پاکستان ریلویز کا ٹرنیوں کے کرایوں میں اضافے کا اعلان
اشاعت کی تاریخ: 4th, February 2025 GMT
لاہور: ڈیزل کی قیمت میں اضافے کے بعد پاکستان ریلویز نے ٹرنیوں کے کرایے بڑھا کر عوام کی مشکلات میں مزید اضافہ کر دیا۔ ریلویز نے مسافر ایکسپریس ٹرینوں کے کرایوں میں 5 فیصد اضافے کا اعلان کیا ہے جس کی وجہ ڈیزل کی قیمت میں اضافے کو قرار دیا۔
ترجمان پاکستان ریلویز نے بتایا کہ کرایوں میں اضافے کا اطلاق 5 فروری 2025 سے ہوگا، ٹرینوں کی تمام کلاسز کے ٹکٹ میں 5 فیصد اضافہ ہوگا۔
انہوں نے بتایا کہ کرایوں میں اضافے کا اطلاق سیلون سروس اور آؤٹ سورس ٹرینوں پر بھی ہوگا۔ 30 جنوری 2025 کو پاکستان ریلویز نے ٹکٹوں کی نئی پالیسی جاری کی تھی جس کے مطابق ریفنڈ پالیسی کے تحت مسافر پوائنٹ آف سیل سے خریدے گئے ٹکٹوں کیلیے ٹرین روانگی سے 48 گھنٹے قبل تک 90 فیصد رقم واپس لے سکیں گے۔
ٹرین روانگی سے 24 سے 48 گھنٹے قبل تک 80 فیصد رقم واپس کی جائے گی۔ روانگی سے 24 گھنٹے کے اندر 70 فیصد رقم واپس کی جائے گی۔ ٹرین کی روانگی کے بعد 2 گھنٹوں کے اندر 50 فیصد ریفنڈ دیا جائے گا۔
اگر ٹرین 6 گھنٹے یا اس سے زیادہ لیٹ ہو تو مکمل رقم واپس کی جائے گی۔ پوائنٹ آف سیل (پی او ایس) سے خریدے گئے ٹکٹوں کی واپسی صرف ان ہی کاؤنٹرز پر ہوگی۔ ریفنڈ لینے کے لیے مسافروں کو اصل ٹکٹ اور CNIC کی کاپی جمع کرانا ہوگی، جس پر انھیں کینسلیشن سلپ اور رقم دی جائے گی۔
آن لائن ٹکٹوں کا ریفنڈ صرف اسی آن لائن سروس کے ذریعے ممکن ہوگا، جس سے ادائیگی کی گئی ہو۔ آن لائن ٹکٹوں کے لیے بھی وہی ریفنڈ پالیسی ہوگی جو POS کے لیے مقرر ہے۔
.ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: پاکستان ریلویز کرایوں میں میں اضافے ریلویز نے رقم واپس اضافے کا جائے گی
پڑھیں:
پاکستان: ذہنی امراض میں اضافے کی خطرناک شرح، ایک سال میں ایک ہزار خودکشیاں
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
کراچی: پاکستان میں ذہنی امراض اور نفسیاتی دباؤ میں تشویشناک حد تک اضافہ ہو چکا ہے۔ ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ اگر فوری اقدامات نہ کیے گئے تو یہ بحران معاشرتی اور قومی سطح پر سنگین نتائج پیدا کر سکتا ہے۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق کراچی میں ہونے والی 26ویں بین الاقوامی کانفرنس برائے ذہنی امراض میں انکشاف کیا گیا کہ ملک میں ہر تین میں سے ایک فرد نفسیاتی مسائل سے دوچار ہے، جب کہ گزشتہ ایک سال کے دوران تقریباً ایک ہزار افراد نے ذہنی دباؤ کے باعث اپنی زندگی کا خاتمہ کیا۔
کانفرنس کے سائنٹیفک کمیٹی کے چیئرمین پروفیسر محمد اقبال آفریدی نے بتایا کہ پاکستان میں ڈپریشن اور اینگزائٹی کے مریضوں کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ خواتین میں ذہنی دباؤ کے کیسز سب سے زیادہ رپورٹ ہو رہے ہیں، جس کی بنیادی وجوہات گھریلو تنازعات، سماجی دباؤ اور معاشی مشکلات ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ملک میں حالیہ برسوں کے دوران قدرتی آفات، دہشت گردی، بے روزگاری اور سیاسی عدم استحکام نے عوام کے ذہنوں پر گہرے منفی اثرات ڈالے ہیں۔
پروفیسر واجد علی اخوندزادہ کے مطابق پاکستان میں ہر چار میں سے ایک نوجوان اور ہر پانچ میں سے ایک بچہ کسی نہ کسی نفسیاتی بیماری میں مبتلا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ملک میں 10 فیصد افراد منشیات کے عادی ہیں، جن میں آئس اور دیگر نشہ آور اشیا کا استعمال خطرناک حد تک بڑھ چکا ہے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ملک کی 24 کروڑ آبادی کے لیے صرف 90 نفسیاتی ماہرین موجود ہیں، جو عالمی معیار کے لحاظ سے نہ ہونے کے برابر ہے۔ عالمی ادارہ صحت کے مطابق ہر 10 ہزار افراد کے لیے کم از کم ایک ماہر نفسیات ہونا چاہیے، جب کہ پاکستان میں تقریباً پانچ لاکھ سے زائد مریضوں پر ایک ماہر دستیاب ہے۔
ڈاکٹر افضال جاوید اور دیگر ماہرین نے اپنے خطاب میں کہا کہ پاکستان میں معاشی ناہمواری، بے روزگاری، موسمیاتی تبدیلیاں اور سرحدی کشیدگی عوام کے ذہنی سکون کو تباہ کر رہی ہیں۔ نوجوان طبقہ خصوصاً مایوسی اور عدم تحفظ کا شکار ہے، جس کے نتیجے میں خودکشیوں کے واقعات بڑھ رہے ہیں۔
ماہرین نے حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ ذہنی صحت کو قومی ایجنڈے کا حصہ بنایا جائے، تعلیمی اداروں اور اسپتالوں میں نفسیاتی مشاورت مراکز قائم کیے جائیں اور عوامی آگاہی مہمات شروع کی جائیں تاکہ معاشرہ اس بڑھتے ہوئے نفسیاتی بحران سے محفوظ رہ سکے۔