Nai Baat:
2025-09-18@13:24:41 GMT

عمرانی سیاست کا ایک اور منفی موڑ

اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT

عمرانی سیاست کا ایک اور منفی موڑ

عمران خان کسی طرح بھی مان نہیں رہا ہے۔ وہ مزاحمتی سیاست نہیں بلکہ ’’میں نہیں تو کوئی نہیں‘‘ کی راہ پر گامزن ہے۔ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی تک وہ اپنے علاوہ دیگر سیاست دانوں کیخلاف سینہ سپر تھا۔ نوازشریف ہو یا شہبازشریف، آصف علی زرداری، مولانا فضل الرحمان، اچکزئی اور کوئی بھی سیاستدان، سب عمران خان کی تنقید کا نشانہ بن رہے تھے۔ 2013ء میں عمران خان حکمران اتحاد کے ساتھ ملنے کے لئے تیار نہیں تھا، 2018ء میں جب وہ خود حکمران تھا تو اپوزیشن لیڈر کے ساتھ ہاتھ ملانے کے روادار نہیں تھا، 2022ء میں حکومت سے رخصت کئے جانے کے بعد اس نے اسٹیبلشمنٹ کو بھی نشانے پر رکھ لیا اور ہنوز وہ اسے للکار رہا ہے۔ اس وقت عمران خان جیل میں سزا بھگت رہا ہے۔ مارچ 2022ء میں امریکی سائفر لہرانے سے لے کر نومبر 2024ء میں اسلام آباد پر لشکرکشی کی۔ ’’فائنل کال‘‘ دینے تک پونے تین برس پر محیط اس عرصے میں عمران خان اور اس کی پارٹی مشکلات کی دلدل میں دھنستی چلی گئی لیکن عمران خان مزاحمت سے باز نہیں آیا۔ ہاں 23دسمبر 2024ء سے لے کر 23جنوری 2025ء تک ایک وقفہ ہے جس میں اپنے مزاحمتی بیانئے سے انحراف کرتے ہوئے عمران خان پارٹی نے مذاکرات کا ڈول ڈالا، بہت سے ماہرین سیاست کا خیال تھا کہ مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھنے والی ہے کیونکہ عمران خان اور اس کی پارٹی کے خمیر میں ہی مذاکرات، بات چیت جیسی اعلیٰ صفات شامل ہی نہیں ہیں۔ عملاً ایسا ہی ہوا۔ مذاکرات کی پہلی نشست 23دسمبر کو ہوئی جس میں طے پایا کہ پی ٹی آئی اپنے مطالبات تحریری شکل میں پیش کریگی۔ 2جنوری کو دوسری نشست ہوئی لیکن پی ٹی آئی تحریری مطالبات پیش کرنے میں ناکام رہی۔ ایسے لگا کہ جیسے مذاکرات ناکام ہو چکے ہیں۔ اس دوران پی ٹی آئی کے جیالے ٹیلی وژن اور سوشل میڈیا پر اپنے مطالبات بیان کرتے رہے، دھراتے رہے حتیٰ کہ 16جنوری کو ہونے والی مذاکرات کی تیسری بیٹھک میں پی ٹی آئی نے مطالبات تحریری صورت میں پیش کئے اور ساتھ ہی حکم جاری کیا کہ اگر 7دن کے اندر اندر ان مطالبات پر عملدرآمد کرنے کا اعلان نہ کیا گیا تو مذاکرات ختم سمجھے جائیں گویا 28جنوری فائنل ڈے قرار پایا۔ حکومت نے اعلان کیا کہ 7ورکنگ ڈیز میں پی ٹی آئی کے چارٹر آف ڈیمانڈ کا تحریری طور پر جواب دیا جائے گا۔ حکومتی کمیٹی نے اس حوالے سے کام شروع کر دیا۔ تین اجلاس ہوئے، مشاورت شروع ہو گئی۔ حکومت موقف کے خدوخال تراشے گئے۔ سات ایام کار کے ابھی پانچ دن باقی تھے کہ 23جنوری 2025ء کو اڈیالہ جیل کے پھاٹک سے باہر آتے ہوئے بیرسٹر گوہر نے مذاکرات کا سلسلہ ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ گویا پی ٹی آئی ایک شارٹ بریک کے بعد ایک بار پھر اپنی اوقات پر واپس آ گئی۔ لڑائی جھگڑا، مزاحمت، مقاومت اور میں نہ مانوں کی رٹ، ڈیڈ لائن پوری ہونے سے پہلے ہی مذاکرات کے خاتمے کا اعلان، پی ٹی آئی کی اس حکمت عملی کا حصہ ہے جس کا مقصد ملکی سیاست میں ہر وقت ہلچل مچائے رکھنا ہے۔ عمران خان 1996ء میں تحریک انصاف کے قیام سے لے کر 2011ء میں مقتدرہ کا کھلاڑی بننے تک پھر 2018ء میں حکومت بنانے تک، 2022ء میں حکومت سے نکالے جانے تک اور اس کے بعد 23جنوری 2025ء میں مذاکرات کے خاتمے کے اعلان تک، عمران خان کی حکمت عملی ملک میں سوائے افتراق و انتشار پھیلانے کے علاوہ اور کیا رہی ہے۔ عمران خان ایسا ہی سب کچھ کرنے پر مامور کیا گیا ہے اور وہ یہ کام بخوبی اور بطریق احسن سرانجام دے رہا ہے۔ عمران خان حکومت میں ہو یا اپوزیشن میں، آزاد ہو یا جیل میں، اس کی زبان صرف اور صرف نفرت اور حقارت کے شعلے اگلتی نظر آتی رہی ہے۔ یہ نفرت افراد سے ہوتی ہوئی سیاسی جماعتوں، اداروں اور اب ملک کے لئے وبال جان بن چکی ہے۔ عمران خان بیرون ملک پاکستانیوں کو اُکسا رہا ہے کہ وہ زرمبادلہ پاکستان نہ بھیجیں۔ پاکستان اس وقت ایک ایک ڈالر کا محتاج ہے۔ پاکستان کی قومی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے ایسے میں بیرون ممالک بسنے والے پاکستانیوں کو زرمبادلہ نہ بھیجنے کی ترغیب دینا ملک دشمنی نہیں تو اور کیا ہے۔ عمران خان نے تو مذاکراتی وقفے کے دوران بھی اپنے اس ملک دشمن بیانئے سے اجتناب برتنا مناسب نہیں سمجھا۔

