سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے شرح سود کے اعلان میں گورنر اسٹیٹ بینک جمیل احمد نے بتایا کہ پہلی سہ ماہی میں زرعی نمو کم رہی اوراس سال کی پہلی سہ ماہی میں ایک فیصد، گزشتہ مالی سال اس عرصے میں 8 فیصد رہی تھی۔ دیکھا جائے تو پاکستان کا اقتصادی منظرنامہ حالیہ برسوں میں اہم تبدیلیوں سے گزر رہا ہے ۔ لیکن پاکستان کی معیشت میں بہتری کے آثار نمایاں ہونے لگے ہیں،ملکی برآمدات بھی بڑھ رہی ہیں۔مرکزی بینک کے مطابق مشرق وسطیٰ کے ممالک کو رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران برآمدات میں مجموعی طور پر 17.
98 فیصد کا اضافہ ہوا، رواں مالی سال کے جولائی تا دسمبر 2024ء کے دوران مشرق وسطیٰ کو ہونے والی برآمدات کا حجم 1.597 ارب ڈالر تک بڑھ گیا جبکہ گزشتہ مالی سال میں جولائی تا دسمبر 2023ء کے دوران برآمدات کی مالیت 1.506 ارب ڈالر رہی تھی۔ گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں رواں مالی سال کے پہلے 6 ماہ کے دوران مشرق وسطیٰ کے ممالک کو برآمدات میں 0.091 ارب ڈالر یعنی 18 فیصد کااضافہ ریکارڈ کیا گیا ۔برآمدات کے حوالے سے دیکھا جائے تو رواں مالی سال کی پہلی ششماہی کے دوران سعودی عرب کو برآمدات 10.88 فیصد کے اضافہ ہوا۔ گزشتہ مالی سال کے دوران مشرق وسطیٰ کو برآمدات میں 35.23 فیصد کی بڑھی ہیں جن سے3.155 ارب ڈالرزرمبادلہ حاصل ہوا جبکہ اس سے پہلے یہ 2.33 ارب ڈالر تھا۔ یو اے ای میں بھی برآمدات میں 41.15 فیصد کی شرح نمو ریکارڈ کی گئی ۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے معاشی ترقی کی رفتار بڑھانے کیلئے اور مہنگائی کو کم کرنے کے لیے اپنی پالیسی شرح میں نمایاں کمی کی ہے۔ مرکزی بینک نے گزشتہ ہفتے 100 بیسس پوائنٹس کی کمی کرکے شرح سود 12فیصد تک پہنچ گئی۔ یہ جون 2024ء سے مسلسل چھٹی کمی ہے، جب سے مہنگائی میں کمی آنا شروع ہوئی۔دسمبر 2024ء میں پاکستان میں مہنگائی کی شرح 4.1فیصد ریکارڈ کی گئی، جو گزشتہ چھ سالوں میں سب سے کم ہے۔ ماہرین اقتصادیات کا کہنا ہے کہ اگر مہنگائی قابو میں رہی تو اگلے چند مہینوں میں شرح سود میں مزیدکمی کی توقع کی جا سکتی ہے۔تاہم صنعتکاربرادری کے مطالبات تھے کہ شرح سود کو4سے5فیصد تک کم کرکے سنگل ڈیجٹ تک لایا جائے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ کم شرح سود قرضہ لینے اور سرمایہ کاری کو فروغ دیتی ہے، جس سے رئیل سٹیٹ، مینوفیکچرنگ اور چھوٹے کاروباروں جیسے شعبوں میں اضافہ ممکن ہے۔ اس وقت رئیل سٹیٹ کا شعبہ شدید ترین دبائو میں ہے اور ملک بھر میں جائیداد کی قیمتیں بہت حد تک کم ہوئی ہیں لیکن قیمتیں گھٹ جانے کے باوجود زمینوں،مکانوں اور فلیٹوں کے خریدار توقعات سے بہت کم ہیں۔ اسپیشل انویسٹمنٹ فسیلیٹیشن کونسل (ایس آئی ایف سی)، جس کی مشترکہ صدارت آرمی چیف عاصم منیر کر رہے ہیں، نے زراعت، سیاحت اور قدرتی وسائل جیسے اہم شعبوں کی نگرانی شروع کر دی ہے۔اور بزنس کمیونٹی نے برملا اظہار کیا ہے کہ فوج کی مداخلت نے نہ صرف بیوروکریسی کی پیچیدگیوں کو کم کیا ہے بلکہ حکومت کے ایسے کام جو ملک کیلئے نقصان کا باعث ہیں انکی بھی روک تھام ہوئی ہے جبکہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو راغب کیا گیاہے ۔