بلاول نے امریکی دعائیہ تقریب میں اسلام کا حقیقی پیغام احسن طریقے سے پیش کیا: تحسین عابدی
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
ترجمان سندھ حکومت سیدہ تحسین عابدی---فائل فوٹو
ترجمان سندھ حکومت سیدہ تحسین عابدی نے کہا ہے کہ چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے امریکی دعائیہ تقریب میں اسلام کا حقیقی پیغام احسن طریقے سے پیش کیا۔
انہوں نے بلاول بھٹو کی واشنگٹن میں قومی دعائیہ ناشتے کی تقریب میں شرکت پر اپنے بیان میں کہا ہے کہ بلاول نے مؤثر سفارت کاری کی اور پاکستان کے مثبت تشخص کو اجاگر کیا، اپنی والدہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی روایت کو برقرار رکھا۔
سیدہ تحسین عابدی کا کہنا ہے کہ بلاول بھٹو نے ثابت کیا کہ وہ پاکستان کو مشکلات سے نکالیں گے۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دعائیہ ناشتے کی تقریب میں شرکت کی۔
انہوں نے مزید کہا کہ نوجوان لیڈر بلاول بھٹو زرداری کی تقریر کو عالمی رہنماؤں نے توجہ سے سنا اور سراہا۔
سیدہ تحسین عابدی نے یہ بھی کہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری نے اپنی گفتگو اور مدبرانہ رویے سے ثابت کر دیا کہ وہ پاکستان کا مستقبل ہیں۔
.ذریعہ: Jang News
کلیدی لفظ: بلاول بھٹو زرداری
پڑھیں:
حضورۖ کا خراجِ تحسین
جہان دیگر
۔۔۔۔۔۔۔
زریں اختر
”جہینہ (قبیلے ) کی ایک عورت حضرت محمد ۖ کے پاس آئی اور کہنے لگی: میں نے زنا کیا ہے ۔اور وہ حاملہ بھی تھی ،لہٰذا آپ نے اس عورت کو اس کے ولی کے سپرد کیا اور فرمایا:’اس سے حسن سلوک کرنا ۔جب یہ بچہ جن لے تو اسے میرے پاس لے آنا’ ۔جب اس نے بچہ جن لیا تو وہ اسے لے کر آیا۔۔۔۔۔(دیگر روایات میں ہے کہ جب بچہ اس کے دودھ سے بے نیاز ہوگیا تو روٹی کھانے لگا)۔آپ نے اس کے رجم کا حکم دیا، پھر آپ نے اس کا جنازہ پڑھا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : آ پ اس کا جنازہ پڑھتے ہیں جب کہ اس نے تو زنا کیاہے ؟ آپ ۖ نے فرمایا :’اللہ کی قسم ! اس نے ایسی توبہ کی ہے اگر وہ مدینے والوں میں سے ستر اشخاص پر تقسیم کردی جائے تو ان سب کو پوری آجائے۔”
حد لگنے کے بعد آدمی کو اس گناہ کا طعنہ نہیں دیاجاسکتا کیونکہ حد گناہ کو ختم کردیتی ہے ،اب وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے وہ گناہ کیا ہی نہیں۔ (ترجمہ سنن نسائی حدیث ١٩٥٩)
خبر ہے کہ بانو کو پتا تھا کہ اب لوگ اسے لینے آرہے ہیں ، خبر ہے کہ بانو بھاگ سکتی تھی ؛ ان دونوں خبروں کی صداقت پر اگر شک سر اٹھائے تو اسے بانو کا ثابت قدمی سے آگے چل کر جانے پر شرم سے جھک جانا چاہیے ،اس کے ہاتھ میں قرآن تھا، یہ کہنا کہ بس گولی مارنے کی اجازت ہے ،اور آگے بڑھتے ہوئے منہ پر اس طرح ہاتھ پھیرنا جیسے دعا کرنے کے بعد پھیرتے ہیں اورپھر ۔۔۔۔ گولی بلکہ گولیاں کھانے سے قبل وہ چند لمحے ۔۔۔
