Daily Ausaf:
2025-09-18@14:22:44 GMT

قرآن کریم پڑھنے کے سات مقاصد

اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT

قرآن کریم ہم پڑھتے بھی ہیں سنتے بھی ہیں اور کچھ نہ کچھ یاد بھی کرتے ہیں، سوال یہ ہے کہ ہم قرآن کریم کو کس غرض اور مقصد کے لیے پڑھتے ہیں اور اسے اصل میں کس مقصد کے لیے پڑھنا چاہیے؟ اس کا اپنا مقصد اور ایجنڈا کیا ہے جس کے لیے اللہ تعالیٰ کے اس پاک کلام کو پڑھنے اور سننے کی ضرورت ہے۔ ہم عام طور پر قرآن کریم کو چند مقاصد کے لیے پڑھتے ہیں جن کا تذکرہ اس وقت مناسب سمجھتا ہوں، مثلاً:
قرآن کریم پڑھنے سے ہمارا ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ نماز ہم پر فرض ہے اور نماز میں قرآن کریم پڑھنا ضروری ہے اس لیے ہم تھوڑا بہت قرآن کریم یاد کرتے ہیں تاکہ نمازوں میں پڑھ سکیں اور ہماری نمازیں صحیح طور پر ادا ہو جائیں، ہر مسلمان چند سورتیں یاد کرنے کی ضرور کوشش کرتا ہے تاکہ وہ انہیں نمازوں میں پڑھ سکے۔ اس مسئلہ میں ایک پہلو کی طرف توجہ دلانا چاہوں گا کہ پانچ وقت کی نمازیں فرائض و واجبات اور مؤکدہ سنتیں جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق ادا ہو جائیں اس کے لیے کم از کم کتنا قرآن کریم یاد کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے؟ عام طور پر یہ ہوتا ہے کہ چند سورتیں یاد کر لی جاتی ہیں اور انہی کو بار بار ہر نماز اور ہر رکعت میں دہرایا جاتا ہے، اس سے نماز ہو تو جاتی ہے لیکن سنت کے مطابق نہیں ہوتی۔ جناب نبی اکرمؐ کی سنت مبارکہ یہ ہے کہ مختلف نمازوں اور رکعتوں میں مختلف سورتیں پڑھی جائیں اور ایک ہی سورت کو بار بار نہ دہرایا جائے، اس کو سامنے رکھتے ہوئے میرا اندازہ ہے کہ ہر مسلمان مرد اور عورت کو قرآن کریم کا کم از کم نصف آخری پارہ ضرور یاد کرنا چاہیے، اس کے بغیر پانچ نمازیں سنت نبویؐ کے مطابق ادا کرنا میرے خیال میں مشکل ہے۔ بہرحال ہمارا قرآن کریم پڑھنے سے ایک مقصد یہ ہوتا ہے کہ کچھ سورتیں یاد کر لیں تاکہ انہیں نمازوں میں پٖڑھ سکیں اور ہماری نمازیں صحیح طور پر ادا ہو جائیں۔
