Express News:
2025-04-25@11:33:46 GMT

سیاہ،سفید اور سرخ انقلاب

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

نام تو ان کا کچھ اور تھا لیکن مشہور لالا کامریڈ کے نام سے تھے۔ایک ایسے سرکاری محکمے میں معمولی ملازم تھے جہاں صرف تنخواہ کے دن حاضری ضروری تھی، باقی دن’’فیلڈ‘‘ میں گزرتے تھے چنانچہ لالا کو جب بھی دیکھتے، کاندھیپر ایک تھیلی لٹکائے یا تو کہیں جارہے ہوتے یا آرہے ہوتے۔ پوچھتے تو،’’بس تنظیم کا کام کرنے گئے تھے یا جارہے ہیں‘‘۔ اس تھیلی میں ماوزے تنگ کے اقوال،مارکس اور اینگلز کے اقوال یا لینن اور اسٹالن کے اقوال پر مبنی اردو کتابچے ہوتے تھے۔

ادھر فیملی پلاننگ ایسی کہ کرکٹ کی پوری ٹیم مع بارویں کھلاڑی کے پوری کرلی تھی۔اور آمدن کا چونکہ ہینڈٹو ماؤتھ والا معاملہ تھا، اس لیے ایسے تمام لوگوں کی طرح اولاد کو کھلا چھوڑ دیا تھا۔چنانچہ سب کے سب گلیوں کوچوں کی سرگرمیوں میں خوب منجھ گئے تھے۔  لالا جب بھی سُر میں ہوتے تو کہتے،’’ دیکھنا بہت جلد سرخ انقلاب آئے گا‘‘۔پھر دو باتیں ہوگئیں، ایک تو ایوب خان کے پرانے اور عنقریب گرنے والے درخت کی جڑوں سے نئیکونپل پھوٹے گی، روٹی، کپڑا، مکان ، اسلام ہمارا دین، جمہوریت سیاست، سوشلزم ہماری معیشت کی بانسری پر گزشتہ پون صدی کی کیمونسٹ سوشلسٹ تحریک کو لے جاکر خلیج بنگال میں پھینک دیا گیا۔ پھر روٹی کپڑا مکان چھیننے والوں کی منڈلی کا سرتاج بن گیا۔دوسری بات لالا کی زندگی میں یہ پیدا ہوئی کہ اس کی بیوی کی کہیں پر ایک بہت بڑی جائیداد نکل آئی۔

ہوا یوں تھا کہ اس کی بیوی کا باپ ایک بہت بڑے جاگیردار خاندان سے تھا لیکن اپنے باپ سے پہلے فوت ہوگیا، اس لیے زندہ رہنے والے بھائیوں نے اس کی بیوی بچوں کو کچھ بھی نہیں دیا بلکہ گھر بھی چھین لیا، اس کی بیوہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو لے کر اس گاؤں میں آگئی اور محنت مزدوری کرکے بچوں کو پالنے لگی۔ بیٹا تو آوارہ بن کر نہ جانے کہاں چلا گیا۔اور بیٹی کا بیاہ لالا سے ہوگیا۔اب جب ایوب خان کے عائلی قوانین لاگو ہوگئے اور اس میں مرنے والے بیٹے کی اولاد کو دادا کی جائداد میں برابر کا حصہ دار بنایا گیا۔تو لالا کی بیوی اپنے باپ کی جائیداد کی واحد وارث بن گئی۔بلی کے بھاگوں چھنپکا ٹوٹا۔ لالا گیا تو اب وہاں نہر آنے کے سبب زمین اور بھی قیمتی ہوچکی تھی چنانچہ ایک ٹکڑا بیچنے سے گھر میں جیسے عید ہوگئی۔

