UrduPoint:
2025-06-10@06:25:18 GMT

پاکستان: کیا ساری آبادی کو سبسڈی کسان دیں گے؟

اشاعت کی تاریخ: 7th, February 2025 GMT

پاکستان: کیا ساری آبادی کو سبسڈی کسان دیں گے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 07 فروری 2025ء) کسانوں کا کہنا ہے کہ وہ پورے ملک کو اپنی جیب سے سبسڈی فراہم نہیں کر سکتے اور حکومت کو بھی اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ زرعی پیداوار میں استعمال ہونے والی اشیا کی قیمتیں کنٹرول کرے۔ اس کے برعکس حکومت ایسے وقت میں ان کے بجلی کے میٹر کاٹنے پر تلی ہے جب انہیں پانی کی اشد ضرورت ہے۔

حال ہی میں گورنر پنجاب سردار سلیم حیدر خان نے رینجرز کی جانب سے مبینہ طور پر کسانوں کو ہراساں کرنے پر شدید تنقید کی ہے۔ انہوں نے کسانوں کے خلاف ایف آئی آر کے اندراج اور دیہات میں زبردستی بجلی کے بل وصول کرنے کی سخت مذمت کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے اوور بلنگ کے واقعات کو تسلیم کیا ہے، لیکن کسانوں سے ادائیگیاں وصول کرنے کے لیے سکیورٹی فورسز کے استعمال کا کوئی جواز نہیں بنتا۔

(جاری ہے)

ڈرون ٹیکنالوجی سے پاکستانی کسانوں کی مدد کرنے والی خواتین کی سٹارٹ اپ

گورنر نے کہا، ''یہ کسی صورت قابل قبول نہیں کہ شہروں میں خوراک کی قیمتیں کم کرنے کے لیے کسانوں کی روزی روٹی کے معاملات کو اجیرن بنا دیا جائے۔‘‘

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ اس وقت ملک میں گندم کی فصل کو پانی کی اشد ضرورت ہے اور ایسے وقت میں بجلی کے میٹر کاٹنا کسانوں کے لیے اور گندم کی فصل کے لیے بہت نقصان کا باعث ہو سکتا ہے۔

ماہرزراعت اور کلائمیٹ ایکٹیوسٹ عامر حیات بھنڈارا کہتے ہیں ، ''ایسے وقت میں میٹر کاٹنا کسی صورت بھی درست نہیں کہا جا سکتا اور یہ حکومتی پالیسی کے بھی خلاف ہے۔ ایک طرف حکومت نے نوٹیفیکیشن جاری کیا ہے کہ کسان اپنی فصل کو ہر صورت پانی سپلائی کریں اور دوسری طرف بجلی کی بندش سے اس عمل میں بڑی رکاوٹ ہو گی۔‘‘

عامر حیات کا مزید کہنا تھا کہ کسانوں کے بجلی کے بل عام لوگوں کے بجلی کے بلوں کی طرح نہیں ہیں۔

انہیں وقت دینا چاہیے۔ عموماً کسان فصل اٹھانے کے بعد بل ادا کرنے کے قابل ہوتے ہیں۔ اس وقت تو کسانوں کو ایک ایک پیسے کی ضرورت ہے لہذا حکومت کو نرمی اختیار کرنی چاہیے۔

پاکستان میں تیزی سے پھیلتی پارتھینئم کی جڑی بوٹی زراعت کے لیے کتنی خطرناک ہے؟

کسانوں کے حقوق پر کام کرنے والے اور شعبہ زراعت کے ماہر سمجھتے ہیں کہ ملک میں فوڈ سکیورٹی اس طرح یقینی نہیں بنائی جا سکتی اور نہ ہی افراط زر کو اس طرح کنٹرول کیا جا سکتا ہے کہ کسانوں کو ان کی اجناس کی جائز قیمت فراہم نہ کی جائے۔

کسانوں کے ایک ترجمان خالد کھوکھر کہتے ہیں، ’’حکومت نے کسانوں کو پورے شہری معاشرے، بشمول اشرافیہ، کی سبسڈی کا ذریعہ بنا دیا ہے۔ زراعت کے بنیادی ستون کو سہارا دینے کی بجائے کسانوں کو مہنگی پیداوار اور کم قیمت پر فروخت کی پالیسی کے ذریعے تباہ کیا جا رہا ہے۔‘‘

خالد کھوکھر نے حکومت کی زرعی پالیسیوں پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسانوں پر ناقابل برداشت مالی بوجھ ڈال دیا گیا ہے۔

کئی افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے اور بیشتر کسانوں کے بجلی کے میٹر منقطع کیے جا رہے ہیں، جس سے ان کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

حکومت زرعی لاگت کم نہیں کر سکتی تو فصل کی قیمت کیوں طے کرتی ہے؟

کسانوں کی نمائندگی کرنے والے زرعی ماہرین سمجھتے ہیں کہ حکومت زرعی مداخل کی لاگت کو قابو میں رکھنے میں کوئی کردار ادا نہیں کرتی اورآئی ایم ایف سے اپنے معاہدوں کے باعث کسانوں کوسبسڈی فراہم نہیں کر سکتی اور نہ ہی کوئی ضروری سہولیات فراہم کرتی ہے، لیکن جب بات زرعی پیداوار کی قیمت کی آتی ہے تو حکومت فوری مداخلت کرکے خود قیمت طے کرتی ہے۔

