القدس کے شاہکار مجاہد!محبت الٰہی کا جام مبارک
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
گو کہ میں جانتا ہوں کہ میدان جہاد سجا ہو تو، ’’شہید‘‘ یا ‘‘ ’’غازی‘‘ کا اعزاز مجاہد کے لئے کسی قیمتی ترین تمغے سے کم نہیں ہوا کرتا،ہم نے سوویت یونین کو جہادیوں کی جہادی یلغار کے سامنے بے بسی کے ساتھ بکھرتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ،امریکہ اور اس کے حواریوں کو ذلت ورسوائی کے ساتھ کابل سے فرار ہوتے ساری دنیا نے دیکھا ’’شام‘‘سے ظالموں اور قاتلوں کا فرار ہونا تو ابھی کل کی بات ہے، سال پہلے اسرائیلی نیتن یاہو اور امریکی جو بائیڈن جس ’’حماس‘‘کا نام و نشان مٹانے کی دھمکیاں دیتے نہیں تھکتے تھے،آج ذلت ورسوائی کی تصویر بنے اسی حماس کے ساتھ مذاکرات کرنے پر مجبور ہیں،یہ اگر مظلوم مسلمانوں اور جہاد کی کامیابی نہیں تو پھر کیا ہے؟حماس کے اکابر کمانڈروں کا یکے بعد دیگرے شہید ہو جانا ان کے اخلاص اور للہیت پر مہر تصدیق ثبت کرتا ہے،ان کی شہادتیں اقصیٰ کی آزادی کی نوید ہیں،مجاہدین نے امت مسلمہ کو مایوس نہیں ہونے دیا،انہوں نے اپنے خون سے جرات و وفا کی ایسی تاریخ لکھی ہے جس پر امت مسلمہ ہمیشہ نازاں رہے گی ،ان شااللہ،اسی سوچ میں ڈوبا ہوا یہ خاکسار حضرت اقدس شیخ طریقت پیرو مرشد کی خانقاہ میں جا پہنچا ،جہاں حضرت پیرو مرشد مریدین سے فرما رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ کے سچے شاہکار بندے،پہاڑوں سے بلند،چٹانوں سے زیادہ مضبوط، سمندروں سے زیادہ گہرے،چاند سے زیادہ روشن،سورج سے زیادہ شعاع بار،پانی سے زیادہ لطیف،شہد سے زیادہ میٹھے،تلوار سے زیادہ کاٹ دار،پھول سے زیادہ خوشبودار،صحرا سے زیادہ وسیع ہوائوں سے زیادہ مست، زمین سے زیادہ پراسرار،آسمان سے زیادہ اونچے،بادلوں سے زیادہ سبک رفتار،رعد سے زیادہ کڑک دار،بالکل سچے،بے حد پکے،اللہ تعالیٰ کے یار،امت حضرت محمد ﷺکے دلدار،انہی نایاب بندوں میں سے ایک،مجاہد تاریخ ساز،حضرت الشیخ مولانا وسیدنا،محمد الضیف بھی جام شہادت نوش فرما گئے،انا للہ وانا الیہ راجعون، اللہ تعالیٰ ان کو پوری امت مسلمہ کی طرف سے جزائے خیر عطا فرمائیں،مغفرت و صداقت اور شجاعت و شہادت کا اعلیٰ تمغہ عطا فرمائیں،ان کی جدائی سے دل پر جو گزری وہ الفاظ میں بیان ہونا ناممکن ہے۔اللہ تعالیٰ ان کے اہل و عیال، رفقا اور ہم جیسے غمزدوں کو صبر جمیل عطا فرمائیں،وہ میرے گہرے یار تھے،ایسے یار جن سے کبھی ملاقات نہ ہوئی۔