گوادر، جو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کا ایک اہم جزو ہے، ایک انقلابی منصوبہ تھا جو پاکستان کو علاقائی تجارتی مرکز میں تبدیل کرنے کی توقعات پر تھا۔ شہر کی اسٹریٹجک لوکیشن اور ڈیپ سی پورٹ نے یہ امیدیں پیدا کیں کہ یہ غیر ملکی سرمایہ کاری کو متوجہ کرے گا اور پاکستان کو عالمی مارکیٹوں سے جوڑے گا۔ تاہم، گوادر کی ترقی کو سکیورٹی خدشات، مقامی خلفشار اور حکومتی مسائل نے متاثر کیا ہے۔اگرچہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی جیسے نیا ایئرپورٹ اور پورٹ کی توسیع کی گئی ہیں، شہر اپنی مکمل صلاحیت کو حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے۔ مقامی کمیونٹیز نے اس بات پر ناراضگی کا اظہار کیا ہے کہ انہیں اقتصادی فوائد نہیں پہنچ رہے، پاکستانی حکومت اور اس کے چینی شراکت داروں کو ان شکایات کو حل کرنا ہوگا تاکہ اس منصوبے کے وعدے کو پورا کیا جا سکے۔ پاکستان کے لیے پائیدار اقتصادی ترقی حاصل کرنے کے لیے پالیسی سازوں کو ساختی اصلاحات، کاروبار کرنے کی آسانی کو بہتر بنانے اور مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاری کے لیے سازگار ماحول پیدا کرنے پر توجہ مرکوز کرنی ہوگی۔ ان اہم مسائل کو حل کر کے پاکستان ایک زیادہ مستحکم اور خوشحال اقتصادی مستقبل کی طرف گامزن ہو سکتا ہے۔بہرحال جوں جوں وقت گزر رہا ہے ملک کے معاشی حالات سدھرنے لگے ہیں،یقیناً اس میں نمایاں کردار میاں شہباز شریف حکومت کا ہے لیکن پچھلے دنوں بزنس کمیونٹی کی آرمی چیف جنرل عاصم منیرسے ملاقات انتہائی مفید رہی کیونکہ کراچی کی بزنس کمیونٹی نے آرمی چیف کے سامنے شکایتوں کے انبار لگا دیئے اور ان شکایتوں کے نتیجے میں پہلے میئرکراچی مرتضیٰ وہاب اور وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ اوربعد ازاں چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے کراچی کی بزنس کمیونٹی کو آڑے ہاتھوں لیا اور بلاول بھٹو نے تو یہ تک کہہ دیاکہ چغلی اور شکایات نہ کریں بلکہ جوکام ہے وہ ہمیں براہ راست بتائیں۔حیرت تو یہ ہے کہ شکایتوں کے پلندے باندھنے والے صنعتکار بلاولسے یہ نہ کہہ سکے کہ کراچی کو سندھ حکومت نے لاڑکانہ جیسا پیرس بنادیا ہے لیکن ایسا پیرس نہیں بلکہ پرانا کراچی چاہئے۔ بلاول بھٹو زرداری کے کہنے پر وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بزنس کمیونٹی کی اعلیٰ شخصیات اور نمائندوں سے مشاورت کرنے لگے ہیں اورانہوںنے چیئرمین پی پی پی بلاول بھٹو زرداری کی ہدایت پر کاروباری سہولت کاری کوآرڈینیشن کمیٹی کا اجلاس طلب کیا تاکہ صنعتی افراد کی شکایات کو دور کیا جا سکے اور ان کے مسائل پر بات چیت کی جا سکے اور باہمی رضامندی سے ان کے حل تلاش کیے جا سکیں۔ کاروباری برادری کے نمائندوں میں معروف سرمایہ کار عارف حبیب،ایف پی سی سی آئی کے صدر عاطف اکرام شیخ،چیئرمین ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈیولپرز(آباد) حسن بخشی، پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبر قومی اسمبلی مرزا اختیار بیگ، صدر کے سی سی آئی جاوید بلوانی،صدر نکاٹی فیصل معیز خان، زبیر موتی والا، اور پاکستان بزنس کونسل کے چیئرمین شبیر دیوان شامل سائٹ ایسوسی ایشن کے صدر احمد عظیم علوی، کاٹی کے صدر جنید نقی،اپٹماکے چیئرمین انور عظیم، اور دیگر افراد نے بھی اجلاس میں شرکت کی۔صنعتکاروں نے بجلی کی عدم استحکام، پانی کی کمی، اور گیس کی فراہمی کے مسائل پر تشویش کا اظہار کیا اور کہا کہ ان مسائل کے حل کے بغیر صنعتی پیداوار میں اضافہ ممکن نہیں۔ وزیراعلیٰ نے انہیں یقین دلایا کہ توانائی کے محکمے کے ذریعے کے-الیکٹرک سے بات کی جائے گی ۔سوال یہ ہے کہ وزارت توانائی اس سے قبل کئی بار کے الیکٹرک سے بات کرچکی ہے لیکن کے الیکٹرک کے کانوں پر جون نہیں رینگتی ۔ وزیراعلیٰ مراد علی شاہ نے مختلف کمیٹیاں بنائیں جن میں پانی، نکاسی آب، اور تجاوزات کے مسائل کے حل کیلئے کمشنر آفس ڈیسک سمیت وزیراعلیٰ نے متعدد اہم کمیٹیاں تشکیل دے ڈالیں اور ان کمیٹیوں کے اجلاس ہوتے رہیں گے۔مسئلے کب حل ہونگے اس بارے میں کسی کو یقین نہیں دلایا گیا۔لیکن دیکھا جائے تو سندھ کے وزیراعلیٰ سید مراد علی شاہ ماضی میں نہ صرف صنعتی علاقوں کی حالت زار بہتر بناتے آئے ہیں اور وفاق کی جانب سے صنعتی علاقوں کو وعدے کے باوجود میچنگ گرانٹ نہ دیئے جانے پر بھی مراد علی شاہ نے صنعتی علاقوں کو گرانٹ کی فراہمی جاری رکھی۔لیکن اگر سید مراد علی شاہ کو سابق وزیراعلیٰ قائم علی شاہ کا ریکارڈ توڑنا ہے تو پھر انہیں کمیٹیوں کے اجلاس،پھر اجلاس اور ایک اور اجلاس کے بجائے عملاً کام کرنا ہوگا اور کراچی کی ابتر حالت کو درست بنا کر ایک بار پھر نہ صرف مقامی سرمایہ کاروں بلکہ غیرملکی سرمایہ کاروں کو کراچی میں سرمایہ کاری کی جانب راغب کرنا ہوگا اور اگر ایسا نہ ہوا تو بزنس کمیونٹی دوبارہ آرمی چیف سے شکایت کرنے میں حق بجانب ہوگی۔
ذریعہ: Nai Baat
کلیدی لفظ:
سید مراد علی شاہ
رواں مالی سال
بزنس کمیونٹی
برا مدات میں
ملکی سرمایہ
سرمایہ کاری
مالی سال کے
بلاول بھٹو
ا رمی چیف
ارب ڈالر
کے دوران
کاری کو
کیا ہے
کے لیے
پڑھیں:
وزیراعظم کی یقین دہانی پر شکر گزار ہوں، بلاول بھٹو
چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) بلاول بھٹو زرداری نے دریائے سندھ سے نئی نہریں نکالنے کے حکومتی منصوبے پر تحفظات سننے پر وزیراعظم شہباز شریف کا شکریہ ادا کیا ہے۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنے بیان میں چیئرمین پی پی کا کہنا تھا کہ حکومت کی یہ یقین دہانی خوش آئند ہے کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی منظوری اور تمام صوبوں کے درمیان اتفاق رائے کے بغیر کوئی نئی نہر تعمیر نہیں کی جائے گی۔

جب تک مشترکہ مفادات کونسل میں باہمی رضامندی سے
فیصلہ نہیں ہوتا مزید نہر نہیں بنائی جائے گی، وزیراعظم
وفاقی حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ نہروں کے معاملے پر مزید پیشرفت صوبوں کے اتفاق رائے کے بغیر نہیں ہوگی، وزیراعظم
انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نے 2 مئی کو سی سی آئی کا اجلاس بلانے کا وعدہ بھی کیا ہے تاکہ اس پالیسی کو باقاعدہ اختیار کیا جاسکے اور کسی بھی متنازعہ تجویز کو تاحال متعلقہ وزارت کو واپس بھیج دیا جائے گا جب تک صوبوں میں اتفاق رائے نہ ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ فیصلہ ناصرف آئینی اصولوں کے مطابق ہے بلکہ صوبوں کے درمیان ہم آہنگی اور اتحاد کو بھی فروغ دیتا ہے۔