اس حدیث کے مطابق نفرت سے سزا دینا نہیں بنتا،عدالت عدل کرتی ہے اور سزاپر عمل درآمد کے تمام اخلاقی تقاضے پورے کرتی ہے ،ریاست انتقام نہیں لیتی انصاف کرتی ہے ،یہاں مارنے والے انصاف کرنے نہیں جارہے تھے ،وہ تو اپنی غیرت کا انتقام لے رہے تھے ، غصے کا اظہار کررہے تھے ،ایسا غصہ جس کو غم و غصہ نہیں کہاجاسکتا ، اے کاش کہ کہا جاسکتاکہ ہم سزا دے رہے ہیں کیوں کہ یہ ہماراقانون ہے لیکن ہمیں بہت دکھ ہے کہ ہمیں یہ کرنا پڑ رہاہے ،کاش تو ایسا نہ کرتی ، افسوس صد افسوس کہ ایسا نہیں تھا، یہاں ہر سننے دیکھنے والے کا دل خون کے آنسورویا اور وہ آنکھ جن سے ایک آنسوبھی نہ ٹپکا وہ شاید بانو کی ماں اور بھائی ہی کی تھیںکہ اس معاشرے میں مرد کا رونا بھی بزدلی کی علامت ہے اور وہ تو اپنی غیرت کا سر بلند کرکے لوٹے تھے۔ رونے کو بزدلی سمجھنے والے مردوں کو کوئی بتائے کہ حضور ۖ کس موقع پر اتنا روئے کہ آپ کی داڑھی آنسوئو ں سے ترگئی۔
مجھے اس دماغ ،ان ذہنی و نفسیاتی کیفیات ،اس کے پس ِ پردہ سماجی و تاریخی وجوہات کو سمجھنا تھا جو مرد کو ایسے عمل پر آمادہ کرتی ہیں کہ وہ اپنی بہن بیٹی بیوی کو اپنے ہاتھ سے قتل کر دیتے ہیں۔ ان سوالوں کے جواب کے لیے طاہرہ ایس خان کی دقیق تحقیقی کتاب ”عزت کے نام پر ”جسے ٢٠٠٦ء میں اختر حمید خان میموریل ایوارڈ دیاگیا،مترجم صبیح محسن ، ناشر اوکسفرڈ یونیورسٹی پریس ، پڑھنا شروع کی اور ان سب سوالوں کے جوابات ملنا شروع ہوگئے ۔
مرد کو یہ سمجھنا ہے کہ عورت اس کی ملکیت نہیں ہے ، نہ ہی وہ اس کی عزت کی چوکیدار ہے اور نہ ہی خاند ان بھر کی عزت کا بوجھ اس کے کندھوں پر ہے ۔وہ خبریں کہ جب پولیس گرفتاری کے لیے گئی تو وہاں کی عورتوں نے پولیس والوں کو پتھر مارے ، اس کا حوالہ بلوچستان کے وزیر ِ اعلیٰ نے بھی دیا اگرچہ کہ جہالت بھی کہا یعنی ان قبائلی رواج کا رکھوالا مرد ہی نہیں ہے کہ اسے ظالم سمجھا جائے بلکہ خود عورتیں بھی ان روایات کی امین ہیں، فہم جہاں مرد و زن میں تفریق کا مطالبہ کرے وہاںتفریق اور جہاں برابر کہے وہاں برابر،یعنی یہاں مردو زن برابر جاہل ثابت ہوتے ہیں۔
طاہرہ ایس خان کی کتاب سے چیدہ چیدہ جملے و اقتباسات ، صفحۂ اوّل :
‘۔۔۔ ایسے کچھ مصنفین کا وجود ہمیشہ انتہائی ضروری ہوتاہے جو معاملے کی تہہ تک پہنچنے ،سچائی کو ڈھونڈ نکالنے اور اسے سامنے لانے کی جدوجہد میں مصروف رہتے ہوں، اگرچہ انہیں کامیابی کی کچھ زیادہ امید بھی نہ ہو، انہیں یہ خوش فہمی بھی نہ ہوکہ وہ حالات کارخ فوری طور پر بدل دیں گے اور جب کوئی یقینی نتیجہ سامنے آتا ہوا نظرنہ آئے ،تو وہ نہ تو بددل ہوں اور نہ شکست تسلیم کرنے کو تیار ہوں۔’ ٹی ایس ایلیٹ
