کشمیر: بین الاقوامی سازشوں کا ہدف
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے فرمایا تھا کہ ’’کشمیر سیاسی اور فوجی اعتبار سے پاکستان کی شہ رگ ہے۔ کوئی خوددار ملک اور قوم یہ برداشت نہیں کرسکتی کہ اپنی شہ رگ کو دشمن کی تلوار کے حوالے کردے۔‘‘ قائد اعظم کا یہ فرمان کوئی جذبات سے مغلوب شدہ بیان نہ تھا بلکہ بابائے قوم کو اس حقیقت کا بھرپور ادراک تھا کہ پاکستان کی معیشت بالخصوص زراعت اس وقت تک بھارت کے متعصب ہندو حکمرانوں کے رحم و کرم پر ہوگی جب تک کشمیر کو ان کے قبضے سے آزاد نہیں کروایا جاتا۔بابائے قوم کے وصال کے بعد مادرِ ملّت فاطمہ جناح نے بھی پاکستانی قوم کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا تھا ’’دفاعی نقطۂ نظر سے کشمیر پاکستان کی زندگی اور روح کی حیثیت رکھتا ہے۔ اقتصادی لحاظ سے کشمیر ہماری خوش حالی کا منبع ہے۔ پاکستان کے بڑے دریا اسی ریاست کی حدود سے گزر کر پاکستان میں داخل ہوتے اور ہماری خوشحالی میں مدد دیتے ہیں۔ ان کے بغیر پاکستان کی خوش حالی خطرے میں پڑ جائے گی۔ اگر خدانہ کرے ہم کشمیر سے محروم ہوجائیں تو قدرت کی عطا کردہ نعمت عظمیٰ کا ایک بڑا حصہ ہم سے چھن جائے گا۔ کشمیر ہمارے دفاع کا کلیدی نقطہ ہے۔ اگر دشمن کی قوت کو کشمیر کی خوبصورت وادی اور پہاڑیوں میں مورچہ بندی کا موقع مل جائے تو پھر یہ اٹل ہے کہ وہ ہمارے معاملات میں مداخلت اور اپنی مرضی چلانے کی کوشش کرے۔ پس اپنے آپ کو ایک مضبوط اور حقیقتاً طاقتور قوم بنانے کیلئے یہ انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان کو دشمن کی ایسی سرگرمیوں کی زد میں نہ آنے دیا جائے۔ اس لحاظ سے کشمیریوں کی مدد کرنا ہمارا اوّلین فرض ہے۔ اس مقصد کے حصول میں ہم کو شدید ترین آزمائشوں اور قربانیوں کیلئے اپنے آپ کو تیار رکھنا چاہئے۔‘‘ (انجمن تاجران‘ کراچی سے خطاب‘ دسمبر 1948ئ) ۔
کشمیرتقسیم ہند کا ایسا حل طلب مسئلہ ہے‘جو بھارتی حکومت کی ہٹ دھرمی و ظلم و ناانصافی کے باعث تاحال حل نہیں کیا جا سکا۔ کشمیری مسلمانوں نے آزادیٔ کشمیر اور اپنے حق خود ارادیت کے حصول کے لیے قربانیوں کی لازوال تاریخ رقم کی ہے۔ 1946ء میں قائد اعظم نے مسلم کانفرنس کی دعوت پر سرینگر کا دورہ کیا جہاں قائد کی دور اندیش نگاہوں نے سیاسی‘ دفاعی‘ اقتصادی اور جغرافیائی حقائق کو سامنے رکھتے ہوئے کشمیر کو پاکستان کی’’شہ رگ‘‘ قرار دیاتھا۔ مسلم کانفرنس نے بھی کشمیری مسلمانوں کی نمائندگی کرتے ہوئے 19 جولائی1947ء کو سردار ابراہیم خان کے گھر سری نگر میں باقاعدہ طورپر ’’قرار داد الحاق پاکستان‘‘منظور کی۔ کشمیریوں کے فیصلے کو جب نظر انداز کیا گیا اور بھارت نے بزور طاقت کشمیر پر قبضہ کی کوشش کی توکشمیریوں نے مسلح جدوجہد کا آغاز کیا۔ 15 ماہ کے مسلسل جہاد کے بعد موجودہ آزاد کشمیر آزاد ہوا‘قریب تھا کہ مجاہدین سرینگر پہنچ جاتے کہ جواہر لعل نہرو اقوام متحدہ پہنچ گئے اور بین الاقوامی برادری سے وعدہ کیا کہ وہ ریاست میں رائے شماری کے ذریعے ریاست کے مستقبل کا فیصلہ مقامی عوام کی خواہشات کے مطابق کریں گے لیکن یہ وعدہ وفا نہ ہو سکا۔ 