سیاہ،سفید اور سرخ انقلاب
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
نام تو ان کا کچھ اور تھا لیکن مشہور لالا کامریڈ کے نام سے تھے۔ایک ایسے سرکاری محکمے میں معمولی ملازم تھے جہاں صرف تنخواہ کے دن حاضری ضروری تھی، باقی دن’’فیلڈ‘‘ میں گزرتے تھے چنانچہ لالا کو جب بھی دیکھتے، کاندھیپر ایک تھیلی لٹکائے یا تو کہیں جارہے ہوتے یا آرہے ہوتے۔ پوچھتے تو،’’بس تنظیم کا کام کرنے گئے تھے یا جارہے ہیں‘‘۔ اس تھیلی میں ماوزے تنگ کے اقوال،مارکس اور اینگلز کے اقوال یا لینن اور اسٹالن کے اقوال پر مبنی اردو کتابچے ہوتے تھے۔
ادھر فیملی پلاننگ ایسی کہ کرکٹ کی پوری ٹیم مع بارویں کھلاڑی کے پوری کرلی تھی۔اور آمدن کا چونکہ ہینڈٹو ماؤتھ والا معاملہ تھا، اس لیے ایسے تمام لوگوں کی طرح اولاد کو کھلا چھوڑ دیا تھا۔چنانچہ سب کے سب گلیوں کوچوں کی سرگرمیوں میں خوب منجھ گئے تھے۔ لالا جب بھی سُر میں ہوتے تو کہتے،’’ دیکھنا بہت جلد سرخ انقلاب آئے گا‘‘۔پھر دو باتیں ہوگئیں، ایک تو ایوب خان کے پرانے اور عنقریب گرنے والے درخت کی جڑوں سے نئیکونپل پھوٹے گی، روٹی، کپڑا، مکان ، اسلام ہمارا دین، جمہوریت سیاست، سوشلزم ہماری معیشت کی بانسری پر گزشتہ پون صدی کی کیمونسٹ سوشلسٹ تحریک کو لے جاکر خلیج بنگال میں پھینک دیا گیا۔ پھر روٹی کپڑا مکان چھیننے والوں کی منڈلی کا سرتاج بن گیا۔دوسری بات لالا کی زندگی میں یہ پیدا ہوئی کہ اس کی بیوی کی کہیں پر ایک بہت بڑی جائیداد نکل آئی۔
ہوا یوں تھا کہ اس کی بیوی کا باپ ایک بہت بڑے جاگیردار خاندان سے تھا لیکن اپنے باپ سے پہلے فوت ہوگیا، اس لیے زندہ رہنے والے بھائیوں نے اس کی بیوی بچوں کو کچھ بھی نہیں دیا بلکہ گھر بھی چھین لیا، اس کی بیوہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو لے کر اس گاؤں میں آگئی اور محنت مزدوری کرکے بچوں کو پالنے لگی۔ بیٹا تو آوارہ بن کر نہ جانے کہاں چلا گیا۔اور بیٹی کا بیاہ لالا سے ہوگیا۔اب جب ایوب خان کے عائلی قوانین لاگو ہوگئے اور اس میں مرنے والے بیٹے کی اولاد کو دادا کی جائداد میں برابر کا حصہ دار بنایا گیا۔تو لالا کی بیوی اپنے باپ کی جائیداد کی واحد وارث بن گئی۔بلی کے بھاگوں چھنپکا ٹوٹا۔ لالا گیا تو اب وہاں نہر آنے کے سبب زمین اور بھی قیمتی ہوچکی تھی چنانچہ ایک ٹکڑا بیچنے سے گھر میں جیسے عید ہوگئی۔
نہ صرف خالی گھر بھر گیا بلکہ نیا بھی ہوگیا۔ایک اچھی دودھیل بھینس بھی آگئی۔ لالا کی بیوی غربت میں پلی بڑھی تھی، اس لیے بھینس کا فالتو دودھ بیچ دیتی تھی، یہاں سے ان کے دوبیٹوں کے دماغ میں جو تقریباً جوان ہوگئے تھے، یہ آئیڈیا آیا کہ ان پڑھوں کی نوکری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ تو کوئی اور کام دھندہ کرنے کے بجائے ’’بھینسوں‘‘ کو کیوں نہ کاروبار بنایا جائے چنانچہ بھینسیں پانچ ہوگئیں۔پھر کچھ اور زمین بیچ کر باقاعدہ فارم بنایا گیا۔ گاؤں سے باہر زمین خرید کر اچھا خاصا فارم بن گیا۔جس کے پیچھے عالی شان مکان بھی بن گیا۔ بھینس تو زندہ جانور ہے اور زندہ جانور بچے بھی دیتے ہیں، اس لیے تھوڑے ہی عرصے میں دس نہ بیس نہ تیس پوری اسی بھینسیں بن گئیں۔ایک اور پلس پوائنٹ یہ تھا کہ افرادی قوت کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بارہ کے بارہ بیٹے فارم ہی میں مصروف ہوگئے۔