مذاکراتی ناکامی کے بعد ایک بار پھر عمران خان گھیرائو جلائو کی سیاسی نہیں تخریبی راہ پر گامزن ہو چکا ہے۔ آرمی چیف کو لکھا گیا خط کیا ہے۔ پرانی باتیں، شکوے، شکایتیں، نظام پر عدم اعتماد، پارلیمانی کی بے توقیری اور فوج کی قربانیوں کی توصیف کی آڑ میں عوام اور فوج کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی بھونڈی کاوش۔ عمران خان کے لئے یہ بات قطعاً قابل برداشت نہیں ہے کہ 2022ء کو تحریک عدم اعتماد کے ذریعے انہیں اقتدار سے نکالے جانے کے بعد بھی نظام چل رہا ہے۔ 44ماہ تک حکومت کرنے کے بعد جب عمران خان کو چلتا کیا گیا تو 16ماہ کی باقی مدت پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت قائم رہی۔ اس طرح اسمبلی کے اپنی پانچ سالہ مدت پوری کی پھر کیئر ٹیکر حکومت آئی۔ فروری 2024ء میں عام انتخابات ہوئے۔ عمران خان اپنی حماقتوں کے باعث اپنی پاپولیرٹی کو، اپنے پاپولر ووٹ کو الیکٹورل ووٹ میں کنورٹ کرنے میں ناکام ہوا اور اب اس کی پارٹی سڑکوں پر لور لور پھر رہی ہے، جوتے کھا رہی ہے۔ عمران خان اب بھی حقائق سے چشم پوشی کر رہا ہے، اسے جہاں بیٹھ کر یعنی اسمبلی میں بیٹھ کر اپنا فعال کردار ادا کرنا چاہئے اپنے 67ممبران کے ساتھ طاقتور اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہئے۔ عمران خان، دیگر حکومت مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ
مل کر اسمبلی میں حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتا ہے لیکن اس کی نظر اپنے ہی اہداف پر ہے اور وہ ان پر یکسوئی کے ساتھ گامزن ہے اور اسے کامیابی بھی مل رہی ہے۔ افتراق و انتشار پھیل رہا ہے۔ ملک کمزور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ریاست ابھی تک قوم کو کوئی مثبت بیانیہ دینے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔ 2011ء میں جس طرح پراجیکٹ عمران خان لانچ کیا گیا جس طرح ریاست کے تمام ستونوں کو اس پراجیکٹ کی کامیابی کے لئے استعمال کیا گیا۔ عمران خان کو پاک صاف، اعلیٰ اور انقلابی لیڈر کے طور پر ابھارا گیا حتیٰ کہ عمران خان ایک دیو بنا دیا گیا تھا۔ اسی طرح کا ایک بیانیہ اب درکار ہے جو عمران خان کی اصلی حیثیت قوم کے سامنے رکھے اسے اس کی اوقات دکھائے، قوم کو بتایا جائے کہ عمران خان کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے۔ اس کی منفی پالیسی ملک و قوم کے لئے کس طرح مضر ہے اور پھر قوم کو ایک مثبت بیانیہ دیا جائے، انہیں کسی منزل کا پتہ دیا جائے، انہیں اس منزل کے حصول کے لئے آمادہ کیا جائے، انہیں قربانی دینے اور عزم و ہمت سے حصول منزل کے لئے آمادہ پیکار کیا جائے وگرنہ عمران خان کا منفی بیانیہ اور اس کے مطابق منفی طرز عمل ابھی بھی اتنا طاقتور ہے کہ ملک و قوم کے لئے مضر ثابت ہو سکتا ہے۔ عمران خان کا بیانیہ اور اس کی کالیں حکومت کے لئے ہی نہیں بلکہ ملک کے لئے اور ریاست کے لئے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہیں اور اگر اسے ایسی باتوں سے نہ روکا گیا تو معاملات ناقابل تلافی صورتحال کا شکار بھی ہو سکتے ہیں۔