قرآن کریم پڑھنے اور سننے سے ہمارا دوسرا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ثواب حاصل کریں اور ہمیں زیادہ سے زیادہ اجر ملے، اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کریم پڑھنے اور سننے سے اجر ملتا ہے، ثواب حاصل ہوتا ہے اور ہمارے کھاتے میں نیکیاں لکھی جاتی ہیں۔ پڑھنے پر بھی ہر حرف پر دس نیکیاں ملتی ہیں اور سننے پر بھی ہر حرف پر دس نیکیاں حاصل ہوتی ہیں۔ اور دس کا یہ عدد متعین نہیں ہے بلکہ یہ کم از کم کی حد ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد گرامی ہے کہ ’’من جاء بالحسنۃ فلہ عشر امثالھا ومن جاء بالسیئۃ فلا یجزٰی الا مثلھا‘‘ (سورہ الانعام ۱۶۰) جس نے نیکی کا کوئی کام کیا اس کے لیے دس گناہ اجر ہے اور جس نے گناہ کا ارتکاب کیا اسے اس کے برابر بدلہ ملے گا۔ نیکی کے ہر کام پر اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اس کا اجر و ثواب دس گنا سے شروع ہوتا ہے یہ کم از کم کی حد ہے، ثواب میں زیادہ سے زیادہ کی کوئی حد نہیں ہے، وہ کام کرنے والے کے خلوص و توجہ اور اللہ تعالیٰ کی مہربانی پر موقوف ہے۔ یہ سینکڑوں میں بھی ہو سکتا ہے، ہزاروں میں بھی ہو سکتا ہے اور لاکھوں کروڑوں اور اربوں میں بھی ہو سکتا ہے۔ کسی سطح پر بھی کوئی اشکال نہیں ہے اس لیے کہ اشکال وہاں ہوتا ہے جہاں دینے والے کو کوئی بجٹ پرابلم ہو کہ اس مد میں اتنی رقم موجود بھی ہے یا نہیں، اللہ تعالیٰ کی کوئی بجٹ پرابلم نہیں ہے اس لیے اس نے کسی نیکی میں زیادہ سے زیادہ اجر و ثواب کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔ میں عرض کیا کرتا ہوں کہ یہ آپ کے کنکشن کی پاور پر منحصر ہے کہ وہ کتنے وولٹیج کھینچ سکتا ہے، اُدھر سے کوئی کمی نہیں ہے۔
یہاں ایک بات اور بھی قابل توجہ ہے کہ نیکی اور ثواب کسے کہتے ہیں اور یہ جو دس، بیس، سو، ہزار نیکیاں ملنے کی بات کی جاتی ہے، ان میں عملاً ملتا کیا ہے؟ ایک صاحب نے یہی سوال کیا تو میں نے عرض کیا کہ یہ آخرت کی کرنسی ہے، ۱س لیے کہ جس طرح دنیا میں ہمارے معاملات اور لین دین ڈالر، یورو، پونڈ، ریال، درہم اور روپے کے ذریعے طے پاتے ہیں اور ہم ان کرنسیوں کے تبادلے سے اپنے معاملات نمٹاتے ہیں، اسی طرح آخرت میں ہمارے معاملات، نیکیوں اور گناہوں کے تبادلے سے طے پائیں گے۔ وہاں ڈالر، ریال اور روپیہ نہیں چلے گا بلکہ کسی بھی شخص کے ساتھ لین دین نمٹانے کے لیے یا نیکیاں دینا پڑیں گی اور یا اس کے گناہ اپنے سر لینے پڑیں گے۔ اس لیے نیکی اور گناہ دونوں آخرت کی کرنسیاں ہیں۔ ایک پازیٹو ہے اور دوسری نیگیٹو ہے اور انہی کے ذریعے ہمارے آخرت کے معاملات نمٹائے جائیں گے۔ ہم دنیا کے کسی ملک میں جاتے ہیں تو جانے سے پہلے وہاں کی کرنسی کا انتظام کرتے ہیں تاکہ وہاں صحیح طور پر وقت گزار سکیں، اسی طرح آخرت کے دور میں داخل ہونے سے پہلے ہمیں وہاں کی زیادہ سے زیادہ کرنسی کا بندوبست کر لینا چاہیے تاکہ وہاں کی زندگی بہتر ہو سکے۔ چنانچہ ہم قرآن کریم اس نیت سے بھی پڑھتے ہیں کہ ثواب حاصل ہو گا۔
تیسرے نمبر پر ہم قرآن کریم کی تلاوت برکت کے لیے کرتے ہیں۔ نیا مکان بنائیں، کاروبار شروع کریں، یا دفتر کھولیں تو برکت کے لیے قرآن کریم کی تلاوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ ویسے بھی باذوق حضرات اپنے گھروں دکانوں، دفاتر، کھیتوں اور کاروباری مراکز میں قرآن کریم کی تلاوت اور ذکر و افکار کا معمول رکھتے ہیں اور قرآن کریم سے ہمیں یہ فائدہ بھی حاصل ہوتا ہے۔ یہ بات ہمارے ایمان کا حصہ ہے کہ جہاں قرآن کریم کی تلاوت ہوتی ہے وہاں رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج ہمارے گھروں میں برکت و رحمت کا ماحول نہیں رہا کیونکہ قرآن کریم کی تلاوت نہیں ہوتی، نماز کا ماحول نہیں ہے، ذکر و اذکار کا معمول نہیں ہے اور درود شریف پڑھنے کا ذوق نہیں ہے۔ ہمیں اکثر شکایت رہتی ہے کہ گھروں میں برکت نہیں رہی، باہمی اعتماد کی فضا نہیں رہی، کاروبار میں رکاوٹ رہتی ہے، رشتوں میں جوڑ نہیں ہے اور بے سکونی کی فضا ہے، یہ ماحول جب بڑھتا ہے تو ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ کسی نے کچھ کر دیا ہے اور ہم علماء کرام کے پاس اور عاملوں کے پاس جاتے ہیں اور ان سے کہتے ہیں کہ ہمارے گھر میں کسی نے کچھ کر دیا ہے آپ بھی کچھ کریں، وہ غریب کچھ نہ کچھ کرتے بھی ہیں، مجھے اس سے انکار نہیں ہے کہ کرنے والے کرتے ہیں، ان کے اثرات بھی ہوتے ہیں اور علاج کرنے والوں کا علاج بھی مؤثر ہوتا ہے، لیکن کیا ہمارے گھروں میں سب کچھ یہی ہو رہا ہے؟ مجھے اس سے اتفاق نہیں ہے، ہماری گھروں میں برکت نہ رہنے اور نحوست و بے برکتی کے پھیلنے کا اصل سبب کچھ اور ہے جس پر ہمیں ضرور غور کرنا چاہیے اور میں پڑھے لکھے دوستوں کو اس پہلو پر غور کی دعوت دینا چاہتا ہوں۔
( جاری ہے )