محبت کے لیے دنیا میں ملاقات شرط نہیں ہے، مگر وہ دل کے قریب رہے،یوں لگا کہ ساتھ رہنے والا دوست بچھڑ گیا،میں نے زندگی بھر جہاد کو تلاش کیاکیونکہ جہاد میں ہی دین کی بقاء ہے،امت کا ارتقا ہے،میں نے قرآن مجید کی آیات میں،رسول ﷺ کی احادیث میں،سیرت کے چشموں میں،فقہ کے نخلستانوں میں، اسلاف کی حیات میں اور شہدا ء کرام کے نقوش میں جہاد کو تلاش کیا،زندگی کے کتنے دن اور کتنی راتیں،جہاد کے مطالعہ میں بسر ہوئیں،الحمدللہ جہاد بھی نظر آگیا اور اس حقیقی جہاد کے رنگے ہوئے چند کامل مجاہد بھی اپنے زمانے میں موجود پائے،بہت تھوڑے مگر ایسے کہ حال کا ماضی سے فاصلہ مٹا گئے،محمد ضیف ایسے ہی مجاہد تھے، انہیں خراج تحسین پیش کرنا چاہتا ہوں مگر الفاظ نہیں مل رہے،ان کے کامیاب اور شاندار جہاد کو سمجھنا اور سمجھانا چاہتا ہوں مگر مثالیں اور تشبیہات عنقا ہیں.
بسم اللہ الرحمن الرحیم !بے شک اللہ نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لئے ہیں، اس کے بدلے میں ان کے لیے جنت ہے۔ وہ اللہ کے راستے میں لڑتے ہیں، پس مارتے بھی ہیں اور مارے بھی جاتے ہیں۔ یہ وعدہ تورات، انجیل اور قرآن میں سچا لکھا گیا ہے اور اللہ سے بڑھ کر اپنے وعدے کو پورا کرنے والا کون ہو سکتا ہے؟ پس خوش ہو جائو اس سودے پر جو تم نے اللہ سے کیا اور یہی سب سے بڑی کامیابی ہے۔تمام تعریفیں اللہ رب العالمین کے لیے ہیں، جس نے شہدا ء کو اپنا انتخاب بنایا، ان کی مدد کی اور ان کے بعد آنے والوں کو ان کی بشارت دی۔ درود و سلام ہو ہمارے نبی، مجاہد اور شہید، محمد ﷺ پر، جنہوں نے فرمایا:قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے!میری خواہش ہے کہ میں اللہ کے راستے میں جنگ کروں اور شہید ہو جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر شہید ہو جائوں، پھر زندہ کیا جائوں، پھر شہید ہو جائوں۔اے ہمارے عظیم عوام، اے شہداء کے وارثو، بہادر مجاہدو، اے فلسطین کے غیور عوام اور امت مسلمہ کے محافظو اور دنیا بھر کے حریت پسندو!
السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ ہم فخر، عزت اور سربلندی کے ساتھ، تمام ضروری حفاظتی اور سیکورٹی تدابیر مکمل کرنے کے بعد، آپ کے سامنے کتائب شہید عزالدین القسام کے عظیم الشان شہداء کی خبر پہنچا رہے ہیں، جو ہماری جدوجہد کے اہم ترین رہنما اور سپہ سالار تھے۔یہ وہ عظیم قائدین ہیں جنہوں نے اپنی جانیں اللہ کی راہ میں، مسجد اقصی کے تحفظ کے لئے اور فلسطین کی آزادی کے لیے قربان کر دیں:
-1 شہید امت، عظیم قائد، محمد الضیف (ابو خالد) کتائب القسام کے چیف آف اسٹاف-2 شہید قائد مروان عیسی (ابو البرا) نائب چیف آف اسٹاف-3 شہید قائد غازی ابو طماع(ابو موسیٰ) اسلحہ اور جنگی خدمات کے سربراہ-4 شہید قائد رائد ثابت (ابو محمد) انسانی وسائل کے سربراہ-5 شہید قائد رافع سلامہ (ابو محمد) خان یونس بریگیڈ کے سربراہاسی طرح، ہم پہلے ہی قائد احمد الغندور(ابو انس) شمالی بریگیڈ کے سربراہ اور قائد ایمن نوفل(ابو احمد) وسطیٰ بریگیڈ کے سربراہ کی شہادت کا اعلان کر چکے ہیں۔یہ سبھی قائدین میدان جنگ میں، دشمن کے خلاف لڑتے ہوئے، یا قیادت کے فرائض سرانجام دیتے ہوئے شہید ہوئے۔ وہ ہمیشہ اللہ کی راہ میں جہاد کے متمنی رہے اور بالآخر شہادت کے اعلیٰ مقام پر فائز ہو گئے۔ہم دو امور پر زور دینا چاہتے ہیں-1 شہداء نے حقیقی کامیابی حاصل کر لی!یہ قائدین اپنے دین، قبلہ اول(مسجد اقصیٰ) اور فلسطین کی آزادی کے لیے لڑے۔ وہ اللہ کی راہ میں قتل کئے گئے ، اور یہ سب سے بڑی جیت ہے۔ ان کی شہادت نے لاکھوں مسلمانوں کو بیدار کیا، اور اب ان کی جگہ نئے قائدین کھڑے ہو چکے ہیں جو دشمن کے خلاف جنگ جاری رکھیں گے۔یہی وہ قائدین تھے جنہوں نے دشمن کو لرزہ براندام کیا، محمد الضیف (ابو خالد)وہ شخص تھا جو 30 سال تک دشمن کے لیے خوف کی علامت بنا رہا۔ کیا وہ بغیر شہادت کے دنیا سے جا سکتا تھا؟مروان عیسیٰ، جو حماس کے عسکری ذہن کا ستون تھا، کیا وہ بستر پر مرتا؟ رائد ثابت، ابو موسیٰ اور دیگر قائدین، کیا وہ اپنی جانیں مسجد اقصیٰ کے لیے قربان نہ کرتے؟نہیں!یہ سب شہداء اپنے خون سے جہاد کی سچائی پر مہر لگا کر رخصت ہوئے۔-2ان کی شہادت سے جہاد کمزور نہیں ہوگا!اگر دشمن یہ سمجھتا ہے کہ قائدین کی شہادت سے مزاحمت ختم ہو جائے گی، تو یہ ان کی سب سے بڑی بھول ہے!ہر شہید ہزاروں نئے شہداء کو جنم دیتا ہے۔الحمدللہ!کتائب القسام کی قیادت میں ایک لمحے کا بھی خلا پیدا نہیں ہوا۔ ہر شہید کے بعد، ہمارے مجاہدین مزید مضبوط اور پرجوش ہو گئے اور لڑائی مزید شدت اختیار کر گئی۔ہمارا پیغام واضح ہے:دشمن ہماری قیادت کو شہید کر کے ہمارے حوصلے پست نہیں کر سکتا۔یہ جنگ جاری رہے گی جب تک فلسطین آزاد نہ ہو جائے۔ہر شہید کے بدلے ہزاروں نئے مجاہد اٹھ کھڑے ہوں گے۔ہم اپنے عظیم قائد محمد الضیف (ابو خالد)اور ان کے شہید ساتھیوں کو سلام پیش کرتے ہیں!یہ جہاد جاری رہے گا!یہ یا تو فتح ہوگی، یا شہادت!