.

ذریعہ: Nai Baat

کلیدی لفظ: عمران خان کی پی ٹی ا ئی میں حکومت کے لئے ا کے ساتھ کیا گیا اور اس ہے اور رہی ہے رہا ہے میں پی کے بعد

پڑھیں:

وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست

سیلابی ریلے وسطی و جنوبی پنجاب میں تباہی مچا کر سندھ میں داخل ہونے پر پی ٹی آئی کے مرکزی رہنماؤں کو بھی خیال آگیا کہ انھیں اور کچھ نہیں تو سیلاب سے متاثرہ علاقوں کا خالی ہاتھ دورہ ہی کر لینا چاہیے۔

 اس لیے پی ٹی آئی کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان اور سیکریٹری جنرل سلمان اکرم راجہ نے ملتان، شجاع آباد اور جلال پور پیروالا کا دورہ کیا اور حکومتی امدادی سرگرمیوں پر عدم اطمینان کا اظہارکیا۔ بیرسٹر گوہر نے کہا کہ یہ سیاست کا وقت تو نہیں، اس لیے عوام کو اپنے سیلاب سے متاثرہ بہن بھائیوں کی مدد کے لیے آگے آنا ہوگا۔

انھوں نے ایک ریلیف کیمپ کے دورے پر کہا کہ پی ٹی آئی اس مشکل گھڑی میں متاثرین کے ساتھ ہے مگر انھوں نے متاثرین میں سلمان اکرم راجہ کی طرح کوئی امدادی سامان تقسیم نہیں کیا اور زبانی ہمدردی جتا کر چلتے بنے۔ سلمان اکرم راجہ نے اپنے دورے میں کہا کہ اس وقت جنوبی پنجاب سیلاب کی زد میں ہے اور سرکاری امداد محدود ہے، اس لیے میری عوام سے اپیل ہے کہ وہ آگے بڑھیں اور سیلاب متاثرین کی مدد کریں۔

سابق اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے بھی سیاسی پوائنٹ اسکورنگ سے باز نہیں آئے ، موصوف نے کہا کہ ٹک ٹاکر حکومتیں سیلاب زدگان کی مدد کرنے والے والنٹیئرز پر امدای سامان پر فوٹو نہ لگانے کی پاداش میں ایف آئی آر کاٹ رہی ہیں۔

پی ٹی آئی کے حامی اینکرز اور وی لاگرز نے بھی اس موقع پر سیاست ضروری سمجھی اور انھوں نے پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو اپنے وی لاگ اور انٹرویوز میں بٹھا کر یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ (ن) لیگ کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے سیلاب متاثرین کو لاوارث چھوڑ رکھا ہے اور صرف دکھاوے کی امداد شروع کر رکھی ہے اور سیلاب متاثرین کو بچانے پر توجہ ہی نہیں دی گئی جس کی وجہ سے جنوبی پنجاب میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا ہے اور متاثرین کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچانے کی کوشش نہیں کی اور جب سیلابی پانی ان کے گھروں اور کھیتوں میں داخل ہوا تو ریلیف کا کام شروع کیا گیا۔