کوئی چراتا تھا ،کوئی گھاس وغیرہ کاٹ کر لاتا تھا ،کوئی دودھ دوہتا تھا کوئی بیچتا تھا۔ایک دن لالا کو دیکھا، نئی موٹرسائیکل پر بالکل ہی الگ شخصیت بن کر بیٹھے کاندھے پر ترپال کا وہ تھیلا بھی نہیں تھا بلکہ موٹر سائیکل کے پیچھے بریف کیس تھا۔پوچھا ، لالا کہاں؟ بولے،’’باقی کام تو لڑکے کرتے ہیں لیکن شہر میں دکانداروں کے ساتھ حساب کتاب میرے ذمے ہے، ظاہر ہے اتنا دوودھ گاؤں میں تو نہیں بک سکتا تھا، اس لیے دودھکے کین پک اپ پر لاد کر شہر پہنچاتے تھے۔چونکہ فارم گاؤں کے دوسرے سرے پر تھا، اس لیے بہت کچھ ملنا ملانا ہوتا تھا۔پھر ایک دن لالا کو دیکھا تو نئی نویلی کار میں براجمان ہیں۔کاندھے پر تھیلی کے بجائے زرد خانہ دار رومال، سر پر سفید ٹوپی اور ہاتھ میں لمبی تسبیح۔پوچھا ، لالا یہ کیا؟وہ سرخ انقلاب‘‘؟بولے،’’ شکر الحمد اﷲ ، خدا نے گمراہی سے بچالیا اور راہ راست دکھا دیا، اب مسجد میں بیٹھتا ہوں اور اﷲ کو یاد کرتا ہوں۔مجھے حیرت تو ہونا ہی تھی لالا کے اسی منہ سے میں نے انقلاب کے بارے میں کیا کیا نہیں سنا تھا۔
کہا کرتا تھا، یہ جو مولویحضرات کہتے ہیں، اس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ذرا انقلاب آنے دو ان سب کو دیکھ لوں گا۔ اب اس نے ایسی ایسی باتیں کیں کہ میں نے اس سے بولنا ہی بند کردیا۔اور آج وہی لالا نہ صرف اﷲ اﷲکررہا ہے بلکہ بتا رہا ہے کہ یہ دنیا اور اس کا سب کچھ فضول ہے۔ اصل چیز آخرت ہے۔کچھ دنوں بعد سنا کہ اس نے علاقے میں ایک مسجد بھی تعمیر کروادی ہے اور اس کا سارا انتظام بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔اذان اور اقامت پر بھی قبضہ کرچکا ہے، صرف امامت کوئی اور کرتا ہے کہ اسے تلاوت اور قرات نہیں آتی لیکن سیکھ رہا ہے، ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں بعد امامت بھی سنبھال لے۔ اردگرد کے علاقے میں جو پیروں کے آستانے یا دینی مدرسے ہیں، انھیں چندہ وغیرہ بھی دیتا ہے۔
کچھ دن بعد حاجی بھی ہوگیا۔جس دن حج سے واپس آرہا تھا، اس دن بیٹوں نے انتہائی مرغن دعوت کا اہتمام کیا تھا اور رات سے مسجد میں نعت خوانی اور تلاوت چل رہی تھی۔جی تو نہیں چاہتا تھا لیکن اس کے ساتھ ایک ہلکا سا رشتہ تھا، اس لیے چلا گیا۔یہ لمبی داڑھی، رنگ برنگے رومال سر اور کاندھوں پر ، ہاتھ میں نہایت چمکدار سو دانوں کی تسبیح اور ہر ایک سے یہی کہتا کہ وہاں میں نے تمہارے لیے دعا کی تھی۔ ایک دن میں گاؤں کے کسی کام سے گیا تھا، سوچا لالا کا فارم بھی دیکھ لیں۔لالا سامنے چارپائی پر بیٹھے تھے۔ دونوں طرف بڑے بڑے گاو تکیے تھے اور تسبیح ہاتھ میں لٹکائے ہوئے، علیک سلیک کے بعد اس نے چائے بولی۔تب میں نے دیکھا کہ لمبے برآمدے میں اس کے چار پانچ بیٹے کچھ مشینوں کے ساتھ مصروف تھے۔ادھر ادھر کچھ کچھ ڈبے اور بوتلیں تھیں، مشین سے دودھ کی دھار نکل رہی تھی جس سے کین بھر کر پک میں لادے جارہے تھے۔