1989ء میں جب کشمیری حریت پسندوں نے ہندوستان کی ہٹ دھرمی اور اقوام متحدہ کی بے حسی سے مجبور ہوکر عسکری جدوجہد کا فیصلہ کیا تو کسی کے وہم وگمان میں بھی نہیں تھا کہ آنے والے برسوں میں کشمیری عوام اس طرح ان کے ساتھ کھڑے ہوں گے کہ ہندوستان نواز سیاسی قوتوں کو اپنا وجود برقرار رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔شیخ عبداللہ جس نے کشمیریوں کے دلوں پر برسوں حکومت کی اور ’’شیر کشمیر ‘‘ کا لقب پایا۔ وہی شیخ عبداللہ ’’اندرا عبداللہ معاہدہ ‘‘ کے بعد’’غدار کشمیر‘‘ قرار پایا۔دہلی کی تہاڑ جیل میں ’’شہید کشمیر‘‘ مقبول بٹ نے اپنے خون سے جس انقلاب کی بنیاد رکھی‘ اسے کشمیری حریت پسندوں نے اپنے خون سے آج تک جاری رکھا ہوا ہے۔
پانچ فروری کا دن کشمیریوں کی جدوجہد آزادی میں بڑی اہمیت کا حامل ہے ۔ 5فروری کو یوم یکجہتی کے طور پر منانے کا آغاز 1990ء کو ہوا جب امیر جماعت اسلامی پاکستان قاضی حسین احمد کی اپیل پر اس وقت کے اپوزیشن لیڈر اور وزیراعلیٰ پنجاب میاں محمد نوازشریف نے اخبارات میں اشتہارات کے ذریعے اپیل کی کہ جموں وکشمیر کے عوام کے ساتھ مکمل اظہار یکجہتی کیا جائے۔ ان کی اپیل پر پورے پاکستان میں 5 فروری 1990ء کو کشمیریوں کے ساتھ بھرپور یکجہتی کا مظاہرہ کیا گیا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت نے بھی 5 فروری کو عام تعطیل کا اعلان کر کے کشمیریوں کے ساتھ نہ صرف یکجہتی کا مظاہرہ کیا بلکہ وزیراعظم بے نظیر بھٹو آزاد کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد گئیں جہاں انہوں نے اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس کے علاوہ جلسہ عام سے خطاب کے دوران کشمیریوں کو ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا اور مہاجرین کشمیر کی آباد کاری کا وعدہ کیا۔ تب سے اس دن کو ہرسال سرکاری طور پر منایا جاتا ہے۔
یہ بات ناقابلِ فہم ہے کہ بھارت 1947ء سے لے کر اب تک وطنِ عزیز کو ایک تسلسل کے ساتھ عدم استحکام کا شکار کرتا چلاآ رہا ہے مگر پھر بھی ہمارے ہاں کچھ لوگ نام نہادزمینی حقائق اور نئے زمانے کے خودساختہ نئے تقاضوں کی بنیاد پر اس سے اچھی امیدیںوابستہ کئے بیٹھے ہیں۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ اسلام دشمن عالمی طاقتوں اور بھارت کے مفادات میں ہم آہنگی پیدا ہوچکی ہے لہٰذا اقوام متحدہ کی قرار دادوں اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزیوں کے باوجودبھارت کو ہر ممکن طریقے سے نوازا جارہا ہے۔ بھارت کے غاصبانہ قبضے کے خلاف برسرپیکار کشمیری چونکہ ’’مسلمان‘‘ ہیں‘ اس لئے عالمی طاقتیں ان پر ڈھائے جانے والے مظالم سے مجرمانہ چشم پوشی کئے ہوئے ہیں۔ یہ بات تو طے ہے کہ آج کل کی بین الاقوامی سیاست اخلاقیات‘ قانون اور حق پرستی پر مبنی ہونے کی بجائے مفادات پر مبنی ہے‘ لہٰذا یہ توقع رکھنا کہ عالمی برادری بھارتی حکومت کو کشمیریوں کو ان کا حقِ خودارادیت دینے پر مجبور کردے گی‘ محض خوش فہمی ہے۔ لفظی ہمدردیوں سے نہ تو کشمیری عوام کے زخموں پر مرہم رکھا جاسکتا ہے اور نہ ہی بھارتی مظالم کا کوئی مداوا ہوسکتا ہے۔پاکستان کو مسئلہ کشمیر کے حل کی خاطر اپنے زورِ بازو پر انحصار کرنا ہو گا تاکہ پاکستان کی شہ رگ عالمی طاقتوں کی سازشوں کا نشانہ بننے سے محفوظ رہے۔
.ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ: کشمیریوں کے پاکستان کی کے ساتھ تھا کہ
پڑھیں:
بھارت کے انتہا پسندوں نے ملک میں موجود کشمیری طلبا کی زندگی اجیرن کردی
مقبوضہ کشمیر کے طلبا کا کہنا ہے ہمالیہ کے علاقے میں پہلگام حملے کے بعد سے انہیں بھارت میں ہراساں کیا جا رہا ہے۔
یاد رہے کہ منگل کو پہلگام کے سیاحتی مقام پر مسلح افراد نے 26 مردوں کو ہلاک کر دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پانی روکنے کا فیصلہ اعلان جنگ تصور کیا جائے گا، قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ جاری
جموں و کشمیر اسٹوڈنٹس ایسوسی ایشن کے کنوینر ناصر کھوہامی نے کہا ہے کہ اترکھنڈ، اتر پردیش اور ہماچل پردیش سمیت ریاستوں میں کشمیری طلبا کو مبینہ طور پر بدھ کو اپنے کرائے کے اپارٹمنٹس یا یونیورسٹی کے ہاسٹل چھوڑنے کو کہا گیا ہے۔
ناصر نے کہا کہ ہماچل پردیش کی ایک یونیورسٹی کے طلبا کو ہاسٹل کے دروازے توڑنے کے بعد ہراساں کیا گیا اور اس پر جسمانی تشدد بھی کیا گیا۔
انہوں نے کہا کہ طلبا کو مبینہ طور پر دہشتگرد کہا جاتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ صرف سیکیورٹی کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک مخصوص علاقے اور شناخت سے تعلق رکھنے والے طلبا کے خلاف نفرت اور انہیں ہدف بنانے کی مہم ہے۔
اترکھنڈ کی راجدھانی دھیرادون میں دائیں بازو کے ایک گروپ ہندو رکھشا دل کی وارننگ کے بعد بدھ کے روز تقریباً 20 طلبا ہوائی اڈے کا رخ کرنا پڑا تھا۔
مزید پڑھیے: سندھ طاس معاہدہ کیا ہے، کیا بھارت پاکستان کا پانی روک سکتا ہے؟
طلبا کا کہنا تھا کہ گروپ نے کشمیری مسلم طلبا کو دھمکی دی کہ اگر انہوں نے فوری طور پر شہر نہیں چھوڑا تو انہیں سنگین نتائج بھگتنے ہوں گے۔
دریں اثنا مقبوضہ کشمیر کے وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ کا کہنا ہے کہ وہ طلبا کی حفاظت کے حوالے سے ریاستی حکومتوں کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ انہوں نے طلبا کو مشورہ دیا کہ وہ احتیاط برتیں۔
مقبوضہ کشمیر کی سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے بھی ہندوستان کے وزیر داخلہ امیت شاہ سے اپیل کی ہے کہ وہ تاجروں اور طلبا کو کھلے عام دھمکیاں دیے جانے والے معاملے کا نوٹس لیں۔
دریں اثنا بھارتی سکیورٹی فورسز نے حملہ آوروں کے لیے مقبوضہ کشمیر میں ایک وسیع تلاش کا سلسلہ شروع کر دیا ہے۔ اس دوران بڑی تعداد میں لوگوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
مزید پڑھیں: پہلگام حملہ بھارتی ایجنسیوں کی کارروائی ہے، سید صلاح الدین احمد
پہلگام حملے پر ہندوستان نے پاکستان پر سرحد پار دہشتگردی کا الزام عائد کیا ہے تاہم پاکستان نے اس واقعے میں اپنے کسی بھی قسم کے کردار سے انکار کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بھارت بھارت میں کشمیری طلبا کشمیری طلبا محبوبہ مفتی وزیراعلیٰ عمر عبداللہ