کیا پاکستانی کھلاڑی ایک بار پھرآئی پی ایل میں ایکشن میں نظر آئینگے؟بھارتی بورڈ کا بیان سامنے آگیا
اشاعت کی تاریخ: 5th, February 2025 GMT
2008 میں منعقد ہونے والے انڈین پریمیئر لیگ (آئی پی ایل) کے افتتاحی ایڈیشن کے بعد سے پاکستان کا کوئی کرکٹر آئی پی ایل کا حصہ نہیں بن سکا ہےاور جب جب پاکستان بھارت کرکٹ کے حوالے سے کوئی بات ہوتی ہے وہاں یہ تذکرہ لازمی کیا جاتا ہے۔
حال ہی میں ایک انٹرویو میں بی سی سی آئی کے نائب صدر راجیو شکلا سے پوچھا گیا کہ کیا دنیا آئی پی ایل میں دوبارہ پاکستانی کھلاڑیوں کو دیکھ سکے گی۔
جس کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پاکستانی کمنٹیٹر ز اور امپائرز کو بی سی سی آئی نے انڈین پریمیئر لیگ میں شامل رکھا ہے۔ جہاں تک کھلاڑیوں کی بات ہے اس کا انحصار فرنچائزز پر ہے۔ بی سی سی آئی بھی ان کو آکشن میں شامل نہیں کرتی اور فرنچائزان کھلاڑیوں کا انتخاب نہیں کرتی۔
ایک اور سوال میں ان سے پوچھا گیا کہ کیا کوئی فرنچائز پاکستانی کھلاڑیوں کی آئی پی ایل میں شمولیت کے حوالے سے بات کرتی ہے؟۔
جس کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ کچھ فرنچائزز ہیں جو پاکستانی کھلاڑیوں کی شمولیت کے متعلق بات کرتی ہیں، لیکن اس وقت معاملات تھوڑے مشکل ہیں۔
واضح رہے پاکستانی کھلاڑیوں پر 2009 سے عائد پابندی کے باوجود سابق پاکستانی کرکٹر آئی پی ایل کا حصہ رہے ہیں۔ وسیم اکرم کلکتہ نائٹ رائیڈر 2010-2016 تک بولنگ کوچ اور رمیز راجہ 2014 تک بطور کمنٹیٹر فرائض انجام دے چکے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: پاکستانی کھلاڑیوں ا ئی پی ایل
پڑھیں:
"ادے پور فائلز" مسلمانوں کو دہشتگرد کے طور پر پیش کرتی ہے، مولانا ارشد مدنی
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جسکے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔ اسلام ٹائمز۔ جمعیۃ علماء ہند کے صدر مولانا ارشد مدنی نے فلم "ادے پور فائلز" کے خلاف سپریم کورٹ آف انڈیا میں ایک تفصیلی حلف نامہ داخل کیا ہے، جس میں انہوں نے الزام لگایا ہے کہ فلم ہندوستانی مسلمانوں کو دہشت گردوں کے ہمدرد اور ملک دشمن قوتوں کے آلہ کار کے طور پر پیش کرتی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ فلم نہ صرف مسلمانوں کی شبیہ کو خراب کرتی ہے بلکہ ملک میں فرقہ وارانہ نفرت کو بڑھاوا دینے کا ذریعہ بن سکتی ہے۔ مولانا ارشد مدنی کے مطابق فلم میں جان بوجھ کر ایسا بیانیہ تخلیق کیا گیا ہے جو ہندوستانی مسلمانوں کو پاکستان کے دہشتگردوں کے ساتھ ہمدردی رکھنے والا دکھاتا ہے، جو سراسر غلط، گمراہ کن اور سماجی ہم آہنگی کے لئے خطرہ ہے۔
مولانا ارشد مدنی نے کہا کہ اس فلم کے مندرجات میں تعصب اور نفرت چھپی ہوئی ہے، جو ایک مخصوص مذہب کے ماننے والوں کو نشانہ بناتی ہے۔ انہوں نے اپنے حلف نامے میں وزارتِ اطلاعات و نشریات کی اسکریننگ کمیٹی کی رپورٹ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا، جس نے فلم میں صرف چھ معمولی ترامیم کی سفارش کی تھی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ تبدیلیاں بالکل ناکافی ہیں اور کمیٹی نے ان کی جانب سے اٹھائے گئے سنجیدہ اعتراضات کو نظرانداز کیا۔ مولانا ارشد مدنی نے اس بات پر اعتراض کیا کہ اسی سینسر بورڈ کے ارکان کو اسکریننگ کمیٹی میں شامل کیا گیا جس کے سرٹیفکیٹ کو جمعیۃ علماء ہند نے عدالت میں چیلنج کیا ہے، جو کہ مفادات کے ٹکراؤ کی مثال ہے۔
جمعیۃ علماء ہند کے صدر نے سپریم کورٹ سے مطالبہ کیا کہ فلم کی ایک نجی اسکریننگ کرائی جائے تاکہ معزز جج صاحبان خود اس کے مواد اور مقصد کا اندازہ لگا سکیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس فلم کی ریلیز ملک کے پُرامن ماحول کے لئے نقصاندہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ اس سے قبل 10 جولائی کو دہلی ہائی کورٹ نے اس فلم پر عبوری پابندی عائد کی تھی، جسے فلم سازوں نے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا۔ 16 جولائی کو عدالت عظمیٰ نے پابندی ہٹانے سے انکار کرتے ہوئے کہا تھا کہ مذہبی منافرت کے خدشے کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا اور مرکز کی اسکریننگ کمیٹی کو اعتراضات پر فوری غور کرنا چاہیئے۔