نہ صرف خالی گھر بھر گیا بلکہ نیا بھی ہوگیا۔ایک اچھی دودھیل بھینس بھی آگئی۔ لالا کی بیوی غربت میں پلی بڑھی تھی، اس لیے بھینس کا فالتو دودھ بیچ دیتی تھی، یہاں سے ان کے دوبیٹوں کے دماغ میں جو تقریباً جوان ہوگئے تھے، یہ آئیڈیا آیا کہ ان پڑھوں کی نوکری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ تو کوئی اور کام دھندہ کرنے کے بجائے ’’بھینسوں‘‘ کو کیوں نہ کاروبار بنایا جائے چنانچہ بھینسیں پانچ ہوگئیں۔پھر کچھ اور زمین بیچ کر باقاعدہ فارم بنایا گیا۔ گاؤں سے باہر زمین خرید کر اچھا خاصا فارم بن گیا۔جس کے پیچھے عالی شان مکان بھی بن گیا۔ بھینس تو زندہ جانور ہے اور زندہ جانور بچے بھی دیتے ہیں، اس لیے تھوڑے ہی عرصے میں دس نہ بیس نہ تیس پوری اسی بھینسیں بن گئیں۔ایک اور پلس پوائنٹ یہ تھا کہ افرادی قوت کا بھی کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ بارہ کے بارہ بیٹے فارم ہی میں مصروف ہوگئے۔

کوئی چراتا تھا ،کوئی گھاس وغیرہ کاٹ کر لاتا تھا ،کوئی دودھ دوہتا تھا کوئی بیچتا تھا۔ایک دن لالا کو دیکھا، نئی موٹرسائیکل پر بالکل ہی الگ شخصیت بن کر بیٹھے کاندھے پر ترپال کا وہ تھیلا بھی نہیں تھا بلکہ موٹر سائیکل کے پیچھے بریف کیس تھا۔پوچھا ، لالا کہاں؟ بولے،’’باقی کام تو لڑکے کرتے ہیں لیکن شہر میں دکانداروں کے ساتھ حساب کتاب میرے ذمے ہے، ظاہر ہے اتنا دوودھ گاؤں میں تو نہیں بک سکتا تھا، اس لیے دودھکے کین پک اپ پر لاد کر شہر پہنچاتے تھے۔چونکہ فارم گاؤں کے دوسرے سرے پر تھا، اس لیے بہت کچھ ملنا ملانا ہوتا تھا۔پھر ایک دن لالا کو دیکھا تو نئی نویلی کار میں براجمان ہیں۔کاندھے پر تھیلی کے بجائے زرد خانہ دار رومال، سر پر سفید ٹوپی اور ہاتھ میں لمبی تسبیح۔پوچھا ، لالا یہ کیا؟وہ سرخ انقلاب‘‘؟بولے،’’ شکر الحمد اﷲ ، خدا نے گمراہی سے بچالیا اور راہ راست دکھا دیا، اب مسجد میں بیٹھتا ہوں اور اﷲ کو یاد کرتا ہوں۔مجھے حیرت تو ہونا ہی تھی لالا کے اسی منہ سے میں نے انقلاب کے بارے میں کیا کیا نہیں سنا تھا۔

کہا کرتا تھا، یہ جو مولویحضرات کہتے ہیں، اس سے مجھے اتفاق نہیں ہے۔ذرا انقلاب آنے دو ان سب کو دیکھ لوں گا۔ اب اس نے ایسی ایسی باتیں کیں کہ میں نے اس سے بولنا ہی بند کردیا۔اور آج وہی لالا نہ صرف اﷲ اﷲکررہا ہے بلکہ بتا رہا ہے کہ یہ دنیا اور اس کا سب کچھ فضول ہے۔ اصل چیز آخرت ہے۔کچھ دنوں بعد سنا کہ اس نے علاقے میں ایک مسجد بھی تعمیر کروادی ہے اور اس کا سارا انتظام بھی اس کے ہاتھ میں ہے۔اذان اور اقامت پر بھی قبضہ کرچکا ہے، صرف امامت کوئی اور کرتا ہے کہ اسے تلاوت اور قرات نہیں آتی لیکن سیکھ رہا ہے، ہوسکتا ہے کہ کچھ دنوں بعد امامت بھی سنبھال لے۔ اردگرد کے علاقے میں جو پیروں کے آستانے یا دینی مدرسے ہیں، انھیں چندہ وغیرہ بھی دیتا ہے۔