.

ذریعہ: Daily Ausaf

کلیدی لفظ: قرا ن کریم کی تلاوت قرا ن کریم پڑھنے زیادہ سے زیادہ اللہ تعالی گھروں میں ہے اس لیے کرتے ہیں اور سننے ہیں اور سکتا ہے حاصل ہو نہیں ہے کچھ کر ہے اور یاد کر کے لیے اور ہم ہیں کہ بھی ہو

پڑھیں:

Self Sabotage

ایلوڈ کیپ چوج (Eliud Kipchoge) کینیا میں پیدا ہوا‘ اللہ نے اسے ہرن جیسی ٹانگیں اور گھوڑے جیسے پھیپھڑے دیے تھے‘ وہ پورے گاؤں میں سب سے تیز بھاگتا تھا‘ وہ مسلسل سارا دن بھی بھاگ سکتا تھا‘ یہ غیرمعمولی صلاحیت تھی اور اس نے اس صلاحیت سے میرا تھن چیمپیئن بننے کا فیصلہ کیا‘ اس نے جب لوگوں کو اپنے ارادے کے بارے میں مطلع کیا تو سب نے پہلے قہقہہ لگایا اور پھر اسے بتایا میرا تھن گوروں کی اسپورٹس ہے۔

 سیاہ فام لوگ یہ نہیں کھیل سکتے‘ ہم ان سے جیت بھی نہیں سکتے‘ ایلوڈ نے وجہ پوچھی تو اسے بتایا گیا‘ گوروں کے پاس پیسہ ہوتا ہے‘ ان کے پاس ٹرینر بھی ہوتے ہیں اور ان کی خوراک بھی ہم سے بہتر ہوتی ہے لہٰذا یہ جی جان سے پریکٹس کرسکتے ہیں‘ اسے یہ بھی بتایا گیا میرا تھن کے سارے ریفری‘ کمنٹیٹرز اور شائقین بھی گورے ہوتے ہیں‘ گورے گوروں کو سپورٹ کرتے ہیں‘ یہ سیاہ فام کو کام یاب نہیں ہونے دیتے‘ تم بھی یہ خواب دیکھنا بند کر دو‘اس کے دوستوں اور بزرگوں نے یہ باتیں اتنی بار دہرائیں کہ یہ اس کے ذہن میں بیٹھ گئیں لیکن اس کے باوجود ایتھلیٹکس اس کا جنون تھا‘ وہ سارا دن بھاگتا رہتا تھا‘ اس کے پاس جوتے نہیں تھے‘ وہ ننگے پاؤں بھی بھاگتا تھا‘ اس کے پاس گراؤنڈ نہیں تھا‘ وہ جنگل میں بھی بھاگتا تھا‘ اس نے میرا تھن میں شریک نہیں ہونا تھا لیکن وہ اس کے باوجود بھی بھاگتا تھا‘ بھاگنا اس کی زندگی تھا۔

وہ فارغ وقت میں جس گراؤنڈ میں بھاگتا تھا وہاں پیٹرک نام کا ایک کوچ نوجوانوں کو پریکٹس کراتا تھا‘ کوچ نے دیکھا ایک سیاہ فام لڑکا کوچنگ کے بغیر اس کے تمام اسٹوڈنٹس سے زیادہ تیز دوڑتا ہے‘ اس نے ایک دن اسے روک کر انٹرویو کیا تو پتا چلا یہ لڑکا غریب خاندان سے تعلق رکھتا ہے‘ دن کے وقت والدین کے ساتھ محنت مزدوری کرتا ہے اور شام کے وقت دوڑنا شروع کر دیتا ہے‘ پیٹرک کو اس پر رحم آ گیا۔

 اس نے اسے اپنی کلاس میں شامل کر لیا اور وہ اسے ایتھلیٹس کی بنیادی تکنیکس سکھانے لگا‘ لڑکا پیدائشی اسپورٹس مین تھا‘ یہ بہت جلد تمام تکنیکس سیکھ گیاجس کے بعد پیٹرک نے اس کا نام کینیا کی اگلی میراتھن میں لکھوا دیا‘ وہ میراتھن میں شریک ہوا لیکن ہار گیا‘ اس کی ہار نے کوچ کو ڈسٹرب کر دیا‘کیوں؟ کیوں کہ وہ جانتا تھا اس میں کینیا کے تمام ایتھلیٹس سے زیادہ پوٹینشل ہے‘ اس کا مقابلہ کوئی نہیں کر سکتا‘ کوچ نے میراتھن کی ریکارڈنگ منگوائی اور دیکھنا شروع کر دی‘ وہ بار بار ٹیپ دیکھتا تھا اور کیپ چوج کو دیکھتا تھا‘ اس نے نوٹ کیا دوڑتے وقت جوں ہی کوئی گورا کھلاڑی اس کے قریب آتا تھا تو اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی تھی جب کہ یہ تمام سیاہ فام کھلاڑیوں کو آسانی سے پیچھے چھوڑ دیتا ہے یوں محسوس ہوتا تھا گورے کو دیکھ کر اس کا گیئر ڈاؤن ہو گیا ہو۔