متاثرہ علاقوں میں ضرورت کے مطابق کشتیاں موجود تھیں نہ ریلیف کا سامان اور نہ ضرورت کے مطابق حفاظتی کیمپ قائم کیے گئے۔ یہ رہنما اس موقعے پر بھی سیاست کرتے رہے اور کسی نے بھی حکومتی کارکردگی کو نہیں سراہا بلکہ حکومت پر ہی تنقید کی۔ جب کہ وہ خود کوئی ریلیف ورک نہیں کرتے۔

پنجاب کے ریلیف کمشنر نے قائم مقام امریکی ناظم الامور کو پنجاب ہیڈ آفس کے دورے میں بتایا کہ پنجاب کو تاریخ کے سب سے بڑے سیلاب کا سامنا ہے جس سے ساڑھے چار ہزار موضع جات متاثر 97 شہری جاں بحق اور تقریباً 45 لاکھ افراد متاثر ہوئے ہیں جن کے لیے متاثرہ اضلاع میں 396 ریلیف کیمپس، 490 میڈیکل کیمپس اور 405 وزیٹری کیمپس قائم کیے گئے جہاں سیلاب متاثرین کو ٹھہرا کر ہر ممکن امداد فراہم کی جا رہی ہے اور شمالی پنجاب کے متاثرہ اضلاع کے بعد جنوبی پنجاب کی سیلابی صورتحال پر حکومتی توجہ مرکوز ہے اور سیلاب متاثرین کے لیے تمام سرکاری وسائل استعمال کیے جا رہے ہیں۔

وزیر اعظم شہباز شریف نے قدرتی آفت پر صوبائی حکومتوں کی امدادی کارروائیوں کو قابل ستائش قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ ہمارے کسانوں، مزدوروں، خواتین اور بچوں نے غیر معمولی ہمت دکھائی ہے اس قدرتی آفت سے بے پناہ مسائل و چیلنجز نے جنم لیا ہے مگر حکومت متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑے گی۔

 خیبر پختونخوا کی صوبائی حکومت کی کارکردگی کا موازنہ پنجاب اور سندھ کی صوبائی حکوتوں سے کیا جائے تو یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ خیبر پختونخوا کے برعکس پنجاب و سندھ کی حکومتوں نے سیلابی صورت حال دیکھتے ہوئے تیاریاں شروع کردی تھیں اور حفاظتی انتظامات کے تحت متاثرہ علاقوں میں سیلاب آنے سے قبل خالی کرنے کی اپیلیں کی تھیں مگر اپنے گھر فوری طور خالی کرنا ممکن نہیں ہوتا۔

غریب اپنے غیر محفوظ گھر خالی کرنے سے قبل بہت کچھ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں، انھیں حکومت اور انتظامیہ پر اعتماد نہیں ہوتا کہ وہ واپس اپنے گھروں کو آ بھی سکیں گے یا نہیں اور انھیں سرکاری کیمپوں میں نہ جانے کب تک رہنا پڑے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر قدرتی آفت پر حکومتی اور اپوزیشن دونوں طرف سے سیاست ضرور کی جاتی ہے اور غیر حقیقی دعوے کیے جاتے ہیں اور عوام کو حقائق نہیں بتائے جاتے۔ حکومت نے بلند و بانگ دعوے اور اپوزیشن نے غیر ضروری تنقید کرکے اپنی سیاست بھی چمکانا ہوتی ہے اور دونوں یہ نہیں دیکھتے کہ یہ وقت سیاست کا ہے یا نہیں۔

متعلقہ مضامین

  • سیلاب ،بارش اور سیاست
  • وقت نہ ہونے پر بھی سیلابی سیاست
  • زائد پالیسی ریٹ سے معیشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے،امان پراچہ
  • موجودہ حالات میں جلوس نکالنا سیاست نہیں، بے حسی ہے‘سکھد یوہمنانی
  • آپریشن حل نہیں، مذاکرات کے ذریعے امن قائم کیا جائے، عمران خان
  • بانی کے مطابق آپریشن حل نہیں ،مذاکرات کے ذریعے امن بحال کیا جائے،علی امین گنڈاپور
  • اب جنازوں پر سیاست ہو رہی ہے: علی امین گنڈاپور
  • عمران خان مذاکرات کے لیے تیار، لیکن بات ’بڑوں‘ سے ہوگی، وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپور
  • غیر دانشمندانہ سیاست کب تک؟
  • ٹرمپ عمر رسیدہ ، صدارت کے اہل نہیں؟ امریکی سیاست میں نئی بحث چھڑ گئی