عامر حیات کا کہنا ہے کہ اگر زرعی لاگت کم کرنے کے لیے حکومت کوئی کردار ادا نہیں کرتی اور کی قیمتوں کو آزاد چھوڑ دیا گیا ہے تو پھر کسانوں کو بھی اپنی پیداوار کی قیمت خود طے کرنے کی اجازت ہونی چاہیے اور پورا عمل آزاد منڈی کے اصولوں کے تحت چلنا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا،’’خوراک کی دستیابی یقینی بنائی جانی چاہیے، لیکن اس کی قیمت صرف کسانوں کو ادا نہیں کرنی چاہیے۔

زرعی شعبے میں پوری ویلیو چین کو اپنا حصہ ڈالنا ہوگا۔ انڈسٹری کے بڑے لوگوں کو ریسرچ پر بھی پیسہ خرچ کرنا چاہیے تا کہ فی ایکڑ پروڈکشن بڑھ سکے اور کم قیمت پر بھی کسان کو نقصان نہ ہو۔‘‘

زرعی ماہرین اس خیال کا اظہار کرتے ہیں کہ حکومت پیداوار کی لاگت جانتے ہوئے بھی قیمت اس سے کم مقرر کر دیتی ہے۔ خالد کھوکھر کا کہنا ہے، ''گزشتہ سال محکمہ زراعت نے گندم کی پیداواری کی لاگت تین ہزار چار سو دس روپے فی چالیس کلو گرام مقرر کی، لیکن بعد میں محکمہ خوراک نے حکم دیا کہ اس فصل کو زیادہ سے زیادہ دو ہزار چھ سو پچاس روپے میں فروخت کیا جائے۔

‘‘ انہوں نے کہا کہ یہ سمجھ سے بالاتر ہے کہ حکومت کسانوں کے ساتھ کیا کرنا چاہتی ہے اور وہ برادری، جو محنت کرکے پورے ملک کو خوراک فراہم کرتی ہے، اُس کو اتنا نظرانداز کیوں کیا جا رہا ہے۔.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کے بجلی کے کسانوں کے کسانوں کو انہوں نے کہ حکومت نہیں کر کرنے کے کہ کسان کی قیمت کرتی ہے ہیں کہ کے لیے کیا جا

پڑھیں:

تنخواہ داروں پر کتنا ٹیکس ہونا چاہیے؟ سابق وفاقی وزیر نے حکومت کو بجٹ تجاویز پیش کردیں

 اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) سابق نگران وفاقی وزیر ڈاکٹر گوہر اعجاز نے حکومت کو بجٹ تجاویز پیش کر دیں۔
 نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق چیئرمین اکنامک پالیسی تھنک ٹینک اور سابق نگران وفاقی وزیر ڈاکٹر گوہر اعجاز نے وفاقی حکومت کو پیش کی گئی بجٹ تجاویز میں کہا کہ صنعت کاری ہماری اولین ترجیح ہونی چاہیے، مستقل 5 سال کی صنعتی اور برآمدی پالیسی ضروری ہے۔
ڈاکٹر گوہر اعجاز کا کہنا تھا شرح سود 6 فیصد اور صنعت کے لیے توانائی کے نرخ 9 سینٹ فی یونٹ بہت اہم ہیں، تنخواہ دار افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیکس کی شرح 20 فیصد تک ہونی چاہیے اور سپر ٹیکس صرف ان کارپوریشنز پر ہو جن کا منافع 10 ارب روپے سے زیادہ ہو۔
ان کا کہنا ہے کہ ٹیکس فائلر پراپرٹی خریداروں پر ود ہولڈنگ ٹیکس گھر مالکان کی حوصلہ شکنی کرتا ہے، ٹیکس فائلر پراپرٹی خریداروں پر ودہولڈنگ ٹیکس واپس لیا جانا چاہیے، زراعت کو جدید بنانا اور پیداواری صلاحیت کو پیمانہ بنانا اور اسے یقینی بنانا ہو گا۔

توانائی اصلاحات میں ریکوریز بہت شاندار رہیں،این ٹی ڈی سی کو تین کمپنیوں میں تقسیم کرنا اہم اقدام تھا، وزیر خزانہ 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • گندم‘ کپاس کی پیداوار میں کمی‘ ناقابل تلافی نقصان
  • دنیا میں گروتھ نیچے گئی پاکستان میں بڑھی ہے، خرم شہزاد
  • موسمیاتی تبدیلی سے فصلوں کو نقصان، انڈیا میں قرضوں سے تنگ کسانوں کی خودکشیاں
  • حکومتی پالیسیوں کے زراعت کے شعبہ پر بھیانک اثرات
  • پاکستان کی آبادی میں اس سال کتنا اضافہ ہوا؟
  • پاکستان بزنس فورم کا اگلے مالی سال میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے کا مطالبہ
  • تنخواہ داروں پر کتنا ٹیکس ہونا چاہیے؟ سابق وفاقی وزیر نے حکومت کو بجٹ تجاویز پیش کردیں
  • ماحولیاتی تبدیلیاں اور بھارتی کسانوں کی خودکُشیوں میں اضافہ
  • زرعی شعبہ بحران کا شکار، ترقی کی شرح 6.4 سے گر کر 0.56 فیصد پر آ گئی
  • بی جے پی بھارتی کسانوں کو دھوکہ دے رہی ہے، اکھلیش یادو