کچھ دن بعد حاجی بھی ہوگیا۔جس دن حج سے واپس آرہا تھا، اس دن بیٹوں نے انتہائی مرغن دعوت کا اہتمام کیا تھا اور رات سے مسجد میں نعت خوانی اور تلاوت چل رہی تھی۔جی تو نہیں چاہتا تھا لیکن اس کے ساتھ ایک ہلکا سا رشتہ تھا، اس لیے چلا گیا۔یہ لمبی داڑھی، رنگ برنگے رومال سر اور کاندھوں پر ، ہاتھ میں نہایت چمکدار سو دانوں کی تسبیح اور ہر ایک سے یہی کہتا کہ وہاں میں نے تمہارے لیے دعا کی تھی۔ ایک دن میں گاؤں کے کسی کام سے گیا تھا، سوچا لالا کا فارم بھی دیکھ لیں۔لالا سامنے چارپائی پر بیٹھے تھے۔ دونوں طرف بڑے بڑے گاو تکیے تھے اور تسبیح ہاتھ میں لٹکائے ہوئے، علیک سلیک کے بعد اس نے چائے بولی۔تب میں نے دیکھا کہ لمبے برآمدے میں اس کے چار پانچ بیٹے کچھ مشینوں کے ساتھ مصروف تھے۔ادھر ادھر کچھ کچھ ڈبے اور بوتلیں تھیں، مشین سے دودھ کی دھار نکل رہی تھی جس سے کین بھر کر پک میں لادے جارہے تھے۔

پوچھا، لالا یہ کیا ہے؟ بولے دراصل شہر میں دودھ کی مانگ بڑھ گئی، بھینسیں پورا نہیں کرپارہی ہیں، اس لیے۔مگر لالا یہ تو بے ایمانی ہے۔بولے کاہے کی بے ایمانی۔صاف ستھری چیزیں ملا رہے ہیں، کوئی حرام چیز نہیں اور یہ تو کاروبارہے۔میں اٹھ گیا۔لیکن سامنے والے برآمدے میں دیکھا جس میں دودھیل بھینسیں کھڑی تھیں لیکن یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ بھینسیں بہت زیادہ تھیں اور بچے بہت کچھ کم۔وہاں کھڑے ہوئے، اس کے بیٹے سے پوچھا کہ بچے اتنے کم کیوں ہیں لیکن بیٹے کے کچھ کہنے سے پہلے ہی لالا تسبیح پھیرتے ہوئے آیا، بولا، زندہ جانور ہیں، اکثر کے بچے مرجاتے ہیں۔یہ تو مجھے بعد میں اس کے ایک بیٹے سے پتہ چلا کہ بچے مرتے نہیں مار دیے جاتے ہیں۔

بھینس اکر کٹٹری جنے تو اسے زندہ چھوڑ دیتے ہیں اور اگر کٹٹرا ہوتا ہے تو اسی وقت چھری پھیر دیتے ہیں، اس کا گوشت قصائی لے جاکر چھوٹے گوشت کے نام بیچ دیتے ہیں اور اس کے حصے کا دودھ ان کا ہوتا ہے۔انقلاب زندہ باد کٹٹروں کے خون کا سرخ انقلاب۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: سرخ انقلاب دیتے ہیں ہاتھ میں کی بیوی اور اس اس لیے

پڑھیں:

اولاد کی تعلیم و تربیت

رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا، مفہوم: کسی باپ نے اپنی اولاد کو حسن ادب سے بہتر تحفہ انعام میں نہیں دیا۔‘‘ (ترمذی)