ذریعہ: Daily Ausaf
کلیدی لفظ: محمد الضیف اللہ تعالی شہید قائد کے سربراہ کی شہادت کے ساتھ شہید ہو کے لئے ہیں یہ کے بعد کے لیے
پڑھیں:
نبی کریم ﷺ کی روشن تعلیمات
خاتم النبیین، رحمت اللعالمین، جناب رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا، جس کا مفہوم یہ ہے کہ میری امت پر ایسا دور بھی آئے گا کہ انھیں پانچ چیزوں سے بڑی محبت ہوگی، لیکن پانچ چیزیں بھول جائیں گے۔ انھیں دنیا سے محبّت ہوگی اور آخرت کو بھول جائیں گے۔
اپنی عارضی اقامت گاہوں اور گھروں سے محبت کریں گے اور قبروں کو بھول جائیں گے، حالاں کہ قبر آخرت کی پہلی منزل ہے۔ مال و دولت پر فریفتہ ہوں گے مگر یہ بھول جائیں کہ انھیں اس کا حساب بھی دینا ہے، کہ مال کہا ں سے کمایا اور کہاں پر خرچ کیا۔ اہل و عیال سے انھیں بڑا پیار ہوگا مگر جنت کے حور و غلمان کو بھول جائیں گے۔ اپنی ذات کی اُنھیں بہت چاہ ہوگی مگر اپنے اﷲ کو بھلا دیں گے۔ وہ مجھ سے بَری ہیں اور میں اُن سے بے زار۔
نبی کریم ﷺ ارشاد فرماتے ہیں ( مفہوم) کہ اﷲ تعالیٰ جب کسی بندے کو پانچ چیزیں عطا فرماتا ہے تو ان کے ضمن میں پانچ نعمتیں مزید مرحمت فرماتا ہے۔ جیسے شکر گزاری بخشتا ہے تو اسے نعمتوں میں اور ترقی بھی بخشتا ہے۔ جسے اپنی بارگاہ میں دعا و عرضی حاجت کی توفیق دیتا ہے تو اس کی قبولیت کا سامان بھی مہیا فرما دیتا ہے۔ جسے استغفار اور طلب مغفرت کا شوق عنایت فرماتا ہے اور اس کی بخشش کا بھی انتظام فرما دیتا ہے، جسے توبہ و انابت الہی کا شوق دیتا ہے اسے قبولیت سے بھی مشرف فرما دیتا ہے اور جسے راہ خدا میں (خلوص قلب، صدق نیّت سے) صدقہ و خیرات کا جذبہ مرحمت فرماتا ہے تو اسے قبولیت سے بھی بہر مند فرما تا ہے۔
ایک ارشاد کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص پانچ لوگوں (میں کسی ایک) کی اہانت و تحقیر کرے گا وہ پانچ چیزوں میں نقصان اُٹھائے گا۔ جو شخص علمائے حق کو ذلیل و حقیر جانے گا وہ اپنے دین کا نقصان کرے گا۔ جو شخص امراء و حکام کی اہانت کرے گا وہ اپنی دنیا میں نقصان اُٹھائے گا۔ جو شخص اپنے ہمسایوں اور پڑوسیوں کو ذلت کی نگاہ سے دیکھے گا وہ (اُن) فائدوں سے نقصان میں رہے گا (جو پڑوسیوں سے حاصل ہوتے ہیں) اور جو شخص اپنے رشتہ داروں کی تحقیر کرے گا وہ اُلفت و محبت سے فائدہ نہ اُٹھا سکے گا اور جو شخص اپنے اہل و عیال کو ذلیل و رسوا کرے گا وہ اپنی خاندانی زندگی سے فیض نہیں پاسکے گا۔
سیدنا صدیق اکبرؓ سے مروی ہے کہ رسول کریم ﷺ نے فرمایا، مفہوم: ظلمتیں پانچ قسم کی ہیں اور ان ظلمتوں کو مٹا دینے والے چراغ بھی پانچ طرح کے ہیں۔ دنیا کی محبت میں ڈوب جانا ایک تاریکی ہے اور اس کا چراغ خدا ترسی اور پرہیز گاری ہے۔ نافرمانی و گناہ ایک تاریکی ہے اور اس کا چراغ خدا سے لو لگانا اور توبہ کرنا ہے۔ قبر بھی ایک ظلمت کدہ ہے، جہاں اندھیرا ہے اور اس میں روشنی کا سامان کلمہ طیبہ کا ورد ہے۔ آخرت کا گھر بھی تاریکیوں سے گھرا ہُوا ہے اور اس کا چراغ نیک اعمال ہیں۔ اور پل صراط بھی ایک مقام تاریک ہے جس کا چراغ حقانیت اسلام پر یقین کامل ہے۔