 کوچ بار بار ٹیپ دیکھتا رہا اور یہ سوچتا رہا آخر ایشو کیا ہے؟ یہ گورے کھلاڑی کو دیکھ کر آہستہ کیوں ہو جاتا ہے؟ اس کا سانس کیوں پھول جاتا ہے‘ بار بار ٹیپ دیکھنے کے بعد پتا چلا یہ ذہنی طور پر سفید فام کھلاڑیوں سے خائف ہے‘ یہ ان سے گھبراتا ہے اور اس وجہ سے اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے‘ یہ ایک دل چسپ صورت حال تھی‘ کوچ نے اس کا انٹرویو شروع کیا تو پتا چلا اس نے جب بھاگنا شروع کیا تھا تو تمام لوگوں نے اسے بتایا تھا ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے‘ اس میں صرف گورے جیتتے ہیں لہٰذا بھاگتے ہوئے جوں ہی کوئی گورا اس کے قریب پہنچتا ہے تو آٹومیٹک اس کی اسپیڈ کم ہو جاتی ہے۔

کوچ نے اسے سمجھانا شروع کیا لیکن صورت حال جوں کی توں رہی‘ کوچ نے مجبوراً اسپورٹس سائیکالوجسٹ سے رابطہ کیا‘ اس نے کیپ چوج کو اسٹڈی کیا تو پتا چلا گوروں کا غلبہ اس کے سب کانشیس میں چلا گیا ہے‘ یہ اب جتنا چاہے کوشش کر لے اس کا سب کانشیس اسے ہلنے نہیں دے رہا‘ سائیکالوجسٹ نے کوچ کو بتایا‘ ہمارے سب کانشیس میں جب کوئی بات بیٹھ جاتی ہے تو پھر ہمارے اندر سیلف سبوتاژ کا جذبہ پیدا ہو جاتا ہے جس کے بعد ہمیں باہر سے کوئی نہیں ہراتا‘ ہم اندر سے ہار جاتے ہیں‘ ہم اندر سے شکست تسلیم کر بیٹھتے ہیں۔

کوچ کو مسئلہ سمجھ آ گیا لہٰذا  اس نے کیپ چوج کو سمجھایا تم نے دوڑتے وقت دائیں بائیں نہیں دیکھنا صرف اور صرف اپنے ہدف پر توجہ دینی ہے‘ دوسرا تم نے یہ گنتے رہنا ہے تم نے کتنے سیاہ فام باشندوں کو پیچھے چھوڑا‘ کیپ چوج کوچ کی بات کو سیریس لیتا تھا لہٰذا اس نے یہ مشورہ پلے باندھ لیا اور نتائج نے سب کو حیران کر دیا‘ آپ بھی یہ جان کر حیران رہ جائیں گے یہ ایلوڈ کیپ چوج 2019میں دنیا کا پہلا شخص تھا جس نے 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کی میراتھن دو گھنٹے سے کم وقت میں مکمل کرلی اور یہ ورلڈ ریکارڈ تھا اور اس کے بعد اس نے پیچھے مڑ کر نہیں دیکھا‘ آپ اگر آج اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز دیکھیں تو آپ کی آنکھیں اور دماغ تھک جائے گا لیکن اس کے ریکارڈز اور ایوارڈز کی فہرست ختم نہیں ہوگی۔

 میں آگے بڑھنے سے قبل آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں میراتھن 42 اعشاریہ 195 کلومیٹر کیوں ہوتی ہے؟ 1908میں کوئین الیگزینڈرا برطانیہ کی ملکہ تھی‘ 1908 میں لندن میں اولمپکس ہوئیں‘ ملکہ نے حکم جاری کیا‘ میرا تھن ونڈسر کاسل کے لان سے اسٹارٹ ہو گی اور وائیٹ سٹی اسٹیڈیم میں رائل باکس کے سامنے ختم ہو گی‘ اس حکم کی دو وجوہات تھیں‘ ملکہ چاہتی تھی جب ریس شروع ہو تو اس کا خاندان ونڈسر کاسل کی کھڑکی سے ریس دیکھ سکے اور جب یہ ختم ہو تو ملکہ اور اس کا خاندان رائل باکس میں جیتنے والے کھلاڑی کو دیکھ سکیں اور دوسری وجہ ملکہ کام یاب کھلاڑی کو سب سے پہلے دیکھنا چاہتی تھی‘ ماہرین نے کھڑکی اور باکس کے درمیان کا فاصلہ ماپا تو یہ 26 میل اور 385 میٹر یعنی 42 اعشاریہ 195کلومیٹر تھا یوں میرا تھن 42 اعشاریہ 195 کلو میٹر ہو گئی‘ میں کیپ چوج کی طرف واپس آتا ہوں۔