١۔ ایک عرب اسکالر اور ماہر قانون ،لامہ ابوعودہ کا ایک تفصیلی اور بصیرت افروز مضمون Feminism and Islam: legal & Literary Perspective نامی کتاب میں شامل ہے ۔ اس مضمون جس کا عنوان ”Crimes of Honour and the Construction of Gender in Arab Societies”(٩٩٦ائ)ہے،۔۔۔ابوعودہ نے اپنے مطالعے میں ایک اور نکتہ اٹھایا کہ وفورِ جذبات کے تحت کیے جانے والے جرائم اور عزت کی خاطر جرائم میں واضح فرق کو محسوس کرنے کی ضرورت ہے ۔ (ص ٩)
(وضاحت : اصطلاحاََعورت کا وہ قتل جو شوہر یا دوست کرے وفورِ جذبات کے تحت اور جو باپ ،بھائی یا بیٹا کرے وہ غیرت کے نام پر قتل کہاجائے گا )
٢۔ یہ سارا نظام یہ فرض کرلیتاہے کہ مرد کی عزت اس کی بہن ،بیٹی ، ماں یا بیوی کے جسم کے اندر پنہاں ہے۔۔۔۔ہلاکت کا شکار ہونے والیوں کی مائیںخود ان کے قتل میں شریک ہوجاتی ہیں،بہت سی مائیں اس خوف سے بھی خاموش رہتی ہیں کہ اگر انہوں نے ایسا نہیں کیا تو خود انہیں اور ان کی دوسری اولادوں کو بھی قتل کردیاجائے گا۔(ص١٩)
٣۔ تارک وطن مسلم برادریوں میں عزت کی خاطر تشدد میں اضافے کے پیش نظر سوئیڈن کی ایک تنظیم کوینوفوم (Kvinnofoum)نے ٢٠٠٣ء میں ایک پراجیکٹ شروع کیا ۔۔۔۔پراجیکٹ کے لیے یورپین کمیشن ،بلغاریہ، فن لینڈ، قبرص،برطانیہ اور نیدرلینڈ نے رقومات فراہم کیں۔یہ کثیر الریاستی پراجیکٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ اپنی عورتوں کے خلاف مسلمان مردوں کا رویہ ،اس کے باوجود کہ وہ ایک ترقی یافتہ ملک میں اس کے شہریوں کی حیثیت سے رہ رہے ہیںاور اس کے بھی باوجود کہ اس مختلف کلچر میں کئی عشروں سے رہ رہے ہیں،نہ تو بدلا ہے اور نہ اس کی سختی میں کوئی کمی آئی ہے۔ (ص٢٥)
٤۔ ایک ترک عورت خاتون سروجو ٨ ِ مارچ ٢٠٠٥ء برلن میں قتل ہوگئی تھی ۔۔۔وہ جرمنی میں پلی بڑھی تھی مگر جب وہ ١٥ ِ برس کی ہوئی تو اسے ایک کزن سے شادی کے لیے ترکی واپس بھیج دیا گیا۔۔۔وہ دوسال بعد جرمنی واپس آئی ،اپنے شوہر سے طلاق حاصل کی اورپھر اس نے دوسرے مردوں سے میل جول بڑھانا شروع کردیا۔اسے مبینہ طور پر اس کے بھائیوں نے گولی مار کر ہلاک کیاتھا۔عورتوں کے حقوق کی ایک کارکن راحیل وولز کا ردعمل تھا”ایساپہلی دفعہ تو نہیں ہواتھا، لیکن سب سے بڑا دھچکا تو اس رد عمل سے لگا جس کا اظہار اسکول کے چند بچوں نے کیا ۔انہوں نے اپنے استادو ںسے کہا کہ وہ ان بھائیوں سے متفق تھے جنہوں نے (مبینہ طورپر) سروجو کو قتل کیاتھا۔(ص٢٥)
صد شکر کے اسی قبائلی نظام کے پروردہ بانو کے بیٹے نے اپنی ماں پر( بجا طور) پر فخر کیا ،اس نے تو شایدحضور ۖ کے دور کا وہ واقعہ بھی سنا یا پڑھانہیں ہوگا،جرگے کے سردار اپنے قبیلے کے ان ستر مردوں کا انتخاب کرلیں جن پر بانو کی توبہ تقسیم ہوگی،لیکن فیض تو واقف ہی ہوں گے اور نہیں ہوسکتا کہ یہ نظم لکھتے وقت ان کے ذہن میں حضور ۖ کے دور کی وہ عورت نہ ہو:
جس دھج سے کوئی مقتل میں گیا وہ شان سلامت رہتی ہے
یہ جان تو آنی جانی ہے اس جاں کی تو کوئی بات نہیں
#