حضرت عبداﷲ بن العاصؓ کا قول ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں کہ جو ان کا عادی ہو جائے تو دنیا و آخرت دونوں میں نیک بخت بن جائے۔ وقتاً فوقتاً کلمہ طیبہ کا ورد کرتا رہے۔ کسی ناگہانی آفت میں مبتلا ہو جائے تو یہ کلمہ پڑھتا رہے: اِنا ﷲ وانا الیہ راجعون۔ ’’ہم اور ہما را سب کچھ اﷲ کی ملک ہے اور ہمیں اسی طرف لوٹنا ہے۔‘‘ اور، ولاحول ولاقوہ الا باﷲ العلی العظیم ۔ مفہوم: ’’اور نہیں ہے گناہ سے بچنے کی طاقت اور نہ نیکی کرنے کی قوت مگر اﷲ کی طرف سے ہے۔‘‘ جب کسی نعمت سے بہر ور ہوتو شکر بجا لائے اور الحمدﷲ پڑھے۔ جب کسی کام کا آغاز کرے تو بسم اﷲ پڑھا کر ے، اور جب برائی سرزد ہوجائے تو توبہ کرے اور زبان سے یہ کلمے ادا کرے: میں اﷲ سے بخشش چاہتا ہوں اور اس کی بار گاہ میں رجوع کرتا ہو ں۔
مسکینوں سے محبت کرنے والا جنّت میں نبی اکرم ﷺ کا ساتھی ہوگا۔اﷲ تعالیٰ نے اس کائنات میں باہمی تعارف و پہچان کے لیے انسانوں کو جس طرح مختلف قبیلوں، قوموں اور خاندانوں میں پیدا کیا۔ اسی طرح بعض انتظامی و تکوینی حکمتوں اور آزمائشوں کے تحت ان میں مال و دولت اور پیشہ و منصب کے اعتبار سے فرق رکھا۔ کسی کو مال دار بنایا تو کسی کو نادار، کسی کو حاکم تو کسی کو محکوم۔ لیکن ربانی تعلیمات اور الوہی ہدایت سے بے خبر انسانوں نے اس تفاوت کو عزت و بڑائی کا معیار بنا لیا، مادی وسائل کی فراوانی اور جاہ منصب کے نشے میں مست لوگوں نے غریب و مفلس اور محکوم لوگوں کو ناصرف ذلیل و حقیر جانا بل کہ ان بے چاروں کو ہر طرح کے مظالم اور تشدد کا نشانہ بھی بنایا۔ حضور اکرم ﷺ کی تشریف آوری سے قبل اس عالم میں جہاں اور بہت سی خرابیاں تھی وہاں ایک بہت بڑا فساد یہ تھا کہ دنیا میں ہر طرف غریب و مفلس، مسکین و بے کس لوگ ناصرف معاشی و معاشرتی عزت سے محروم تھے بل کہ وہ ظلم کی چکی میں پس رہے تھے اور ان کا پرسان حال نہ تھا۔ آپ ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعے سے پتا چلتا ہے کہ آپ ﷺ نے آسمانوں اور زمینوں کے خزانوں کی چابیاں رکھنے کے باوجود فقراء کی دل جوئی کے لیے ساری زندگی فقر و فاقہ میں گزاری، خندقیں کھودیں، بھوک کی شدت سے پیٹ پر پتھر باندھے، دو ماہ تک کاشانہ مقدس میں آگ نہ جلی، قرض لیا اور ہر وہ کام کیا جس کا عام طور پر غرباء کو سامنا ہوتا ہے۔
آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ساری مخلوق اﷲ کا کنبہ ہے۔ اس لیے اﷲ تعالیٰ کے نزدیک تمام مخلوق میں سب سے زیادہ محبوب و پسندیدہ وہ ہے جو اس کے کنبہ کے ساتھ نیکی کرے۔
حضرت ابوہریرہؓ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ بیواؤں اور محتاجوں کی خدمت و اعانت کرنے والا اﷲ کی راہ میں جہاد کرنے والوں کے برابر ہے یا اس نیکوکار کے برابر ہے جو عمر بھر دن کے روزے اور ساری رات عبادت کرے۔ (بخاری)
حضور اکرم ﷺ نے حضرت عائشہؓ کو نصیحت فرمائی کہ اے عائشہ! کسی بھی محتاج و ضرورت مند کو مایوس نہ لوٹانا خواہ کھجور کی گٹھلی ہی کیوں نہ دے سکو۔ مزید یہ کے غریب اور محتاج لوگوں سے محبت کیا کرو اور ان سے قربت حاصل کیا کرو۔ بے شک! (اس کے صلے میں) اﷲ تعالیٰ روزِ قیامت تمھیں اپنے قُرب سے نوازیں گے۔
مذکورہ بالا روایت ہمیں متوجہ کررہی ہیں کہ رب کریم کی رضا کے طالبو! اس کے بندوں سے محبت کرو۔ اس کی مخلوق کی مدد کرو۔ اس کے دکھ اور پریشان حال لوگوں کے دکھوں کا مداوا کرو۔ یہی مقصود عبادت ہے اور یہی منشاء دین ہے ۔ ایک ماں کو اپنی اولاد سے جتنی محبت ہوتی ہے باری تعالیٰ کو اس سے کئی گناہ زیادہ اپنی مخلوق سے محبت و شفقت ہوتی ہے۔ وہ ذات اسی سے زیادہ پیار کرے گی جو اس کے بندوں کے دکھ سکھ کو اپنا دکھ سکھ سمجھتے ہوئے ان کی دل جوئی اور غم خواری کرے گا۔ اس لیے تاج دار کائنات ﷺ نے انسانوں میں اُس شخص کو افضل و بہتر قرار دیا جو خالق کائنات کے بندوں کا زیادہ خیر خواہ اور نفع بخش ہوتا ہے۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ بہترین انسان وہ ہے جو دوسرے انسانوں کو زیادہ نفع پہنچانے والا ہو۔
غریبوں کے والی، فقیروں کے غم گسار آقا کریم ﷺ کی عادت کریمہ یہ تھی کہ مساکین کی عیادت فرماتے، فقراء کے پاس مجلس کرتے اور کوئی غلام بھی دعوت دیتا تو اسے قبول فرماتے۔ تاج دار مدینہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ شخص کامل مومن نہیں ہوسکتا جو خود تو پیٹ بھر کر کھا لے اور اُس کے پہلو میں اس کا پڑوسی بھوکا پڑا ہو۔
توجہ طلب امر یہ ہے کہ معلم انسانیت ﷺ ہمسایوں کا اس قدر خیال رکھنے کی تعلیم دی کہ کوئی بھوکا نہ سوئے لیکن آج ہمارا المیہ یہ ہے کہ ہم ایک دوسرے سے اتنے بے نیا ز اور لاپروا ہیں کہ ہمسائے کی بھو ک دور کرنا تو دور کی بات ہے ہمیں سال ہا سال تک اتنا بھی پتا نہیں ہوتا کہ ہمارے دائیں بائیں یا فلیٹس کی صورت میں اوپر نیچے کون رہتا ہے ؟ آج کے دور فتن اور مشینی دور نے دنیا کو تو ’’گلوبل ولیج‘‘ بنا دیا ہے لیکن پاس رہنے والوں سے غافل کردیا ہے۔ یہی تباہی و بربادی کا راستہ ہے جسے ہم نے ہر حال میں ترک کرنا ہوگا۔
اﷲ تعالی ہمیں اچھا مومن بنائے اور رسالت مآب ﷺ کے اسوہ حسنہ کو اصول زندگی بنانے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین