فلسطینیوں کی جبری نقل مکانی پر مبنی امریکی تجویز جنگی جرم ہے، اقوام متحدہ
اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT
غزہ کے باسیوں کی مصر و اردن منتقلی کے بارے انتہاء پسند امریکی صدر کی تجویز پر شدید تنقید کرتے ہوئے اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر برائے انسانی حقوق نے اعلان کیا ہے کہ فلسطینی عوام کو انکی سرزمین سے نکال باہر کر دینے کی تجویز ''جنگی جرم'' ہے! اسلام ٹائمز۔ فلسطین میں انسانی حقوق سے متعلق اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر فرانسسکا البانی نے اعلان کیا ہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ فلسطینی عوام کے مصائب سے لاتعلق جبکہ فلسطینی عوام کی بے دخلی نسلی تطہیر ہے۔ عرب چینل الجزیرہ کے ساتھ گفتگو میں فرانسسکا البانی کا کہنا تھا کہ فلسطینی عوام کو ان کی آبائی سرزمین سے بے دخل کر دینے کی تجویز کھلا ''جنگی جرم'' ہے۔ فلسطین میں اقوام متحدہ کی خصوصی رپورٹر برائے انسانی حقوق نے کہا کہ جنگ بندی کے بعد اسرائیل کی جانب سے، فلسطینیوں کی غزہ سے جبری نقل مکانی اور ان کی مصر و اردن منتقلی کا کئی بار مطالبہ کیا گیا ہے جو کھلا جنگی جرم ہے!
واضح رہے کہ انتہاء پسند امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ کی پٹی کی تعمیر نو کے بہانے غزہ کے باسیوں کو مصر و اردن منتقل کر دینے کا بارہا مطالبہ کیا ہے جو ہر مرتبہ دونوں عرب ممالک کی دوٹوک مخالفت کا باعث بنا ہے۔ دوسری جانب غزہ کی پٹی کے خلاف اپنی 15 ماہ سے زائد کی انسانیت سوز جنگ کے دوران غاصب صہیونی رژیم بھی اس علاقے کے لوگوں، خاص طور پر غزہ کی پٹی کے شمالی علاقہ جات کے باسیوں کو کوچ پر مجبور کرنے کی ازحد کوشش کر چکی ہے، جس کے مقابلے میں غزہ کے باشندوں کی عظیم استقامت اور مزاحمتی محاذ کی کاری ضربوں کے باعث اسے شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: فلسطینی عوام اقوام متحدہ کی تجویز جنگی جرم
پڑھیں:
غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کیا جائے، استنبول اعلامیہ
استنبول (ویب دیسک )غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کیا جائے، استنبول اجلاس کا اعلامیہ
غزہ کی تازہ صورتِ حال پر استنبول میں منعقد ہونے والے اعلیٰ سطح اجلاس کے بعد 7 مسلم ممالک نے مشترکہ اعلامیہ جاری کردیا۔
اعلامیہ میں زور دیا گیا ہے کہ غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے ہاتھ میں دیا جائے، اسرائیل فوری طور پر جنگ بندی کی مکمل پاسداری کرے اور انسانی امداد کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں ختم کی جائیں۔
مشترکہ اعلامیے میں کہا گیا کہ فلسطینی عوام کے حقِ خود ارادیت اور قومی نمائندگی کو تسلیم کیے بغیر خطے میں پائیدار امن ممکن نہیں۔
شریک ممالک نے اس مؤقف پر اتفاق کیا کہ بین الاقوامی استحکام فورس کے قیام پر غور کیا جائے گا تاکہ جنگ بندی کی نگرانی اور انسانی امداد کی فراہمی مؤثر بنائی جا سکے۔
اعلامیے کی نمایاں شقیں
1. غزہ کا نظم و نسق فلسطینیوں کے سپرد کرنے پر مکمل اتفاق۔
اجلاس میں شریک تمام ممالک نے اس بات پر زور دیا کہ غزہ کا سیاسی و انتظامی نظم کسی بیرونی قوت کے بجائے مقامی فلسطینی اتھارٹی کے پاس ہونا چاہیے۔
2. جنگ بندی کی خلاف ورزیوں پر تشویش۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اسرائیلی فوج کی جانب سے جنگ بندی کے بعد بھی حملے جاری ہیں جن میں اب تک تقریباً 250 فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔
3. انسانی امداد کی فراہمی کی فوری ضرورت۔
شریک ممالک نے مطالبہ کیا کہ کم از کم 600 امدادی ٹرک اور 50 ایندھن بردار گاڑیاں غزہ میں بلا تعطل داخل کی جائیں۔
4. بین الاقوامی استحکام فورس پر مشاورت۔
اعلامیے میں تجویز دی گئی کہ غزہ میں ایک غیرجانب دار فورس تشکیل دی جائے جو امن کی نگرانی اور انسانی امداد کے تحفظ کو یقینی بنائے۔
5. فلسطینی انتظامیہ کی اصلاحی کوششوں کی حمایت۔
شریک ممالک نے فلسطینی قیادت کے اصلاحی اقدامات اور عرب لیگ و اسلامی تعاون تنظیم (OIC) کے منصوبوں کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا۔
یہ اہم اجلاس ترکیہ کے وزیرِ خارجہ حقان فیدان کی میزبانی میں استنبول کے ایک معروف ہوٹل میں منعقد ہوا، جس میں انڈونیشیا، پاکستان، سعودی عرب، اردن، قطر اور متحدہ عرب امارات کے وزرائے خارجہ یا نمائندوں نے شرکت کی۔
اجلاس کے دوران جنگ بندی کی تازہ صورتِ حال، انسانی بحران، اور آئندہ سفارتی اقدامات پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
اجلاس کے بعد میڈیا سے گفتگو میں ترکیہ کے وزیرِ خارجہ نے کہا کہ اسرائیل جنگ بندی کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ اعلانِ جنگ بندی کے بعد سے اسرائیلی حملوں میں تقریباً 250 فلسطینی شہید ہوئے ہیں۔ ہم امن کے لیے ہر قربانی دینے کو تیار ہیں، مگر اسرائیل کی جارحانہ کارروائیاں عالمی ضمیر کے لیے چیلنج ہیں۔
فیدان نے کہا کہ ترکیہ نے اپنے تمام علاقائی شراکت داروں سے رابطے بڑھا دیے ہیں تاکہ جنگ بندی کو پائیدار امن میں تبدیل کیا جا سکے۔
انہوں نے زور دیا کہ اگر انسانی امداد کی راہیں نہ کھلیں تو غزہ میں انسانی المیہ ناقابلِ برداشت ہو جائے گا۔