پوچھا، لالا یہ کیا ہے؟ بولے دراصل شہر میں دودھ کی مانگ بڑھ گئی، بھینسیں پورا نہیں کرپارہی ہیں، اس لیے۔مگر لالا یہ تو بے ایمانی ہے۔بولے کاہے کی بے ایمانی۔صاف ستھری چیزیں ملا رہے ہیں، کوئی حرام چیز نہیں اور یہ تو کاروبارہے۔میں اٹھ گیا۔لیکن سامنے والے برآمدے میں دیکھا جس میں دودھیل بھینسیں کھڑی تھیں لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بھینسیں بہت زیادہ تھیں اور بچے بہت کچھ کم۔وہاں کھڑے ہوئے، اس کے بیٹے سے پوچھا کہ بچے اتنے کم کیوں ہیں لیکن بیٹے کے کچھ کہنے سے پہلے ہی لالا تسبیح پھیرتے ہوئے آیا، بولا، زندہ جانور ہیں، اکثر کے بچے مرجاتے ہیں۔یہ تو مجھے بعد میں اس کے ایک بیٹے سے پتہ چلا کہ بچے مرتے نہیں مار دیے جاتے ہیں۔
بھینس اکر کٹٹری جنے تو اسے زندہ چھوڑ دیتے ہیں اور اگر کٹٹرا ہوتا ہے تو اسی وقت چھری پھیر دیتے ہیں، اس کا گوشت قصائی لے جاکر چھوٹے گوشت کے نام بیچ دیتے ہیں اور اس کے حصے کا دودھ ان کا ہوتا ہے۔انقلاب زندہ باد کٹٹروں کے خون کا سرخ انقلاب۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: سرخ انقلاب دیتے ہیں ہاتھ میں کی بیوی اور اس اس لیے
پڑھیں:
ایچ پی وی ویکسین: پاکستانی معاشرے میں ضرورت
انسانی تاریخ میں کچھ بیماریاں ایسی بھی رہی ہیں جو نسلِ انسانی کے وجود پر سوالیہ نشان بن کر ابھریں۔ کینسر ان میں آج بھی سب سے بھیانک ہے۔ مگر سائنس نے انسان کو یہ پیغام دیا کہ اندھیروں میں بھی چراغ جلائے جاسکتے ہیں۔
انہی چراغوں میں سے ایک ہے ایچ پی وی ویکسین (Human Papillomavirus Vaccine)، جسے اردو میں ’’انسانی پیپلیلوما وائرس حفاظتی دوا‘‘ کہا جا سکتا ہے۔ یہ ویکسین بالخصوص خواتین کی زندگی اور صحت کی حفاظت کے لیے آج کی سائنسی دنیا میں بڑی عظیم کامیابی ہے۔
عالمی تحقیق اور ابتدا
ایچ پی وی ویکسین کی بنیاد 1990 کی دہائی میں رکھی گئی جب آسٹریلیا کے سائنس دان پروفیسر یان فریزر (Ian Frazer) اور ان کے ساتھی جیہان ژو (Jian Zhou) نے وائرس جیسے ذرات (Virus-like Particles) ایجاد کیے۔ یہ ذرات بیماری نہیں پھیلاتے لیکن جسم کو مدافعتی ردعمل کے لیے تیار کر دیتے ہیں۔ 2006 میں امریکا نے پہلی بار اسے Gardasil کے نام سے متعارف کرایا، بعد ازاں Cervarix اور Gardasil 9 جیسے مزید مؤثر ورژن سامنے آئے۔
عالمی ادارۂ صحت (WHO) اور امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول (CDC) کے مطابق یہ ویکسین خواتین میں سروائیکل کینسر (Cervical Cancer) کے تقریباً 70 فیصد سے 90 فیصد تک کیسز کو روکتی ہے۔ آسٹریلیا، برطانیہ اور ناروے جیسے ممالک میں یہ ویکسینیشن پروگرام اس حد تک کامیاب رہا کہ وہاں نوجوان نسل میں سروائیکل کینسر کی شرح نصف سے بھی کم ہوگئی۔
