Daily Ausaf:
2025-06-10@22:18:45 GMT

پی سی بی نے قذافی اسٹیڈیم کے پویلینز کے نئے نام رکھ دیے

اشاعت کی تاریخ: 3rd, February 2025 GMT

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) نے قذافی اسٹیڈیم کے پویلینز کے نئے نام رکھ دیے۔

ذرائع کے مطابق چیمپئنز ٹرافی 2025 کے نوتعمیر شدہ میدان کی مین بلڈنگ کے پویلین اینڈ کو اب جناح اینڈ کہا جائے گا۔جبکہ فار اینڈ بلڈنگ کا نیا نام اب اقبال اینڈ رکھا گیا ہے۔قذافی اسٹیڈیم کا نام آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی کے بعد تبدیل ہوگا۔

پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ءاعظم سواتی کواٹک جیل سےرہاکردیاگیا

.

ذریعہ: Daily Ausaf

پڑھیں:

آئی ایم ایف کا پاکستان کے بجٹ سازی پر اثر

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) ایک عالمی ادارہ ہے جو مختلف ممالک کو مالی معاونت، قرضے، اور معاشی اصلاحات کے لیے رہنمائی فراہم کرتا ہے۔ پاکستان کئی دہائیوں سے آئی ایم ایف کے پروگراموں کا حصہ رہا ہے۔ جب بھی ملک کو مالی بحران یا زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کا سامنا ہوتا ہے، پاکستان آئی ایم ایف سے رجوع کرتا ہے۔ مگر اس مالی معاونت کے ساتھ کچھ سخت شرائط بھی منسلک ہوتی ہیں، جو پاکستان کی بجٹ سازی کو براہِ راست متاثر کرتی ہیں۔

آئی ایم ایف کا بنیادی مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ حکومت اپنے مالی خسارے کو کم کرے، ٹیکس آمدن میں اضافہ کرے اور غیر ضروری سبسڈیز ختم کرے۔ ان شرائط کی وجہ سے حکومت کو اکثر عوامی فلاح کے منصوبے محدود کرنے پڑتے ہیں یا مہنگائی میں اضافے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ مثال کے طور پر، بجلی، گیس اور پیٹرول پر دی جانے والی سبسڈیز کم یا ختم کرنا پڑتی ہیں، جس کا بوجھ براہ راست عام آدمی پر پڑتا ہے۔ یہ اقدام اگرچہ معاشی استحکام کے لیے ضروری قرار دیے جاتے ہیں، لیکن ان کے فوری اثرات عوام کی زندگیوں پر منفی پڑتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی ہدایات کے تحت حکومت کو ٹیکس نظام میں اصلاحات کرنا پڑتی ہیں۔ اس میں نئے ٹیکس لگانا، موجودہ ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنا شامل ہوتا ہے۔ یہ اصلاحات اکثر غیر مقبول ہوتی ہیں، لیکن ان پر عمل کرنا حکومت کی مجبوری بن جاتا ہے کیونکہ آئی ایم ایف کی مالی معاونت جاری رکھنے کے لیے ان شرائط کو پورا کرنا ضروری ہوتا ہے۔

بجٹ کی تیاری میں آئی ایم ایف کا عمل دخل اس قدر بڑھ چکا ہے کہ اکثر یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ پاکستان کا بجٹ دراصل اسلام آباد میں نہیں بلکہ واشنگٹن میں بنتا ہے۔ وزارت خزانہ کو بجٹ سے پہلے اور بعد میں آئی ایم ایف سے مشاورت کرنی پڑتی ہے، اور بعض اوقات تو اہم فیصلے بھی انہی کی منظوری سے ہوتے ہیں۔ یہ صورتحال ملکی خودمختاری پر بھی سوالیہ نشان کھڑا کرتی ہے۔

اگرچہ آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا مقصد معیشت کو مستحکم بنانا ہوتا ہے، لیکن ان کا اطلاق ایک کمزور معیشت پر سخت اثر ڈالتا ہے۔ روزگار کے مواقع کم ہوتے ہیں، ترقیاتی منصوبے متاثر ہوتے ہیں، اور مہنگائی میں اضافہ ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عوام اور سیاسی حلقوں میں آئی ایم ایف کے کردار پر تنقید کی جاتی ہے۔

نتیجتاً، آئی ایم ایف پاکستان کے بجٹ سازی میں ایک طاقتور فریق بن چکا ہے۔ جب تک پاکستان اپنی اندرونی آمدن میں اضافہ نہیں کرتا، مالیاتی خسارے پر قابو نہیں پاتا، اور قرضوں پر انحصار کم نہیں کرتا، تب تک آئی ایم ایف کی شرائط اور اثرات بجٹ پر غالب رہیں گے۔ ملکی معیشت کو مستحکم اور خودمختار بنانے کے لیے طویل المدتی منصوبہ بندی اور خود انحصاری کی پالیسی اپنانا ناگزیر ہو چکی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • آئی ایم ایف کا پاکستان کے بجٹ سازی پر اثر
  • سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے منصوبے: 5 ارب روپے تک کے فنڈز مختص
  • اسلام آباد میں جناح میڈیکل کمپلیکس اینڈ ریسرچ سنٹر کےلئے پی ایس ڈی پی کے تحت 4000 ملین روپے مختص
  • ورلڈ ٹیسٹ چیمپئن شپ کا فائنل کل سے لارڈز میں شروع ہوگا
  • مہنگائی کا سالانہ ہدف ساڑھے 7 فیصد اور معاشی شرح نمو کا ہدف 4 اعشاریہ 2 فیصد مقرر کرنے کی تجویز
  • (سندھ بلڈنگ )کھوڑو سسٹم کا آلہ کار ذوالفقار بلیدی ناقص تعمیرات کروانے لگا
  • نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس نے عید کی چھٹیوں کے اختتام پر ٹریول ایڈوائزری جاری کر دی
  •  نیشنل ہائی ویز اینڈ موٹروے پولیس کی  ٹریول ایڈوائزری جاری
  • یورپین چیمپئنز اسپین کو شکست، پرتگال نے دوسری بار نیشنز لیگ ٹائٹل جیت لیا
  • چیئرمین ایکنامک پالیسی اینڈ بزنس ڈویلپمنٹ ڈاکٹر گوہر اعجاز نے بجٹ تجاویز پیش کردیں