اولاد کی تربیت کس قدر اہم ہے اس کا اندازہ اﷲ تعالیٰ کے اس فرمان سے ہوتا ہے، مفہوم: ’’اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو دوزخ کی آگ سے بچاؤ۔‘‘ آگ سے بچانے کی صورت تو صرف یہی ہے کہ انھیں اچھے اخلاق و آداب سکھا کر سچا مسلمان بنایا جائے تاکہ وہ جہنم کا ایندھن نہ بنیں۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ کوئی باپ اپنے بچے کو حسن آداب سے بہتر عطیہ نہیں دے سکتا۔ آپ ﷺ نے یہ بھی ارشاد فرمایا کہ اولاد کا باپ پر یہ بھی حق ہے کہ وہ اس کی صحیح تربیت کرے اور اچھا سا نام رکھے۔

ماں کی گود بچے کے لیے پہلی تربیت گاہ ہے‘ اخلاق کی جو تربیت ماں کی گود میں ہو جاتی ہے اسی پر بچے کی شخصیت پروان چڑھتی ہے، اسی تربیت پر کسی بچے کی سیرت کے بننے یا بگڑنے کا انحصار ہوتا ہے۔ اسی لیے ماں کا یہ اہم فریضہ ہے کہ وہ اپنے بچوں کو اسلامی اخلاق کی تربیت دے۔ ماں اور باپ دونوں بچے کے سامنے حسن اخلاق کا نمونہ پیش کریں تاکہ ان کی اولاد عمدہ اخلاق کی حامل ہو۔ ان کا یہ فرض ہے کہ بچوں کو اسلامی تعلیمات سے رُوشناس کرائیں۔ انہیں اسلام کے عقائد سکھائیں اور پھر ان پر عمل بھی کرائیں۔ اس لیے حدیث شریف میں آتا ہے کہ جب بچہ سات سال کا ہو جائے تو اس کو نماز کی تلقین کرنی چاہیے اور جب وہ دس سال کا ہو جائے تو نماز نہ پڑھنے پر اس کو سزا دی جائے۔

اسلام میں اولاد کی صحیح تربیت کی بڑی تاکید ہے۔ تربیت اولاد ایک انتہائی اور بنیادی ذمے داری ہے جو والدین پر ناصرف اسلام عاید کرتا ہے بل کہ اولاد کی صحیح تربیت کا فریضہ ملک و ملت کی طرف سے بھی عاید ہوتا ہے۔ چوں کہ بُری صحبت سے بُرے شہری پیدا ہوتے ہیں جو ملک پر بار ہوتے ہیں، اگر تربیت صحیح اصولوں پر ہو جائے تو یہی بچے اپنے ملک اور ملت کا نام روشن کرنے والے ہوں گے اور قوم کو ان پر فخر ہوگا۔

اولاد کی تربیت ایک دینی فریضہ بھی ہے۔ حدیث کی رُو سے بچہ اپنے والدین پر کچھ خرچ کرے تو صرف بچے کو ہی نہیں بل کہ والدین کو بھی ثواب ملتا ہے۔ والدین کو اس بات کا ثواب ملے گا کہ بچے کو نیک تربیت دی کہ والدین کی خدمت بجا لا رہا ہے اور یہ کہ والدین نے اسے دولت کمانے کا طریقہ سکھایا اور اسے اس قابل بنایا۔ نیک اولاد صدقہ جاریہ ہے یعنی جاری رہنے والی خیرات ہے۔ حدیث شریف میں ہے، مفہوم: ’’جب چند لوگوں کا درجہ چند دوسرے لوگ بلند دیکھیں گے تو پوچھیں گے کہ اس کی کیا وجہ ہے؟ تو جواب ملے گا تمہاری اولاد نے تمہارے لیے جو استغفار کیا ہے یہ اس کی وجہ سے ہے۔‘‘ (ترمذی)

