوں کو اصل میں کوئی مسئلہ نہیں ہوتا، لیکن وہ انسٹاگرام پر دیکھے گئے ٹرینڈز کی وجہ سے سرجری کروانا چاہتے ہیں، ان کا اپنا چہرہ جھریوں سے پاک ہے۔

اقوام متحدہ کے مطابق اگرچہ ایک کروڑ افغان بھوک سے دوچار ہیں اور ہر تین میں سے ایک کو بنیادی طبی سہولتیں میسر نہیں، لیکن کچھ لوگ کھانے کے بجائے اپنی خوبصورتی پر پیسہ خرچ کرنا زیادہ بہتر سمجھتے ہیں۔

Post Views: 3

متعلقہ مضامین

  • غربت اور پابندیوں کے باوجود افغانستان میں کاسمیٹک سرجری کلینکس کی مقبولیت میں اضافہ
  • طالبان اور عالمی برادری میں تعاون افغان عوام کی خواہش، روزا اوتنبائیوا
  • پاکستان سے افغان مہاجرین کی واپسی میں تیزی، رواں برس کے آخر تک مکمل انخلا کا ہدف
  • طالبان نے غیر اخلاقی سرگرمیوں کی روک تھام کیلیے انٹرنیٹ پر پابندی عائد کردی
  • افغان حکومت کی سخت گیر پالیسیاں، ملک کے مختلف علاقوں میں فائبر آپٹک انٹرنیٹ بند
  • پاکستان کا سخت مؤقف، افغانستان میں ٹی ٹی پی اور “را” کی موجودگی ناقابل قبول
  • ٹی ٹی پی اور را کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان کو سخت پیغام
  • کرک؛ رات گئے تھانے پر فتنۃ الخوارج کے 30 دہشت گردوں کا حملہ ناکام
  • ٹی ٹی پی اور ’’را‘‘ کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کا طالبان حکومت کو سخت پیغام
  • طالبان نے بےحیائی روکنے کیلیے وائی فائی پر پابندی لگا کر انٹرنیٹ کیبل کاٹ دی