فینٹینیل کے “زہر” کے خاتمے کے لیے امریکہ کو پہلے اپنا گھر ٹھیک کرنا ہوگا ، چینی میڈیا
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
بیجنگ : فینٹینائل اور ٹیرف کے درمیان کیا “منطقی تعلق” ہے؟ دنیا بھی اس مضحکہ خیز سوال کا جواب نہیں دے پا رہی ۔ حال ہی میں، امریکہ نے فینٹینیل کے مسئلے کو بہانہ بنا کر چین سے درآمد ہونے والی مصنوعات پر 10 فیصد اضافی ٹیرف عائد کرنے کا اعلان کیا ہے۔ آخر اس اقدا م کی وجہ کیاہے ؟
ڈپلومیسی اکیڈمی کے پروفیسر لی ہائیڈونگ کہتے ہیں کہ امریکہ کے موجودہ رہنما نے اقتدار سنبھالنے کے صرف دس دن بعدفینٹینیل کے بہانے چین پر ٹیرف عائد کیا، جس کے وجہ مفادات کا گورکھ دھندا ہے۔ امریکہ جانتا ہے کہ فینٹینیل کے غلط استعمال کے مسئلے کو بنیادی طور پر حل کرنا مشکل ہے، اس لیے اس نے ماضی کی طرح ذمہ داری چین، میکسیکو اور دیگر ممالک پر ڈال دی تاکہ سخت موقف دکھا کر عوامی حمایت حاصل کی جا سکے۔ ساتھ ہی، فینٹینیل کے مسئلے پر امریکہ میں پائی جانے والی زیادہ توجہ کو استعمال کرتے ہوئے ٹیرف جنگ چھیڑ کر اس جنگ کو ایک “منطقی” جواز فراہم کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔
چین دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں منشیات کے خلاف پالیسی سب سے زیادہ سخت اور اس کا نفاذ سب سے زیادہ موثر ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ چین منشیات سے بہت متاثر رہا ہے ۔ نئے چین کے قیام کے بعد سے، منشیات کے معاملے پر “زیرو ٹالرنس” کی پالیسی اپنائی گئی اور منشیات کی تیاری اور اسمگلنگ سمیت تمام قسم کے منشیات کے جرائم پر سخت کارروائی کی گئی ہے۔ امریکہ کی درخواست پر، چین نے 2019 میں فینٹینیل کو باقاعدہ طور پر کنٹرول میں لینے کا اعلان کیا، اور چین یہ اقدام کرنے والا دنیا کا پہلا ملک تھا۔ انسان دوستی کے جذبے کے تحت ، چین نے امریکہ کو فینٹینیل کے مسئلے سے نمٹنے میں مدد فراہم کی اور امریکہ کے ساتھ وسیع پیمانے پر منشیات کے خلاف تعاون کیا جس کے نمایاں نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ مارچ 2022 میں، امریکی محکمہ خارجہ نے “بین الاقوامی منشیات کنٹرول اسٹریٹجک رپورٹ” جاری کی، جس میں تسلیم کیا گیا کہ “2019 میں چین کے فینٹینیل مادوں کو کنٹرول میں لینے کے بعد سے، چین سے امریکہ میں داخل ہونے والے فینٹینیل یا اس جیسے مادوں کا کوئی واقعہ سامنے نہیں آیا ہے۔
فینٹینیل کے “زہر” کو ختم کرنے کے لیے، علامات کے ساتھ ساتھ مسئلے کی جڑ کو بھی ختم کرنا ہوگا۔ امریکہ کو ، جو دنیا میں فینٹینیل کے مسئلے سے سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے، اپنے ہاں موجود وجوہات تلاش کرنا ہوں گی اور اس مسئلے کے تدارک کے لئے محنت کرنا ہوگی – ساتھ ہی اندرونی طور پر نظام میں موجود خامیوں کو دور کرنا، قومی حکمرانی کو مؤثر طریقے سے بہتر بنانا، بیرونی طور پر تعاون کو مضبوط بنانا، کیمیکلز کے قوانین کو بہتر بنانا، غیر قانونی تجارت کے نیٹ ورک کو ختم کرنا ہو گا ۔ان اقدامات کے لئے امریکہ کو ٹیرف کے ذریعے دوسرے ممالک کو دباؤ ڈالنے کی ضرورت نہیں ۔یہ سمجھنا ضروری ہے کہ فینٹینیل کے غلط استعمال کے مسئلے کو ٹیرف میں اضافے سے جوڑنا صرف اور صرف اس مسئلے کے حل کو مزید مشکل بنا نے کو سوا کچھ نہیں ۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
ٹیرف مخالف اشتہار پر امریکی صدر سے معافی مانگی ہے: کینیڈین وزیر اعظم
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کینیڈا کے وزیرِ اعظم مارک کارنی نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ایک اینٹی ٹیرف سیاسی اشتہار کے معاملے پر ذاتی طور پر معافی مانگی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اشتہار کی نشریات سے قبل ہی انہوں نے ریاست اونٹاریو کے وزیرِ اعلیٰ ڈگ فورڈ کو اس کے نشر ہونے سے روکنے کی ہدایت دی تھی۔
جنوبی کوریا میں ایشیا پیسیفک سربراہی اجلاس میں شرکت کے بعد صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے مارک کارنی نے کہا کہ انہوں نے بدھ کی شب جنوبی کوریا کے صدر کی جانب سے دیے گئے عشائیے کے دوران صدر ٹرمپ سے بالمشافہ معذرت کی۔
کینیڈین وزیرِ اعظم نے مزید بتایا کہ وہ اشتہار کے مواد سے پہلے ہی آگاہ تھے اور ڈگ فورڈ کے ساتھ اس پر تبادلۂ خیال بھی کر چکے تھے، تاہم انہوں نے اس کے استعمال کی مخالفت کی تھی۔
غیر ملکی خبررساں ادارے کے مطابق مذکورہ اشتہار اونٹاریو کے وزیرِ اعلیٰ ڈگ فورڈ نے تیار کروایا تھا، جو ایک قدامت پسند رہنما ہیں اور اکثر سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے مشابہ قرار دیے جاتے ہیں۔
اشتہار میں سابق امریکی صدر رونلڈ ریگن کا ایک بیان شامل کیا گیا تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ “ٹیرف تجارتی جنگوں اور معاشی تباہی کو جنم دیتے ہیں۔”
اس اشتہار کے ردِعمل میں صدر ٹرمپ نے کینیڈین مصنوعات پر ٹیرف میں اضافے کا اعلان کیا اور کینیڈا کے ساتھ جاری تجارتی مذاکرات بھی معطل کر دیے۔
دوسری جانب، رواں ہفتے کے آغاز میں جنوبی کوریا سے روانگی کے موقع پر ٹرمپ نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ان کی مارک کارنی سے عشائیے کے دوران “انتہائی خوشگوار گفتگو” ہوئی، تاہم انہوں نے بات چیت کی تفصیلات ظاہر نہیں کیں۔