پاکستان: کیا ساری آبادی کو سبسڈی کسان دیں گے؟
اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 فروری 2025ء) کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ پورے ملک کو اپنی جیب سے سبسڈی فراہم نہیں کر سکتے اور حکومت کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ زرعی پیداوار میں استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرے۔ اس کے برعکس حکومت ایسے وقت میں ان کے بجلی کے میٹر کاٹنے پر تلی ہے جب انہیں پانی کی اشد ضرورت ہے۔
حال ہی میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے رینجرز کی جانب سے مبینہ طور پر کسانوں کو ہراساں کرنے پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے کسانوں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اور دیہات میں زبردستی بجلی کے بل وصول کرنے کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اوور بلنگ کے واقعات کو تسلیم کیا ہے، لیکن کسانوں سے ادائیگیاں وصول کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے استعمال کا کوئی جواز نہیں بنتا۔
(جاری ہے)
ڈرون ٹیکنالوجی سے پاکستانی کسانوں کی مدد کرنے والی خواتین کی سٹارٹ اپ
گورنر نے کہا، ''یہ کسی صورت قابل قبول نہیں کہ شہروں میں خوراک کی قیمتیں کم کرنے کے لیے کسانوں کی روزی روٹی کے معاملات کو اجیرن بنا دیا جائے۔‘‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت ملک میں گندم کی فصل کو پانی کی اشد ضرورت ہے اور ایسے وقت میں بجلی کے میٹر کاٹنا کسانوں کے لیے اور گندم کی فصل کے لیے بہت نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔
ماہرزراعت اور کلائمیٹ ایکٹیوسٹ عامر حیات بھنڈارا کہتے ہیں ، ''ایسے وقت میں میٹر کاٹنا کسی صورت بھی درست نہیں کہا جا سکتا اور یہ حکومتی پالیسی کے بھی خلاف ہے۔ ایک طرف حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے کہ کسان اپنی فصل کو ہر صورت پانی سپلائی کریں اور دوسری طرف بجلی کی بندش سے اس عمل میں بڑی رکاوٹ ہو گی۔‘‘عامر حیات کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں کے بجلی کے بل عام لوگوں کے بجلی کے بلوں کی طرح نہیں ہیں۔
انہیں وقت دینا چاہیے۔ عموماً کسان فصل اٹھانے کے بعد بل ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس وقت تو کسانوں کو ایک ایک پیسے کی ضرورت ہے لہذا حکومت کو نرمی اختیار کرنی چاہیے۔پاکستان میں تیزی سے پھیلتی پارتھینئم کی جڑی بوٹی زراعت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟
کسانوں کے حقوق پر کام کرنے والے اور شعبہ زراعت کے ماہر سمجھتے ہیں کہ ملک میں فوڈ سکیورٹی اس طرح یقینی نہیں بنائی جا سکتی اور نہ ہی افراط زر کو اس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے کہ کسانوں کو ان کی اجناس کی جائز قیمت فراہم نہ کی جائے۔
کسانوں کے ایک ترجمان خالد کھوکھر کہتے ہیں، ’’حکومت نے کسانوں کو پورے شہری معاشرے، بشمول اشرافیہ، کی سبسڈی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ زراعت کے بنیادی ستون کو سہارا دینے کی بجائے کسانوں کو مہنگی پیداوار اور کم قیمت پر فروخت کی پالیسی کے ذریعے تباہ کیا جا رہا ہے۔‘‘خالد کھوکھر نے حکومت کی زرعی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسانوں پر ناقابل برداشت مالی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔
کئی افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور بیشتر کسانوں کے بجلی کے میٹر منقطع کیے جا رہے ہیں، جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔حکومت زرعی لاگت کم نہیں کر سکتی تو فصل کی قیمت کیوں طے کرتی ہے؟
کسانوں کی نمائندگی کرنے والے زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت زرعی مداخل کی لاگت کو قابو میں رکھنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی اورآئی ایم ایف سے اپنے معاہدوں کے باعث کسانوں کوسبسڈی فراہم نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی ضروری سہولیات فراہم کرتی ہے، لیکن جب بات زرعی پیداوار کی قیمت کی آتی ہے تو حکومت فوری مداخلت کرکے خود قیمت طے کرتی ہے۔
عامر حیات کا کہنا ہے کہ اگر زرعی لاگت کم کرنے کے لیے حکومت کوئی کردار ادا نہیں کرتی اور کی قیمتوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے تو پھر کسانوں کو بھی اپنی پیداوار کی قیمت خود طے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور پورا عمل آزاد منڈی کے اصولوں کے تحت چلنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا،’’خوراک کی دستیابی یقینی بنائی جانی چاہیے، لیکن اس کی قیمت صرف کسانوں کو ادا نہیں کرنی چاہیے۔
زرعی شعبے میں پوری ویلیو چین کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ انڈسٹری کے بڑے لوگوں کو ریسرچ پر بھی پیسہ خرچ کرنا چاہیے تا کہ فی ایکڑ پروڈکشن بڑھ سکے اور کم قیمت پر بھی کسان کو نقصان نہ ہو۔‘‘زرعی ماہرین اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت پیداوار کی لاگت جانتے ہوئے بھی قیمت اس سے کم مقرر کر دیتی ہے۔ خالد کھوکھر کا کہنا ہے، ''گزشتہ سال محکمہ زراعت نے گندم کی پیداواری کی لاگت تین ہزار چار سو دس روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کی، لیکن بعد میں محکمہ خوراک نے حکم دیا کہ اس فصل کو زیادہ سے زیادہ دو ہزار چھ سو پچاس روپے میں فروخت کیا جائے۔
‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کسانوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے اور وہ برادری، جو محنت کرکے پورے ملک کو خوراک فراہم کرتی ہے، اُس کو اتنا نظرانداز کیوں کیا جا رہا ہے۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے بجلی کے کسانوں کے کسانوں کو انہوں نے کہ حکومت نہیں کر کرنے کے کہ کسان کی قیمت کرتی ہے ہیں کہ کے لیے کیا جا
پڑھیں:
اگلے دو تین دن تک بھاتی حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے، لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ
معروف دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا کہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر پاگل پن سوار ہے، ہمیں آئندہ دو تین دن تک بھارت کی جانب سے کسی بھی حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے وی ایکسکلوسیو میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پہلگام کے مقام پر سیاحوں کو دہشتگردی کا نشانہ بنایا گیا۔ 24 گھنٹے کے اندر ہی انڈیا کو پتہ چل گیا کہ پاکستان سے ایک عادل نامی شخص آیا ہے جس نے یہ دہشتگردی کی۔ کیا ایک دہشتگرد اتنی ناقص حکمت عملی کے تحت آتا ہے کہ 24 گھنٹے کے اندر ہی سب کو پتہ چل جائے کہ وہ کون ہے۔ انہوں نے کہا کہ یہ بہت اہم وقت ہے، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اس وقت سعودی عرب میں موجود ہیں جبکہ امریکا کے نائب صدر بھارت کا دورہ کرنے آ رہے ہیں۔ اس دوران بھارت کی جانب سے پاکستان پر حملے کی بات کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے۔
انہوں نے کہا کہ جس وقت پہلگام میں حملہ ہوا تو چند سیکنڈز میں تمام بھارتی میڈیا پاکستان پر چڑھ دوڑا۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت میں 17 ٹی وی چینلز را چلا رہا ہے۔ اب بھارت اپنی قوم کے سامنے اتنی باتیں کر چکا ہے تو وہ پیچھے نہیں ہٹے گا۔
یہ بھی پڑھیے پانی روکنے کا فیصلہ اعلان جنگ تصور کیا جائے گا، قومی سلامتی کمیٹی کا اعلامیہ جاری
’بھارت نے 2019 میں بھی پاکستان کی فضائی حدود کے خلاف ورزی کی تھی، اب دوبارہ بھارت کچھ نہ کچھ کرے گا۔ بھارت لائن آف کنٹرول پر کوئی حملہ کر سکتا ہے اور اپنے میڈیا اور لوگوں کو یہ بتائیں گے کہ ہم نے پاکستان پر حملہ کیا ہے اور ہم پاکستان کے اندر گھس کر پاکستان کو مار کر آئے ہیں۔ چونکہ بھارت انٹرنیشنل بارڈر کی خلاف ورزی نہیں کر سکتا اس لیے بھارت کے لائن آف کنٹرول پر حملہ کرنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ ‘
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ کا کہنا ہے کہ بھارت نے اب کوئی نہ کوئی ڈرامہ لازمی کرنا ہے۔ اس ڈرامے کے لیے پاکستان ہر طرح سے تیار ہے۔ پاکستان کے پاس ایف 16 طیارہ، جے ایف 17 تھنڈر، میراج طیارے بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ پاکستان کے پاس طیارے اڑانے والے با صلاحیت اور بہادر نوجوان ہیں۔ ماضی میں کسی بھی موقع پر بھارت پاک فضائیہ کو کبھی نیچے نہیں دکھا پایا۔ بھارت پاک فضائیہ سے ڈرتا ہے۔ پاک فضائیہ کے پائلٹس بھارت کو وہ سبق سکھائیں گے کہ بھارت کبھی آئندہ پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کرنے کے بارے میں سوچے گا نہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت بھارت دنیا کے حکمرانوں کو اپنے اعتماد میں لے ر ہا ہے۔ اس کے بعد وہ تیاری سے پاکستان پر حملے کر سکتا ہے۔ بھارت کے سرپرست امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے مفادات کو اس حملے سے فائدہ پہنچے گا۔ آخری مرتبہ جب بھارت نے پاکستانی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی تو پاکستان کے جواب کو ساری دنیا نے دیکھا تھا۔ بھارت کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ بھارت میں جو سنجیدہ لوگ ہیں وہ اب بھی کہ رہے ہیں کہ اس حملے سے پاکستان کا تعلق نہیں۔ پاکستان کیوں اس وقت ایسا حملہ کرے گا۔
مزید پڑھیں پہلگام حملہ: اسکرپٹ، ہدایت کاری، اداکاری کی غلطیاں
لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ غلام مصطفیٰ نے کہا کہ چونکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی پر پاگل پن سوار ہے، تو ہمیں آئندہ دو تین دن تک بھارت کی جانب سے کسی بھی حملے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس کے بعد خطرہ بتدریج کم ہوتا جائے گا۔ اگر بھارت پاکستان پر حملہ کرتا ہے تو نقصان زیادہ بھارت کا ہو گا۔ پاکستان جب میدان میں اترتا ہے تو نقصان کی فکر نہیں ہوتی۔ بھارت ایک مرتبہ موقع دے تو اسے معلوم ہو جائے گا کہ نقصان ہوتا کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
لیفٹیننٹ جنرل غلام مصطفیٰ