آنحضور ﷺ نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہا کی جس انداز سے تربیت و پرورش فرمائی وہ سارے انسانوں کے لیے ایک بہترین نمونہ ہے۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جناب فاطمہ الزہرا رضی اﷲ عنہا سب عورتوں سے عقل مند ہیں۔ وہ اپنے طرزِ کلام، حسن خلق، اسلوب گفت گُو، خشوع و خضوع میں آنحضرت ﷺ کے مشابہ ہیں۔ حضرت علی رضی اﷲ عنہ اور حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ کی پاکیزہ زندگی مسلمانانِ عالم کے لیے بہترین نمونہ ہیں۔ ان سب نے حضور اکرم ﷺ کی تربیت سے فیض حاصل کیا۔

اولاد کا والدین پر یہ بھی حق ہے کہ وہ حیثیت کے مطابق اولاد کو مروجہ تعلیم بھی دلائیں اور دینی تعلیم کا بھی بندوبست کریں۔ علم وہ دولت ہے جس سے انسان کی صلاحیتیں اجاگر ہوتی ہیں اور وہ انسانیت کے زیور سے آراستہ ہوتا ہے۔

جہاں اس تعلیم سے یہ فائدہ ہوتا ہے کہ انسان انسان بن جاتا ہے وہاں اس کا یہ بھی فائدہ ہے کہ حصول معاش میں آسانیاں پیدا ہو جاتی ہیں اور یہ اولاد بڑھاپے میں والدین کا سہارا بن جاتی ہے۔ سب سے بڑھ کر آج سائنس اور ٹیکنالوجی کے زمانے میں بغیر علم کے ملک کے کسی بھی شعبہ میں انسان خدمت نہیں کر سکتا۔ کسی ملک کی ترقی کے لیے اس بات کی ضرورت بنیادی طور پر ہے کہ اس کے افراد تعلیم یافتہ ہوں اور ان میں ماہرین فن بھی ہوں اور ماہرین تعلیم بھی تاکہ ملک کے منصوبے پورے ہو سکیں۔

بچوں کو تعلیم دلانا گویا کہ ایک ملی فریضہ بھی ہے، جسے ہر ماں باپ کو ادا کرنا چاہیے۔ نبی کریم ﷺ نے تعلیم کو بڑی اہمیت دی۔ بدر کے قیدیوں کا فدیہ یہ فرمایا کہ وہ مسلمانوں کے دس بچوں کو لکھنا پڑھنا سکھا دیں۔ حصول تعلیم میں تکلیفیں اٹھانے والوں کو اﷲ تعالیٰ کی راہ میں جہاد کرنے والے کا درجہ دیا۔ شرط صرف اتنی ہے کہ اس طلب علم کا مقصد نیک ہو۔

اولاد کا یہ بھی حق ہے کہ والدین ان سے محبت و شفقت کا اظہار کریں اور ان پر رحم کرنا مسلمان ہونے کی نشانی ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ جو ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا احترام نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ حضور اکرم ﷺ کا اُسوہ بھی یہی ہے کہ آپ ﷺ بچوں سے محبت کیا کرتے تھے۔

ایک دن ایک دیہاتی حاضر خدمت ہوا بچوں کو پیار کرتے دیکھ کر پوچھا: کیا آپ ﷺ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں؟ ہم تو ایسا نہیں کرتے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: کہ میں اس پر قادر نہیں ہوں کہ تیرے دل سے اﷲ تعالیٰ نے جو رحم نکال لیا ہے پھر تیرے دل میں رکھ دوں۔

اولاد سے محبت ایک فطری بات ہے مگر اس میں اعتدال سے گزر جانا تباہ کن ہے۔ انسان کو یہ محبت راہ ہدایت سے بھی گم راہ کر دیتی ہے۔ اولاد میں انسان کے لیے بڑی آزمائش ہے۔ جو اس میں پورا اترا وہ کام یاب ہُوا۔ یہ اولاد ہی تو ہے جو انسان کو حرام روزی کمانے پر مجبور کرتی ہے۔ پھر انھی کی محبت میں گرفتار ہو کر آدمی فرائض کی بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہے۔