پاکستان میں ضرورت
پاکستان میں ہر سال تقریباً 5,000 خواتین سروائیکل کینسر کا شکار ہوتی ہیں، جبکہ اموات کی شرح 60 فیصد کے قریب ہے، کیونکہ عموماً مرض کی تشخیص دیر سے ہوتی ہے۔ یہ بیماری صرف عورت تک محدود نہیں رہتی، بلکہ خاندان کی بقا، بچوں کی تربیت اور سماج کی اخلاقی ساخت کو بھی متاثر کرتی ہے۔ ایسے میں ایچ پی وی ویکسین کا استعمال ناگزیر دکھائی دیتا ہے۔
مزید یہ کہ عالمی تحقیق ثابت کرچکی ہے کہ ایچ پی وی صرف خواتین کے لیے ہی نہیں بلکہ مردوں کے لیے بھی خطرہ ہے۔ یہ وائرس مردوں میں منہ، گلے اور تولیدی اعضا کے سرطان کا باعث بن سکتا ہے۔ امریکا اور یورپ میں ویکسین لگنے کے بعد مردوں میں بھی اس کے خلاف نمایاں تحفظ دیکھا گیا ہے۔
سماجی اور مذہبی رکاوٹیں
پاکستان میں اس ویکسین کے فروغ میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔
کچھ حلقے اسے مغربی سازش قرار دیتے ہیں اور مذہبی بنیاد پر مخالفت کرتے ہیں۔
والدین میں یہ خوف بھی پایا جاتا ہے کہ یہ ویکسین نوجوانوں میں جنسی آزادی کو فروغ دے گی۔
لاعلمی اور کم علمی کی وجہ سے اکثر اسے غیر ضروری یا غیر محفوظ سمجھا جاتا ہے۔
اسلامی ممالک اور علما کا موقف
کچھ اسلامی ممالک نے نہ صرف ایچ پی وی ویکسینیشن پروگرام فعال کیے ہیں بلکہ علما نے بھی اسے شرعی اعتبار سے جائز قرار دیا ہے۔ مثال کے طور پر ملیشیا میں 2010 میں Jabatan Kemajuan Islam Malaysia (JAKIM) نے باضابطہ فتوٰی جاری کیا کہ اگر ویکسین کی ترکیب میں کوئی مشکوک جزو نہ ہو اور یہ نقصان دہ نہ ہو تو رحمِ مادر کے سرطان سے بچاؤ کےلیے HPV ویکسین لگوانا ’’مباح‘‘ (permissible) ہے۔
اسی طرح متحدہ عرب امارات (UAE) نے 2018 میں HPV ویکسین کو اپنے قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا، اور وہاں کے نیشنل امیونائزیشن ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپ نے حکومتی سطح پر اس کی تائید کی۔
مزید یہ کہ سعودی عرب کے صوبے جازان میں عوامی رویے اور تحقیق سے واضح ہوا کہ مذہبی خدشات کے باوجود طبی اور شرعی دلائل نے ویکسین کے استعمال کو قابلِ قبول بنایا ہے۔
یہ مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں کہ انسانی جان کے تحفظ کو اسلام میں اولین ترجیح حاصل ہے، اور جب کوئی دوا جان بچانے کا ذریعہ ہو تو اس کا استعمال نہ صرف جائز بلکہ واجب کے قریب قرار دیا جا سکتا ہے۔
ایچ پی وی ویکسین آج پاکستانی معاشرے کے لیے محض ایک طبی ایجاد اور ضرورت ہی نہیں بلکہ خواتین کی زندگی، اور معاشرتی بقا کی بھی ضامن ہے۔ اگر حکومت اسے قومی حفاظتی ٹیکوں کے دیگر ذرائع کی طرح مستقل پروگراموں میں شامل کر لے تو ہر سال ہزاروں زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ اعداد و شمار، تحقیق اور عالمی تجربات کو مدنظر رکھتے ہوئے سماجی اور مذہبی غلط فہمیوں کو دور کیا جائے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