ایلوڈ کیپ چوج سب کانشیس کے سیلف سبوتاژ کا شکار تھا‘ اب سوال یہ ہے یہ کیا بلا ہوتی ہے؟ ہمارے دماغ کے دو حصے ہوتے ہیں‘ کانشیس (Concious) اور سب کانشیس (Subconcious) کانشیس صرف معلومات اکٹھی کرتا ہے جب کہ سب کانشیس اسے پراسیس کر کے ہمارے یقین کا حصہ بناتا ہے‘ ہماری زندگی کا نوے فیصد حصہ سب کانشیس کے کنٹرول میں ہوتا ہے‘ ہم مسلمان اور پاکستانی ہیں‘ ہم کیا کر سکتے ہیں اور کیا نہیں یہ سارا ڈیٹا ہمارے بلیو (Believe) سسٹم یا سب کانشیس کاحصہ ہوتا ہے‘ بچوں کا کانشیس اور سب کانشیس پیدائش کے بعد کورا کاغذ ہوتے ہیں‘ ہم سب مل کر اسے بھرتے ہیں یا پر کرتے ہیں‘ بچے ہمیں دیکھ اور سن کر زبان سے لے کر عادتوں تک ہر چیز سیکھتے ہیں اور یہ آگے چل کر ان کا بلیو یعنی یقین بنتا ہے اور یہیں سے ان کی کام یابی اور ناکامی کا سفر شروع ہو تا ہے‘ کیپ چوج کو اس کے ماحول نے اتنی بار گوروں سے ڈرایا تھا‘ اسے اتنی مرتبہ یہ بتایا گیا تھا کہ ایتھلیٹکس گوروں کی اسپورٹس ہے۔

 تم سیاہ فام ہو اورتم خواہ کتنا ہی تیز دوڑ لو تم کام یاب نہیں ہو سکتے اور یہ بات بار بار دہرانے کی وجہ سے اس کے سب کانشیس میں چلی گئی جس کے بعد یہ جوں ہی کسی گورے کو دوڑتا ہوا دیکھتا تھا تو اس کا سب کانشیس اسے پیغام دے دیتا تھا تم اس گورے سے نہیں جیت سکتے‘تمہیں زیادہ توانائی ضایع کرنے کی ضرورت نہیں اور اس کے بعد اس کے پھیپھڑے خود بخود ڈھیلے پڑ جاتے تھے اور ٹانگوں کی توانائی کم ہو جاتی تھی یوں اس کے ساتھ بھاگنے والا گورا اس سے آگے نکل جاتا تھا‘ نفسیات کی زبان میں اس عمل کو سیلف سبوتاژ (Self Sabotage) کہتے ہیں یعنی آپ اپنی جیت کو خود ہی ہار میں تبدیل کر دیں‘ آپ اپنی کام یابی کو ناکامی میں بدل دیں یا آپ چھکا مارتے ہوئے جان بوجھ کر آؤٹ ہو جائیں‘ کیپ چوج بھی سیلف سبوتاژ کا شکار ہو گیا تھا‘ اس کے خاندان اور ماحول نے مل کر اس کے دل میں گوروں کا خوف بٹھا دیا تھا جس کے بعد اس کا سب کانشیس اسے گوروں کے مقابلے میں جیتنے نہیں دیتا تھا۔