قرآن کریم میں ارشاد ہے، مفہوم: ’’تمہارے اموال اور تمہاری اولاد تمہارے لیے آزمائش ہیں۔‘‘ (التغابن)

            اسلام اموال اور اولاد کی محبت میں اعتدال اور میانہ روی کا راستہ تجویز کرتا ہے۔ اس کے برعکس عمل سے انسان کو سراسر گھاٹا ہے۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز حرام روزی مہیا کرنے والے آدمی کے ساتھ سب سے پہلے اس کے اہل و عیال جھگڑا کریں گے اور گناہوں کی تمام تر ذمے داری اس پر ڈال دیں گے۔

والدین کا یہ فرض ہے کہ اپنے تمام بچوں سے یک ساں اور عدل و انصاف والا سلوک کریں۔ اسلام میں لڑکے اور لڑکی یا چھوٹے اور بڑے کی کوئی تمیز نہیں، سب کے حقوق یک ساں ہیں، اسلام نے لڑکوں کے ساتھ لڑکیوں کے مقابلے میں ترجیحی سلوک کو روا نہیں رکھا۔ اسلام پہلا مذہب ہے جس نے لڑکیوں کو وراثت میں حق دلایا۔ اپنی اولاد میں کسی ایک کو کوئی چیز دے دینا اور دوسروں کو اس سے محروم رکھنا جائز نہیں، اسے ظلم قرار دیا گیا کیوں کہ یہ انصاف کے خلاف ہے۔

ایک مرتبہ ایک صحابیؓ نے اپنے ایک بیٹے کو ایک غلام دیا اور حضور ﷺ سے آکر عرض کیا: آپ ﷺ اس کے گواہ رہیے۔

آپ ﷺ نے پوچھا: کیا دوسرے بچوں کو بھی ایک غلام دیا ہے؟

اس نے عرض کیا: نہیں۔

آپ ﷺ نے فرمایا: ’’میں اس ظلم کا گواہ نہیں بننا چاہتا۔‘‘

اولاد کے درمیان ناانصافی کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوتا ہے کہ بہن بھائیوں میں عداوت اور دشمنی کے جذبات پیدا ہو جاتے ہیں، جس سے گھر کا سکون ختم ہو جاتا ہے اور وہ بچہ جس سے ناروا سلوک کیا گیا ہے والدین سے نفرت کرنے لگے گا۔ یہ بات اس کی اور والدین کی زندگی پر بُری طرح اثر انداز ہو گی۔ لہٰذا ایک اچھے معاشرے کی تشکیل کے لیے اولاد کی تربیت عمدہ خطوط میں کرنا والدین کا ایک اہم فریضہ ہے۔

اﷲ رب العزت ہمیں دین اسلام کے مطابق بہترین طرزِ عمل اختیار کرنے کی توفیق عطاء فرمائے۔ آمین

متعلقہ مضامین

  • ملک کی حفاظت کے لیے ہم سب سینہ سپر ہیں، علی محمد خان
  • اولاد کی تعلیم و تربیت
  • وہ ڈاکٹر اور یہ ڈاکٹر
  • کوچۂ سخن
  • چین نے 10 جی براڈبینڈ انٹرنیٹ سروس متعارف کرا کے ٹیکنالوجی میں انقلاب برپا کردیا
  • ماحول دوست توانائی کے انقلاب کو روکنا اب ناممکن، یو این چیف
  • پہلگام حملہ: آئی پی ایل میں آتش بازی نہیں ہوگی، کھلاڑی سیاہ پٹیاں باندھیں گے
  • کوہ قاف میں چند روز
  • غزہ کے بچوں کے نام
  • تین سنہرے اصول