بھٹو کو آئین بنانے اور آصف زرداری، بلاول کو اس کا حلیہ بگاڑنے کے لیے یاد رکھا جائے گا، شاہ محمود
اشاعت کی تاریخ: 6th, February 2025 GMT
پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی نے اپنی سابقہ جماعت پیپلز پارٹی پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو 73 کا آئین بنانے پر یاد رکھا جاتا ہے تو اسی طرح آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو آئین کا حلیہ بگاڑنے پر یاد رکھا جائے گا۔
شاہ محمود قریشی نے اڈیالہ جیل میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں اصلاحات کے لیے قومی اتفاق رائے کی ضرورت ہے کوئی انفرادی شخص چیلنجز سے نمٹنے کے صلاحیت نہیں رکھتا، موجودہ قیادت ٹھنڈے دل اور دماغ سے ملک کا سوچے، نفرت مٹانے اور خلیج کم کرنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ درگزر کرنے کی ضرورت ہے ہمیں آگے بڑھنا ہو گا، پہلے لوگوں نے اس ملک کو ٹوٹتے دیکھا اب ملک ڈوب رہا ہے، اس وقت قومی ایجنڈے کی ضرورت ہے ایک بڑا قومی معاہدہ ہونا چاہیئے۔
انہوں نے کہا کہ جس کے زریعے تمام جماعتیں ایک آزادانہ اور خود مختار الیکشن کمیشن پر اتفاق کریں، وہ الیکشن کمیشن جس میں ازادانہ اور خود مختار الیکشن کروانے کی صلاحیت بھی ہو، ازاد اور خود مختار الیکشن کمیشن سے کسی کو نقصان نہیں ہو سکتا، آج اگر کوئی الیکشن ہارتا ہے تو ائندہ وہ جیت بھی سکتا ہے، خود مختار عدلیہ اور خود مختار میڈیا سے کسی کو کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اس وقت کیڑے تو ہزاروں نکالے جا سکتے ہیں مگر یہ وقت ہے کہ ہمیں مثبت چیزوں کی جانب دیکھنا ہوگا، ذوالفقار علی بھٹو کو 73 کا ائین بنانے پر یاد رکھا جاتا ہے تو اسی طرح اصف علی زرداری اور بلاول بھٹو کو ائین کا حلیہ بگاڑنے کے طور پر یاد رکھا جائے گا۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے مل کر جتنا جمہوریت کو نقصان پہنچایا سویلین دور میں اتنا نقصان کبھی کسی نے نہیں پہنچایا، ان کو سمجھ نہیں آرہی کہ ان کے اقدامات سے کیسے جمہوریت کا نقصان ہو رہا ہے، انھوں نے پیکا ترمیم کرکے ملک میں آزادی اظہار رائے کا گلا گھونٹ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان مشکل وقت سے گزر رہا ہے سب کو اپنی جماعت اور ذات سے بالاتر ہو کر سوچنا چاہیے، لوگوں کو بلا وجہ ڈرمپ سے توقعات نہیں باندھنی چاہیے، ہمیں رہائی اپنے موقف اور مقدمات کی پیروی سے مل سکتی ہے، اپنی قبر کی گواہی دے کر کہتا ہوں کہ میں نو مئی کے مقدمے میں بے قصور ہو۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ میں موقع پر موجود نہیں تھا نہ ایف ائی ار میں تھا، ایف ائی ار میں ایک سال کے بعد مجھے ڈالا گیا، مجھ پر سازش اور منصوبہ بندی کا الزام ہے قران پر ہاتھ رکھ کر کہتا ہوں کہ میں نے سازش نہیں کی۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان حلفیہ کہہ دیں کہ میرا 9 مئی پر ان سے کوئی تبادلہ خیال ہوا تو میں سزا کے لیے تیار ہوں، میں نے اپنے ویڈیو پیغام میں کہا تھا کہ باہر نکلیں اور اظہار یکجہتی کریں مگر قانون کو ہاتھ میں مت لیں، میں نے دو سال سے بے گناہ قید کاٹی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان سے کہا ہے کہ بنی گالہ کی انر کور میں میرے علاوہ کون تمہارے ساتھ کھڑا ہوا ہے، عمران خان میری یہ بات سن کر خاموش رہے۔
پی ٹی آئی کے سینئر رہنما نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی ایک قد کاٹھ والا سیاست دان ہے مگر وہ تیمور ملک سے الیکشن ہارا ہے، یوسف گیلانی جب جیل میں تھے تو ان کے پاس موبائل ہوتا تھا، میں قید تنہائی کاٹ رہا ہوں۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ اعجاز چوہدری کے پروڈکشن ارڈر جاری کرنے پر یوسف رضا گیلانی کا شکر گزار ہوں، ماضی میں سب سے غلطیاں ہوئیں لیکن ہم اس سے باہر کب نکلیں گے، لوگوں کی بے چینی اور تشویش حال اور مستقبل کی ہے، فلسطین کے دو ریاستی حل پر سب جماعتوں کا اتفاق ہے، فلسطین اور کشمیر پر جو موقف ہے اس پر قائم رہنا چاہیے، فلسطین میں جو ہو رہا ہے وہ دیکھا نہیں جاتا۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان کی بجائے انسان بن کر بھی دیکھیں تو یہ قابل برداشت نہیں، عمران خان کے ارمی چیف کو لکھے گئے خط کے بارے میں سنا ہے، یہ خط دیکھا نہیں، نیت کو دیکھا جانا چاہیے اگر نیت معاملات کو سلجھانے کی ہے تو اس کو مثبت لیا جانا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان چاہتے ہیں کہ معاملات سلجھیں، سوچنا ہوگا کہ ہم اس دلدل سے کیسے نکلیں، ہم دلدل میں دھنستے چلے جا رہے ہیں، اس وقت اگر کوئی معقول بات کرتا ہے تو اس کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان نے خط میں وجوہات اور تجاویز بیان کی ہیں اس کو مثبت انداز میں دیکھا جائے، عمران خان کا خط پاکستان کے مسائل کے حوالے سے ہے، تہیہ کیا ہے کہ عمران خان کو صحیح مشورہ دوں گا چاہے وہ پسند کرے یا نہ کرے، ہمیں ایمانداری سے راستہ نکالنا ہوگا گھر ہمارا جل رہا ہے درد بھی ہمیں ہونا چاہیے۔
شاہ محمود قریشی نے کہا کہ عمران خان نے مذاکراتی کمیٹی بنا کر سیاسی جماعتوں سے بات چیت کرنے کی لچک دکھائی مگر نتیجہ کیا نکلا مذاکراتی کمیٹی کی ملاقات ہی نہیں کروائی گئی۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شاہ محمود قریشی نے کہا کہ ان کا کہنا تھا کہ اور خود مختار کہ عمران خان پر یاد رکھا کی ضرورت ہے ہے تو اس بھٹو کو رہا ہے
پڑھیں:
بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نو رکنی اعلی سطحی وفد لندن پہنچ گیا.
سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں نو رکنی اعلی سطحی وفد واشنگٹن اور نیویارک کے کامیاب دورے مکمل کرنے کے بعد لندن پہنچ گیا ہے۔ وفد کو وزیر اعظم شہباز شریف نے بھارت کے ساتھ حالیہ گشیدگی پر پاکستان کا موقف پیش کرنے اور جموں و کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں اور کشمیری عوام کی امنگوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت کو اجاگر کرنے کے لیے مقرر کیا ہے۔ وفد کے دیگر ارکان میں وزیر برائے موسمیاتی تبدیلی ڈاکٹر مصدق مسعود ملک؛ چیئرپرسن، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے موسمیاتی تبدیلی اور سابق وزیر برائے اطلاعات و موسمیاتی تبدیلی، سینیٹر شیری رحمان؛ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خارجہ امور کی چیئرپرسن اور سابق وزیر خارجہ حنا ربانی کھر۔ سابق وزیر تجارت، دفاع اور خارجہ امور، انجینئر خرم دستگیر خان؛ سینیٹ میں ایم کیو ایم کے پارلیمانی لیڈر و سابق وزیر برائے سمندری امور، سینیٹر سید فیصل علی سبزواری؛ اور سینیٹر بشری انجم بٹ شامل ہیں۔وفدمیں دو سابق سیکرٹری خارجہ، سفیر جلیل عباس جیلانی، جو نگراں وزیر خارجہ کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہیں، اور سفیر تہمینہ جنجوعہ بھی شامل ہیں۔ لندن میں وفد برطانیہ کی پارلیمنٹ کی سینئر قیادت سے ملاقاتیں کرے گا جس میں پاکستان اور جموں و کشمیر پر آل پارٹیز پارلیمانی گروپ کے ساتھ ملاقاتیں بھی شامل ہیں۔ وفد فارن، کامن ویلتھ اینڈ ڈیولپمنٹ آفس (FCDO) کی لیڈرشپ و سینئر حکام سے بھی ملاقات کریں گے۔ وفد کے ارکان علاقائی امن کے لیے پاکستان کی کوششوں کو اجاگر کرنے کے لیے سرکردہ تھنک ٹینکس اور بین الاقوامی میڈیا کے ساتھ بھی وسیع پیمانے پر بات کریں گے۔ اپنے دورے کے دوران، وفد بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارت کے جارحانہ اقدامات کے پیش نظر پاکستان کے ذمہ دارانہ طرز عمل کو اجاگر کرے گا وفد باور کرائے گا کے پاکستان امن کا خواہاں ہے۔ وہ اس بات پر بھی روشنی ڈالیں گے کہ مذاکرات اور سفارت کاری کو تنازعات اور تصادم پر ترجیح دی جانی چاہیے۔ وفد جنوبی ایشیا میں پائیدار امن کے فروغ کے لیے بین الاقوامی برادری پر اپنا بھرپور کردار ادا کرنے کی ضرورت پر زور دے گا۔ سندھ طاس معاہدے کی معمول کے مطابق کارروائی کو بحال کرنے کی ضرورت بھی وفد کے مہم کا ایک اہم موضوع ہوگا۔