آپ اگر کیپ چوج کی کہانی توجہ سے پڑھیں تو آپ خود کو بھی سیلف سبوتاژ کا شکار پائیں گے بلکہ رکیے آپ کو پوری قوم سیلف سبوتاژ کا شکار ملے گی‘ آپ کبھی نوٹ کیجیے آپ کو ہر طرف سے ہم ترقی نہیں کر سکتے‘ ہم ٹھیک نہیں ہو سکتے‘ ہم بے ایمان لوگ ہیں‘ ہم میں خداترسی نام کی چیز نہیں‘ ہم بہت گندے ہیں‘ ہم سسٹم نہیں بنا سکتے‘ ہماری حکومت بہت نکمی ہے‘ سارا نظام کرپٹ ہے ‘ ہمیں عدالتوں سے انصاف نہیں ملے گا‘ پاکستان میں کوئی چیز خالص نہیں‘ پولیس بڑی ظالم ہے۔

 سیاست دان نالائق اور کرپٹ ہیں‘ مولوی جاہل اور سخت ہیں‘ ہماری فوج بہت کم زور ہے اور ہم سیلاب کنٹرول نہیں کر سکیں گے جیسے فقرے سننے کو ملیں گے‘ آپ کسی جگہ بیٹھ جائیں آپ یہ سوال ضرور سنیں گے پاکستان کا کیا بنے گا‘ کیا ہم ٹھیک ہو جائیں گے اور ہمارا مستقبل کیا ہے؟ وغیرہ وغیرہ‘ آپ حد ملاحظہ کریں‘ ہم نے 10مئی کو جب بھارت کو شکست دی تھی تو پورے ملک نے کہنا شروع کر دیا تھا اگر چین ہماری مدد نہ کرتا تو ہمیں بڑی مار پڑتی‘ یہ کیا ہے؟ یہ سیلف سبوتاژ کی آخری اسٹیج ہے اور اس اسٹیج میں انسان ہو یا ملک یہ اپنا اعتماد مکمل طور پر کھو بیٹھتا ہے اور ہم بدقسمتی سے اس عمل سے گزر رہے ہیں بالخصوص ہماری کرکٹ ٹیم کے سب کانشیس میں یہ بات بیٹھ چکی ہے ہم بھارت سے نہیں جیت سکتے چناں چہ ہم جیتا ہوا میچ بھی ہار جاتے ہیں۔

 ہم اگر واقعی زندہ رہنا چاہتے ہیں یا ترقی کرنا چاہتے ہیں تو پھر ہمیں سیلف سبوتاژ سے باہر آنا ہو گا‘ ہمیں اپنے اوپر اعتماد کرنا ہو گا‘ اپنے قدموں پر کھڑا ہونا ہو گا اگر ایلوڈ کیپ چوج تھوڑی سی حکمت عملی بدل کر کام یاب ہو سکتا ہے تو پھر ہم من حیث القوم یہ کیوں نہیں کر سکتے؟ ہم بھی کر سکتے ہیں بس ہمیں حکمت عملی اور جیت کو اپنا یقین بنانا ہو گا اور پھر چند برسوں میں وہ ہو جائے گا جو ہم نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔

متعلقہ مضامین

  • کریم آباد میں بڑی ڈکیتی، سنار سے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے لوٹ لیے گئے
  • سن کریم کا ضروری ادویات کی فہرست میں دوبارہ شمولیت کا خیرمقدم
  • کراچی، ڈاکو سنار سے ایک کروڑ 20 لاکھ روپے لوٹ کر فرار
  • کراچی میں ایک اور بڑی ڈکیتی، کریم آباد پل پر ڈاکو 1 کروڑ 20 لاکھ لے اُڑے
  • سیلاب کی تباہ کاریاں اور حکمران طبقہ کی نااہلی
  • جب ’شاہی شہر‘ ڈوب رہا تھا !
  • انقلاب – مشن نور
  • انکم ٹیکس مسلط نہیں کرسکتے تو سپرکیسے کرسکتے ہیں : سپریم کورٹ 
  • Self Sabotage
  • ہڈیوں کو مضبوط بنانے کیلئے دہی کھانے کا بہترین وقت کونسا ہوتا ہے؟